خوشونت سنگھ کی یاد میں

میرا کالم مجتبیٰ حسین
مارچ کے مہینہ کی بیس تاریخ اور دوپہر کا وقت ہے ۔ ابھی ابھی دہلی سے اطلاع آئی ہے کہ انگریزی کے مایۂ ناز صحافی اور ہندوستانی ادب کی سب سے برگزیدہ اور معتبر ہستی ، خوشونت سنگھ کا چند منٹ پہلے نہایت پرسکون حالت میں انتقال ہوگیا ۔ دل پر جو صدمہ گذرا ہے اُس کا حال بیان کرنے کے لئے لفظ بھی آبدیدہ اور گلوگیر دکھائی دینے لگے ہیں ۔ سکتہ سا طاری ہوگیا ہے ۔ خوشونت سنگھ جیسے سرپرست ، بزرگ دوست ، بہی خواہ اور محسن کا گذر جانا میرے لئے ایک عظیم شخصی سانحہ ہے ۔ پچھلے مہینہ ہی وہ 2 فروری کو 99 برس کے ہوگئے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے دو تین برسوں سے وہ رفتہ رفتہ کمزور اور نحیف ہوتے چلے جارہے تھے اور ان کے بارے میں کسی بھی وقت بُری خبر سننے کا دھڑکا سا لگا ہوا تھا ۔ کچھ عرصہ پہلے جالندھر سے چھپنے والے اردو اخبار ’’ہند سماچار‘‘ کے 12 ستمبر 2012 ء کے شمارہ میں ان کا ایک کالم چھپا تھا جس کا عنوان تھا ’’بہت جی لیا میں نے ، اب مرنا چاہتا ہوں‘‘ ۔ خوشونت سنگھ سے گہرے تعلق خاطر اور عقیدت کے باعث میں نے اس کا تراشا اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا ۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے ’’میں 98 برس کا ہوگیا ہوں ، اپنی موجودہ صحت کے مدنظر ہر ہفتہ دو کالم لکھنا میرے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ بغیر کسی رکاوٹ کے پچھلے 70 سے زائد برسوں سے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اب مرنا چاہتا ہوں ۔بہت جی لیا اور اب زندگی سے تنگ آچکا ہوں ۔ کچھ اور کرنے کی تمنا نہیں ہے کیونکہ زندگی میں جو کرنا چاہتا تھا وہ کرچکا ہوں ۔ تو پھر زندگی کو لٹکائے رکھنے کا کیا مطلب ہے جب کرنے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے ۔ واحد تسلی پچھلی یادوں کو تازہ کرنا ہی ہے ۔ جسم جب لاش بن جائے تو پریتم کی یاد ہی کافی ہے‘‘ ۔

خوشونت سنگھ نے بڑی بھرپور تخلیقی زندگی جی اور اپنی بے مثال تحریروں کے ذریعہ ہندوستانی ادب اور صحافت دونوں کے سرمایہ کو مالا مال کیا ۔ ایسے ادیب اور دانشور صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کے فرزند راہل سنگھ نے بتایا کہ آخر وقت تک ان کے ہوش و حواس بالکل قائم اور برقرار رہے ۔ صبح اُٹھ کر انھوں نے ناشتہ کیا ، اخبارات کا مطالعہ کیا ۔ کچھ بات چیت بھی کی ۔ پھر حسب معمول آرام کرنے کے لئے بستر پر جو دراز ہوئے تو نہایت پرسکون انداز میں چپ چاپ اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ نہ تیمار داروں کو زحمت دی اور نہ ہی رشتہ داروں کو خداحافظ کہنے کا موقع دیا ۔ غرض خوشونت سنگھ کے حصہ میں ویسی ہی موت آئی جس کی آرزو انہوں نے اپنے ایک سال پرانے کالم میں کی تھی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابھی چار پانچ برس پہلے تک خوشونت سنگھ ٹینس بھی کھیلا کرتے تھے ، پیراکی بھی کیا کرتے تھے اور چہل قدمی تو نہایت پابندی سے کرتے تھے ۔ بھلے ہی اپنے کالموں میں وہ اپنی مئے خواری کا ذکر مزے لے لے کیا کرتے تھے ۔ تاہم وہ نہایت منظم اور سلیقہ مند زندگی گذارنے کے عادی تھے ۔ میں نے کبھی خوشونت سنگھ کو شراب پی کر بہکتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی شراب کے تین پیگوں والی مقررہ اعظم ترین حد سے انھیں آگے جاتے دیکھا ۔ ہمیشہ خوشگوار اور دلچسپ گفتگو کرتے تھے ۔ وہ ڈسپلن کے سخت پابند تھے ۔ رات میں جلدی سوجاتے تھے اور علی الصبح چار بجے بیدار ہوجایا کرتے تھے ۔ پانچ چھ برس پہلے میں زیادہ تر دہلی میں رہا کرتا تھا اور اکثر و بیشتر خوشونت سنگھ کی صحبتوں سے مجھے فیض یاب ہونے کے مواقع ملتے رہتے تھے ۔

مجھے یاد ہے کہ خوشونت سنگھ سے میری پہلی سرسری ملاقات 1969 میں ممبئی میں ہوئی تھی ، جب وہ ٹائمس آف انڈیا کے ہفتہ وار رسالہ ’’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘‘ کے ایڈیٹر تھے ۔ تاہم اُن سے باضابطہ ملاقاتوں کا سلسلہ 1976 میں اس وقت شروع ہوا جب وہ میری اور خلیق انجم کی مرتبہ کتاب ’’ضبط شدہ نظمیں‘‘ کے ہندی ایڈیشن کی رسم اجراء انجام دینے کی غرض سے دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں آئے تھے ۔ تقریب کے اختتام پر چائے نوشی کے دوران تھوڑی سی رسمی باتوں کے بعد انہوں نے شکوہ کیا کہ دہلی میں رہتے ہو مگر ملتے نہیں ۔ میں نے جوابِ شکوہ کے طور پر عرض کیا کہ آپ کی مصروفیات کے پیش نظر ملنے سے کتراتا ہوں ۔ ورنہ آپ سے کون ملنا نہیں چاہتا ۔

بولے ’’جب بھی آؤگے مصروفیات کو تہہ کرکے رکھ دوں گا ۔ پہلے آؤ تو سہی ۔ ان دنوں اقبالؔ کی نظم شکوہ و جواب شکوہ کا انگریزی ترجمہ کررہا ہوں ۔ اردو ادیبوں سے مل کر یوں بھی خوشی ہوتی ہے ۔ کسی وقت چلے آؤ‘‘۔
ان دنوں وہ انگریزی رسالہ ’’نئی دہلی‘‘ کے ایڈیٹر تھے ۔ دوسرے دن میں نے ان کے دفتر فون کرکے کہا ’’آداب عرض ہے‘‘ ۔ جواباً بولے ’’وعلیکم السلام کیسے ہو ؟‘‘ (زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب میرے آداب عرض کا جواب کسی نے ’’وعلیکم السلام‘‘ سے دیا تھا)

مجھے اس غیر متوقع وعلیکم السلام سے سنبھلنے میں ذرا سی دیر ہوئی تو خود ہی بولے ’’بہت اچھے وقت فون کیا ۔ میں اس وقت جواب شکوہ کے ایک بند کا ترجمہ کررہا ہوں ۔ تم ’’قدسی الاصل‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کس طرح کروگے؟‘‘میں ابھی ’’وعلیکم السلام‘‘ میں ہی اٹکا ہوا تھا کہ انہوں نے مجھے ’’قدسی الاصل‘‘ میں پھنسا دیا ۔ میں سٹپٹا سا گیا ۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ میں انگریزی بھی اتنی ہی جانتا ہوں جتنی کہ اردو ۔ اب اپنی کم مائیگی کو چھپانے کا واحد طریقہ یہ رہ گیا تھا کہ میں مذاق کا سہارا لوں ۔ لہذا میں نے کہا ’’ہمارا ٹیلیفونی نظام کچھ ایسا ہے کہ اس پر اردو الفاظ کا انگریزی ترجمہ عموماً غلط ہوجاتا ہے ۔ آپ سے ملاقات ہوگی تو ’’قدسی الاصل‘‘ سے نپٹ لیں گے‘‘ ۔ بولے ’’اچھا یہ بتاو ’پیرِ گردوں‘ اور ’فتنہ‘ کا تم انگریزی ترجمہ کس طرح کروگے؟‘‘
وعلیکم السلام ،قدسی الاصل ، پیرِ گردوں ، فتنہ … اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا ۔ میری حالت غیر ہونے لگی ۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دوں ۔ میں نے چیخ کر کہا ’’ہیلو ۔ ہیلو ۔ آپ کی آواز صاف نہیں سنائی دے رہی ہے‘‘ ۔ وہ بہ آوازِ بلند بولے ’’پیرِ گردوں ۔ پیرِ گردوں ۔ پیرِ گردوں‘‘ ۔
جی میں آیا کہہ دوں ’’معاف کیجئے ۔ یہاں کوئی پیرِ گردوں نہیں رہتا ۔ رانگ نمبر‘‘ ۔

