خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

ضمنی چناؤ …بی جے پی کا دبدبہ برقرار
بارگاہوں سے حکومت کی چاپلوسی

رشیدالدین
اترپردیش اور دیگر تین ریاستوں میں کامیابی کا جشن ابھی تھما نہیں تھا کہ 10 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں 5 نشستوں پر کامیابی نے بھگوا بریگیڈ کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے ۔ 8 ریاستوں کی 10 نشستوں کے نتائج کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں اور آئندہ اسمبلی انتخابات کے رجحانات کا واضح طور پر اشارہ دے رہے ہیں۔ عام طور پر ضمنی انتخابات میں برسر اقتدار پارٹی کو کامیابی ملتی ہے لیکن اگر عوام میں ناراضگی ہو تو اس کا اظہار ضمنی چناؤ کے نتائج سے ہوتا ہے۔ بی جے پی کو پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی لیکن دہلی میں اس نے جس طرح عام آدمی پارٹی کی نشست کو چھین کر اس کی ضمانت کو ضبط کردیا ، اس سے دہلی میں یو پی رجحانات کے اشارے واضح طور پر مل رہے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی جس نے اسمبلی میں 70 کے منجملہ 67 نشستوں پر شاندار کامیابی حاصل کی تھی ، ضمنی چناؤ کی ہزیمت اس کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ 10 نشستوں کے نتائج کا جائزہ لیں تو کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کانگریس اپنی 3 نشستوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اور جھارکھنڈ میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے اپنی نشستوں کو محفوظ رکھا ہے ۔ کرناٹک جس پر بی جے پی کے نظریں ہیں اور جہاں سے وہ جنوبی ہند کے علاقہ میں داخلہ کا خواب دیکھ رہی ہے، وہاں بی جے پی کی لہر دکھائی نہیں دی۔ گزشتہ دنوں سابق چیف منسٹر و گورنر ایس ایم کرشنا کو کانگریس سے بی جے پی میں شامل کرتے ہوئے پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ باوجود اس کے کہ ایس ایم کرشنا کی شمولیت دو حلقوں پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی نشست پر قبضہ اور مغربی بنگال میں ترنمول کے خلاف بائیں بازو اور کانگریس سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا بی جے پی نے جشن کے جواز کیلئے کافی ہے۔ دہلی کا نتیجہ اروند کجریوال کیلئے آئی اوپنر ہے جہاں رائے دہندوں میں عام آدمی پارٹی کو دوسرا مقام تک نہیں دیا بلکہ ضمانت ضبط کردی۔ کانگریس دوسرے نمبر پر رہی ۔ اترپردیش کی انتخابی مہم کی کمان نریندر مودی نے سنبھالی تھی لیکن دہلی اور دیگر ریاستوں میں ضمنی چناؤ مقامی قیادت نے لڑا۔ دہلی کی شرمناک شکست سے کجریوال کی مقبولیت کے دعوؤں کا پول کھل چکا ہے ۔ اگر وہ ہوش کے ناخن نہ لیں اور انداز کارکردگی تبدیل نہ کیا جائے تو میونسپل کارپوریشن دہلی کے چناؤ میں بھی بی جے پی بازی مارلے گی اور افسوس اور رونے سے کیا فائدہ ’’جب چڑیاں چک گئیں کھیت‘‘۔ اگر کجریوال اپنا گھر درست نہ کریں تو پھر ایم سی ڈی کے چناؤ تک ہی یہ معاملہ نہیں رکے گا۔ مجلس بلدیہ پر قبضہ کے بعد عام آدمی میں اندرونی بغاوت اور ارکان اسمبلی کے انحراف کا بھی خطرہ ہے جس کے بعد حکومت از خود غیر مستحکم ہوجائے گی۔ انحراف اور اس کی حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں بی جے پی کی مہارت کا ثبوت حال ہی میں گوا اور منی پور میں مل چکا ہے ۔ دہلی کارپوریشن پر قبضہ کیلئے یوگی ادتیہ ناتھ کو مہم میں اتارنے کی تیاری کی جارہی ہے اور ان کی مہم کا اثر یقینی طور پر پڑے گا۔
اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔ غیر قانونی سلاٹرس کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے بدنام کرنے کی مہم کے بعد اب وہ شریعت اسلامی میں مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوگی نے وزراء اور عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر مسلم خواتین کی رائے حاصل کریں تاکہ حکومت اترپردیش کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کیا جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اترپردیش کی حکومت سپریم کورٹ میں زیر دوران مقدمہ میں فریق ہے؟ پھر کس طرح وہ سپریم کورٹ میں مسلم خواتین کی رائے پیش کرسکتی ہے۔ ادتیہ ناتھ دراصل شریعت اسلامی کے اہم امور میں مسلم خواتین کے نام پر سنگھ پریوار کی رائے شامل کرنا چاہتے ہیں۔ مرکز کی جانب سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کیا گیا اور طلاق ثلاثہ کو دستور کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو آخر کس نے یہ مشورہ دیا کہ وہ اس مسئلہ پر سپریم کورٹ سے رجوع ہوں ۔ انہیں اچانک مسلم خواتین سے ہمدردی کیوں پیدا ہوگئی جبکہ اقتدار سے قبل انہوں نے لو جہاد کے نام پر مسلم خواتین کے بارے میں جو ریمارکس کئے تھے ، وہ آج بھی عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ خواتین سے ہمدردی اور یوگی ادتیہ ناتھ یہ دونوں کبھی یکجا نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ خواتین کے مسائل اور ان کی تکالیف کا احساس اسی شخص کو ہوسکتا ہے جس نے گھر گرہستی کو نبھایا ہو۔ جس شخص نے کبھی اپنا گھر ہی نہ  بسایا وہ کس طرح خواتین کے مسائل سے واقف ہوگا۔ جہاں تک طلاق کا مسئلہ ہے ، کئی سروے اس بات کے شاہد ہیں کہ مسلمانوں سے زیادہ طلاق کی شرح غیر مسلموں میں دیکھی گئی ہے۔

