خسروؔ مولوی محمد عبدالقادر خاں صاحب ولادت 1314ھ م 1906ء

محمد عبدالباری
حضرت خسرو جناب مولانا محمد عبدالغفور خان صاحب نامیؔ کے نامور فرزند اکبر ہیں۔ حضرت نامیؔ کے حالات کے ضمن میں کتاب ’’مرقع سخن ‘‘ جِلد دوم مطبوعہ حیدرآباد1356 میں مورثان اعلیٰ اور سلسلہ نسب تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ آپ سید علوی ہیں، حضرت عباس ابن علی علیہ السلام سے آپ کا نسب ملتا ہے۔ آپ کے بزرگ بغداد میں سلاطین عباسیہ کے دور میں سلاطین مغلیہ کے دربار کے امراء رہے۔ غدر دہلی سے پہلے تک آپ کے اجداد فرخ نگر دہلی کے نواب رہے۔ حیدرآباد میں آپ کے جدِ امجد نواب میر فیض محمد خاں بہادر ابتداً کمشنر برار اور بعد میں عہدہ وکالت درمیاں شمس الامراء و ریزیڈنٹ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد شمس الامراء نے آپ کو تیس ہزار کی جاگیر عطا کرکے پائیگاہ میں صدربخشی و صدر تعلقدار مقرر کیا۔ اس پر نواب رشید الدین خاں کے عہد میں کچھ اور اضافہ ہوا۔

جناب خسروؔ صاحب کی ولادت بتاریخ17جمادی الاول1324 ھ مطابق 10جولائی1906، بلدہ حیدرآباد میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ نظامیہ میں جماعت منشی تک ہوئی۔ اس کے بعد یکایک شہر میں انفلوئنزا پھوٹ پڑا۔ آپ اس میں مبتلا ہوگئے، تبدیل مقام کرکے پھسل بنڈہ پر سکونت اختیار فرمائی۔ کچھ عرصے تک تعلیم خانگی اپنے والد سے پاتے رہے۔ اس کے بعد زمانہ کی رفتار دیکھ کر آپ کے والد نے انگریزی تعلیم دلوانا پسند فرمایا۔ اس طرح آپ مدارس سرکارِ عالی میں شریک ہوئے۔ مدرسہ دارالعلوم فوقانیہ سے میٹرک میں کامیابی حاصل کی اور جامعہ عثمانیہ شعبہ دینیات سے انٹر میڈیٹ کرلیا۔ آپ کے والد صاحب خوشنویس تھے۔ عماد رقم خطاب رکھتے تھے۔ اپنے والد سے خوشخطی سیکھی۔ امتحان خوشخطی مدارس سرکارِ عالی میں تین مرتبہ کامیابی حاصل کی اور اعلیٰ درجہ کا انعام حاصل کیا۔
آپ کی شعر گوئی کی ابتداء خود اپنے والد حضرت نامیؔ کی تعلیم سے ہوئی۔ عروض و قافیہ کی کتابیں اپنے والد سے پڑھ لی تھیں۔ کم سنی سے شعر کہنے لگے، ایک مرتبہ آپ ’’ صدر المہام عدالت نواب لطف الدولہ کی مدح میں قصیدہ لکھا جس کا مطلع یہ ہے:

لطف دین ابن عمر تو ہے امیر ابن امیر
ہے تری ذات کے شایان عدالت کا سریر
نواب صاحب نے بے حد پسند فرمایا۔ ایک جائیداد مددگار ناظم اُمور مذہبی پائیگاہ تقرر طلب تھی آپ کا تقرر فرمالیا۔ حضرت نامیؔ نے ترک تعلیم کا عذر بھی کیا، لیکن نواب صاحب نے نہ مانا۔ اس طرح 38ف مطابق 1928ء سے زمرۂ ملازمت میں آگئے۔

