خانقاہی نظام کی دین ۔ حکمت اور بصیرت

ڈاکٹر سید بشیر احمد

انسانی جبلت کا تقاضہ ہے کہ وہ نگرانکار کی موجودگی میں غلطیوں کے ارتکاب سے دور رہتا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ امتحان ہال میں نگرانکار کی موجودگی میں طلبہ نقل نویسی سے حد درجہ احتیاط کرتے ہیں ۔ شاہراہوں پر گزرتے ہوئے عوام پولیس کی موجودگی کی وجہ سے بے قاعدگیوں سے احتیاط برتتے ہیں۔ بچے اگر والدین کے قرب میں رہتے ہوئے حتی الامکان خود کو سنبھالے ہوئے رہتے ہیں ۔

خانقاہی نظام میں ہمہ وقتی طور پر حق سے قربت کے تصور ہی سے انسان بے شمار غلطیوں کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے ۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کی حقیقت ہے کہ وہ عوام کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کیلئے رات میں شہر کا گشت کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں آپؓ کے گشت کے دوران کسی خاتون کی آواز آرہی تھی’’ بیٹا رات کا وقت ہے دودھ میں پانی ملادے۔ اس وقت تو خلیفہ وقت کو بھی اس حرکت کا پتہ تک نہیں چل سکے گا ‘‘ ۔ لڑکی نے جواباً کہا کہ ’’ اماں جان ! خلیفہ وقت تو نہ دیکھ پائیں گے مگر خداوند قدوس تو دیکھ رہا ہے ‘‘ ۔ حضرت عمرؓ لڑکی کے جواب سے بیحد مسرور ہوئے اور بعد میں اپنے لڑکے سے اس لڑکی کا عقد کیا ۔ خانقاہی نظام کے ذریعہ آدمی ہمہ وقتی طور پر حق کو موجود پاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں حکمت اور بصیرت پیدا ہوتی ہے ۔

حضرت ابراہیم ادھمؒ بادشاہ تھے ‘ جب انسان پر خداوند کریم کی جب کرم فرمائی ہوئی ہے تو وہ اس کی آنکھوں پر پڑے غفلت کے پردے اٹھا دیتا ہے ۔ حضرت ابراہیم ادھمؒ کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ ایک باروہ شاہی محل میں محو استراحت تھے۔ آپؒ نے محسوس کیا کہ شاہی محفل کی چھت پر کافی گڑبڑ ہورہی ہے ۔آپ نے آواز دی اور دریافت کیا گڑبڑ کرنے والے لوگ ’’کون ہیں‘‘ جواب میں بادشاہ نے سناکہ وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اپنا گمشدہ اونٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔ بادشاہ نے خفگی کے ساتھ کہا کہ شاہی محفل کی چھت پر اونٹ کا ڈھونڈنا بے وقوفی کی علامت ہے ۔ جواب آیا کہ شاہی محل میں استراحت کرتے ہوئے کیا حق کو پانے کی خواہش رکھنا کیا مناسب ہے۔‘‘ اس جواب کے حاصل ہوتے ہی ابراہیم ادھمؒ کی دنیا ہی بدل گئی ۔ انہوں نے بادشاہت اور محل وغیرہ کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے۔ ایک عرصہ بعد وہ کسی نہر کے کنارے بیٹھے اپنی پھٹی پوشاک سی رہے تھے کہ اس ریاست کے ایک امیر کا گذر اُدھر سے ہوا ۔ اس نے ان کو سلام عرض کیا اور کہا ’’ اچھی خاصی بادشاہت کو چھوڑ کر آپ کو اس فقیری سے کیا حاصل ہورہا ہے ‘‘ ؟ ۔ آپؒ نے سوئی نہر میں پھینک دی اور مچھلیوں کو حکم دیا کہ وہ سوئی لے آئیں ‘ تعمیل حکم میں مچھلیوں نے وہ سوئی بادشاہ کو پیش کردی۔آپ نے مسکراکر امیر کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’ کیا وہ بادشاہت اچھی تھی یا یہ ‘‘ ؟ ۔
خانقاہی نظام سے منسلک ہوکر جب ایک آدمی ہمہ وقتی طور پر یاد الٰہی میں مصروف ہوجاتاہے تو اس پر حکمت اور بصیرت کے دریچے وا ہونے لگتے ہیں ۔ غیب کی باتوں کا اس کو علم ہوتاہے اور وہ ذکر الٰہی میں مشغول ہوتا ہے ۔حضرت فخر الدین رازیؒ‘ حضرت شیخ نجم الدین کبریؒکے ہمعصر بزرگ تھے اور حضرت نجم الدین کبریٰ سے بیحد عقیدت رکھتے تھے ‘گو وہ ان کے دامن گرفتہ نہیں تھے ۔ایک عرصہ بعد حضرت رازی پر سکرات کا عالم طاری ہوا ‘ شیطان ملعون ان کے پاس آیا اور توحید کے تعلق سے استفسار کرنے لگا ۔آپؒ نے 99(ننانوے) دلائل وحدانیت کے تعلق سے پیش کئے لیکن شیطان ہر دلیل کی نفی کرتا گیا۔ وقت نزع اوریہ حالت‘ حضرت نجم الدینؒ وضو بنارہے تھے ‘ آپ پر یہ واردات منکشف ہوئی ۔ آپ نے تھوڑا سا پانی جو ہاتھ میں رہ گیا تھا ‘ زمین پر پھینکا اور فرمایا ’’کہہ دو بغیر کسی دلیل کے میں اللہ کو ایک مانتا ہوں‘‘ ۔ شیطان مردود نامراد واپس ہوا ۔ یہ ہے بصیرت اورحکمت ۔ اس طرح اللہ والوں سے نسبت رکھنے پر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھتا ہے۔

حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب حیدرآباد کے جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں ۔ ایک بار ایک صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی خواہش کا اظہار کیا ۔ حضرت نے ان سے ہاتھ بڑھانے کیلئے کہا ۔ ان صاحب نے عرض کیا کہ وہ شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہیں‘ اس لئے ان کو شراب نوشی کی اجازت دی جائے ۔ حضرت نے فرمایا وہ شراب نوشی ضرور کرسکتے ہیں لیکن ان کے روبرو نہیں۔ وہ صاحب بڑے خوش ہوگئے اور بیعت تکمیل پائی۔ انہوں نے گھر جانے کے بعد شراب نوشی کیلئے شراب گلاس میں ڈالا‘ پینے کے خیال سے جب ان کی نظراچانک گلاس میں پڑی تو انہوں نے گلاس میں اپنے پیرو مرشد کا عکس دیکھا اور انہوں نے گلاس پھینک دی ۔ اس طرح برسوں کی خبیث عادت چند لمحوں میں جاتی رہی ۔ اس مثال سے بھی حکمت اور بصیرت کا اظہار ہوتاہے ۔ مزید ایک مثال ملاحظہ فرمایئے ۔

حضرت سید یحییٰ پاشاہ صاحب حاذقؒ حیدرآباد کے ممتاز بزرگ گذرے ہیں‘ ایک بار ایک امیر پائیگاہ آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوئے اور بیعت کی خواہش کرتے ہوئے کہاکہ ان کو صرف ایک عادت بد ہے کہ وہ مجرا سننے کی ہیں ‘ اس حد تک اجازت مرحمت فرمائی جائے ۔ حضرت نے جواباً فرمایا کہ لیکن ایک شرط یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں وہ ایسی بدتمیزی نہ کریں۔ وہ صاحب خوش ہوگئے ‘ یہ سوچ کر کہ حضرت کی موجودگی میں کون مجرا سنے گا چنانچہ شام کو ’’ محبوب کی مہندی‘‘ مجرا سننے کیلئے گئے۔ دروازے پر وہ اپنے پیر کو ایستادہ دیکھ کر اُلٹے پاؤں مکان لوٹ گئے ۔ اس طرح حکمت اور بصیرت سے حضرت نے اپنے مرید کی کایا پلٹ دی۔ دوسرے دن جب وہ حضرت سے ملنے حضرت کے دولت کدہ پہنچے ۔ اس وقت حضرت اور ان کے کئی مریدین کے ساتھ تشریف فرماتھے‘ ان صاحب کو دیکھ کر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے بعض پیر بھائیوں کی وجہ سے انہیں کن کن مقامات پر جانا پڑتا ہے ۔

ان مثالوں سے ثابت ہوتاہے کہ خانقاہی نظام سے حکمت اور بصیرت اور سدھار کے راستھ کھلتے ہیں۔ خانقاہی نظام سے وابستگی سے کشف ہوتا ہے او بصیرت افروزی حاصل ہوتی ہے ۔ انسان کے ظاہر میں تبدیلی اور باطن کی صفائی ممکن ہے ۔ اسی لئے اگر کوئی انسان خود کی اخلاقی اور مذہبی تربیت پر توجہ دیتا ہے تو اسے خانقاہی نظام سے ہی بصیرت حاصل ہوسکتی ہے ورنہ دنیا میں برائی اور بدکاری کے دروازے کھلے ہیں جن سے بچنے کا آسان طریقہ خانقاہی نظام سے وابستہ بزرگوں کی صحبت سے استفادہ میں پوشیدہ ہے ۔
٭٭٭