ظفر آغا
ان دنوں کوئی روز ایسا نہیں جاتا جب اخبار میں زنا بالجبر کی کم از کم ایک خبر نہ چھپتی ہو ۔ اور تو اور دہلی میں اس تعلق سے کم و بیش روز ایک واقعہ تو ہوتا ہی ہے ۔ اس قسم کی اور کتنی نازیبا حرکات ہوتی ہوں گی جن کی خبر کسی کو ہوتی ہے لیکن عورت عزت بچانے کے ڈر سے عموماً اس معاملہ میں خاموش رہتی ہے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ دہلی ’’ریپ کیپٹل‘‘ بن چکا ہے ۔ ڈیڑھ سال قبل ایک بس میں جس طرح ایک لڑکی کی آبرو ریزی ہوئی اس نے دہلی کو دہلادیا تھا ۔ سیکڑوں کی تعداد میں مرد اور عورتیں اس جرم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ۔ لوگوں کے غصے کی آواز سیاسی گلیاروں سے لے کر ایوان پارلیمنٹ تک گونج اٹھی تھی ۔ مجبور ہو کر حکومت وقت کو اس جرم کے خلاف ایک خصوصی قانون بنانا پڑگیا تھا ۔
لیکن بھلا سماجی جرائم کبھی قانون بنانے سے رک جاتے ہیں ؟ چنانچہ یہی ہوا ۔ ادھر اس معاملے میں شور تھما اور پھر آئے دن دہلی اور ا سکے گرد و نواح سے پھر آبرو ریزی کی خبریں چھپنے لگ گئیں ۔ اور اب عالم یہ ہے کہ ریپ کی خبر موسمی بلیٹن کی طرح ایک رسم ہو کر رہ گئی ہے ۔ سیاسی پارٹیاں چپ ہیں ۔ پولیس والے رسمی بیان دیتے ہیں اور پھر دوسرے روز ایک نئی ویسی ہی خبر چھپ جاتی ہے ۔ آخر اس سلسلہ میں یہ بے حسی کیوں ؟ کیا ہندوستانی عورت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ؟ کیا جو جب چاہے جہاں چاہے عورت کی آبرو اتارلے ؟ ہماری سماجی حقیقت تو یہی ہے جو عورت ہمارے گھر میں ہے ہماری رشتہ دار ہے اور ہماری جان پہچان میں ہے تو وہ قابل احترام ہے ۔ باقی ہر عورت ایک کھلونا ہے ، مرد اس کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور اگر وہ مرد کی مرضی کے آگے سر جھکانے کو راضی نہ ہو تو مرد جب چاہے اس کی آبرو زبردستی چھین لے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا آئے دن اخبارات آبرو ریزی کی خبروں سے بھرے نہ ہوتے ؟ اخبار دراصل سیاسی و سماجی آئینہ ہوتے ہیں جس میں سماج کی کارکردگی کی تصویر خبروں کی شکل میں ہر روز قاری کو نظر آجاتی ہے ۔ اس نقطہ نگاہ سے اگر آپ آبرو ریزی کی روز چھپنے والی خبروں کو دیکھیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ ’ریپ‘ ہمارے سماج کی ایک لعنت ہے جو اب اس حد تک ہمارے سماج میں گھر کرگئی ہے کہ ہم اس جرم کو ایک عادت کے طور پر قبول کرنے لگ گئے ہیں ۔ آخر یہ کیوں اور کب تک؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی سے لے کر اب تک ہندوستان میں بہت کچھ بدلا اور یہ تبدیلی محض معاشی ترقی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سماجی سطح پر بھی ہندوستانی معاشرے میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے ۔ اگر آج ہندوستانی عورت پر نگاہ ڈالیں تو وہ بھی گھونگھٹ چھوڑ کر اسکولوں ،دفتر ، ہر جگہ مرد کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی نظر آتی ہے ۔ اور ایک Professional عورت کی خصوصاً ہندو سماج میں اتنی ہی عزت ہے جتنی کہ مرد کی ۔ اس سلسلے میں جنگ آزادی کے وقت سے لے کر اب تک ملک میں سماجی سطح پر آزادی نسواں کے لئے بڑی تحریکیں چلیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستانی عورت ہر شعبہ زندگی میں کارگر ہے ۔ لیکن یہ آزادی نسواں 1970 اور 1980 کی دہائی تک بنیادی طور پر چند بڑے شہروں مثلاً دہلی ، ممبئی ، حیدرآباد تک محدود رہا ۔ 1980 کی دہائی تک ہندو سماج میں بھی لڑکیاں چھوٹے شہروں میں تعلیم تو حاصل کرنے لگ گئی لیکن پڑھ لکھ کر ان کی شادی ہوجاتی اور پھر شوہر کا گھر ان کی زندگی کا محور ہوتا ۔ ہندوستان کی اکثریت میں بھی عورت کے تعلق سے یہی نظریہ برقرار رہا کہ عورت کی زندی کا محور اس کا شوہر اور اس کے بچے ہیں ۔ یہ وہی تصور ہے جو عورت کے تناظر میں دنیا کے ہر اس معاشرہ میں رائج ہے جو معاشرہ زمیندارانہ قدروں پر قائم ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان قدروں پر قائم غیر شعوری طور پر اس عورت کو سماجی اعتبار سے کج رو سمجھا گیا جو عورت کو شوہر کے گھر کی چہاردیواری تک محدود رکھتا ہے ۔ یعنی وہ عورت جو شادی کے بعد بھی شوہر کے گھر کے باہر اپنا بڑا وقت گزارتی ہے وہ غیر شعوری طور پر سماجی مجرم تصور کی گئی ۔ جب کوئی سماجی مجرم ٹھہرادیا گیا تو پھر وہ کسی بھی سزا کا مستحق ٹھہرا اور عورت کی صورت میں وہ سماجی سزا عموماً آبرو ریزی ٹھہری!
