ظفر آغا
1989 میں کانگریس پارٹی اتر پردیش اسمبلی کا چنائو کیا ہار ی کہ اس کے بعدسے اب تک اتر پردیش میں گویا کانگریس میں جان ہی نہ پیدا ہو سکی ۔خیر 2014 کے چنائو کے بعد تو اتر پردیش کیا سارے ملک میں ہی کانگریس جس صورت حال کو پہنچ گئی، اسکا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے ۔لوک سبھا میںمحض 44 سیٹوں پر سمٹ کر کانگریس پارٹی نے ہرکس وناکس کو حیرت میں ڈال دیاہے کیونکہ اگر کانگریس کمزور تو ملک کمزور پھر اور کوئی کمزور ہو نہ ہو ،کانگریس کے کمزور ہونے سے ہندوستانی مسلمان خود کو جس قدر کمزورمحسوس کرتے ہیں اتنا شاید کوئی اور کانگریس کی کمزوری سے خود کو کمزور محسوس نہیں کرتا ہے۔
بہر کیف !فی الحال کانگریس پارٹی جس بدترین سیاسی دور سے گزرر ہی ہے ایسی صورت حال کا سامنا کانگریس نے اپنے تقریباََ 130برس کے وجود میں کبھی نہیں کیا تھا ۔ حد یہ ہے کہ 1977 ء میںاندرا گاندھی کی قیادت میں جب کانگریس اقتدارسے باہر گئی تب بھی کانگریس اس قدر سنگین سیاسی صورت حال کا شکارنہیں ہوئی تھی ۔یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ کانگریس پارٹی کوئی معمولی سیاسی پارٹی نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ جدید ہندوستان کی تا ریخ کانگریس پارٹی کے اتار چڑھا ئو کے ساتھ 1857 میں مغلوں کے زوال کے بعد ملک میں اگرکسی سیاسی ادارے نے جنم لیا تو اسکا نام کانگریس پارٹی ہے ۔ سن 1885 میں اپنے قیام کے بعد سے 1947 تک کانگریس کو ہندوستانی جنگ آزادی میں جو مرکزیت حاصل رہی وہ کسی اور سیاسی جماعت کو کبھی بھی حاصل نہ ہوسکی ۔یہ کانگریس ہی تھی جس نے ملک کو بابائے قوم جیسا قائد مہاتما گاندھی عطاکیا ، پھر 1949 میں گاندھی جی کے قتل کے بعد کانگریس پارٹی کی کمان جلد ہی جواہر لال نہرو کے ہاتھوں میں آگئی جو جدید ہندوستان کے معمار ہوئے۔ بلکہ یوں کہئے کہ آزادی کے بعد سے اب تک کانگریس ہندوستان کی کم وبیش اکیلی معمار رہی اور کانگریس کے معمار نہرو گاندھی کے افراد رہے ۔ کانگریس نے ملک کو لال بہادر شاستری اور نرسمہا رائو جیسے دوسرے وزیر اعظم بھی دیئے ۔لیکن نہرو ،اندرا ، راجیو ، سونیا اور پھر انکے بیٹے راہل کو کانگریس اور ملک کے سیاسی امور میں جو مرکزیت حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں رہی ہے ۔
ظاہر ہے کہ ایسی پارٹی جب کمزور ہوگی تو اس کا اثر پورے ملک کے سیاسی پس منظر پر تو پڑے گا ہی اور سارے ملک میں اس تعلق سے تشویش بھی ہوگی ۔ لیکن کانگریس پارٹی کی موجودہ صورت حال سے خود کانگریس ممبران میں کس قدر خلفشار ہوگا ،اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
2014 کے چناوی نتائج نے کانگریسیوں میں ناامیدی پیدا کردی ہے ۔انکی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریںاور کون سا فارمولا اپنائیں کہ کانگریس پھر اٹھ کھڑی ہو ۔ اس سلسلے میں خود کانگریس ممبران سنجیدگی سے غور و خوض کر رہے ہیں۔ اسکا ایک ثبوت لکھنؤ سے جناب امیر حیدر ایڈوکیٹ کا شائع ہونے والا ایک کتابچہ ہے، جسکا عنوان ،کڑوا سچ ،ہے۔ جناب امیر حیدر نہ صرف اتر پردیش کی ایک اہم شخصیت ہیں بلکہ وہ لکھنؤ کی ایک انتہائی اہم سیاسی وسماجی شخصیت ہیں ۔