خواجہ میر دردؔ کے ضربُ المثل اشعار

صابر علی سیوانی
دردؔ کی شاعری متنوع موضوعات و مضامین سے آراستہ ایسی شاعری ہے، جو انفرادی‘ اجتماعی‘ سماجی‘ سیاسی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی کے تمام پہلوؤں کی آئینہ دار ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ دردؔ کی شاعری ان کی شخصیت کے راز ہائے سربستہ کا انکشاف کرتی ہے۔ ان کی زندگی کے ہر ایک مسئلہ کا حل پیش کرتی ہے۔ ان کی شاعری ان کے نظریات ، عقائد اور نفسیات کی ترجمانی کرتی ہے اور اس کی روشنی میں ہمیں ایک باوقار زندگی گزارنے کا سبق ملتا ہے۔ درد کی شاعری ان کی پوری زندگی کی تفسیر ہے، اور ان کے ضربُ المثل اشعار ان کی متصوفانہ زندگی کی تشریح ہیں۔ مختصر لفظوں میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ درد کی شاعری مجسمۂ دَرد و غم اور آزمائش و امتحان کی تعبیر ہے۔ جیسا کہ ان کا تخلص دردؔ ہے تو ان کی شاعری بھی دَرد کی مکمل تصویر ہے اور اس تصویر میں زندگی کے وہ تمام تجربات اور احساسات نہاں ہیں جن سے تمام انسانوں کی زندگی عبارت ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کا درسِ اخلاقی و روحانی ملتا ہے، جو تجربات کے بحرِ ناپیدا کنار کا مجسم نمونہ ہوتا ہے۔ ان کی زندگی میں جو نشیب و فراز آئے انہی اُتار چڑھاؤ کو انھوں نے نہایت خوبصورت الفاظ کا سہارا لے کر نہایت آسان لفظوں میں بیان کردیا۔ متانتِ مضمون، جذبات کی بلندی، استعارہ و کنایہ، حسن تعلیل، سہل ممتنع، رندی مضمون، سوزو گداز، موسیقیت، تصورِ حسن و عشق، ہجر و وصال اور نظریۂ حیات سے مزین درد کی شاعری دلوں میں اُتر جانے والی شاعری ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجئے جو زندگی کے آغاز اور اس کے اختتام کی خوبصورت ترجمانی کرتا ہے۔ اس شعر کو بھی ضربُ المثل کی حیثیت حاصل ہے۔ دردکے لفظوں میں:
شمع کی مانند ہم اِس بزم میں
چشم تر آئے تھے، دامن تر چلے

درد ؔ نے زندگی کی پوری حقیقت اِن دو مصرعوں میں بیان کردی ہے۔ وہ چاہتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ زندگی ایک پھول کی مانند ہے جو کلی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، پھول بن کر اپنا شباب دکھاتا ہے اور پھر اس پر پژمردگی چھاجاتی ہے۔ یعنی اس کا وجود عدم میں تبدیل ہوجاتا ہے، لیکن ان کی جدت طرازی اور کمالِ فن تو اسی میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے زندگی کو ایک شمع ( موم بتی ) سے تشبیہ دیا جو جلتے وقت ابتداء میں چند قطرے زمین پر آنسوؤں کی شکل میں گراتی ہے اور جب وہ بجھنے کے قریب آتی ہے تو اس کا تمام وجود اس کے آنسوؤں کے قطروں سے پُر ہوتا ہے یعنی اس کا دامن تر ہوجاتا ہے۔ کچھ اسی انداز کی انسان کی زندگی بھی ہوتی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو روتا ہوا پیدا ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے بہہ کر اس کے چہرے پر بکھر جاتے ہیں، لیکن جب وہ اس دنیا سے جاتا ہے تو اس کا پورا دامن گناہوں سے لبریز ہوتا ہے۔ اس خوبصورت کنائے اور تشبیہ و استعارہ کے ذریعے دردؔ نے انسان کی زندگی کے آغاز و اختتام کی پوری حقیقت بیان کردی ہے۔ یہی وہ جدت طرازی ہے جو درد کو ان کے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے۔ کیونکہ اس موضوع کو بہتوں نے اپنے اپنے طور پر اپنے اشعار میں باندھا ہے، لیکن درد نے جس ندرت و جدت کا سہارا لے کر اس مضمون کو اپنے اس شعر میں پیش کیا ہے اس سے ان کی تخیل کی بلندی اور فکر کی رفعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

