کے این واصف
ریاض کا انڈین اسکول ایک بارپھر اخبار کی سرخیوں میں آگیا جب پیر کی رات انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض کے تین ٹیچرز کو پولیس نے گھر پر ٹیوشن کلاسس چلانے کی پاداش میں گرفتار کرلیا ۔ واضح رہے کہ مقامی قوانین کے مطابق یہاں خانگی ٹیوشن کلاس چلانا ممنوع ہے ۔ بلکہ کسی بھی خارجی باشندے کا اپنی ملازمت کے سوا کوئی جزوقتی کام کرنا بھی غیرقانونی عمل شمار ہوتا ہے ۔ لہذا اسکول ٹیچرز کا خانگی طورپر ٹیوشن کلاس چلانا بھی غیرقانونی قرار پاتا ہے ۔ ٹیوشن پڑھاتے ہوئے پکڑے جانے والے ان ٹیچرز میں انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض کے تین ٹیچرز محبوب پاشا ( ریاست کرناٹک) ، رفاعی (تاملناڈو ) اور توحید احمد صدیقی (یوپی) شامل تھے۔ چوتھا ریاست کیرالا کا لیو نامی شخص جو کسی بینک کا ملازم بتایا گیا بھی گرفتارشدگان میں شامل تھا۔ اسکول انتظامیہ نے فوری طورپر حرکت میں آتے ہوئے ان ٹیچرز کو رہا کروالیا ۔
اسکول انتظامیہ کمیٹی کے وائس چیرمین روجی میتھوز نے سیاست نیوز کو بتایا کہ ان ٹیچرز کو انتظامیہ کی جانب سے سخت انتباہ دیا گیا کہ وہ آئندہ کبھی کسی بھی قسم کی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں ، ورنہ اسکول آئندہ ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا ۔ میتھوز نے بتایا کہ متذکرہ ٹیچرز اسکول میں اپنی خدمات جاری رکھیں گے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں میتھوز نے کہا کہ اگلے ہفتہ اسکول انتظامی کمیٹی کی میٹنگ میں یہ بات طئے کی جائیگی کہ خانگی ٹیوشن کا سلسلہ بند کئے جانے کے بعد کمزور طلباء کی مدد کیلئے کیا کیا جائے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر والدین کو اس بات کی شکایت تھی کہ اسکول کے ٹیچرز اپنی خانگی کلاسس کے کاروبار کو چلانے کی خاطر اسکول میں اپنے مضامین پوری دلچسپی سے نہیں پڑھاتے ۔ کمزور طلباء پر توجہ نہیں دیتے اور طلباء کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ٹیوشن کلاس میں شریک ہوں، جس کیلئے وہ اچھی خاصی فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ والدین سوشیل میڈیا پر اس کی شکایت برسوں سے کررہے تھے اور اسکول انتظامیہ پر زور دے رہے تھے کہ وہ خانگی ٹیوشن کے سلسلہ پر روک لگائے۔
جہاں کمیونٹی کا ایک طبقہ خانگی ٹیوشن کے خلاف ہے وہیں والدین کی ایک بڑی تعداد اس کو ضروری مانتی ہے ۔ ہم نے اس سلسلے میں کچھ لوگوں سے بات بھی کی ۔ جو لوگ خانگی ٹیوشن کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسکول میں Maths اور سائنس ٹیچرز پوری دلچسپی سے نہیں پڑھاتے ۔ کمزور بچے جو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے ٹیچر سے سوال کرنے پر انھیں نظرانداز کردیتے ہیں یا کلاس میں ان کی تضحیک کرتے ہیں ۔ جبکہ کلاس میں پڑھائے گئے سبق پر بچوں کو پوری طرح مطمئن کرنا ان کا فرض ہے ۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ ٹیچرز کلاس میں اسباق کو پوری دلچسپی کے ساتھ اچھی طرح پڑھائیں اور تمام بچوں کو مطمئن کریں تو پھر ٹیوشن کلاس جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ادھر ٹیچرز کا یہ ادعا ہے کہ ایک کلاس میں 35 تا 40 طلباء ہوتے ہیں ۔ 40 منٹ کی کلاس میں ٹیچر کیلئے یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ ہر بچہ پر توجہ دے اور ہر بچہ کے سوال کا جواب دے ۔ خانگی ٹیوشن کلاس کی مخالفت کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں رہنے والوں کی اکثریت اپنے بچوں کی اسکول فیس اور پڑھائی کے دیگر اخراجات بڑی مشکل سے ادا کرپاتے ہیں تو وہ لوگ خانگی ٹیوشن کی فیس کس طرح ادا کرپائیں گے ۔ جبکہ یہ خانگی ٹیوشن پڑھانے والے ایک مضمون پڑھانے کی فیس اسکول کی جملہ فیس سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔
لیکن جو لوگ خانگی ٹیوشن کے حق میں ہیں ان کا کہنا یہ ہیکہ آج کل بڑی کلاسس کا نصاب خصوصاً Maths اور سائنس کا والدین کی جانب سے بچوں کو گھر پر پڑھانا یا ان اسباق کے سمجھنے میں ان کی مدد یا رہنمائی کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ لہذا Maths اور سائنس کے مضامین میں بچہ کمزور ہے تو ان کے والدین کے پاس ٹیوشن کلاس میں داخل کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ یا اکثر والدین اپنے بچوں کو مصروفیت کی بنا پر مستقل بنیاد پر گھر پر پڑھانے کیلئے وقت نہیں دے پاتے ۔ ایسے بچوں کیلئے ٹیوشن کلاس جانا ضروری ہوتا ہے ۔ اس طرح اب کمزور کی مدد کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ اسکول انتظامیہ سعودی وزارت تعلیم سے اجازت حاصل کرکے اسکول اوقات کے بعد اسپیشل کلاسس کا اہتمام کرے تاکہ کمزور بچوں کی مدد ہو اور اسکول کے مجموعی نتائج پر بھی اثر نہ پڑے ۔ ویسے بھی یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے ہندوستان کے مسابقتی امتحانات میں اپنے جوہر نہیں دکھاپاتے جو ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے دکھاسکتے ہیں۔ لہذا یہاں بچوں پر خصوصی توجہ ضروری ہے ۔
حنیف ترین کی وداعی تقریب
معروف شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر حنیف ترین مملکت سعودی عرب میں اپنی 33 سالہ خدمات سے سبکدوش ہوکر وطن واپس جارہے ہیں۔ دکن کلچرل اسوسی ایشن ریاض اور سماجی کارکن سید اکرم محی الدین نے مشترکہ طورپر ہفتہ کی شب ڈاکٹر حنیف ترین کی الوداعی تقریب کا اہتمام کیا۔ جس میں شعراء ، ادباء اور سماجی تنظیموں کے اراکین نے شرکت کی ۔ ابتداء میں دکن کلچرل اسوسی ایشن کے چیرمین اے اے شمیم خاں نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ڈاکٹر حنیف ترین کی ادبی خدمات کو سراہا ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کمیونٹی کی ایک متحرک اور پرخلوص شخصیت سے محروم ہورہے ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ وہ اب غم روزگار کی جھنجھٹوں سے فراغت پاکر وطن واپس جارہے ہیں اور اب وہ ہمہ وقتی طورپر ادبی خدمات اور اردو کی ترقی و ترویج کی سرگرمیوں سے منسلک ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر حنیف ترین نے اس موقع پر محفل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی مقبولیت میں کمی اور تنزلی کے اسباب میں ایک اہم وجہ اردو والوں کی معاشی بدحالی ہے ۔ وہ بیک وقت کئی محاذوں پر اپنی بقاء کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ بہت سے اردو والے اپنی عین خواہش کے باوجود اردو اخبار ، رسائل اور کتابیں خرید نہیں سکتے ۔ انھوں نے کہا کہ اب اردو ذریعہ تعلیم صرف دینی مدارس یا چند غیرمعیاری اسکولز میں باقی رہ گئی ہے جہاں سے فارغ طلباء بہت کم اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمتیں حاصل کرپاتے ہیں۔حنیف ترین نے متمول اور رب العزت کی جانب سے نوازے ہوئے اہل اردو پر زور دیا کہ وہ اردو کی ترقی اور بقاء میں اپنی انفرادی حصہ داری نبھائیں یا ان افراد اور انجمنوں کی مدد کریں جو اردو زبان کی ترقی و بقاء میں سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹر حنیف ترین برسوں سے یہاں ایک ادبی انجمن ’’رباب صحرا‘‘ کے روح رواں اور صدر رہے ۔ انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں یہ اعلان کیا کہ مولانا محمد مسلم اس ادبی انجمن کے صدر ہوں گے ۔ انھوں نے اپنے دیگر ساتھیوں اور معاونین خورشیدالحسن نیرؔ ، شکیل ماہ ، ڈاکٹر اشرف علی ، جاوید علی ، سید اکرم ، محمد رفیق ، حافظ عبدالعلیم ، محمد عبدالسبحان ، میر محسن علی اور خصوصی طورپر روزنامہ اردو نیوز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جن کا تعاون ان کی ادبی انجمن رباب صحرا کو حاصل رہا۔
اس موقع پر دکن کلچرل اسوسی ایشن کے چیرمین شمیم خاں ، صدر محمد ضیاء الرحمن اور سید اکرم محی الدین نے ڈاکٹر حنیف ترین کو یادگاری تحفے پیش کئے اور ان کی شال پوشی کرتے ہوئے انھیں تہنیت پیش کی ۔ میر لیاقت علی ہاشمی جنرل سکریٹری تنظیم ہم ہندوستانی اور ڈاکٹر سعید محی الدین نے بھی ڈاکٹر حنیف ترین کو تہنیت پیش کی ۔
اس موقع پر ادبی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔ جاوید علی نے اپنا مزاحیہ مضمون ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘‘ اور خواجہ نجیب الدین نے حنیف ترین کی شاعری پر ایک مضمون پیش کیا جس کے بعد ڈاکٹر حنیف ترین ، شاہد خیالوی ، سعید اختر فلاحی ، حشمت صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔ آخر میں سید اکرم محی الدین کے ہدیۂ تشکر پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا ۔
knwasif@yahoo.com