لیکن 1990 کی دہائی تک پھر بھی ہندوستان میں عورت کی آبرو ریزی کی خبر ایسی عام نہ تھی جیسی کہ اب ہے ؟ آخر یہ تبدیلی کیوں ؟ اب جیسے جیسے ہندوستان اور ترقی کررہا ہے ویسے ویسے ریپ کی خبروں میں تیزی کیوں ؟ دراصل ہندوستانی معاشرے میں 1990 کی دہائی سے اب تک ایک بہت اہم تبدیلی آئی ہے جس نے انتہائی خاموشی سے ہندوستانی سماج کی کایاپلٹ دی ہے ۔ 1990 کی دہائی میں ہندوستانی معاشراتی نظام یکایک بدل گیا ۔ ہندوستان میں پوری طرح ’’مارکٹ ایکونومی‘‘ یعنی پوری طرح سرمایہ دارانہ نظام لاگو ہوگیا ۔ اس نظام میں ہر شخص consumer economy کا شکار ہوگیا ۔ خواہ وہ دہلی ، ممبئی اور حیدرآباد کا ہو یا چھوٹے سے چھوٹے شہر کا ۔ ہر جگہ ہر ہندوستانی کو موبائل فون ، اے سی ، فریج ، گیس کا چولہا ، برینڈڈ کپڑے ، برگر ، پیزا ، میک اپ کی اشیا ، جم اور آئے دن مال میں جا کر خریداری کرنے جیسی سیکڑوں عادتیں پڑگئیں ۔ظاہر ہے کہ اس طرح ہر گھر کے خرچ بھی بڑھ گئے ۔ جب خرچے بڑھے تو ایک تنخواہ میں پورے کنبے کی گزربسر ناممکن ہوگئی ۔ جب یہ صورتحال پیدا ہوئی تو محض ایک شوہر اور بیٹوں کی تنخواہ سے کام چلنا بند ہوگیا اور اب بڑی تعداد میں لڑکیاں اور بیویاں بھی بسوں ، لوکل ٹرین، میٹرو اور آٹو میں رات بے رات کام کے لئے اور تنخواہ حاصل کرنے کو نکل پڑیں ۔ وہ چھوٹا شہر ہو یا بڑا شہر سیلز گرل سے لے کر ریسپشینسٹ تک ہر جگہ عورتیں اور لڑکیاں نظر آنے لگیں ۔
یہ تبدیلی تو ہر جگہ معاشرہ میں آگئی لیکن ذہنی طور پر شعوری اور غیر شعوری طور پر عورت کی جگہ والدین اور شوہر کا گھر ہی رہا ۔ چنانچہ غیر شعوری طور پر ایک نوجوان شخص کو بازار ، دفتر اور مال میں گھومتی لڑکی سماجی مجرم نظر آنے لگی ۔ اور چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں سے نکل کر جگمگ کرتے تیز رفتار دہلی ، ممبئی اور حیدرآباد میں آئے نوجوان کو یہ محسوس ہونے لگا کہ سڑکوں پر اکیلی گھومتی آوارہ لڑکی کے ساتھ وہ جو چاہے کرسکتا ہے ۔ بس اسی تصور نے آئے دن آبرو ریزی کے واقعات عام کردئے ۔
ہندوستان معاشی اعتبار سے خاصا بدل گیا ۔ لیکن نئی معیشت کے ساتھ جن نئی سماجی قدروں کو جنم لینا چاہئے تھا ان قدروں نے ابھی تک جنم نہیں لیا ہے ۔ آج ہماری سیاسی پارٹیاں محض اقتدار کے کھیل میں غرق ہیں ۔ انہوں نے اپنی ہر سماجی ذمہ داری ترک کردی ہے ۔ معاشی انقلاب کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو ایک سماجی انقلاب کی بھی ضرورت ہے لیکن وہ انقلاب نہیں بپا ہورہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستان میں آج سماجی جرائم بڑھ رہے ہیں ۔ آبرو ریزی بھی ایک سماجی جرم ہے اس وقت تک بڑھتا رہے گا جب تک عام ہندوستانی نئی ہندوستانی عورت کی نئی سماجی ضروریات کو ایک نئی نگاہ سے نہیں دیکھے گا ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک میں ایک سماجی انقلاب بھی بپا ہو ۔ جس کے آثار ابھی نظر نہیں آتے ۔ اس لئے آنے والوں دنوں میں ابھی ہمارے اخبار آبرو ریزی کی خبروں سے بھرے رہیں گے اور ہم ان کو پڑھ کر یونہی بھولتے رہیں گے ۔