خواتین کا صفحہ

بیٹی کی تربیت بھی ضروری …!
جس طرح سے والدین شادی شدہ زندگی میں پیش آنے والی صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے اپنی بیٹیوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ گر مائیں انہیں گھریلو اُمور سمجھنے والی سلیقے مند بیوی بننے کی تربیت بھی دیں تو وہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کا دل جیتنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ مشرقی معاشرے میں بیٹی کے بڑے ہوتے ہی والدین کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں، اس کا گھر بسانے کی فکر ان پر سوار ہوجاتی ہے۔ وہ دن رات ایک کرکے بر کی تلاش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ رشتہ داروں کو لڑکی کے جوڑ کا پڑھا لکھا داماد تلاش کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ یہ ساری تگ و دو اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوشی کیلئے کی جاتی ہے۔ جب موزوں رشتہ مل جاتا ہے تو شادی کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہے۔ جہیز تیار کیا جاتا ہے، شادی کا اہتمام ہوتا ہے اور بیٹی پرائی ہوجاتی ہے۔ والدین یہ تمام اُمور پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ شادی میں کوئی کمی نہ رہنے پائے اور وہ اپنے عزیز رشتہ داروں میں سرخرو ٹھہریں۔
٭ لڑکیاں اکثر امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد بوریت دُور کرنے کیلئے نت نئے مشغلوں کی تلاش شروع کردیتی ہیں۔ اس عرصہ میں بہت سا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ اس دور میں ماں کو بیٹی کی تربیت اور شخصیت سازی کے لئے سوچ بچار کرنا چاہئے۔ بعض خواتین بیٹی کو قناعت پسندی، سلیقہ مندی کی تربیت دینے کے بجائے اس سے مرعوب ہوجاتی ہیں، اور اسی رنگ میں رنگ جاتی ہیں۔ ہر شادی ایک سی ہی ہوتی ہے مگر یہ لڑکی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ اسے کامیاب بنائے یا ناکام۔ والدین کی صحیح تربیت سے بیٹی یہ سوجھ بوجھ حاصل کرتی ہے کہ اسے کس طرح کامیاب زندگی گزارنی ہے۔ ٭ تربیت کے ذریعہ بیٹی کو مثبت طرز فکر اپنانے کی ترغیب دینا والدین کی اولین ذمہ داری ہے ۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو زندگی کی جنگ جیتنے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اگر مائیں چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان رکھیں تو انہیں بیٹیوں کی تربیت کے لئے خصوصی طور پر محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ٭ کسی مہینے گھر کا بجٹ بناتے ہوئے ماں بیٹی کو پاس بٹھالے تاکہ اسے بھی اندازہ ہوکہ اپنے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے گھر کیسے چلایا جاتا ہے۔ گھر بھر میں خوردنوش اور دیگر اشیائے استعمال کی فہرست اس سے بنوائی جائے تاکہ اسے پتہ چلے کہ عموماً گھر میں کن اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے۔ ٭ کبھی آٹا، دال، سبزی یا گوشت کی خریداری کیلئے بیٹی کو بھی ساتھ لے جائیں تاکہ اسے خریداری کرنے کا سلیقہ آجائے۔ ٭بعض گھرانوں میں یہ بات فخر سے بتائی جاتی ہے کہ ہماری بیٹی نے کبھی کچن میں قدم نہیں رکھا۔ کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو تو صرف انڈا اُبالنا آتا ہے۔ یہ کوئی اچھی روایت نہیں! کئی مرد گھر کے پکے کھانوں کے شیدائی ہوتے ہیں، پھر اس معاملے میں اپنی بیٹی کی بے عزتی کیوں ہونے دی جائے۔ چھٹی والے دن بیٹی سے ایک پکوان بنوالیں تاکہ اسے اندازہ ہوجائے اور جب وہ پکوان بنالے تو اس موقع پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔ ٭صفائی ستھرائی سلیقے مندی کی نشانی ہے۔ اگر گھر میں ملازم ہوں تو بھی چھٹی والے دن بیٹی پر ذمہ داری عائد کریں کہ وہ اپنے کمرے میں جھاڑو، صفائی ستھرائی خود کرے۔ اس طرح وہ گھر سنبھالنے کا سلیقہ بھی سیکھ جائے گی۔ ٭ بیٹی کو کپڑوں کی دھلائی اور الماری میں ترتیب سے کپڑے رکھنے کا سلیقہ بھی سکھانا ضروری ہے۔ کپڑے دھوتے ہوئی بیٹی کی مدد بھی لیں۔ ٭ ایک ماں اپنی بیٹی میں نرم خوئی، معتدل مزاجی اور ہر ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت پیدا کرکے اسے کامیاب زندگی کی ڈگر پر ڈال سکتی ہے۔ جہیز کی تیاری کے ساتھ ساتھ ماں کو چاہئے کہ بیٹی کو بزرگوں کا احترام سکھائے۔ اسے رشتوں کا پاس ولحاظ رکھنے کی تاکید کرے تاکہ وہ سسرال اور میکے میں توازن رکھتے ہوئے اپنے گھر ہی نہیں پورے خاندان کو جوڑے رکھے۔ اگر والدین شروع ہی سے اپنی بیٹی کی تربیت میں ان باتوں کا دھیان رکھیں تو گھریلو تنازعات اور رنجشوں کا خاتمہ یقینی ہے۔