خواجہ بیخود کی ساری زندگی کشمکش و کشاکش سے عبارت تھی

ورنگل۔7 جنوری (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) انجمن ترقی اُردو شاخ ضلع ورنگل کی جانب سے مشہور ادیب و شاعر خواجہ بیخود کی تعزیتی نشست بعنوان ’’یاد ِخواجہ بیخود‘‘ منعقد کیا گیا۔ ایوان غزل صوبیداری میںمنعقد ہونے والی اس نشست کی صدر ڈاکٹر بہادر علی موظف پرنسپل اسلامیہ ڈگری کالج کی۔مہمان خصوصی ڈاکٹر انیس احمد صدیقی صدر شانتی سنگم ضلع ورنگل نے شرکت کی ۔بطور مہمان اعزازی مشہور مصنف فضل جاوید،ایڈوکیٹ اجمل محسن اور خواجہ حبیب الدین نائب صدر اسلامیہ ایجوکیشنل سوسائٹی نے شرکت کی۔پروگرام کی شروعات مولانا جلیل امام چھوٹی مسجد صوبیداری کی تلاوت قران پاک سے ہوئی اور محمد حامدنے نعت شریف پیش کی۔

محمد اکبر ضیا ء نے حاضرین کا استقبال کے ساتھ مرحوم کے ساتھ ان کے مراسم کا مختصر ذکر کیا۔ پروگرام کی نظامت کی ذمہ داری کے ساتھ مسعود مرزا محشر نے نے خواجہ بیخود کی زندگی اور شخصیت پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔م ۔م محشر نے خواجہ بیخودمرحوم کے بچپن کے ساتھی ہونے کی نسبت سے 55 سال کی دوستی کے چند ایسے واقعات کا ذکر کیا جو ان کے ذہن پر نقش تھے۔انہوں نے کہا کہ مرحوم خواجہ بیخودکی زندگی میں بہت سارے نشیب و فراز آئے لیکن کسی نے ان کی حیات میں انہیں مایوسی کے عالم میں یا غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔ اس نشست کے صدر ڈاکٹر بہادر علی نے خواجہ بیخود کی زندگی کے چند ایسے پہلو پر روشنی ڈالی جو ایک نیک اور شریف نفس شخصیت کی صفت میں شامل ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو سے بے پناہ محبت و انسیت مرحوم کی اپنی شاعری میں عیاں ہوتی ہے۔ مرحوم کی دلچسپی حمد باری تعالیٰ اور نعت پاک رسولؐ لکھنے میں تھی۔ ان کی شاعری میں اللہ و محمد ؐ کی محبت کے علاوہ دوسری نوعیت کا عشق و معاشقہ نہیں دیکھا گیا۔ ڈاکٹر انیس احمد صدیقی نے خواجہ بیخود مرحوم کی مہمان نوازی کو یاد کرتے ہوئے ان کی تربیت اور خوش مزاجی کا ذکر کیا۔فضل جاوید نے مرحو م کے اشعار سے ان کی نیک صفات کو بیان کیا۔ایڈوکیٹ اجمل محسن نے خواجہ بیخود کی اردو زبان، شاعری اور مشاعروں کی نسبت سے ان کی فراخدلی اور محبتوں کا تذکرہ کیا۔ضلع ورنگل کے مشہور شاعر اقبال شیدائی حال مقیم حیدرآباد نے اس اجلاس میں شرکت نہ پانے پر معذرت کے ساتھ اپنا پیغام روانہ کیا جسے م۔ م محشر نے پڑھ کر سنایا۔اقبال شیدائی نے پیغام میں کہا کہ محمدخواجہ بیخودآزادی کے بعد کی پیداوار تھے۔وہ 12ڈسمبر 1949ء کومولوی محمدحسین کے گھرمحلہ رائے پورہ ہنمکنڈہ میں پیدا ہوئے اور وہ کامرس کے گریجویٹ تھے۔

انہوںنے اپنی ملازمت کی ابتدا سیکشن رائٹر کی حیثیت سے کی۔ ملازمت کے دوران ہی انہوں نے پبلک سرویس کمیشن کے گروپ IIبی کا امتحان پاس کیا اور ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے کیلئے منتخب ہوئے تو بھونگیر پر انہیں پوسٹنگ دی گئی۔ بعدمیں انہیں ڈسٹرکٹ رجسٹرار کی حیثیت سے نظام آباد،ورنگل اور پھر حیدر آباد میں کام کرنا پڑا۔ محمد خواجہ بیخود کی ساری زندگی کشمکش وکشاکش سے عبارت تھی ۔ وہ آٹھ چھوٹی بہنوں اور دو بھائیوں کے بڑے بھائی تھے۔ان کی طبیعت میں بڑی بردباری اور مستقل مزاجی تھی۔وہ اپنے والدین کے فرما نبرداراور خدمت گزار بیٹے تھے۔والد صاحب کے بے وقت انتقال کے بعد وہ اپنے خاندان کے سرپرست بنے۔انہوں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو یتیمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ اُن سب کی مناسب تعلیم کا پھر شادیوں کا فرض بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری مشاعرہ نومبر2013 ء میں اسلامیہ ڈگری کالج میں منعقدہ مشاعرہ پڑھا۔انہوںنے کبھی اپنے لئے نہیں جیا۔ دوسروں کے لئے جیتے رہے اور جوں ہی اپنا مشن مکمل کیا ، داعی اجل کو لبّیک کہہ دیا اور مالکِ حقیقی سے جا ملے ۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کے جانے اَن جانے گناہوں کو معاف فرمائے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ اُن کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔ ایس ایم سعید نامہ نگار روزنامہ منصف ورنگل، تاج مضطر بانی و صدر بزم محمدی ،شاہد احمد صدیقی ، شاعر نذیر پرواز، ایڈوکیٹ محمد جمال شریف صدر کانگریس مائناریٹی سیل ضلع ورنگل ،محمد حبیب الدین موظف لیبر آفیسر ، محمد عثمان،اندور عبدالقاد،رمحمد اسحاق، محمد شیخ،محمد نظیر ادیب، انجینئر ماجد خان، محمد شکیل احمد،تاج الدین مشتاق،محمد علیم جاوید،منظور شریف، یوسف صاحب، محمد اسماعیل ذبیح، محمد سراج الدین،سید اصغر،محمد مقصود احمد انچارج وزیر اعظم پندرہ نکاتی پروگرام ضلع ورنگل، اختر حسین اختر نے مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا۔ محمد صادق حسین خلیل برادر مرحوم خواجہ بیخود اور زبیر احمد حسان فرزندخواجہ بیخود نے مرحوم کی سوانح حیات پر مغموم ہو کر ان کا ذکر کیا۔ مولانا شاہ عالم فلاحی نے مرحوم کی مغفرت اور اہلیہ ،خاندان و اُن کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرنے کی دعا کی۔ مرحوم خواجہ بیخودکی پیدائش ، پرورش و تعلیم شہر ورنگل میں ہی ہوئی ،اس نسبت سے مرحوم کے دوست احباب اور اردو ادبی حلقوںسے بڑی تعداد میں اس پروگرام میں شرکت کی۔ نامہ نگار محمد عبدالنعیم کے کلمات ِتشکر کے ساتھ اس نشست کا اختتام ہوا۔