خزاں کے موسم

کے این واصف
خلیجی این آر آئیز کے فی الحال خراب دن چل رہے ہیں، اچھے دن موسموں کی طرح ہوتے ہیں۔ کبھی کہیں تو کبھی کہیں۔ یہاں ’’اچھے دن‘‘ سے ہماری مراد وہ اچھے دن سے نہیں جن کا انتظار چار سال سے سوا ارب ہندوستانی کر رہے ہیں ۔ ہمارا مطلب خلیجی ممالک میں پٹرول کی دولت ابل پڑنے کے بعد ترقی پذیر اور غریب ممالک کے باشندوں کی زندگی میں آئے اچھے دن سے ہے ۔ 1960 ء کے اواخر یا 70 کی ابتدائی دہائی میں خلیجی ممالک میں روزگار کے دروازے کھلے تو ہندوستان، پاکستان، فلپائن ، بنگلہ دیش ، سری لنکا وغیرہ کے کروڑ ہا لوگ خصوصاً مسلمانوں میں معاشی خوشحالی آئی ۔ تقریباً نصف صدی یہاں دنیا کے بیسیوں ممالک کے باشندوں نے ٹیکس فری دولت کمائی ۔ وہ بھی ایک پرسکون ماحول میں ، جہاں نہ کبھی کوئی دنگا فساد ہوتا ہے نہ کبھی لوٹ مار یا بدامنی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے لیکن وقت اور حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ تغیر اور تبدیلی ایک فطری عمل ہے ۔ لہذا این آر آئیز کیلئے اب خلیجی ممالک میں بھی بہار کے دن ختم ہوئے اور اب خزاں کا موسم آگیا ہے۔
پچھلے کوئی دو سال سے یہ کالم خصوصاً سعودی عرب میں برسرکار خارجی باشندوں اور عموماً خلیجی ممالک کے غیر مقیم ہندوستانیوں (این آر آئیز) کے مسائل کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کر رہا ہے ۔ ویسے یہ کالم پچھلے کوئی ربع صدی سے اس صفحہ پر شائع ہوتا رہا ہے اور اس کے موضوعات ہمیشہ خلیجی ممالک یا سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے گرد ہی گھومتے رہے ہیں لیکن پچھلے برسوں میں اس کے موضوعات متنوع ہوا کرتے تھے جس میں آین آر آئیز کے مسائل ، یہاں کے نئے قوانین و ضوابط جو این آر آئیز سے متعلق ہوں، سفارت خانہ ہند کے پروگرامس اور سرگرمیوں ، این آر آئیز کی سماجی ، ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کی رپورٹس وغیرہ شامل ہوا کرتے تھے لیکن اب اس کالم میں صرف خارجی باشندوں یا این آر آئیز کے مسائل ہی پر گفتگو ہورہی ہے ۔ قارئین کو کبھی کبھی لگتا ہوگا کہ اس کالم میں موضوعات کی تکرار ہورہی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خارجی باشندوں یا این آر آئیز پر حالات ہی کچھ ایسے آن پڑے ہیں۔ این آر آئیز کے مسائل پر مسلسل لکھتے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں پیدا ہوئے حالات نے خارجی باشندوں کو یہاں بے حد مایوس کیا ہے اور ہمارا بار بار این آر آئیز کے مسائل ہی پر زور دینے کا مقصد ہم اپنی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی این آر آئیز کے مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ خلیجی ممالک یا سعودی عرب میں آب و دانے کی تلاش میں غیر ملکیوں کی آمد کا سلسلہ تو سمجھئے کہ ’’نصف صدی کا قصہ ہے ، کوئی دوچار برس کی بات نہیں‘‘۔ پانچ دہائیوں کے اس طویل عرصہ میں یہاں غیر ملکیوں نے بہت اچھے حالات بھی دیکھے اور آج کے ابتر حالات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ وہ خارجی باشندے جو اچھے دنوں میں یہاں رہے اور اسی دور میں یہاں سے چلے گئے ، وہ خوش نصیب رہے۔ مگر بہت سے لوگ جو یہاں بعد میں آئے وہ اچھے حالات کو ابتر حالات میں بدلتے دیکھ رہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اس عرصہ میں اول تو مملکت کی آبادی میں اضافہ ہوا ، آبادی بڑی تو مقامی لوگوں میں ر وزگار کی طلب میں اضافہ ہوا ۔ مقامی افراد کی بیروزگاری دور کرنے کیلئے حکومت مختلف اقدام کر رہی ہے جس میں سب سے بڑا قدم کئی پیشوں کو سعودیوں کیلئے مختص کرنا ہے ۔ یہی چیز یہاں مقیم خارجی باشندوں کیلئے زیادہ پریشان کن ہے ۔ پھر چند روز قبل کچھ اور نئے پیشوں کو مکمل سعودائزیشن کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ وزارت محنت و سماجی بہبود کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ گاڑ یوں کے شور ومس و ایجنسیوں ، گاڑیوں کے فاضل پرزے فروخت کرنے والی دکانوں ، تجارتی مراکز (MALLS) اور الیکٹرانک سامان فروخت کرنے والی دکانوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ جس پر یکم جنوری سے عملدر آمد شروع کردیا گیا ۔ ترججان نے توجہ دلائی کہ محنت و سماجی بہبود کا نظام سعودائزیشن کے نصب العین کو یقینی بنانے کیلئے مختلف شعبوں میں تعاون فراہم کرے گا ۔ سعودائزیشن کیلئے مختص سرگرمیوں میں دلچسپی رکھنے والے سعودیوں کو تربیتی کورسس کرائے جائیں گے ۔ تکنیکی مدد دی جائے گی ، مالیاتی تعاون فراہم کیا جائے گا ۔ کام دینے اور روزگار کے متلاشی نوجوانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے روزگار فورم بنائے جائیں گے ۔ اس کا مقصد لیبر مارکٹ میں سعودی باشندوں کو زیادہ سے زیادہ کھپانا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ نجی اداروں میں سعودیوں کیلئے روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیدا کئے جائیں گے۔ سعودی لڑکے لڑکیوں کو تربیتی خدمات سے استفادہ کی سبیل پیدا کی جائے گی ۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل موبائیل فونس کے کاروبار پر بھی سعودائزیشن کا اعلان ہوا تھا اور اس پر عملدر آمد بھی ہوگیا ۔ تمام خارجی باشندے ان دکانوں سے نکال دیئے گئے ۔ موبائیل فونس کے کاروبار عرصہ دراز سے خارجی باشندوں کے ہاتھوں میں تھے بلکہ اس کاروبار پر خارجیوں کی اجارہ داری تھی ۔ اب پچھلے کوئی دو سال سے یہ کاروبار کا مکمل سعودائزیشن ہوچکا ہے۔ موبائیل فونس کی مارکٹ باقی تو ہے لیکن اب یہاں صرف نئے فونس فروخت ہوتے ہیں ۔ مگر یہاں فونس ، آئی پیڈ وغیرہ کی مرمت یا درستگی کا کام نہیں ہوتا کیونکہ یہ کام خارجی باشندے کیا کرتے تھے جنہیں ان دکانوں سے نکال دیا گیا ۔ اب موبائیل مارکٹ میں ویرانی چھائی نظر آتی ہے ۔ کئی برس سے محکمہ لیبر نے بہت سی جائیدادیں صرف سعودی باشندوں کیلئے مختص کر رکھی تھیں۔ ان جائیدادوں پر کوئی خانگی کمپنی غیر ملکی باشندوں کو ملازمت پر نہیں رکھ سکتی ہے جس کی ایک طویل فہرست ہے ۔ اس کے علاوہ ہر خانگی کمپنی یا ادارے میں سعودائزیشن کا تناسب قائم رکھنے کی پابندی رکھی گئی ہے اور اب تو اس پر پابندی سے عمل نہ کرنے والی کمپنیوں کو ہر غیر ملکی ملازم پر 400 سے 800 ریال ماہانہ فیس بھرنی پڑے گی ۔ اس کی تفصیلات بھی ہم نے پچھلے کالموں میں دے دی ہیں۔
واضح رہے کہ چند برس قبل اعلان کیا گیا تھا کہ بقالے (Grocery Stones) صرف سعودی باشندے چلائیں گے جبکہ یہ شعبہ تقریباً سو فیصد غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اس اعلان پر عمل در آمد نہیں ہوسکا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بقالے کا کام بہت محنت طلب اور مشکل ہے ۔ اس کے اوقات بہت طویل ہوتے ہیں ۔ پھر ایسی ہی کوشش ٹیکسی ڈرائیونگ کے شعبہ میں کی گئی ۔ اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور شعبوں میں بھی سو فیصد سعودائزیشن کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا لیکن جو سخت محنت طلب شعبہ تھے ، ان میں بھی یہ منصوبے کامیاب نہ ہوسکے۔ بتایا گیا کہ اس کاروبار کے غیر ملکیوں کے ہاتھ میں رہنے سے سعودی معاشرے پر پڑنے والے مضر یا منفی اثرات کے پیش نظر حکومت نے یہ اقدام کیا ۔ اس سلسلے میں سماجی امور کے ماہرین اور اسکالرس نے واضح کیا کہ موبائیل مارکٹ کی سعودائزیشن معاشرے کو خارجی باشندوں کی شرارتوں سے بچانے اور معلومات کی رازداری برقرار رکھنے کیلئے اشد ضروری تھی۔ اسکالرس نے توجہ دلائی کہ بعض غیر ملکیوں نے موبائیل کی دنیا میں غیر اخلاقی سرگرمیاں اختیار کرلی تھیں، جس سے سماج میں دراڑ پیدا ہوئی ۔ غیر منظم خارجی کنٹرول نے معاشرے کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کردیئے۔ بہت سارے سعودی گھرانوں کے داخلی معاملات موبائیل کی اصلاح و مرمت کرنے والے تارکین پر کھل گئے تھے ۔ کہا گیا تھا کہ مواصلات کی سعودائزیشن کا معاملہ بے حد اہم ہے ۔ اس کا تعلق سلامتی ، سماجی اور اقتصادی امور سے ہے ۔ سعودی باشندے اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کرسکتے ہیں ۔ یہ ہماری ثقافت سے بھی ہم آہنگ ہے ۔ اس شعبے کی سعودائزیشن ’’سعودی ویژن 2030 ‘‘ سے بھی ہم آہنگ ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سعودی حکومت کس طرح اپنے نوجوانوں کو روزگار سے لگانے کیلئے نت نئے پروگرامس مرتب کر رہی ہے ۔ سعودی عرب یا خلیجی ممالک سے فارغ کردیئے جانے والے این آر آئیز کیلئے ہماری حکومت کے پاس کچھ ایسے پروگرامس ہونے چاہئیں۔ این آر آئیز ملک کے وہ افراد ہیں جنہوں نے ملک پر بوجھ بنے بغیر ملک کیلئے زر مبادلہ مہیا کیا ۔ جب ان کی بازآبادکاری کا مسئلہ آیا تو حکومت کو چاہئے کہ وہ ترجیحی بنیاد پر ان کیلئے فوری اقدام کرے ۔ حکومت کوئی نئی اسکیم نہ بنائے تو میڈیم اور اسمال اسکیل انڈسٹری کے جو محکمہ ہیں ، انہیں ہی فعال کر کے ان کے بجٹ میں کچھ اضافہ کر کے اس کے ذریعہ این آر آئیز کی بازآبادکاری کو آسان اور یقینی بنائے ۔ خلیجی ممالک کے انڈین مشن کو بھی چاہئے کہ وہ یہاں کے حالات سے حکومت ہند کو واقف کراتے ہوئے این آر آئیز کی بازآبادکاری میں معاون ثابت ہوں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ خلیجی ممالک کے این آر آئیز کا از خود نو ٹ لے اور اس بابت فوری ٹھوس اقدام کرے ۔ ہم خصوصی طور پر حکومت تلنگانہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ حالیہ عرصہ میں چیف منسٹر تلنگانہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ تلنگانہ حکومت خلیجی این آر آئیز کیلئے ایک خصوصی اسکیم مرتب کر رہی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت کی اس اسکیم کا جلد اعلان ہو اور تلنگانہ این آر آئیز کی بازآبادکاری ہو تاکہ خلیجی ممالک سے لوٹنے والے پرامید اپنے وطن لوٹ سکیں۔ تلنگانہ ریاست کی طرح اور ریاستیں بھی اس طرح اقدام کریں تو وطن لوٹنے والے بھروسہ کے ساتھ اپنے ملک واپس آئیں گے۔
knwasif@yahoo.com