محمد مصطفی علی سروری
اس ماہ جنوری کی 19؍ تاریخ کو نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی (NTA) نے (Joint Entrance Examination) JEE کے مین امتحان 2019ء کے نتائج کا اعلان کردیا۔ قارئین جے ای ای کے امتحانات میں ملک بھر سے 9 لاکھ سے زائد امیدواروں نے شرکت کی تھی اور جب اس امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا تو بھوپال کے 17 سالہ دھرو ارورا نے 100 فیصدی نشانات حاصل کرتے ہوئے ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ قارئین اس نوجوان طالب علم نے اپنے ایک انٹرویو میں ان چیالنجس کا ذکر کیا جو اس کو دورانِ تعلیم درپیش تھے او رجن کا کامیابی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے ارورا نے ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔
انڈیا ٹوڈے کو 19؍ جنوری کو ہی انٹرویو دیتے ہوئے ارورہ نے بتلایا کہ وہ پڑھائی کے لیے زیادہ وقت دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کو موقع نہیں ملا۔ کیا اس طالب علم کو 100 فیصدی مارکس حاصل کرنے کی خوشی نہیں ہے اس سوال پر ارورہ نے بتلایا کہ اس کو بہت خوشی ہورہی ہے لیکن بڑی ایمانداری کی بات کرتے ہوئے اس لڑکے نے بتلایا کہ وہ بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھا کرتا کیونکہ حالات کا سامنا کرنا ہی اہم ہے پھر چاہے وہ کیسے بھی ہوں۔ امتحان کے لیے اس نے کیسے تیاری کی اس کے متعلق وہ کہتا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بورڈ کے امتحان میں اس کو NCERT کا نصاب پڑھنا تھا اور جے ای ای میں بھی اسی نصاب سے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ اس لیے اس کو 12 ویں کے امتحان کے لیے الگ سے کوئی زیادہ محنت کرنی نہیں پڑرہی ہے۔
ارورہ نے بڑی اہم بات یہ بتلائی کہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سب کے لیے ایک فارمولہ نہیں ہوسکتا ہے۔ ہر فرد کے لیے چیالنجس الگ الگ ہوتے ہیں۔ بھوپال کے اس طالب علم نے مزید کہا کہ طالب علموں کو جے ای ای کا امتحان کامیاب کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پرانے پرچہ سوالات کو حل کرنے کی پریکٹس کرنی چاہیے۔ اس نے کہا کہ JEE کی تیاری کے دوران اکثر طلبہ بوریت محسوس کرتے ہیں اور اولڈ کوسچن پیپرس کے ساتھ پریکٹس سے طلبہ اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز کرسکتے ہیں۔ ارورہ نے بڑے ہی واضح الفاظ میں بتلایا کہ ایک طالب علم کو ان مضامین پر فوکس کرنا چاہیے جس میں وہ کمزوری محسوس کرتا ہے۔
قارئین یوں تو ہر سال بہت سارے طلبہ JEE کا امتحان لکھتے بھی ہیں اور پاس بھی کرتے ہیں لیکن اس سال کے ٹاپر ارورہ کی کچھ خاص بات ہے جو سبھی کے لیے سیکھنے کا کچھ موقع فراہم کرتی ہے۔ جو مسائل دوسروں کے لیے تعلیم میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ارورہ نے ان مسائل کا ڈٹ کر سامنا کیاسب سے پہلے تو 17 سال کی عمر میں آج ارورہ نے جو کامیابی حاصل کی خوشی کے اس موقع پر اس کے گھر میں اس کی ماں کا وجود نہیں ہے۔ دوبرس قبل جب ارورہ 15 سال کا تھا اس کی ماں اس دنیا سے چل بسی تھی۔ اس کے والد ایک فارما کمپنی میں کام کرتے ہیں اور اس کا ایک ہی بھائی ہے جو ابھی اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ اپنی ماں کے گذر جانے کے غم کے باوجود ارورہ نے اپنی تعلیم کو متاثر ہو نے نہیں دیا اور پڑھتا رہا اور سب سے اعلیٰ پوزیشن بھی حاصل کی۔ ذرا غور کیجئے ارورہ کے اس کے گھر کا جہاں باپ اپنی نوکری کے سلسلے میں آفس میں رہتا ہے، گھر پر ماں نہیں جو ارورہ کو موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی دیکھنے سے منع کرے لیکن ارورہ نے اس کے متعلق کیا کہا ہے۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی 19؍ جنوری کی ہی رپورٹ کے مطابق JEE کے امتحان میں ہندوستان بھر سے صرف 15 طلبہ نے 100 فیصدی نشانات حاصل کیے اور ان میں بھوپال کا ارورہ بھی شامل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا طلبہ کو اپنی تعلیم سے دور کرنے کا سب سے اہم سبب ہے۔ میں نے اپنے آپ کو موبائل اور سوشیل میڈیا سے بالکل لاتعلق کرلیا تھا۔ کیا ارورہ صبح سے شام تک صرف پڑھائی میں ہی مصروف رہتا تھا، اس کے متعلق ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ارو رہ اپنے خالی وقت میں کھیلنے جایا کرتا تھا۔ اس کے مطابق کھیلنے سے نہ صرف خالی وقت کٹ جاتا تھا بلکہ اس کو اپنے جسم اور دماغ کو صحت مند بنائے رکھنے میں مدد ملتی تھی۔ تعلیم کی تیاری کے لیے طلبہ کیا کریں، اس کے متعلق نوجوان طالب علم کہتا ہے کہ وقت کا صحیح استعمال ہی کامیابی کی پہلی شرط ہے۔ میں نے اپنے لیے خود سے ایک ٹائم ٹیبل بنایا تھا جس میں 6 تا 7 گھنٹے پڑھائی کے لیے مقرر تھے لیکن اس وقت کے دوران وقفہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ار ورہ نے بتلایا کہ اچھے کالج میں پڑھنا کامیابی نہیں بلکہ اچھا پڑھنا کامیابی ہے۔
سال 2018ء میں ارورہ نے فزکس اولمپیاڈ کے کل ہند امتحان میں بھی ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس 17 سال کے طالب علم نے اپنی کامیابی کے ذریعہ کئی باتوں کو ثابت کی کہ عمر چاہے کتنی چھوٹی ہو لیکن ارادے مضبوط ہوں تو ان کو غم کے پہاڑ بھی نہیں گراسکتے ہیں۔ اڑیسہ کے سامبت بہرا نے بھی جے ای ای مین میں سو فیصدی مارکس حاصل کیے۔ انہوں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے اچھے مارکس حاصل نہیں کیے تب میرے والدین نے مجھے سمجھایا کہ اگر کسی اسٹوڈنٹ کے کسی مضمون میں بنیادی معلومات درست نہیں ہوں تو کامیابی مشکل ہے۔ جن مضامین کو طلبہ پڑھ رہے ہیں ان میں اپنی دلچسپی پیدا کریں تب ہی زندگی کے ہر کام میں دلچسپی ہوگی۔ (انڈین ایکسپریس۔ 22؍ جنوری کی رپورٹ)
انکت کمار مشرا کا تعلق ممبئی سے ہے۔ انکت نے بھی جے ای ای 2019ء میں 100 فیصدی مارکس حاصل کر کے کامیابی درج کی۔ انکت کے مطابق گھر سے دور ہاسٹل میں رہ کر امتحان کی تیاری کرنا اس کے لیے بہت فائدہ مندر رہا۔ انکت کے مطابق گھر سے دور رہتے ہوئے کبھی کبھی اس کو دبائو اور فکریں گھیر لیتی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے اس نے ہر روز کم سے کم 10 منٹ عبادت کرنے کا معمول بنالیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے عبادت کر کے بڑا سکون مل جاتا تھا اور میں دوبارہ پڑھائی میں دلچسپی لینے لگتا تھا۔ انکت کے مطابق اس کے ایک انکل ہیں جنہوں نے IIT سے تعلیم حاصل کی اور اب امریکہ میں ہیں۔ ان کو دیکھ کر اسے بھی IIT میں داخلہ لینے کی ترغیب ملی۔ انکت کمپیوٹر سائنس میں انجینئرنگ کرنا چاہتا ہے۔ انکت کے مطابق میاتھس اور فزکس تو اس کے لیے آسان تھے لیکن کیمسٹری خاص کر آرگیانک کیمسٹری سے بڑی پریشانی رہتی ۔ لیکن میں نے اپنی اس کمزوری پر توجہ دی اور پڑھتا رہا اور جب JEE کا امتحان ہوا تو میں نے سب سے پہلے کیمسٹری کے سوالات ہی لکھے اور پھر میاتھس اور فزکس کے جوابات دیئے۔ انکت کے مطابق ٹیچرس کی جانب سے لیے جانے والے Mock ٹسٹ سے پڑھائی کی تیاری میں بڑی مدد ملتی رہی۔ (بحوالہ انڈین ایکسپریس 21؍ جنوری کی رپورٹ)
