خلافِ ظلم کوئی شخص بولتا بھی نہیں

کشمیر…زخموں پر مرہم کی ضرورت
سرجیکل اسٹرائیک پر انتخابی سیاست

رشیدالدین
وہ دور اب نہیں رہا جب انتخابات پارٹی کی پالیسی پروگرام ، اصولوں اور عوامی مسائل پر لڑے جاتے تھے ۔ اب تو انتخابات کیلئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔ الیکشن سے عین قبل کسی نے کسی عنوان سے رائے دہندوں کو راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سیاسی فائدہ کیلئے پارٹیاں اس حد تک آگے بڑھ گئی ہیں کہ انہیں ملک کی سیکوریٹی اور سلامتی جیسے حساس امور کو سیاسی اغراض کیلئے  استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں۔ ووٹ حاصل کرنے اور اقتدار کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بھلے ہی دو ممالک کے درمیان کشیدگی کیوں نہ ہوجائے۔ ہند۔ پاک کشیدگی کو بی جے پی سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کوشاں ہیں تو اپوزیشن جماعتیں کشیدگی پرہی سوال اٹھا رہی ہیں۔ اُری میں دہشت گرد حملہ کے بعد ملک میں جنگی جنون کا جو ماحول میڈیا کی جانب سے تیار کیا گیا ، جس کے چلتے ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا۔ سرجیکل اسٹرائیک کے ساتھ ہی ملک کی سیاست بھی گرما گئی اور سیاسی مبصرین کے اندازے درست ثابت ہوئے کہ بی جے پی سرجیکل اسٹرائیک کو تین اہم ریاستوں کے انتخابات میں استعمال کرسکتی ہے۔ اترپردیش ، گجرات اور پنجاب کے انتخابات بی جے پی کیلئے  منی جنرل الیکشن سے کم نہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے ۔

گزشتہ ڈھائی برسوں میں سیاسی سطح پر نریندر مودی کا جادو سوائے آسام کے کسی اور ریاست میں دکھائی نہیں دیا ۔ 2014 ء میں اقتدار ملتے ہی دہلی میں عام آدمی پارٹی نے جھٹکا دیا۔ بہار ، مغربی بنگال اور کیرالا میں مایوسی ہوئی ۔ اب تینوں ریاستوں میں پارٹی اپنی ساری طاقت جھونک دے گی ۔ تین ریاستوں میں مودی اور امیت شاہ کی ریاست گجرات اہمیت کے حامل ہیں۔ بی جے پی کے پاس ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر ووٹ حاصل ہوں۔ نریندر مودی کی تقاریر اور الفاظ کی جادوگری کو ووٹ میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا پاکستان کے مسئلہ پر ووٹ بٹورنے کا منصوبہ ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک اگرچہ فوج کا کام ہے لیکن اس کا سہرا بی جے پی اپنے سر باندھ رہی ہے جیسے کہ سنگھ پریوار اور اس کے کارکنوں نے یہ اسٹرائیک انجام دیئے ہوں۔ الغرض اس مسئلہ پر سیاست گرم ہوچکی ہے اور روزانہ ایک نئی بات سامنے آرہی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ دفاع اور فوجی کارروائیوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے لیکن کارناموں سے عاری بی جے پی کیلئے یہ مسئلہ مجبوری بن چکا ہے۔ اب تو صاف ظاہر ہوچکا کہ سرجیکل اسٹرائیک تین ریاستوں میں اہم انتخابی موضوع رہیں گے۔ 56 انچ کا سینہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کو ملک کے محافظ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ اپوزیشن خاموش کس طرح رہ سکتی تھی۔ اس نے اسٹرائیک پر ہی سوال کھڑے کردیئے ۔ تینوں ریاستوں کی انتخابی مہم میں مصروف قائدین کی زبان پر کسی نہ کسی طرح سے یہی موضوع ہے۔  فوجی کارروائی پر بحث کے بجائے ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جس انداز میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ، اس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت حاصل ہوچکی ہے۔ بی جے پی کا اصل نشانہ اسمبلی انتخابات ہے ۔ سرحد پر  کشیدگی سے انتخابی ریاستیں گجرات اور پنجاب راست طور پر متاثر ہوئی ہیں، جو کہ بی جے پی کیلئے مہم میں مددگار ثابت ہوگا۔ سرجیکل اسٹرائیک کے ساتھ ہی اترپردیش میں نریندر مودی کے پوسٹرس اور بیانرس آویزاں کئے گئے جن میں انہیں فوج کے ساتھ پیش کیا گیا۔ انہیں ہندو بھگوانوں کے روپ میں دکھایا گیا۔