غرض فون کی خرابی کا حوالہ دے کر میں نے فتنے کو دوسرے دن پر ٹالا ۔ بولے ’’کل گیارہ بجے دفتر میں آجاؤ‘‘ ۔ فون کے ریسیور کو رکھ کر میں نے فوراً ایک دوست کے ہاں سے کلیات اقبالؔ کا نسخہ منگوایا ۔ ڈکشنری سنبھالی اور زندگی میں پہلی مرتبہ ’’شکوہ و جوابِ شکوہ‘‘ کا نئے ڈھنگ سے مطالعہ کرنے میں مصروف ہوگیا ۔
دوسرے دن میں اُن کے دفتر گیا تو میرے آداب عرض کے جواب میں حسب معمول ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر زوردار مصافحہ کیا ۔ ابھی میں کرسی پر اچھی طرح بیٹھنے بھی نہ پایا تھاکہ میری نظر دیوار پر پڑگئی ۔ جس پر ایک طغرے میں ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا تھا اور دوسرے طغرے میں ’’سورہ یسین‘‘ ۔ میں سوچنے لگا خوشونت سنگھ بھی عجیب آدمی ہیں ۔ کل وعلیکم السلام کے بعد ’’قدسی الاصل‘‘ اور پیرِ گردوں‘‘ میں پھنسادیا تھا اور آج وعلیکم السلام کے بعد ان طغروں کا نظارہ کرادیا ۔ تھوڑی دیر کے لئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی اردو رسالے کے دفتر میں آگیا ہوں ۔ میں اُن کے طغروں کو غور سے دیکھنے لگا تو بولے ’’جی ہاں ! یہ طغرے ہمیشہ میرے دفتر میں ہوتے ہیں ۔ ’’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘‘ کا جب ایڈیٹر تھا تب بھی یہ طغرے میرے کمرے میں تھے ۔ اب یہاں سے کہیں اور جاؤں گا تو انہیں بھی ساتھ لیتا جاؤں گا ۔ یہی نہیں میری موٹر کی چابی پر پوری ’آیت الکرسی‘ لکھی ہوئی ہے‘‘ ۔ اس کے بعد مجھے اچانک یہ احساس ہوا کہ اقبالؔ کے شکوہ و جوابِ شکوہ کا انگریزی ترجمہ کرنے کا حق خوشونت سنگھ کے سوائے کسی اور کو نہیں پہنچتا ۔ پھر میں نے ان کی میز پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ جا بجا اقبالؔ کے کلام کے نسخے بکھرے پڑے ہیں ۔ پیچھے ایک شیلف میں انگریزی کتابوں کے علاوہ کچھ اردو کتابیں بھی نظر آئیں ۔ سوچا تھا کہ وہ ملتے ہی ’’قدسی الاصل‘‘ اور پیرِ گردوں‘‘ کا ذکر ضرور چھیڑیں گے مگر اس وقت وہ ’’قدسی الاصل‘‘ کو بالکل بھول چکے تھے ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے ۔