ملازمت کے بعد آپ کی شادی 1348ھ م 1929ء میں دختر نواب میر محمد علی خان صاحب جاگیر دار ٹٹی کوکہ نبیرۂ نواب اسد نواز جنگ بہادر سے ہوئی۔ ان کے بطن سے پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہوئیں۔ پائیگاہ خورشید جاہی کی اُمور مذہبی نااہل عہدیداروں کے باعث بدنام تھی، آپ کے تقرر کے بعد آپ نے اس محکمہ کو سرکارِ عالی کے مماثل باضابطہ کردیا تھا، اور دیانت و امانت میں ایسی شہرت حاصل کی کہ آپ نے امراء و عہدیداران پائیگاہ کو تسخیر کرلیا۔ سب آپ کے مداح اور سب آپ کے دلدادہ ہوگئے تھے۔ چنانچہ دس سال کی کارگذاری میں اپ کو عہدہ نظامت اُمور مذہبی سے سرفراز کیا گیا۔ دوران نظامت آپ کی کارگذاری اعلیٰ حضرت بندگان عالی نے بھی ملاحظہ فرمائی اور صاحبزادگان نواب لطف الدولہ بہادر کی کنٹرولری کی مزید خدمت عطا فرمائی۔ آپ خدمت نظامت سے تو وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ لیکن کنٹرولری پر حسب حال ایک عرصے تک بحال رہے۔ آپ نے زمانہ کنٹرولری نواب لطف الدولہ بہادر کے دیوان اور شجرۂ خاندانی پائیگاہ کی ترتیب میں کافی کوشش کرکے طبع کروایا۔ آپ کی یہ تالیف نہایت قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے۔

خسروؔ صاحب نے ہمیشہ سے خوشحال اور آسودہ زندگی بسر کی۔ ان کے خاندان کاتعلق ایک طرف نوابوں سے اوردوسری طرف مشائخین سے رہا۔ لیکن آپ بالطیع فقیری کی جانب مائل رہے۔ مزاج میں انتہائی انکساری تھی، خوش اخلاقی اور ہمدردی میں وہ اپنی نظیر آپ تھے۔ ان کے ماتحت تین چار سو آدمی کئی سال رہے، لیکن یہ ان کا کارنامہ تھا کہ انھوں نے کبھی کسی شخص کی غیرحاضری پر تنخواہ کاٹی اور نہ جرمانہ کیا۔ ان کو خاندان ِ پائیگاہ سے بلحاظ نسبت موروثی اتنی محبت تھی کہ یہ ہر فرد خاندان پائیگاہ کی بہتری و بہی خواہی کے خواہاں رہتے ہیں۔ فقراء و سائلین کی امداد آپ بطورِ فریضہ ادا کرتے۔ اس مجبوری و معاش کی تنگی کے زمانہ میں بھی آپ سائلین کی امداد دامے، درمے، قدمے، سخنے فرماتے رہتے۔ آپ جس مکان میں رہتے تھے وہ مکان حیدرآباد سے کافی دور واقع ہے۔ لیکن آپ کے فیضان صحبت سے لوگ دوردور سے آتے رہتے تھے اور صحبت میں گھنٹوں اولیاء اللہ کا ذکر اور اُن کے اذکار اور اشغال و سوانح سے اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ رہتی تھی۔

نواب احمد یار جنگ بہادر مرحوم خلف حضرت نواب لطف الدولہ بہادر مرحوم امراء پائیگاہ میں ایک قابل ترین ہستی تھے۔ خسروؔ صاحب اُن کے ہاؤس کنٹرولر تھے۔ ان کی امانت و دیانت داری کی وجہ سے نواب صاحب کو اتنا خلوص ہوگیا تھا کہ موصوف کوئی کام ان کے مفید مشورے سے ہی کرتے، اس طرح نواب صاحب کی عام نیک نامی میں خسروؔ صاحب کی مصاحبت کا خاص اثر کارفرما رہا۔ اسی قدردانی کے سبب نواب احمد یارجنگ بہادر نے خسروؔ صاحب کے دو فرزندوں محمد عبدالہادی خاں و محمد عبدالباری خاں سے اپنے مرتے دم تک رابطہ رکھا۔