یوگی ادتیہ ناتھ نے چیف منسٹر بننے کے بعد اپنی مخالف مسلم شبیہہ سدھارنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے، جس پر انہیں جارحانہ فرقہ پرست عناصر کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ یوگی مسلمانوں سے لاکھ ہمدردی کرلیں لیکن ان کے نظریات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اقتدار سنبھالتے ہی اترپردیش میں جس طرح عدم رواداری کے واقعات میں اضافہ ہوگیا اور زعفرانی بریگیڈ کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ یہ تنظیمیں کسی نہ کسی عنوان پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے شہری اور دیہی علاقوں میں بے لگام گھوم رہی ہیں۔ خود ادتیہ ناتھ کی قائم کردہ تنظیم کے کارکنوں کو مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے دیکھا گیا۔ دیہی علاقوں میں مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ عدم رواداری کی صورتحال اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کے سر کیلئے 11 لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان کیا گیا ۔ اس سے قبل بھی دیگر قائدین کیلئے اسی طرح کے اعلانات کئے گئے تھے لیکن نریندر مودی حکومت اور بی جے پی نے اپنے قائدین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ صرف بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرلینا کافی نہیں ہے ۔ ملک میں ایک طرف سنگھ پریوار کی سرگرمیاں عروج پر ہیں تو دوسری طرف بعض ناعاقبت اندیش افراد جنہیں اقتدار کی چاپلوسی ہمیشہ عزیز رہی وہ بڑی بارگاہوں میں بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں۔ گنبد اقتدار کے یہ کبوتر جب بھی موقع ملتا ہے اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر آوازیں کرنے لگتے ہیں۔ اجمیر کے دیوان نے عرس کے عین موقع پر ملک بھر میں طلاق ثلاثہ اور ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کی دلآزاری کی ہے۔ دیوان اجمیر کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے ، اس سے قبل بھی وہ بی جے پی کے حق میں بیان بازی کرچکے ہیں، وہ اڈوانی کی رتھ یاترا میں بھی شریک رہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جس عظیم بارگاہ سے اپنی نسبت کا اظہار کر رہے ہیں، اسی بارگاہ کی توہین پر مصر ہیں۔ ہندوستان اور ذیلی براعظم میں جن کے سبب اسلام پھیلا اور توحید کے ڈنکے بج رہے ہیں، آج وہیں سے حلال کو حرام قرار دینے کا مطالبہ شرمناک ہے ۔ اگر ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمان بھی یہ مطالبہ کریں تو حلال کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابھی دیوان اجمیر کا تنازعہ جاری تھا کہ ایک اور خادم نے اسی بارگاہ میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے صدر جمہوریہ ہند کے عہدہ پر فائز کئے جانے کیلئے خصوصی دعاء کا اہتمام کیا۔ دعا سے ایک دن قبل ہی بھاگوت نے ذبیحہ گاؤ پر ملک بھر میں پابندی عائد کرنے کا مطالبہ عائد کیا تھا ۔ قابل احترام بارگاہوں میں بھگوت کی مداح سرائی کرنے والے ناگپور ہیڈکوارٹر منتقل کیوں نہیں ہوجاتے ؟ کم از کم بزرگان دین کی بارگاہوں کا تقدس باقی رہ جائے گا۔ عظیم بارگاہوں میں پناہ لئے ہوئے حکومت کے ان ایجنٹس کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر حکومت نے کئی نام نہاد مسلم خاتون دانشوروں کو میدان میں اتاردیا ہے۔ ملک میں دوسرے دستوری عہدہ پر فائز شخصیت کی شریک حیات ان دنوں ملک میں گھوم کر شریعت کے خلاف بیان بازی کر رہی ہیں۔ قرآن اور حدیث کی اپنی طور پر تشریح کرتے ہوئے یہ ہائی فائی خاتون دراصل سنگھ پریوار کی خدمت پر فائز نظر آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خاتون نے کبھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا کہ جس کی بنیاد پر مخالف شریعت بیانات قرآن کے حوالے سے دینے کی جرات کی گئی ہے۔ سابق میں ذاکر حسین ، فخرالدین علی احمد اور جسٹس ہدایت اللہ جیسی شخصیتوں کے دور میں کبھی اس طرح کی دلآزاری نہیں ہوئی تھی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ان سرگرمیوں پر مسلم جماعتوں اور تنظیموں میں سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ ملک کی مسلم جماعتیں اپنی شناخت ہونے لگی ہے اور نئی نسل مسلم تنظیموں کے نام سے بھی واقف نہیں۔ ایک طرف شریعت میں مداخلت اور دوسری طرف ذبیحہ گاؤ کے نام پر مظالم میں اضافہ ہوچکا ہے لیکن کسی جانب سے مزاحمت یا قانونی کارروائی کی کوئی جرات نہیں کی گئی۔ علامہ اقبال نے شاید اسی دن کیلئے یہ شاعر کہا تھا   ؎
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری