ظفر آغا
کیا ہندوستان ایک ’بنانا ریپبلک‘ کے راستے پر گامزن ہے! اس کا قطعی جواب تو ذرا مشکل ہے۔ آخر ہندوستان آج بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ یہاں آزاد عدلیہ ہے، آزاد مقننہ اور آزاد انتظامیہ ہے۔ عوام ہر پانچ سال پرچناو کے ذریعہ حکومت کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک بار جب حکومت برسراقتدار ہوتی ہے تو اس پر نگاہ رکھنے کیلئے آزاد میڈیا سرگرم رہتا ہے۔ لیکن سنہ 2014 میں مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ابھی پچھلے سال تک ہندوستانی پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس نومبر کے دوسرے ہفتے میں شروع ہو جاتا تھا اور دسمبر کے تیسرے ہفتے میں یعنی کرسمس سے ایک روز پہلے ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن اس بار گجرات میں چناو کے سبب یہ اجلاس گجرات چناو کے بعد شروع ہوگا۔ حاکم وقت نریندر مودی کا حکم ہے کہ پارلیمنٹ ان کی مرضی سے چلے گی۔ جب جمہوریت کی علمبردار پارلیمنٹ کا یہ عالم ہو تو آزادانہ طور پر قانون سازی کا کام کتنا جمہوری ہوگا، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح انتظامیہ اب آئین کو نافذ کرنے کے بجائے مودی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ پی ایم او سے جو حکم آتا ہے وہ حرف آخر ہے اور افسران کو سر کے بل کھڑا ہو کر اس کو ہی لاگو کرنا ہوتا ہے۔
اب رہی عدلیہ جو ابھی حال تک ہندوستان میں بالکل آزاد تھی۔ پچھلے ہفتے عدلیہ نے دو حکم ایسے صادر کیے جس کے بعد نظام عدل بھی سوالیہ نشان کے گھیرے میں آ گیا۔ سپریم کورٹ نے ہادیہ کے معاملے میں جو حکم دیا ہے وہ چونکانے والا ہے۔ قاری کو یاد دلا دیا جائے کہ ہادیہ کا معاملہ کیا تھا۔ ہادیہ دراصل کیرالہ کی ایک ہندو لڑکی تھی جس کا نام اکھیلا تھا۔ اس نے ایک مسلم لڑکے سے شادی کر لی اور اسلام قبول کر لیا۔ اس معاملے پر ہندو تنظیموں نے اس کو ’لو جہاد‘ کا معاملہ بنا دیا۔ خود اکھیلا کے والد نے بھی یہ الزام لگایا کہ ان کی بیٹی کو زبردستی مسلمان بنوایا گیا ہے۔ لڑکی اپنے موقف پر قائم رہی، معاملہ کیرالہ ہائی کورٹ گیا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ہادیہ کی مرضی کے خلاف اس کو والدین کے حوالے کر دیا۔ ہادیہ اس معاملے میں سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ آخر سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ وہ خود اس سے پوچھے گی کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے یا نہیں۔ پچھلے ہفتے وہ سپریم کورٹ میں حاضر ہوئی۔ وہاں اس نے چیف جسٹس اور دو ججوں کے سامنے یہ بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
آئین اور ملک کے قانون کے مطابق ایک بالغ شخص اپنا مذہب بدل کر کسی سے بھی شادی کر سکتا ہے۔ یعنی قانون کے مطابق جب ہادیہ نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دے دیا کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے اور اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے تو سپریم کورٹ کو فوراً اس کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس کو اس کی مرضی کیخلاف میڈیکل کالج کے حوالے کر دیا۔ کیا یہ آزاد عدلیہ کو زیب دیتا ہے کہ وہ قانونی طور پر ایک ایسا حکم صادر کرے جو آئین کی رو کے مطابق نہ ہو! کہیں ہندوستانی سپریم کورٹ ملک میں ہندوتوا لہر کے دباو میں تو نہیں ہے! اس کا جواب تو تاریخ دے گی، لیکن ہادیہ کا فیصلہ ایک چونکا دینے والا فیصلہ ہے۔
پھر ابھی ممبئی کی ایک سی بی آئی عدالت نے تو کمال ہی کر دیا۔ اس عدالت میں گجرات کا رسوائے زمانہ سہراب الدین اور کوثر بی انکاونٹر کیس کی سماعت چل رہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی صدر امیت شاہ پر الزام تھا کہ یہ انکاونٹر ان کے اشارے پر ہوا تھا۔ شاہ اس وقت مودی حکومت میں وزیر تھے۔ آخر یہ معاملہ عدالت میں گیا۔ عدالت پر الزام لگا کہ گجرات میں اس معاملے میں انصاف نہیں ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کو گجرات کے باہر ممبئی کی سی بی آئی عدالت کے حوالے کر دیا۔ وہاں جو جج اس کو دیکھ رہے تھے انھوں نے امیت شاہ کی عدالت میں غیر حاضری پر ناراضگی ظاہر کی۔ کچھ ہی دنوں میں مرکز میں مودی حکومت آ گئی۔ راتوں رات اس جج کا تبادلہ ہو گیا۔ اس کی جگہ جسٹس لویا آ گئے۔ انھوں نے بھی امیت شاہ کی غیر حاضری پر سخت اعتراض کیا اور ان کو اگلی تاریخ پر عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
اس حکم کے کچھ دنوں بعد وہ ناگپور ایک شادی میں گئے۔ وہاں رات گئے عجیب و غریب حالات میں جسٹس لویا کا انتقال ہو گیا۔ کہا گیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ لیکن ان کا پوسٹ مارٹم ہوا۔ دل کا دورہ پڑنے سے کسی کا پوسٹ مارٹم ہو یہ آج تک سننے میں نہیں آیا۔ اس سلسلے میں دہلی کی ’کاروان‘ میگزین نے ایک اسٹوری کی جس میں رپورٹر نے جسٹس لویا کی بہن کے حوالے سے الزام لگایا کہ اس معاملے میں جسٹس لویا پر بہت دباو تھا۔ اس کے الزام کے مطابق شاہ نے اس مقدمے کو ختم کرنے کیلئے لویا کوسو کروڑروپے رشوت کی پیشکش کی۔ جب سے یہ خبر سوشل میڈیا اور ’کاروان‘ میگزین میں چلی، بس ہنگامہ بپا ہو گیا۔ لیکن دو تین روز قبل ممبئی سی بی آئی ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کے تعلق سے یہ حکم صادر کر دیا کہ میڈیا اس مقدمے کی کوئی خبر نہیں چھاپ سکتا ہے۔
کیا ہندوستان کوئی تاناشاہی ملک ہے کہ جہاں جو جج چاہے وہ حکم صادر کر دے۔ کیا اب میڈیا کی آزادی بھی خطرے میں ہے! ایک تو یوں ہی میڈیا کتنا آزاد ہے سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔ پھر مختلف ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ سے جسٹس لویا معاملے میں جو شور ہو رہا تھا اب اس پر بھی پابندی لگ گئی۔
مقننہ کو پارلیمنٹ کی فکر نہیں، افسر آئین کے نہیں پی ایم او کے پابند ہیں، عدلیہ کی جو مرضی ہے وہ حکم جاری کر رہی ہے، میڈیا اپنی مرضی سے خبر نہیں چھاپ سکتا ہے، یہ ہے نریندر مودی کا جمہوری ہندوستان۔ اس سلسلے میں کچھ کہنا سننا بے کار ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ خدا ہندوستانی جمہوریت کو محفوظ رکھے!