اگر فوجی کارروائی کا سہرا نریندر مودی کے سر جاتا ہے تو پھر اُری حملہ میں 19 جوانوں کی قربانی کیلئے کون ذمہ دار ہوں گے ؟ جن 19 خاندانوں کے چشم و چراغ آج دنیا میں نہیں رہے، اس کی بھی  ذمہ داری کسی کو قبول کرنی چاہئے۔ فوجی کارروائی کا کریڈٹ تو صدر جمہوریہ کو ملنا چاہئے  جو تینوں مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں ۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر کو فوجی کارروائی کیلئے لکھنو میں اعزاز پیش کیا گیا۔ ایک طرف فوجی اپنی جان پر کھیل کر سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور اُری حملہ کے زخم ابھی تازہ ہیں لیکن وزیر دفاع نے جشن میں حصہ لیتے ہوئے ان فوجی خاندانوں کو مزید تکلیف میں مبتلا کردیا ہے جنہوں نے اپنے نوجوانوں کو ملک پر قربان کردیا۔ دراصل وزیر دفاع کی تہنیت اور جشن کے پس پردہ اترپردیش کی انتخابی مہم ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے یہ کہتے ہوئے انتخابی مہم کو تیز کردیا کہ جنہیں سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت چاہئے، وہ پاکستان چلا جائے۔ ہر کسی کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے امیت شاہ پتہ نہیں کیوں اپنے سیاسی گرو نریندر مودی کو پاکستان جانے سے روک نہیں پائے۔  یوں تو اترپردیش کی گدی پر سماج وادی پارٹی ، بی جے پی اور بی ایس پی کی  نظریں ہیں لیکن راہول گاندھی نے 26 روزہ طویل کسان یاترا کیلئے کانگریس کا کھویا مقام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے 26 دن میں 3438 کیلو میٹر کی مسافت طئے کی اور 141 اسمبلی حلقوں کا روڈ شو اور گھاٹ سبھاؤں کے ذریعہ احاطہ کیا۔ راہول گاندھی نے جس طرح پارٹی میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے، اس کے نتائج بھی حوصلہ افزاء دکھائی دے رہے ہیں۔

ان کے دورہ میں عوام کی شرکت سے کانگریس کے حوصلے بلند ہیں۔ جس انداز میں راہول نے یو پی کی سیاست میں انٹری لی ہے ، اس سے انتخابی منظر تبدیل ہوگیا۔ جس راہول کو اپوزیشن نے ’’امول بے بی اور پپو‘‘ جیسے ناموں سے پکارا تھا، ان کیلئے راہول منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح میدان میں ہیں۔ راہول نے گاؤں گاؤں پہنچ کر جس طرح عوام سے ملاقات کی  اور مطالبات پر مبنی ’’مانگ پتر‘‘ جمع کئے ، اس سے مکمل اقتدار نہ سہی کانگریس بادشاہ گر کے موقف میں آسکتی ہے ۔ کانگریس نے برہمن طبقہ کے ووٹ حاصل کرنے دہلی کی سابق چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کو میدان میں اتارا۔ اسی طرح فلمی گلیمر رکھنے والے راج ببر کو پارٹی کی ریاستی قیادت سونپی گئی۔ اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے غلام نبی آزاد کو ریاست کا انچارج مقرر کیا گیا۔ اگر برہمن کے ساتھ مسلم ووٹ شامل ہوجائیں تو کانگریس کا موقف بہتر ہوسکتا ہے۔ راہول گاندھی کانگریس کو تمام طبقات سے قریب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی یاترا اگرچہ کامیاب رہی لیکن یہ کامیابی ووٹ میں کس حد تک تبدیل ہوگی ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اترپردیش میں  بی جے پی کیلئے 2014 ء کے نتائج کا اعادہ ممکن نہیں ہے ۔ جب اس نے 72 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ ڈھائی برسوں میں نریندر مودی کی مقبولیت کا بھرم کھل چکا ہے۔ مودی نے جب سے گجرات چھوڑا ، وہاں کوئی متبادل قیادت نہیں رہی۔ امیت شاہ  قومی سیاست میں  اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں۔ اس طرح اترپردیش میں پارٹی کا مکمل انحصار نریندر مودی پر ہے ۔

