خواب ِغفلت سے بیدار ہو جاؤ

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ تو ابن آدم (انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے‘‘۔ یہ فرماکر آپﷺ نے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف رکھا (یعنی پہلے تو ایک جگہ اشارہ کرکے بتایا کہ یہ انسان ہے اور پھر اس جگہ سے ذرا پیچھے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ اس کی موت ہے) اس کے بعد آپﷺ نے اپنے ہاتھ کو پھیلایا (اور دور اشارہ کرکے) فرمایا کہ ’’اس جگہ انسان کی آرزو ہے‘‘ (یعنی انسان کی موت اس کے بہت قریب ہے، جب کہ اس کی آرزو اس سے بہت دُور ہے)۔ (ترمذی)

’’یہ ابن آدم ہے‘‘ میں گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطبین کو ایک ظاہری اشارہ کے ذریعہ تصوراتی وجود کی طرف متوجہ کیا اور یہی اسلوب ’’یہ اس کی موت ہے‘‘ میں بھی اختیار فرمایا گیا۔ اس بات کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے کی جانب زمین کے گوشہ پر یا ہوا میں اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کرکے بتایا کہ اس جگہ کو یہ تصور کرو کہ یہاں انسان ہے، پھر اپنے ہاتھ کو پیچھے ہٹایا اور جس جگہ پہلے اشارہ فرمایا تھا، اس کے بالکل قریب عقب میں ہاتھ کو رکھ کر فرمایا کہ ’’اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو، جہاں گویا انسان کی موت ہے‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ اپنے ہاتھ کو بالشت اور انگلیوں کو کافی کشادگی کے ساتھ پھیلایا۔ یعنی آپﷺ نے اپنے ہاتھ کو اس جگہ سے جہاں آپﷺ نے پہلے اشارہ فرمایا تھا، بہت آگے تک دراز کیا اور وہاں اشارہ کرکے بتایا کہ ’’اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو، جہاں گویا انسان کی آرزو ہے‘‘۔ اس طرح آپﷺ نے اس اسلوب بیان اور اشارہ کے ذریعہ گویا لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا کہ انسان کی موت اس کے بہت قریب کھڑی ہے۔