خلیجی تارکین وطن میں نیا رجحان

کے این واصف
کہتے ہیں خلیجی ممالک میں روزگار کے سلسلے میں آنے والے اکثر لوگ یہ سوچ کر یہاں آتے ہیں کہ وہ دو چار سال یہاں کام کریں گے ، کچھ سرمایہ اکٹھا کریں گے اور وطن میں اپنا کوئی کاروبار شروع کریں گے اور وطن میں اپنوں کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کریں گے ، ایسا سوچنے والے اکثر حضرات کے دو، چار سال دو چار دہائیوں میں بدل جاتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ جس ایک پراجکٹ کی تکمیل کے ارادے سے آتے ہیں اس کے مکمل ہوتے ہوتے دوچار اور پراجکٹس ان کے آگے لائن لگا دیتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ یہاں سے فارغ کردیئے جائیں۔ خلیجی ممالک کے دروازے 70 کی ابتدائی دہائی میں کھلے تھے ۔ تب سے اب تک لاکھوں افراد اپنے وطن سے یہاں آئے اور واپس بھی چلے گئے ۔نئے آنے والے ان کی جگہ لیتے رہے اور ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے یہیں مقیم ہے لیکن اب کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ یہ پرانے لوگ خود اپنی مرضی سے واپس جانے لگے ہیں ۔ یہ ایک فطری بات بھی ہے ۔

آدمی ایک لمبے اننگ کے بعد آرام چاہتا ہے لیکن اب جو نئی نسل ایک آدھ دہائی قبل سعودی عرب آئی ہے، یہاں زندگی گزارنے سے متعلق ان کا نظریہ مختلف ہے۔ خصوصاً آئی ٹی پروفیشنلز یا مینجمنٹ میں اعلیٰ ڈگریاں رکھنے والوں کا ۔ یہ لوگ یہاں رہتے ہوئے نئی منزلوں کی کھوج میں رہتے ہیں اور موقع ہاتھ آتے ہی یہاں سے پرواز کرجاتے ہیں۔ ان حالات پر پچھلے دنوں ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی باشندوں کے رجحانات کی تفصیلات دی گئی تھیں جو اس طرح ہیں ۔ ایچ ایس بی سی کے جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ 71 فیصد غیر ملکی ا پنے وطن کے مقابلے میں سعودی عرب میں زیادہ دولت کمارہے ہیں۔ ا لبتہ 67 فیصد غیر ملکی زیادہ بہتر مستقبل کے چکر میں سعودی عرب کو خیر باد کہنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ’’الیوم الاقتصادی‘‘ (عربی روزنامہ) کے مطابق یہ بات 2014 ء کے جائزہ سے سامنے آئی ہے ۔

جائزہ نگاروں نے بتایا کہ سعودی عرب میں غیر ملکی پوری دنیا کے مقابل میں سب سے زیادہ دولت کما رہے ہیں۔ دنیا بھر میں انتہائی آمدنی کے اعداد و شمار 53 فیصد تک کے ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم اکثر غیر ملکیوں کا کہنا ہے کہ مملکت میں رہنا بذات خود ایک چیلنج ہے اور وہ لوگ زیادہ مدت تک سعودی عرب میں رہنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ 67 فیصد غیر ملکیوں نے بتایا کہ وہ مملکت کو چھوڑنا چاہتے ہیں اور زیادہ اچھے امکانات حاصل کرنے کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب مالی فوائد حاصل کرنے کیلئے بہترین جگہ ہے ۔ البتہ یہاں مستقل بنیادوں پر رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جائزہ میں 100 ممالک کے 9288 افراد کو شامل کیا گیا ۔ غیر ملکی کارکنان کیلئے پسندیدہ ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نمبر 28 واں آیا ہے۔ اکثر تارکین نے کہا کہ روزگار کے مواقع اور اچھے محنتانے کی وجہ سے وہ سعودی عرب آئے ہیں۔ 37 فیصد تارکین نے بتایا کہ تعمیرات اور انجنیئرنگ کے شعبے میں سعودی عرب میں بڑی کشش ہے ۔ تعلیم کے شعبہ میں غیر ملکی 9 فیصد اور ریٹیل و صحت کے شعبوں میں 8 فیصد ہیں۔ تار کین نے شکوہ کیا کہ مملکت میں تعلیم کی لاگت زیادہ ہے ، اس لئے وہ اپنے بچوں کو بیرون ملک اسکولوں میں تعلیم کیلئے بھیج دیتے ہیں۔ اقتصادی فوائد کے لحاظ سے سعودی عرب کو غیر ملکیوں کی نظر میں 15 واں نمبر حاصل ہے ۔ 100 ملکوں میں غیر ملکی کارکنان سب سے زیادہ دولت سعودی عرب میں کما رہے ہیں۔ وجہ یہ کہ یہاں کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ یہاں تفریح تماشے نہیں ہیں ، جن پر لوگ عام طور سے پیسہ خرچ کرتے ہیں۔