درد کے اشعار دلوں میں بڑی سُرعت کے ساتھ جگہ بناتے ہیں اور ان کی اثر پذیری تا عمر قائم رہتی ہے۔ وہ ان کے دل سے نکلے ہوئے نالے ہوتے ہیں، جو دوسروں کے دلوں میں بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح شاعر کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور کیوں نہ اثر انداز ہوں کہ درد نے خود ہی اس حقیقت کا اعترا ف کیا ہے :۔
یہ شعر ہیں اے درد ! یا کہ نالے ہیں
جو اس طرح سے دلوں کو خراش کرتے ہیں

درد کے اشعار واقعی ان کے دل سے نکلے ہوئے نالے ہیں جو دوسروں کے دلوں کے بھی نالے معلوم ہوتے ہیں، ان میں زندگی کی ایسی ناقابل انکار حقیقتیں ہوتی ہیں جن کی پوری دنیا قائل ہے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہے ایسے خوبصورت پیرائے اور دلچسپ انداز میں کہا کہ پڑھنے والوں کے حافظے میں محفوظ ہوگیا اور اس انداز سے اس نے اپنا اثر دکھایا کہ وہ قارئین کی زندگیوں کا حصہ بن گیا، چاہے وہ عشق کی آگ کی شدّت ہو یا زندگی کے مختلف نشیب و فراز کی حدّت۔ ان تمام پہلوؤں پر انہوں نے اس انداز سے طبع آزمائی کی کہ وہ اشعار ضربُ المثل بن کر پوری دنیا میں پھیل گئے۔ مثلاً عشق کی آگ کے بارے میں ان کا یہ کہنا کہ یہ وہ آگ ہے جو پانی سے نہیں بجھ سکتی۔ واقعی عشق کی آگ آنسوؤں سے نہیں بجھتی ہے کیونکہ اس آگ کی صفت یہ ہوتی ہے کہ اسے بجھانے کی جتنی کوشش کی جائے، وہ بجھنے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے۔ بقول دردؔ :
اِطفائے نارِ عشق، نہ ہو آب اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
دوسری جگہ انھوں نے آتش عشق کو قہر اور آفت سے تعبیر کرتے ہوئے بجلی کے مماثل قرار دیا ہے ،ملاحظہ کیجئے درد کا یہ شعر:۔
آتشِ عشق قہر، آفت ہے
ایک بجلی سی آن پڑتی ہے

جب ہم درد کے کلام کے دوسرے پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کچھ چونکا دینے والی باتیں بھی نظر آتی ہیں، جن میں عشق کی زہر ناکی اور محبت کی تابناکی کا احساس موجود ہوتا ہے۔ محبت کرنے والے کی عجیب سی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ مختلف وقتوں میں مختلف احساسات سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ کبھی ہنستا ہے، کبھی روتا ہے اور کبھی اپنی حالت پر حیران ہوتا ہے کہ آخر اس کی حالت ایسی کیوں ہوئی؟۔ نتیجۂ کار عاشق، عشق کی آگ میں جل کر دیوانگی کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ الغرض اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی اچھی خاصی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس خیال کو جس سادگی، سلاست اور خوبصورت لفظوں سے مرصع کرکے دردؔ نے اپنے ایک شعر میں باندھا ہے، اس میں ایسی تاثیر ہے کہ وہ ضرب المثل بن کر زبان زدِ عوام و خواص ہوجائے۔
کبھو رونا، کبھو ہنسنا، کبھو حیران ہورہنا
محبت کیا بَھلے چَنگے کو دیوانہ بناتی ہے
خواجہ میر درد کی شاعری میں عشق و محبت کے جو عناصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، ان کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے قدیر احمد نے بڑے ہی پتے کی بات کہی ہے کہ آپ دوسرے شعراء کے مقابلے روایتی عاشق نہیں بلکہ ایک صوفی بھی ہیں اور صوفی کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز میں حُسن تلاش کرتا ہے:۔

