غضنفر علی خان
ازل ہی سے ایسے دردناک حالات اقوام کو دیکھنے پڑے ، حد تو یہ ہوئی کہ ایک انتہائی پسماندہ ملک کے لاکھوں انسانوں کو جان و مال کی بھاری قربانی بھی دینی پڑی جو المناک داستاں بن گئی لیکن اسباب و علل مختلف رہے، اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ عرب ملک شام میں خون ریزی ، آسمان سے برسائے جانے والے بم اور منیوال زمین پر ہے کسی اور بے سر و سامانی کے عالم میں وہاں روہنگیائی مسلم اپنی جان بچانے کیلئے بنگلہ دیش کی طرف حسرت و یاس لیکن حالات کے بہتر ہونے کی صورت میں پھر سابق برما اور موجودہ مائنمار واپس ہونے اور وہیں پر امن فضاء میں سانس لینے دوبارہ آباد ہونے اپنی ذات کو قدرت کے سپرد کرنے والے ان روہنگیائی مسلمان ایک نئی زندگی شروع کرنے کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن یہاں بھی انہیں ناپسندیدہ افراد قرار دیا گیا ۔ اللہ کی وسیع و عریض سرزمین انہیں ابتدائی مراحل ان کیلئے سارے راستے ختم ہوگئے اوراس زمین پر از سر نو آباد ہونے کی امید بھی ختم ہوگئی۔ زیر آسمان معصوم بچے بوڑھے اور جوان نسل دنیا سے فریاد کرتے رہے۔ یہاں (بنگلہ دیش) میں بھی انہیں مہاجراور غیر بنگلہ دیشی قرار دیا گیا ۔ اپنے وطن میں پھر آباد ہونے کی امید تھی ، وہ بھی ختم ہوگئی، کے تقریباً تمام ممالک نے سوائے بیان بازی اور دل آزار قسم کی بیان بازی کے کچھ نہیں کہا۔ آسمان کا چھت اور زمین کی وسعت نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا ، وہ یہی سمجھتے رہے کہ اُن ہندوستان اور برما ان کی مدد کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، ان کے لئے حالات بدستور ناخوشگوار ہی رہے ۔ پناہ گزین ہی قرار دیئے گئے ۔ مودی حکومت کے عہدیداروں ، سرمایہ داروں نے کہا کہ یہ روہنگیا مسلمان ہندوستان کی سیکوریٹی کیلئے خطرہ ثابت ہوں گے ۔ اب یہ کوئی سمجھ دار صاحب عقل کیسے ماننے والا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں مختلف قریبی ممالک کے یہ تہی دامن ظلم و ستم سہنے والے مسلمان کسی تربیت کے بغیر ہماری سیکوریٹی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ بھوک پیاس اور اپنی جان کی حفاظ کیلئے اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور کئے جانے والے ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک پر حملہ کرسکتے ہیں۔ وہ تو بیچارے صرف آسرا مانگ رہے تھے ۔ یوں ہندوستان نے جو احترام آدم کے نامور ممالک میں شامل تھا ، اس میں انسانی ہمدردی اب ماضی کی داستان بن گیا ہے ۔ روہنگیا کے مسلمان اب آئندہ کسی ظلم کو برداشت کرسکیں گے ۔ اس بے سر و سامانی میں ان کو تو صرف اپنے رب کی رحمت اور بازآبادکاری کی ایک جھلک کا انتظار تھا ۔ خدا خدا کر کے اس ہفتہ میں اقوام متحدہ کی ریڈ کراس سوسائٹی کے صدر کا یہ بیان یا اقرارنامہ منظر عام پر آیا جس میں انہوںنے یہ کہا کہ روہنگیا کے مسلمان کو صرف روٹی کپڑا اور سائباں اور مل جائے تو لاکھوں بے گھر ہوئے ، یہ روہنگیائی مسلمانوں کو بڑی راحت ملے گی۔ روہنگیائیوں کی افتاد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’روہنگیا کے بحران کو ختم کرنے کیلئے انسانی ہمدردی ناکافی ہے بلکہ ان کے مسئلہ کی یکسوئی کیلئے کوئی سیاسی حل عالمی سطح پر تمام ممالک کا کسی فارمولے کے ذریعہ نکالا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک سنجیدہ تجویز ہے لیکن کیا اس عالمی برادری بشمول مسلم ممالک اور تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے تعاون سے ہوسکتا ہے کبھی بھی کسی ایسے انتہائی پیچیدہ مسئلہ پر مسلم ممالک اور بعض صورتوں میں امیر و کبیر مسلمان یا ان عرب ممالک کی قیادت نے ہی قدم اٹھایا ہے۔ اس لئے صرف امداد اور ہمدردی کی بات کو عملی شکل دینے کیلئے نہ صرف دیگر ممالک کو فارمولہ تیار کرنا چاہئے ۔ اس وقت ریڈ کراس سوسائٹی کے حساس عہدیدار نے گویا سائرن بجایا ہے ، اس پر عمل کیا جانا چاہئے ۔ ان کی پوری طرح سے بازآبادکاری میں اس ایک بیان سے عالمی رائے کو بھی اپنی صلاح پر عمل پیرا ہونا چاہئے ۔ انہوں نے مائنمار کے مسلمانوں کے آلام اپنی آنکھوں سے دیکھے اور ان اجڑی ہوئی آبادیوں کو بھی دیکھا جہاں اب مائنمار کی فوجی کارروائی نے کتنی جانوں کو پیوند زمین کردیا گیا۔ جلی ہوئی مساجد بھی دیکھی ہیں۔ اس کا ہر وقت برما کی حکومت انکار کرتی رہی ۔ مائنمار میں جو ظلم زیادتی ہوئی ، وہاں کے مسلمانوں کیلئے یہ فوجی کارروائی محض اس لئے کی تھی کہ آج بھی سلسلہ جاری ہے کہ فوج کو اعتماد میں لیا جاسکے ورنہ چند گھنٹوںمیں اس حکومت کو بھی فوج اقتدار پر سے ہٹادے گی ۔ یہ سمجھ لینا کہ وہاں کی موجودہ حکومت اور فوج کے درمیان خاموش جنگ جاری ہے اور وہاں کسی بھی وقت فوج اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ مسلمان اس کشمکش کے خاموش تماشائی بنے رہے ۔ غریب وطن سے محروم یہ لاکھوں مسلمان اسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان پر رحم کرے گا ۔ قدرت ہی سے ایسی امیدکی جا سکتی ہے جو پریشان حال مسلمانوں کی آہ و بکا ان کی مکمل بربادی اور ان پر ہونے والے ظلم و استبداد کی یہ داستان سنے گی اور احتجاجی مظاہرے اس مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ اب تو صرف دنیا کے ہر شخص کو ان مسلمانوں کی تائید کرنی چاہئے۔