لکھنؤ کافی ہائوس انکی موجودگی سے ہمیشہ تروتازہ رہتا ہے اگر وہ وہاں نہیں ہوتے تو لوگ انکے انتظار میں رہتے ہیں اور انکے آتے ہی لکھنؤ کافی ہائوس کی محفل تروتازہ ہو اٹھتی ہے۔ ان کی ایک طویل سیاسی زندگی رہی ہے۔انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز تو لوہیا جیسی قدآور سوشلسٹ شخصیت کے ساتھ کیا۔ خود لوہیا کے ساتھ تہاڑ جیل میں ایک مہینے گزارے لیکن اندراگاندھی کی کانگریس میں عروج کے بعد انہوں نے خود اندراگاندھی کے اشارے پر کانگریس کو قبول کرلیا۔ تب سے اب تک امیر حیدر صاحب نے کانگریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ظاہر ہے کہ انہوں نے اندرا جی سے لے کر راہول گاندھی کانگریس اور بالخصوص اترپردیش کانگریس کے جو اتار چڑھائو دیکھے ہیں وہ خود کانگریس پارٹی میں بھی کم لوگوں نے دیکھے ہوں گے۔ایسا شخص کانگریس کی حالیہ بدحالی پر قلم اٹھائے تو پھر سے سنجیدگی سے ہی لیاجانا چاہئے اور ہوبھی یہی رہا ہے۔
امیر حید صاحب نے کانگریس کی بدحالی پر جو ’کڑوا سچ‘تحریر کیا ہے وہ ان دنوں لکھنؤ اور لکھنؤ کے باہر زیر بحث ہے۔انہوں نے اپنے اس کتابچے میں بالکل شروع میں ہی یہ کہہ دیا ہے کہ کانگریس کا تصور نہروگاندھی خاندان کے بغیرنہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بے حد صفائی سے لکھتے ہیں کہ سونیاجی نے کانگریس کی امتحان کی گھڑی میں کانگریس کو دوسری زندگی دی۔ کانگریسی سونیا گاندھی کو جو اہمیت دیتا ہے وہ کسی اور کو نہیں دیتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ امیر حیدرصاحب یہ بات صاف طور پر واضح کرتے ہیں کہ گاندھی خاندان کو ایک خوشامدی خور گروہ نے گھیر لیا ہے اور اب انکو ایسے افراد سے خود کو الگ کر کے ایسے کانگریسیوں کو اہمیت دینی ہوگی جنکا تعلق ملک کی زمینی سیاسی صورت حال سے ہو۔وہ اس سلسلے میں اترپردیش کانگریس کی بدحالی کا ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح پچھلے 25برسوں میں کانگریس اترپردیش میں چنائو ہار کر تباہی کا شکار ہوئی۔خوشامدی خور ترقی کرتے رہے اور امیر حیدر جیسے بے لوث کانگریسی کو خود کانگریس پارٹی نے انکی اپنی تمام تر سیاسی جدوجہد کے باوجود نہیں نوازا۔ انکو اس بات کا درد ہے جو انکے بے لاگ کتابچے سے جھلکتا بھی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی ہے کہ اس امتحان کی گھڑی میں کانگریس پارٹی کو خوشامدیوں کی نہیں،بلکہ امیرحیدر جیسے بے لوث کانگریسیوں کی ضرورت ہے۔ کانگریس پارٹی کو یہ کڑوا سچ تسلیم کرنا ہوگا۔اگر کانگریس نے اس تلخ حقیقت کو نہیں تسلیم کیا تو پھر کانگریس کے لئے جلد کھڑا ہونا مشکل ہوگا اور یہ محض کانگریس پارٹی کی ہی نہیں بلکہ ہندستان کی بدقسمتی ہوگی۔ کیونکہ سیکولر ہندستان کا تصور کانگریس پارٹی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور ایک مضبوط کانگریس کا تصور امیرحیدر جیسے سچے کانگریسی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسلئے کانگریس کے لئے گاندھی خاندان کی جو اہمیت ہے، گاندھی خاندا ن کے لئے وہی اہمیت امیرحیدر جیسے کانگریسیوں کی ہے۔ میری ذاتی رائے میں یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اور ان دونوں کے ساتھ آنے سے ہی کانگریس اور ملک دونوں کا بھلا ہوگا۔