مسلم معاشرہ میں امانت و دیانت کی حفاطت پر زور، بیدر میں تربیتی و اصلاحی اجتماع سے جناب اقبال لدین انجینئر کا خطاب
بیدر۔11؍ستمبر۔(سیاست ڈسٹرکٹ نیوز)۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے جو معمولات واضح طور پر متعین کردئے ان کی پابندی ہر دور میں ہر امتی کیلئے ضروری ہے۔آپؐ کے کردار کا ایک نمایاں پہلو دیانت و امانت ہے۔ اسی لئے آپؐ کی قوم آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکار تی تھیں۔ دیانت او اما نت ایک ایسی اعلیٰ صفت ہے جس کو اللہ کبھی ضائع نہیںکرتا۔ اسی لئے مسلم معاشرہ کوچاہیئے کہ باریک بینی سے دیانت و امانت کی حفاظت کرے، تب ہی اللہ کی نصرت و تائیدحاصل ہوتی ہے۔ ان خٰیالات کا اظہار اقبال الدین انجنئیر نے تربیتی و اصلاحی اجتماعی مسجد اعظم ،نزد دلہن دروازہ بیدر سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔حضورؐ نے فرمایا ہیکہ اس شخص کا ایمان معتبر نہیں جس کے اندر امانت و دیانت نہیں ۔ایمان سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں اور بد دیانتی ایمان کی نفی کرتی ہے۔حضورؐ ایک ایسے دین کے مدعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا وآخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا۔ حضورؐ نے جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید کی ہے ۔اور فرمایا ہے کہ جب جانور ذبح کیا جائے تو چھری تیز کرلی جائے ،تاکہ جلد ذبح کا عمل ہو اور جانور زیادہ دیر تک تڑپتا نہ رہے۔ زمانہ بدلتا رہتاہے لیکن اسلام ہر دور میں قابل عمل رہنما دین کی حیثیت رکھتاہے۔ قرآن ہمارے لئے نصیحت ہے جس سے ہماری ذہنی و روحانی ارتقاء کا سامان مہیا ہوتاہے۔ حضورؐ نے صحابہ ؓ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہیکہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں۔ ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے تم ہدایت پر رہوگے ۔انہوں نے بتایا کہ آج ضرورت ہے حضورؐ کے تعلیمات پر عملی زندگی میں اپنانے کی تب ہی یہ دنیا پھر سے امن و اتحاد اور انصاف کا گہوارہ بن جائے گی۔ حضورؐ قرآنی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے اور آپؐ اکثر یہ دعاکرتے رہتے تھے کہ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتاہوں پریشانیوں سے ،رنج و غم سے ،درماندگی سے ،سستی کاہلی سے ،قرض کے بوجھ سے اور برے لوگوں کے غلبہ و تسلط سے ۔اقبال الدین نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ایک میٹھابول اور کسی ناگوار بات پر ذراسی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔دکھ کا ایک سبب عدم و اقفیت جہالت اور بے خبری ہے۔ اور ایک سبب زندگی کے مقصد کو بھول جانا بھی ہے۔ حسد ،حرص ،خواہشات نفس بھی دکھ میں مبتلا کردیتی ہیں۔ گداگروں کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ جب وہ اللہ کے پاس آئے گا تو اس کے چہرے پر ایک بوٹی بھی گوشت کی نہیں ہوگی۔ گداگری کی کثرت غلط سماجی نظام کی علامت ہے ۔سارے انبیاء توحید کے علمبردار بن کر آئے گویاتو حید اصل پیغام ہے۔ اس پر چلنے کا طریقہ رسالت اور انجام آخرت ہے۔ اسلام میں کسی شخص کو بھی بلند مرتبہ نہ سمجھیںجب تک کہ اس کی عقل کو نہ پہنچان لیں۔ کیونکہ عقل و ذہانت کا تقاضہ ہیکہ قرآن پر غور و فکر کریں۔موصوف نے بتایا کہ حج دراصل لاکھوں مصلحتوں اور حکمتوں پر محیط ہے۔ حقیقت حج تک اللہ کے علاوہ کسی شخص کے خیال کی رسائی بھی ممکن نہیں ہے۔ حج اپنی روح کو اللہ کے عشق اور محبت میں رنگنے کا نام ہے۔ موصوف نے خانہ کعبہ کی دینی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتا یا کہ سورہ آل عمران 92میں ہے کہ بلا شبہ سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانون کیلئے تعمیر ہوئی ہے وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، اور اس کو خیر و برکت دی گئی ہے اور تمام جہاں والوں کیلئے مرکز ہدایت بنایاگیا ہے۔ اور حضرت ابراہیم ؑکی دعا کی وجہ سے خانہ کعبہ ہمیشہ سے دینی اور دنیوی برکتوں کا مرکز بناہوا ہے ۔اور اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ نے اس گھر کو عظمت و حرمت سے نوازا ہے ۔ توحید پر یقین اور نماز کا قیام پورے دین کا نچوڑ ہے۔ اسی لئے خانہ کعبہ کی تعمیر انہی دو اہم ترین امور دین کو انجام دینے کیلئے ہوئی ہے۔ مومن کو یہیں سے توحیدکی غذاملتی ہے اور اسی کو وہ اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں قبلہ بناتاہے خانہ کعبہ کو امن عالم کا مرکز بنایا گیا تاکہ پوری انسانیت متحد اور متفق ہوسکے۔ سورہ بقرہ 125میں اللہ نے معماران کعبہ کو اس طرح وصیت کی ہے ’’اور ہم نے ابراہیم ؑاور اسمٰعیل ؑکو وصیت کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع وسجودکرنے والوں کیلئے پاک رکھو۔تعمیرکعبہ کا مقصد یہ ہیکہ اللہ نے ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ لوگوں کو یہ اذن عام دے دو کہ وہ اس پاک گھر کا حج کریں اور یہاں جمع ہوکر توحیدکے نعروں سے اپنے دلوں کو گرمائیں اور یہ پیغام لیکر زمین کے چپے چپے میں پہنچیں ۔ موصوف نے یوم عرفہ کو تکمیل دین اور اتمام نعمت کا دن کہا۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتاہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا۔ ہمارا مقصد حیات اطاعت الہی ہے جس کیلئے قربانی ضروری ہے۔ اللہ قربانی سے جانوروں کا خون یا گوشت دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتاہے۔ کیونکہ سورہ مائدہ ۲۷میں ارشاد ربانی ہے۔ اللہ تو متقیوں کی قربانی قبول کرتاہے اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دینے کا نام قربانی ہے۔ قربانی دراصل ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