میں نے ہی چھیڑنے کے انداز میں کہا ’’اقبالؔ کی نظم شکوہ و جوابِ شکوہ کو لکھے ہوئے تقریباً ستر برس کا عرصہ بیت گیا ۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آج کے دور سے اس نظم کا رشتہ کچھ کمزور سا ہوگیا ہے ۔ پھر بیسویں صدی کے پہلے دہے میں اسلامی ممالک کی جو حالت تھی وہ آج نہیں ہے ۔ ستر برس پہلے کئی اسلامی ممالک کو تیل کی دولت کا بھی اندازہ نہیں تھا ۔ اقبالؔ اگر آج کے دور میں یہ نظم کہتے تو ان کا شکوہ اور جواب شکوہ دونوں مختلف ہوتے‘‘ ۔ اس کے جواب میں خوشونت سنگھ نے شکوے کے دو بند اپنی پاٹ دار آواز میں نہایت اثر انگیزی کے ساتھ سنائے ۔ پھر پوچھا ’’کیا ان بندوں کو سن کر تمہارے رونگٹے نہیںکھڑے ہوگئے ۔ یہ دیکھئے میرے رونگٹے ! آپ تو مسلمان ہیں ۔ اس نظم کو پڑھ کر ایک سکھ کے رونگٹے تک کھڑے ہوسکتے ہیں تو مسلمانوں کے رونگٹوں کو کیا ہوا ہے ؟ ۔ انسان کا خدا سے شکوہ ایک ابدی حقیقت ہے جو ستر برس بعد بھی رہے گی ۔ رہی بات اسلامی ممالک کے حالات کی تبدیلی کی تو میرے خیال میں موجودہ حالات سے یہ نظم زیادہ مطابقت رکھتی ہے ۔ دیکھئے افغانستان میں کیا ہورہا ہے ۔ ایران میں کیا ہورہا ہے ، پاکستان میں کیا ہورہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں اس نظم کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اصلی اور اچھی شاعری پر ماہ و سال کی گرد نہیں جمنے پاتی ۔ اسی لئے تو میں نے اس نظم کا ترجمہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے‘‘ ۔

ترجمہ اور وہ بھی شاعری کا اور شاعری میں بھی اقبالؔ کی شاعری کا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ۔ خوشونت سنگھ نے اقبالؔ کی اردو شاعری کے مزاج ، اس کے لہجے اور اس کے اچھوتے احساس کو جس خوبصورتی کے ساتھ انگریزی میں منتقل کیا ہے اس کا اندازہ اس ترجمے کو پڑھنے کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ شکوہ و جواب شکوہ کے انگریزی ترجمہ کی تقریب رونمائی جب منعقد ہوئی تھی تو پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ایک اردو لفظ کے انگریزی ترجمے پر اعتراض کیا تھا ۔ بعد میں خوشونت سنگھ نے جو حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ، اپنی جوابی تقریر میں پروفیسر نارنگ سے کہا تھا کہ ’’ترجمہ کی دشواریوں کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے، جو راست طور پر اس عمل سے گزرے ۔ میں بڑے لفظوں کی بات نہیں کرتا ۔ اردو اور ہندی شاعری میں دو بہت سیدھے سادے اور معمولی لفظ اکثر استعمال ہوتے ہیں ۔ ’انگڑائی‘ اور ’جوبن‘ ۔ آپ ذرا ان کا انگریزی ترجمہ کرکے دکھادیں ۔ ہماری انگڑائی میں اور انگریز کی انگڑائی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ‘‘ ۔ خوشونت سنگھ کے اس جواب پر محفل زعفران زار بن گئی تھی ۔

غرض اقبالؔ کے ’’شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کے حوالہ سے جو ملاقاتیں شروع ہوئی تھیں وہ بالآخر ایک گہرے اور بے تکلف اٹوٹ رشتہ میں تبدیل ہوگئیں ۔ خوشونت سنگھ مجھے اس قدر عزیز رکھنے لگے کہ اگر میں کسی ہفتہ اُن کے ہاں نہ جاتا تو اُن کا فون آجاتا تھا ’’میاں !کہاں غائب ہوگئے ۔ کیا کسی معشوق کی زلف کے اسیر ہوگئے ہو۔ فٹافٹ آجاؤ‘‘ ۔ خوشونت سنگھ کا اصول یہ تھا کہ وہ کسی سے ملاقات کا وقت طے کئے بغیر گھر پر نہیں ملتے تھے ، چاہے وہ صدر جمہوریۂ ہند ہی کیوں نہ ہو ۔ تاہم انھوں نے مجھ ناچیز کو ازراہ عنایت اُن دوچار افراد کی فہرست میں شامل کررکھا تھا جو ان کے گھر پر کسی بھی وقت اجازت کے بغیر مل سکتے تھے ۔ انھوں نے اس فہرست کو اپنے ایک کالم میں شائع بھی کیا تھا ۔ انھوں نے میرے بارے میں نہ صرف یہ کہ کئی کالم لکھے بلکہ اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اردو زبان و ادب کے حوالہ سے جہاں آل احمد سرور اور علی سردار جعفری جیسے باکمال اردو والوں کا ذکر کیا ہے، وہاں مجھ ناچیز کا بھی بطور خاص ذکر کیا۔ میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ خوشونت سنگھ اپنے کئی کالموں میں میرا ذکر نہایت محبت کے ساتھ بے تکلف انداز میں کردیتے تھے ۔ لیجئے ان کے ایک کالم کا اقتباس ملاحظہ فرمایئے ۔

Mujtaba is rare among Indian writers of humour. While he is unable to say anything unkind about others, he is equally unable to say anything in his own praise. —- He has reason to rest on his laurels: whenever the subject of humour in Urdu writing comes up, the first name that is mentioned is of Mujtaba Hussain of Hyderabad.