خسروؔ صاحب نے فنِ عروض تو خود اپنے والد سے پڑھا، اس کے بعد عربی میں مولوی غلام نبی صاحب پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی اور ڈاکٹر عبدالحق پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی سے تکمیل کی ہوئی تو آپ خود اس فن کے ماہر ہوگئے اور شعر کی جملہ صنایع پر عبور رکھتے تھے۔ آپ کے والد حضرت نامیؔ جناب داغ ؔ دہلوی تلمذ رکھتے تھے، اس لئے اُن ہی کے رنگ کے شعر کہنے والے تھے۔ اسی طرز پر خسروؔ صاحب بھی قائم رہے۔ اگرچہ آپ کے کلام میں صنایع، بدایع، تشبیہات وغیرہ میں بھی اشعار کی کمی نہیں۔ لیکن اکثر و بیشتر آپ کا کلام سہلِ متمع کی خصوصیت رکھتا ہے۔ آپ کے اشعار کا تعلق بالراست لطیف جذبات سے ہوتا ہے۔ الفاظ نہایت سادہ و آسان ہوتے ہیں۔ روزمرہ میں جو چاہتے ہیں، بیان کردیتے ہیں۔ مطلب بظاہر معمولی ہوتا ہے لیکن تاثر اور سوز و گداز ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے کے دِل میں گھر کرلیتا ہے۔ بلند آہنگ شعراء کی تعمام صناعیاں ایک طرف اور آپ کی سیدھی سادھی غزلیں ایک طرف، مشکل زمین میں بھی آپ نے لطف زبان کو برقرار رکھا۔ قدیم و جدید شاعری میں پند و نصائح میں طبع آزمائی کی ہے۔ اس میں بھی انفرادیت پائی جاتی ہے۔ اب ہم اُن کے کلام کا چیدہ چیدہ خاکہ پیش کرتے ہیں جس سے فن شعر میں اُن کی جست کا اندازہ ہوجائے۔
نہ پوچھو مصیبت کے دن کیسے بیتے
اگر زور چلتا تو دو دن نہ جیتے
کہاں تک تک رہو ںخونِ دل اپنا پیتے
بس اے زندگی تھک گیا جیتے جیتے
نظر فریب نظارو مجھے فریب نہ دو
خزاں بدوش بہارو مجھے فریب نہ دو
دوپہر رات آپ اور یہ گھر
جاگتا ہوں کہ سورہا ہوں میں

غنچہ و گُل کی یہ تازگی دیکھ کرناز کرتا ہے کیوں باغباں دوستو
ہے بہار چمن اک فریب نظر اصل میں ہے خزاں ہی خزاں دوستو
چند گھنٹے ہی خورشید کا ساتھ ہے، یہ اُجالا تو پابند اوقات ہے
دن کے پردے میں پنہاں یہاں رات ہے، ایک ظلمت کدہ ہے جہاں دوستو
مصور نے ادا حق کردیا صورت بنانے کا
کہ ہے تصویر ذرہ ذرہ اس آئینہ خانے کا
مری دنیا ہو تم کس منہ سے دنیا کو بُرا بولوں
زمانہ تم ہو کس منہ سے کروں شکوہ زمانے کا
ایک ہی سانس میں ہوا ہیں ہم
خاک ہوکر بھی بادِ پا ہیں ہم
آپ کی روش پر سب اہلِ دہر چلتے ہیں
آپ جب نظر پھیریں سب نگر بدلتے ہیں
لامکاں تھا ہمارا مکاں
آگئے ہم کہاں سے کہاں
مصیبتوں میں بھی رونے سے شرم آتی ہے
کہ اِک زمانے سے عادی ہیں مسکرانے کے