اکثر خاندان اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے قربانی دیتے ہیں۔ یعنی بچے جب اسکول ختم کرلیتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کیلئے ان کو وطن واپس جانا ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں غیر ملکی بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کی سہولت حاصل نہیں ہے یا عام نہیں ہے ۔ لہذا بچوں کی تعلیم کی خاطر خاندان دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کی کئی اور وجوہات ہیں جس کے باعث لوگ یہاں سے لوٹ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں اور کچھ لوگ اپنا ذہن بناکر یہاں سے لوٹ بھی جارہے ہیں۔ یہاں سے واپس جانا تو ہر ایک کیلئے ضروری ہے کیونکہ اس ملک میں تارکین وطن کتنا ہی لمبا عرصہ یہاں گزاریں مگر یہاں رہنے والوں اور یہاں پیدا ہونے والوں کو کسی قیمت پر شہریت حاصل نہیں ہوتی۔

امان الرحمان کا نیا ریکارڈ
ملک میں جہاں ہمارے ہونہار بچے تعلیم کھیل کے میدانوں یا دیگر شعبہ جات میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں اور اپنا لوہا منوا رہے ہیں، ویسے ہی ملک سے باہر رہنے والے غیر مقیم ہندوستانی بچے بھی اپنے ہم وطن ساتھیوں سے پیچھے نہیں ہیں جس کی ایک حالیہ مثال نو عمر ٹیبل ٹینس جونیئر اسٹار محمد امان الرحمن ہیں جو ریاض کے مڈل ایسٹ انٹرنیشنل اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔
امان الرحمان نے سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (CBSE) کی سالانہ اسپورٹس میٹ میں نئی تاریخ رقم کی ۔ امان نے سی بی ایس ای نیشنل ٹیبل ٹینس ٹورنمنٹ میں سلور مڈل حاصل کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ۔ ماہ ڈسمبر 2014 ء میں منعقدہ یہ ٹورنمنٹ ہندوستان کے شہر اندور میں منعقد ہوئے تھے ۔ سی بی ایس ای سالانہ اسپورٹس میٹ میں سنٹر بورڈ کے تحت چلنے والے ہندوستان کے سارے اسکولس میں پڑھنے والے طلباء و طالبات حصہ لیتے ہیں۔ امان الرحمان نے uner 14 بوائز سنگلز میں یہ میڈل جیتا ۔ فائنل تک پہنچنے میں امان نے کئی مشہور جونیئر کھلاڑیوں کو شکست دی اور اس طرح امان الرحمان پورے خلیجی ممالک کے سی بی ایس ای اسکولس میں پہلے کھلاڑی قرار پائے جس نے سی بی ایس ای اسپورٹس میٹ میں سلور میڈل حاصل کیا ۔ اس ٹورنمنٹ میں امان نے اپنے منفرد اسٹائل اور چابک دستی سے دیکھنے والوں کو دم بخود کردیا۔

امان نے ماہ ڈسمبر ہی میں منعقدہ 76 ویں جونیئر یوتھ نیشنل ٹیبل ٹینس فیڈریشن کی جانب سے منعقد سب جونیئر ٹی ٹی ٹورنمنٹ میں بھی حصہ لیا جو آندھراپردیش کے شہر راجمندری میں منعقد ہوا تھا ۔ امان الرحمان ہندوستان کے معروف ٹیبل ٹینس کھلاڑی محمد ضیاء الرحمان کے فرزند ہیں۔ ضیاء الرحمان نیو مڈل ایسٹ ٹیبل ٹینس اکیڈیمی ریاض کے کوچ اور صدر ہیں۔ یہ اکیڈیمی انہوں نے نیو مڈل ایسٹ انٹرنیشنل اسکول ریاض کے انتظامیہ کے تعاون سے 2010 ء میں قائم کی جس میں اب تک سینکڑوں طلبہ و طالبات نے تربیت حاصل کی ۔ اس اکیڈیمی کی سرپرست مسز تبسم فاروقی ہیں۔ انجنیئر ضیاء الرحمان کا تعلق حیدرآباد کی کے ایک معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے ۔