’’ درد کی اُردو شاعری میں عشق کے تمام پیچ و خم نمایاں نظر آتے ہیں۔ دوسرے شاعروں کے مقابلے آپ ایک روایتی عاشق نہیں ہیں، بلکہ ایک صوفی ہونے کے ناطے آپ دنیا کی ہر چیز میں حُسن تلاش کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک دنیا وما فیہا کے ذرہ ذرہ میں اسی وحدہُ لاشریک کا ظہور ہے۔ لہذا نئے نئے انداز سے اس حسنِ مطلق کے گوناگوں جلوؤں کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔ اس سے خود بھی محظوظ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لطف اندوز ہونے کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کے عشق کی بدولت ہے جو آپ کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ آپ عشق کے تمام نشیب و فراز سے گزر کر نئے نئے تجربے کرتے ہیں اور عاشق صادق کے تمام میلانات، احساسات، واردات اور تاثرات کو اپنے اشعار میں پیش کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے اشعار میں عقل کے مقابلے عشق کو ترجیح دی ہے۔
باہر نہ آسکی تو قید خودی سے اپنی
اے عقل بے حقیقت ! دیکھا شعور تیرا
یا رب ! یہ کیا طلسم ہے، اِدراک و فہم یاں
دوڑے ہزار، آپ سے باہر نہ آسکے
( خواجہ میر دردؔ اور ان کا ذکر و فکر ، قدیر احمد، ایس اے پبلیکیشنز، دہلی 2004ء صفحہ 235)
عقل و عشق کی کرم فرمائیوں اور حُسن کی تابانیوں جیسے موضوعات کے علاوہ درد کے ہاں مضامین کا تنوع پایا جاتا ہے۔ موضوعات کا تنوع ہی درد کی شاعری کو آفاقی بناتا ہے۔ ان موضوعات کو انہوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے اخذ کیا ہے، لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے جس خوبصورتی سے ان احساسات و تخیلات کو پیش کیا ہے، کہ ان کے وہ اشعار ضرب المثل کی صورت اختیار کرگئے۔ یہ اشعار وہ ہیں جو اتنی سلیس زبان میں ہیں کہ خواص تو خواص عوام میں بھی یکساں طور پر مقبول ہیں۔ مثلاً زندگی کی جامعیت، اہمیت، معنویت اور قدر و قیمت دردؔ نے جس سادگی، برجستگی اور خوبصورتی سے بیان کی ہے اس منفرد انداز کی وجہ سے ان کا یہ شعر ضرب المثل بن گیا:۔

تجھ سے مرجائیں گے تو مرجائیں
جان ہے تو جہان ہے پیارے
دنیا کی ناپائیداری اور زندگی کی بے بضاعتی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے درد نے جو دنیا کی سیر کرنے کی دعوت دی ہے، وہ درست ہے کیونکہ زندگی مستعار ہے، کب اس سے ہاتھ دھونا پڑے کہا نہیں جاسکتا۔ ا س لئے اسے غنیمت جان کر اس کا صحیح استعمال کرنا چاہیئے اور دوسری بات یہ کہ زندگی کی عمر بھلے ہی طولانی ہوسکتی ہے، لیکن جوانی کی عمر طویل نہیں ہوتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے درد کا یہ شعر :۔
سیر کردنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی، تو نوجوانی پھر کہاں
خواجہ میردردؔ نے زندگی کے تجربات کا جو نچوڑ پیش کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر انسان زندہ دل ہے تبھی وہ زندگی کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے، ورنہ اس کی مُردہ دلی اسے لے ڈوبے گی۔ درد کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں زندہ دل انسان اپنی زندہ دلی سے محروم نہ ہوجائے:۔

مجھے یہ ڈر ہے دِل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے، تیرے جینے سے
لیکن درد کو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ زندگی تو ضرور ملی، لیکن اس مختصر سی زندگی میں گناہوں سے دامن اس قدر آلودہ ہوگیا کہ اس کی صفائی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ انسان تو اس دنیا میں جس مقصد کے لئے آیا تھا، اس نے اپنا کام مکمل کرلیا یعنی اس نے زندگی تو ضرور گزاری، لیکن وہ جب اس دنیا سے گیا تو اس کے دامن پر تہمتوں کا داغ بھی لگ گیا۔
تہمت ،چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لئے آئے تھے سو ہم کرچلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
زندگی کی بے ثباتی اور دنیا کی ناپائیداری کو مخصوص انداز میں نہایت آسان لفظوں میں شاعر نے کچھ اس انداز سے بیا ن کیا ہے کہ اُس کی فکر اور اس کے انداز ِ بیان پر زبان سے بے ساختہ داد و تحسین کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں:۔
نہ گُل کو ہے ثبات، نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن !ہوسِ رنگ و بُو کریں
یا زندگی کی تیز رفتاری کے فلسفے کو شاعر نے جس خوبی سے بیان کیا ہے اور اپنے ایک شعر میں ’’ آپی آپ ‘‘ جو روز مرہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ وہ بھی کمالِ فن کی دلیل ہے۔ ملاحظہ کیجئے یہ شعر:۔

جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
زندگی آپی آپ کٹتی ہے
زندگی کی پُر پیچ راہوں سے گزر کر شاعر کا دل پریشان ہوتا ہے۔ نااُمیدی و محرومی سے اس کا جی گھبراجاتا ہے۔ بلکہ وہ تو یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اب میرا دل اور سینہ حسرتوں سے بھر گیا ہے۔ اور اب نااُمیدی کے ہجوم سے میںگھبرا گیا ہوں۔ملاحظہ کیجئے درد کا یہ شعر:۔
سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجومِ یاس جی گھبرا گیا
درد کے ہاں ایسے سیکڑوں اشعار ملتے ہیں جو ضرب المثل کے طور پر شہرت رکھتے ہیں، لیکن یہاں جگہ کی کمی کے باعث ان تمام اشعارکا ذکراور ان کی وضاحت کی گنجائش نہیں تاہم مزید چند اشعار یہاں نقل کئے جارہے ہیں، جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں یا وہ ضرب المثل کے زمرے میں رکھے جاسکتے ہیں:۔

نظر جب دل پہ کی ‘ دیکھا تو مسجودِ خلائق ہے
کوئی کعبہ سمجھتا ہے، کوئی سمجھے ہے بُت خانہ
ہردَم بُتوں کی صورت رکھتا ہے دل نظر میں
ہوتی ہے بُت پرستی، اَب تو خدا کے گھر میں
واعظ کسے ڈراتا ہے یومُ الحساب سے
گِریہ تو میرا نامۂ اعمال دھو گیا
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دِل ہی نہیں رہا ہے جوکچھ آرزو کریں
گذروں ہوںجس خرابے پہ کہتے ہیں واں کے لوگ
ہے کوئی دن کی بات یہ گھر تھا یہ باغ تھا
جگ میں آکر اِدھراودھر دیکھا
توہی آیا نظر، جدھر دیکھا
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سوسو طرح سے مردیکھا
دل کس کی چشمِ مست کاسرشار ہوگیا
کس کی نظر لگی کہ یہ بیمار ہوگیا
جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنا،ملی، مگر
یہ آرزو رہی ہے، کہ کچھ آرزو نہ ہو
کعبہ کو بھی نہ جایئے، دہر کو بھی نہ کیجیو منہ
دِل میںکسوکے دَردیاں، ہووے تو راہ کیجئے

درد کی شاعری کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں ایسے الفاظ کی کثرت پائی جاتی ہے جو اب متروک ہوچکے ہیں۔درد کی شاعری میں متروکاتِ قدیم‘ متروکاتِ معروف‘ متروکاتِ جائز، متروکاتِ بیجا اور قابل ترک تمام متروکات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً تَس‘ اودھر، پھیر‘ جاگہ ‘ تجھ ،پاس‘کبھو‘ ہیں گے‘ کنے‘تجھ سوا‘ گزران‘ دیکھیاں‘ ہووے‘ تلک‘ دیکھوں ہوں، سمجھے ہے، گذروں ہوں، تجھ سوا، جاوے‘آوے‘کیجیو‘اُن نے‘ وغیرہ۔ تاہم متروکات اور دیگر معائب کلام کے باوجود درد کی شاعری، سراپا انتخاب کا درجہ رکھتی ہے۔ محاسن کلام کے مقابلے معائب کلام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ الغرض درد کی پوری شاعری زندگی کی حقیقی تصویر ہے، جس میں تجربات و احساسات کی ایسی دنیا موجود ہے، جو ’’ازدل خیز د بردل ریزد‘‘ کے مصداق دلوں میں اُتر جانے والی شاعری ہے۔ خصوصاً ان کے وہ اشعار جو ضربُ المثل بن گئے ہیں‘ ان کی معنویت،افادیت اور اہمیت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ہے۔
mdsabirali70@gmail.com