قارئین ان کامیاب طلبہ میں جنہوں نے JEE کے مین امتحان میں 100 میں 100 نشانات حاصل کیے کرشنا ڈسٹرکٹ ریاست آندھرا پردیش کے چیتن ریڈی کا نام بھی شامل ہے۔ چیتن ریڈی نے اپنی کامیابی کے متعلق ایک بڑے پتہ کی بات بتلائی۔ سکنڈ ایئر انٹرمیڈیٹ سری چیتنیہ کالج کے اس طالب علم نے بتلایا کہ جے ای ای کے متعلق میں نے آٹھویں جماعت سے ہی پلاننگ شروع کردی تھی۔ میں نے اسکول کے فائونڈیشن کورس کو منتخب کیا۔ میرے کالج میں جے ای ای مین کے لیے اگست 2018ء میں ہی نصاب مکمل طور پر پڑھایا جاچکا تھا۔ اس کے بعد سے ہم لوگ صرف Revision اور پریکٹس ہی کر رہے تھے۔ کالج میں ہم لوگوں کی مسلسل کلاسس چلتی رہتی تھی اور خاص بات یہ تھی کہ کلاس میں بریک ٹائم ٹیبل کے حساب سے نہیں بلکہ طلبہ کی درخو است پر دیا جاتا تھا۔
جے ای ای جیسے ملک کے ایک مشکل ترین امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے ان نو عمر طلبہ کے اعتماد کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ یہ لوگ اگر موقع دیا جائے تو دوبارہ امتحان لکھ کر مزید بہتر نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا میں 20؍ جنوری کو رانچی ، جھارکھنڈ کے ایک ٹاپر انکت کمار جین کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ اپنے انٹرویو میں انکت کہتے ہیں کہ میں اپریل 2019ء میں JEE کا مین امتحان دوبارہ لکھنا چاہتا ہوں تاکہ اپنا اسکور بہتر کرسکوں۔ انکت کو میاتھس میں سو فیصدی اور فزکس و کیمسٹری میں 99 فیصدی نشانات حاصل ہوئے ہیں۔ (بحوالہ اخبار ٹائمز آف انڈیا)
قارئین ایک اہم بات سبھی کامیاب طلبہ کے انٹرویوز میں مشترک یہ رہی کہ کسی نے بھی اپنی کامیابی کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا حوالہ نہیں دیا اور نہ ہی ان چیزوں کو خالی وقت گزارنے کے لیے موزوں قرار دیا۔ بلکہ اپنے مصروف تعلیمی اوقات میں سے یہ لوگ کچھ وقت نکال کر ورزش اور کھیل کود میں ضرور لگاتے تھے۔ کیرالہ کے 17 سالہ طالب علم وشنو ونود نے پوری ریاست میں JEE کی فرسٹ پوزیشن حاصل کی لیکن اس نے 100 فیصدی نشانات نہیں بلکہ 99 فیصدی نشانات حاصل کیے۔ کیرالہ کا یہ لڑکا اخبار انڈین ایکسپریس کو بتلاتا ہے کہ وہ اپنے خالی وقت میں ناو ل اور کہانیوں کی کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ ونود کے والد کاشت کاری کرتے ہیں اور ونود چاہتا ہے کہ وہ کمپیوٹر سائنس میں IIT سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرے۔ قارئین ان جے ای ای کامیاب طلبہ کی محنت اور جستجو کی کہانیوں سے ہمارے بچوں کو بھی بہت سارا ترغیبی سامان مل سکتا ہے۔ کیا ہم اور ہمارے بچے اس طرح کے کل ہند مسابقتی داخلہ امتحانات کے بارے میں واقف بھی ہیں یا نہیں۔ ذرا سونچئے اور غور کیجئے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں سربلندی عطا فرمائے اور ہمارے بچوں کے لیے نفع والا علم عطا فرمائے اور صحیح کیریئر کا انتخاب کرنے میں ان بچوں کی مدد و نصرت کا معاملہ کرے۔ (آمین) بقول شاعر ؎
خود کو ہر روز امتحان میں رکھ
بال و پر کاٹ کر اڑان میں رکھ
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com