اترپردیش … ملک میں بھگوا کرن کی تجربہ گاہ
ایک رکنی بابری مسجد ایکشن کمیٹی
رشیدالدین
ہندوستان کی تین اہم اور نامور دینی درسگاہیں دیوبند، بریلوی اور ندوۃ اترپردیش میں ہیں اور آج وہاں کی حکومت نے اسلام میں حلال قرار دی گئی چیز کو حرام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دینی درسگاہوں کا فریضہ قوم کی رہنمائی کرنا ہے لیکن آج یہ ادارے خاموش ہیں۔ دیوبند ، بریلوی اور ندوۃ پر مسلمانوں کو فخر اور ناز ہے اور یہ حقیقی معنوں میں اسلام کے قلعے تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کی تاریخ اور فروغ دین کیلئے خدمات سے دنیا واقف ہے۔ ان درسگاہوں نے علم کی روشنی سے دنیا کے دیگر اداروں کے مماثل جید علماء بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عالم باعمل تیار کئے۔ دیوبند ہو کہ بریلوی یا پھر ندوۃ ان سے وابستہ اکابرین نے ہر نازک موڑ پر قوم کی رہنمائی کی۔ وہ کبھی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوئے اور جب کبھی باطل طاقتوں نے سر ابھارنے کی کوشش کی تو علماء اور اکابرین ان کی سرکوبی کیلئے میدان میں آگئے اور باطل کے آگے سینہ سپر ہوگئے۔ انگریزوں سے ملک کو نجات دلانے کی تحریک ہو یا پھر کسی بھی حکومت کے مخالف شریعت فیصلے ، ہر معاملے میں ان اداروں کا رول نہ صرف قائدانہ بلکہ مجاہدانہ رہا۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کی چوکھٹ پر اقتدار وقت نے ماتھا ٹیکا اور تائید کی بھیک مانگی۔ ایسی عظمت ، وقار اور تاریخ رکھنے والے اداروں پر سناٹا کیوں چھایا ہے۔ جن اکابرین نے انگریزوں کے تسلط کو قبول کرنے کے بجائے اظہار حق کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چوم لیا تھا، آج ان کے وارث نازک گھڑی میں ملت کی رہنمائی کے بجائے خاموش ہیں۔ آج ساری قوم کی نگاہیں دیوبند ، بریلوی اور ندوۃ کی طرف اٹھ چکی ہے ۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر اقتدار وقت نے اسلام میں حلال کی ہوئی چیزوں پر امتناع عائد کردیا ہے تو مسلمانوں کا کیا موقف ہونا چاہئے ۔ ذبیحہ گاؤ ، یوگا ، سوریہ نمسکار اور وندے ماترم جیسے متنازعہ اور بھڑکانے والے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنانے کی سازش ہے تاکہ مسلمان بھی ہندو سماج اور اس کے رسم و رواج میں گھل مل جائے ۔
مذہبی شناخت کو دنیا کی کوئی طاقت بھی ختم نہیں کرسکتی کیونکہ اسلام کی حفاظت اور بقاء کا ذمہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے لیا ہے۔ علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیاگیا لیکن تینوں اداروں کے اکابرین کو حلال اور حرام کے دوران خطہ فاصل کھینچتے ہوئے حکومت کو بھی بتانا ہوگا کہ ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔ کیا اسلام کی تعلیمات حلال کو اختیار کرنے اور اس کیلئے جدوجہد کرنے پر دلالت نہیں کرتیں؟ تینوں علمی جامعات کے اکابر علماء اور مفتیان عظام آخر کب اپنی خاموشی توڑیں گے ۔ ابھی تو اسلام کی حلال چیزوں کو نشانہ بنانے کی شروعات ہیں۔ اترپردیش سے اس کا آغاز ہوا اور بتدریج ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ زہر پھیلے گا۔ اتنا ہی نہیں اگر ذبیحہ گاؤ مسئلہ پر مصلحت کا خوف کا شکار ہوجائیں تو جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں مساجد سے اذان اور سڑکوں پر نماز پر بھی روک لگادیں گے ۔ تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور یوگا کو لازمی قرار دینے کی تیاریاں ہیں۔ ہر اسکول کا آغاز وندے ماترم سے ہوگا۔ اگرمسلمانوں میں بے حسی کا مزاج تبدیل نہ ہوا تو پھر عدالتیں اور حکومت اسلامی تعلیمات کی تشریح اپنے طور پر کرتے ہوئے نت نئی قانون سازی کریں گے۔ طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے ۔ بعض دین بیزار گمراہ خواتین کا سہارا لیکر عدلیہ میں شریعت کو چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ مسئلہ کی سماعت کو دستوری بنچ سے رجوع کیا ہے اور 11 مئی کو سماعت مقرر کی ہے۔ یکساں سیول کوڈ پر لا کمیشن سے رائے طلب کی گئی۔ بی جے پی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے رام مندر کی تعمیر کی اجازت سپریم کورٹ سے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ان کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ وہ تنازعہ میں فریق نہیں ہیں۔ اس طرح مختلف انداز سے فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شعائر اسلام کو نشانہ بناتے ہوئے چند دین بیزار نام نہاد مسلمانوں کو میڈیا کے روبرو کیا گیا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ مسلمان خود بھی شریعت میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ ’’چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے‘‘ کے مصداق فرقہ پرست طاقتیں ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ اگر ہماری بے حسی جاری رہی تو سوائے افسوس کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ محض اتفاق ہے یا پھر دینی اداروں کی حمیت کا امتحان کہ جس ریاست میں دیوبند ، بریلوی اور ندوۃ موجود ہیں ، وہیں سے حرام چیزوں پر پابندیوں کا آغاز ہوا۔ آپ کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن پھر بھی ان اداروں پر سناٹا طاری ہے۔ ان اداروں نے شاید اپنے اسلاف کی تاریخ کو فراموش کردیا جنہوں نے پرسنل لا مداخلت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی پرواہ کئے بغیر مرکزی حکومت کو مجبور کردیا تھا کہ شریعت کے حق میں دستور میں ترمیم کرے۔ آج ضرورت ہے مولانا طیب قاسمی، مولانا منت اللہ رحمانی ، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ، مولانا علی میاں ، غلام محمود بنات والا اور ابراہیم سلیمان سیٹھ جیسے قائدین کی جنہوں نے حکومت وقت کو ہمیشہ جھکنے پر مجبور کیا۔ سنگھ پریوار نے اترپردیش کو ہندوتوا ایجنڈہ کی تجربہ گاہ میں تبدیل کرتے ہوئے یوگی ادتیہ ناتھ کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کیا ہے۔ یوگی فرقہ وارانہ منافرت سے متعلق اس قدر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کی صورت میں جیل مستقل ٹھکانہ بن جائے گا لیکن مرکز نے نریندر مودی کے اقتدار کے بعد سنگھ پریوار کے کارندوں کو مقدمات سے بری کرنے کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ گجرات میں فرضی انکاؤنٹر کے ذمہ داروں کی عدالتوں میں برات اور مکہ مسجد و اجمیر بم دھماکوں کے اصل ملزم اسیما نند کی ضمانت اس کا کھلا ثبوت ہے ۔ ہندوتوا کے بڑھتے قدم کو ملک کی سیاسی جماعتیں بھلے ہی روک نہ پائیں لیکن شعائر اسلام کے تحفظ کیلئے مذہبی اکابرین کو میدان میں آنا ہوگا۔
یوگی ادتیہ ناتھ جن کی حکمرانی کے ابھی چند دن ہی گزرے لیکن متنازعہ فیصلوں اور سابق میں کی گئی زہر افشانی کے سبب بین ا لاقوامی انسانی حقوق تنظیموں کے راڈار میں آچکے ہیں۔ ان اداروں نے ہندوستان میں ہندوتوا ایجنڈہ کے فروغ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ یوگی نے سوریہ نمسکار کا نماز سے تقابل کرتے ہوئے دونوں میں یکسانیت کی بات کی۔ نماز خالص اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت ہے جبکہ سوریہ نمسکار شرکیہ عمل ہے۔ کوئی بھی مسلمان اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتا اور نماز اسی کا حصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورج ، چاند اور ستاروں کو انسان کیلئے مسخر کردیا ہے اور ان کی عبادت کا تصور بھی شرک کے دائرے میں آتا ہے ۔ مسلمان کسی بھی صورت میں مشرکانہ عملیات کو قبول نہیں کریں گے۔ اترپردیش میں کامیابی کیلئے بی جے پی نے ذبیحہ گاؤ کو اہم انتخابی موضوع بنایا تھا اور ملک بھر میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی کی تحریک شروع کی گئی۔ بی جے پی اس مسئلہ پر کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ شمال مشرقی ریاستوں میں دیکھنے کو ملا جہاں ذبیحہ گاؤ پر بی جے پی کا دوغلہ پن واضح ہوگیا۔ اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ کا مطالبہ کرنے والی بی جے پی میگھالیہ ، میزورم اور تریپورہ کے عوام سے وعدہ کر رہی ہے کہ ان ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ جاری رہے گا۔ بی جے پی کو ان ریاستوں میں قبائلی طبقات کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ لہذا شمال مشرقی ریاستوں میں اس نے ذبیحہ گاؤ پر پابندی نہ لگانے کا وعدہ کیا ہے۔ پارٹی کے قائدین نے کھلے عام بیان دیا کہ اگر ان ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار دیا گیا تو وہ ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد نہیں کرے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کو دہرا معیار اختیار کرنے پر کس نے مجبور کیا۔ ان ریاستوں کے قبائل جو اقتدار میں تبدیلی کی طاقت رکھتے ہیں، ان سے ہر پارٹی خوفزدہ ہے ۔ اگر قبائلیوں کی تائید حاصل کرنا ہے تو پھر شمال مشرقی ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ کو جاری رکھنا ہر پارٹی کی مجبوری ہے کیونکہ قبائلیوں میں گوشت کھانے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں کو قبائلیوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے بی جے پی کو ذبیحہ گاؤ کے حق میں بیان دینے پرمجبور کردیا ہے ۔ اگر مسلمان متحد اور منظم ہوتے تو اترپردیش میں یہ صورتحال نہ ہوتی۔ خود ریاست تلنگانہ کے ایک ضلع کلکٹر نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ بڑے جانور کا گوشت زیادہ استعمال کریں تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی دوران بابری مسجد مسئلہ کے احیاء کے ساتھ ہی کئی دعویدار دوبارہ میدان میں آچکے ہیں۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی جو طویل عرصہ قبل ہی اپنی شناخت اور مسلمانوں کا اعتماد ہوچکی تھی آج اس کے خود ساختہ کنوینر بیان بازی کے ذریعہ دوبارہ اہم فریق بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایکشن کمیٹی کے کنوینر نے اجلاس کی روداد سے میڈیا کو واقف کرایا ۔ انہیں پہلے اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ آخر کمیٹی کا وجود کہاں ہے اور اس کے ارکان کون ہیں۔ اجلاس کب اور کہاں ہوا تھا اور کس نے اجلاس میں شرکت کی۔ ایک رکنی کمیٹی کے نمائندے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ مسجد کی بازیابی کیلئے سرگرم ہیں حالانکہ ایکشن کمیٹی کو تحلیل کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ بعد میں تمام قائدین نے اس مسئلہ کو مسلم پرسنل لا بورڈ سے رجوع کردیا اور بورڈ میں بابری مسجد کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ایکشن کمیٹی پر مسجد کی شہادت سے قبل اور بعد میں کئی الزامات لگائے گئے اور بدنامی آج بھی ایکشن کمیٹی کا تعاقب کر رہی ہے۔ اس سے وابستہ افراد نے بعض عہدے حاصل کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن اب وہ دوبارہ خود کو مسجد کے اہم دعویدار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔اس طرح کے نئے روپ میں آنے والے مسجد کے ہمدردوں سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو چاہئے کہ وہ ایکشن کمیٹی کی سرگرمیوں کو کالعدم کرنے کا اعلان کرے۔ ملک کے موجودہ حالات میں دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کو پست ہمت اور مایوس ہونے کے بجائے عزم اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ محبت اخلاق اور اپنے کردار سے اسلام کی تبلیغ اور حقیقی پیام کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بقول منور رانا ؎
خانقا ہوں سے نکل آؤ مثالِ شمشیر
صرف تقریر سے بخشش نہیں ہونے والی