سرجیکل اسٹرائیک پر جاری سیاسی کھیل نے کشمیر کی صورتحال کو پس منظر میں کردیا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کو گزشتہ تین ماہ سے کشمیری عوام کی مشکلات ان کے دکھ درد اور کرب کا کوئی احساس نہیں ۔ مرکزی حکومت اور قومی میڈیا کی بے حسی کا یہ عالم ہے جیسے کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں اور کشمیری عوام ہندوستانی شہری نہیں۔ میڈیا کو مقبوضہ کشمیر کے عوام سے دلچسپی ہے لیکن اپنے ہی باشندوں کا حال جاننے کی فکر نہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے وادی میں ناراضگی کے جذبات پیدا کئے ہیں۔ تین ماہ سے عرصہ تک اس علاقہ میں زندگی کا مفلوج ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔ سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر مرکزی حکومت اور بی جے پی قائدین کو خود اپنی پیٹھ تھپتھپانے سے فرصت نہیں ہے لیکن جو اصل وجہ اور روٹ کاز ہے، اس جانب کسی کی توجہ نہیں ۔ سرحد پار دہشت گردی ہو یا سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت ، ان تمام کا حل مسئلہ کشمیر کے حل سے وابستہ ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی اس حقیقت سے انکار کرے لیکن محبوبہ مفتی نے جرات مندی کے ساتھ وزیراعظم کو کھری کھری سنادی ہے۔ انہوں نے پاکستان سے کشیدگی میں کمی اور کشمیری عوام کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ بحالیٔ اعتماد اقدامات کا مشورہ دیا۔ محبوبہ مفتی جو وادی کی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں، کشمیریوں کے درد اور کرب کی نمائندگی کرتے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے کی صلاح دی ہے ۔ سرحد پر کشیدگی کا راست اثر وادی کی صورتحال پر پڑتا ہے، جہاں تین ماہ سے عوام عملاً گھروں میں محروس اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ نریندر مودی نے کشمیریوں ، انسانیت اور جمہوریت کا نعرہ لگایا تھا لیکن یہ محض نعرہ بن کر رہ گیا ۔ کشمیریت کے جذبہ کا احترام کیا گیا اور نہ ہی انسانیت کے مظاہرہ کی کوئی مثال دیکھی گئی ۔ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا خون کیا گیا۔ کیا انسانیت یہی ہے کہ عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ وادی کی اہم مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی تک اجازت نہیں۔ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آنے والے عوام پر پیلیٹ گنس کا استعمال ابھی بھی جاری ہے ۔ حالانکہ مرکز نے پابندی کا اعلان کیا تھا ۔ہفتہ کے دن پیلیٹ گنس سے ایک اور 12 سالہ لڑکے کی موت واقع ہوگئی۔ اسطرح ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 84 ہوچکی ہے۔آج بھی ہزاروں زخمی دواخانوں میں موثر علاج کیلئے ترس رہے ہیں۔  پیلیٹ گنس نے 150 سے زائد افراد کی بینائی چھین لی ہے ۔ اس مضرت رساں ہتھیار کا استعمال خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ نریندر مودی حکومت آخر اپنے ہی عوام کے درد کو کب محسوس کرے گی ؟ 70 برس میں پہلی مرتبہ پی ڈی پی کے ساتھ کشمیر میں اقتدار حاصل ہوا لیکن بی جے پی کو صرف اقتدار کی برقراری سے دلچسپی ہے، وادی کی صورتحال بہتر بنانے سے نہیں۔ سرحد پر کشیدگی کم کرنا ہو تو ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر میں صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ قائدین کو رہا کرتے ہوئے ان سے بات چیت کی جائے۔ جب تک کشمیریوں کا دل نہیں جیتیں گے ، اس وقت تک صورتحال معمول پر آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر کا ہے کہ وزیر داخلہ کی قیادت میں کل جماعتی وفد روانہ کیا گیا تھا لیکن آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک پر جشن منانے والی بی جے پی حکومت نے آج تک پاکستان کو ’’انتہائی پسندیدہ ملک‘‘ کا موقف ختم نہیں کیا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان سے آبی معاہدہ برقرار ہے۔ حتیٰ کہ مظفر نگر جانے والی بس سرویس بھی جاری ہے۔ پاکستان سے احتجاج کیلئے کم سے کم ان کے ہائی کمشنر کو پاکستان اور اپنے ہائی کمشنر کو وطن واپس طلب کرنا چاہئے تھا ۔ شہود آفاقی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے   ؎
خلافِ ظلم کوئی شخص بولتا بھی نہیں
رئیسِ شہر نے کچھ ایسا انتظام کیا