خانگی انجنیئرنگ کالجوں کی مسلمہ حیثیت کی تجدید کا مسئلہ

بودھن ۔ /3 ستمبر (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) اس سال جواہر لعل نہرو ٹکنالوجی یونیورسٹی حیدرآباد کے سخت گیر رویے کے باعث علاقہ تلنگانہ میں قائم تقریباً 174 انجنیئرنگ کالج کی مسلمہ حیثیت کی تجدید نہ ہوسکی جس کے باعث ہزاروں طلبہ کا ایک سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے ۔ ان 174 کالجس کی فہرست میں تقریباً 41 مسلم میناریٹی کالجس بھی شامل ہے ۔ ان کالجس میں داخلہ کیلئے دوسرے مرحلے کی ایس ڈبلیو یو کی کونسلنگ ہوتی ہے جس کا اختتام ہوچکا ۔ اس مرتبہ عثمانیہ یونیورسٹی کے ملحقہ اقلیتی انجنیئرنگ کالجس کے علاوہ JNTU کے دو مسلم میناریٹی کالجس کو ہی SWII کی کونسلنگ میں شامل کیا گیا ۔ ریاستی حکومت کے سخت گیر رویہ کے باعث اس سال سینکڑوں مسلم میناریٹی طلبہ کا ایک سال ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ بعض انجنیئرنگ کالجس کی جانب سے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا جہاں کالجس انتظامیہ کو ناکامی حاصل ہوئی ۔ ذرائع کے بموجب مسلم زیر انتظام کالجس کے بعض سربراہوں نے اس معاملہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

توقع ہے کہ ایک چار رکنی وفد آج شام دہلی روانہ ہوگا اور جمعہ کے روز اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں پیش کرے گا ۔ اگر عدالت عظمی کالجس انتظامیہ کے حق میں مشروط فیصلہ سناتی ہے تو سینکڑوں مسلم طلبہ کا قیمتی ایک سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا ۔ مسلم میناریٹی کوٹہ کے تحت انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند سینکڑوں طلبہ کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ساتھ ہی ساتھ نو تشکیل ٹی آر ایس کی حکومت کے ہاتھوں میں ہے اگر تلنگانہ حکومت مسلم کالجس انتظامیہ کی طرف سے پیش کردہ رٹ پٹشن کی سپریم کورٹ میں مخالفت کرے گی تو ناصرف مسلم طلبہ بلکہ علاقہ تلنگانہ میں قائم مسلم انجنیئرنگ کالجس کو بھی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا ۔