وہ ایک بیباک صحافی ، سچے سیکولردانشور، نڈر اور راست گو انسان تھے ۔ وہ اردو کے سچے پرستار اور اقلیتوں کے بے لوث ہمدرد بھی تھے ۔ بابری مسجد کے انہدام پر انھوں نے جو بے مثال کالم لکھا تھا اسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ۔ وہ کسی مصلحت پسندی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے ۔ اور سچائی کا پوری بیباکی کے ساتھ اظہار کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے ۔ وہ نہایت بذلہ سنج اور ظریف الطبع انسان تھے ۔ بات بات پر لطیفوں کی جھڑی لگادیتے تھے ۔ نہ صرف خود لطیفے سناتے تھے بلکہ دوسروں کے لطیفے بھی اتنے ہی اشتیاق سے سنتے تھے ۔ پاکستان سے انھیں محبت تھی، کیونکہ ان کے بچپن اور جوانی کے دن پاکستان کے پنجاب میں گذرے تھے ۔ پاکستان سے جب بھی اردو کا کوئی اہم ادیب یا شاعر دہلی آتا تو مجھ سے خواہش کرتے تھے کہ میں انھیں ان کے گھر ضرور لے آؤں ۔ صادقین ، قتیل شفائی ، منیر نیازی ، حمید اختر ، عطاء الحق قاسمی ، اظہر جاوید ، ضمیر جعفری ، شاہدہ حسن ، لالی چودھری کن کن کا ذکر کروں ۔

جب سے خوشونت سنگھ کے انتقال کی خبر سنی ہے ذہن ماؤف سا ہوگیا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ سینکڑوں ملاقاتوں کا ذکر کس طرح کروں ۔ یہ زخم تو بہت لمبے عرصہ میں مندمل ہوگا ۔ یادوں کا ایک سیلاب ہے جو ٹھاٹھیں ماررہا ہے ۔ ایک سال پہلے دہلی جانے کا موقع ملا تھا تو دوستوں نے بتایا تھا کہ خوشونت سنگھ اب لوگوں سے کم ہی ملتے ہیں ۔ البتہ شام میں پانچ بجے سے چھ بجے کے درمیان اُن سے فون پر بات ہوسکتی ہے ۔ میں نے شام میں اُن کے گھر فون کیا تو اُن کے ملازم نے فون اٹھایا ۔ میں نے پوچھا ’’صاحب سے بات ہوسکتی ہے؟‘‘ ملازم نے پوچھا ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ ۔ میں نے نام بتایا تو کچھ وقفہ کے بعد جواب آیا ’’اگر آپ حیدرآباد والے مجتبیٰ حسین ہیں تو صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ آج ہی شام میں کسی بھی وقت ضرور گھر پر آجائیں‘‘ ۔

میں گھر گیا تو کمزوری کے باوجود بڑی گرمجوشی سے ملے ۔ کہنے لگے ’’مجتبیٰ ! تمہیں اجازت لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ تم تو جانتے ہو کہ تمہارے لئے میرے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں‘‘ ۔ آبدیدہ سے ہوگئے اور بغلگیر ہوگئے ۔ ان کے بیٹے راہل بھی اس وقت ان کے ساتھ تھے ۔ ایک گھنٹہ ان کی صحبت میں گذرا ۔ حسب معمول ہنستے ہنساتے رہے ، مایوسی کی باتیں تو نہیں کیں البتہ مضمحل دکھائی دئے ۔ کسے پتہ تھا کہ یہی ملاقات خوشونت سنگھ سے آخری ملاقات ثابت ہوگی ۔ خوشونت سنگھ اپنی گرمجوشی اور والہانہ حسنِ سلوک کے باعث ہمیشہ یاد آتے رہیں گے ۔