کے این واصف
سعودی عرب میں بسے خارجی باشندے پچھلے 6 ، 8 ماہ سے اس خوف کے سائیے میں جی رہے تھے کہ محرم یعنی نئے ہجری سال سے کوئی تیس سے زائد پروفیشنز ایسے ہوں گے جو سعودیوں کے لیے مختص کردیئے جائیں گے۔ لیکن محکمہ لیبر نے شاید تجرباتی طور پر پہلے صرف 12 پروفیشن کو سعودیوں کے لیے مختص کیئے جانے کا اعلان کیا۔ محکمہ کا یہ فیصلہ بڑی حد تک خارجی باشندوں کے حق میں فائدہ مند رہا۔ اس لیے کہ فی الحال صرف 12 پروفیشن میں کام کرنے والے تارکین وطن ہی اس سے متاثر ہوں گے یا اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس سے قبل کہ ہم سعودائزیشن کے اس فیصلے کے مثبت یا منفی پہلوئوں پر بات کریں ہم سعودیوں کے لیے مختص کیے گئے پروفیشن کی تفصیلات پیش کرنا چاہیں گے۔ انپروفیشنز میں گھڑیاں فروخت کرنے کی دکانیں، عینک کی دکان، میڈیکل سامان، الیکٹرانکس و الیکٹریکل سامان، گاڑیوں کے اسپیر پارٹس، تعمیراتی مواد، ہر طرح کے قالین، گاڑیوں کے شورومس، موبائیل شاپس، گھریلو فرنیچر اور دفتری ضرورت کا فرنیچر و سامان، تیارشدہ ملبوسات، برتن اور کراکری اور مٹھائی کی دکانیں کا کام ان تمام پروفیشنز میں 70 فیصد سعودی ملازمین رکھنا ضروری ہے۔ سعودیوں کے لیے مختص ان 12 پیشوں کے اعلان کے دو دن بعد ان بارہ پروفیشنز سے متعلق دکانوں میں سے بیشتر دکانیں بند نظر آئیں اور ان میں سے کچھ پر برائے فروخت کا بورڈ لگ گیا۔ یہ ایک راز ہے کہ سعودی عرب میں بہت بڑی تعداد میں ایسے کاروبار قائم ہیں جو کسی سعودی کے نام سے خارجی باشندے چلاتے ہیں اور سارے مملکت میں ریٹیل بزنس پر خارجیوں ہی کا قبضہ ہے جو کسی سعودی کی کفالت میں رہ کر کرتے ہیں۔ یہ خارجی باشندے اس کاروبار میں خود عملی طور پر حصہ لیتے ہیں اور حسب ضرورت خارجی باشندوں کو اپنی معاونت یا مدد کے لیے ملازم رکھتے ہیں۔ ظاہر خارجی ملازمین نسبتاً کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ اب جبکہ ان 12 پیشنوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری مراکز پر محکمہ لیبر کے حکم کے مطابق 70 فیصد سعودی ملازم رکھیں تو شاید یہ خارجی باشندے برداشت نہیں کرپائیں گے۔ کیوں کہ محکمہ لیبر نے سعودی ملازمین کی اقل ترین تنخواہ بھی مقرر کی ہوئی ہے۔ جو خارجی باشندے کو دی جانے والی تنخواہ سے کافی زیادہ ہے۔ جن خارجیوں نے اپنی دکانیں بند کردیں یا انہیں فروخت کرکے نکل جانے کا ارادہ کرلیا اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی وجہ جیسا کہ ہم نے بتایا کہ سعودی باشندوں کو ملازم رکھنے سے اخراجات دگنے سے زیادہ ہوجائیں گے۔ دوسرے یہ کہ پچھلے دو تین سال سے مارکٹ کا حال بہت برا ہے اور دن بدن حالات خراب ہی ہورہے ہیں۔ ہر قسم کے کاروبار پہلے کے مقابلے آدھے سے کم ہوگئے ہیں۔ یہاں بازار میں ساری دکانیں صبح سے ظہر کی نماز تک اور پھر عصر سے رات 12 بجے تک کام کرتی ہیں۔ نیز ان کو کوئی ہفتہ واری چھٹی بھی نہیں دی جاتی۔ اتنی لمبی ڈیوٹی دینا صرف خارجی باشندوں کا حق ہے۔ ادھر جدہ ایوان تجارت میں چشمہ جات کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد البشاوری نے چشموں کی 15 فیصد دکانیں بند کردیئے جانے کی توثیق کی ہے۔ حال میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چشموں سمیت دیگر کئی دکانوں پر سعودی ملازم ہی تعینات ہوں گے۔ وزارت نے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے 800 انسپکٹرز کو میدان میں اتاردیا۔ صبح شام ڈیوٹی دینے اور جمعہ اور ہفتے کو چھٹی پر اصرار کے باعث سعودی کارکن مذکورہ دکانوں کے لیے مہیا نہیں ہیں۔
آج اگر آپ کسی بھی بڑے، چھوٹے ریٹیل بازار چلے جائیں تو آپ کو ہر دکان میں سیلس مین بے کار بیٹھے یا اپنے موبائیل پر نظریں لگائے نظر آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں ملازمت ختم ہوجانے کے باعث لوگ مملکت سے چلے گئے اور جو باقی ہیں وہ ملازمت سے لگے ہوئے تو ہیں لیکن انہیں یا تو تنخواہ نہیں مل رہی ہے یا تاخیر سے مل رہی ہے۔ تنخواہوں میں کٹوتی کردی گئی ہے۔ لہٰذا یہاں ملازمین کی اکثریت کو اتنا ہی مل رہا ہے جس سے صرف ان کی بنیادی ضرورتیں ہی مشکل سے پوری ہورہی ہیں۔ ایسے میں بند کہاں سے مارکٹ جائے اور کیا شاپنگ کرے۔ ادھر پچھلے ایک سال کے دوران اقامہ (Work Permit) قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے 2055299 غیر ملکیوں کو گرفتار کرکے مملکت سے بے دخل کردیا گیا۔ بہر حال یہاں کے حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں یہ تو آنے والے چند ماہ میں ہی پتہ چلے گا۔
یوم سرسید
ابنائے قدیم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے حسب سابق امسال بھی ریاض میں پورے جوش و خروش کے ساتھ یوم سرسید کا اہتمام کیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن (اموبا) کی نو منتخب کمیٹی نے حسب روایت اس سال کسی بڑی شخصیت کو بطور مہمان ہندوستان سے مدعو نہیں کیا۔ بلکہ ایک معروف مقامی سعودی بزنس مین ماجد عبدالمحسن وائس چیرمین الحکیر گروپ (Al Hokair Group) کو بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا۔ جبکہ فرسٹ سکریٹری سفارت خانہ ہند ریاض ڈاکٹر حفظ الرحمان نے تقریب میں سفیر ہند احمد جاوید کی نیابت کی جو کسی وجہ سے تقریب میں شریک نہ ہوسکے۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن اموبا کے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا جب اتنی بھاری تعداد میں یوم سرسید پر علیگز یکجا ہوئے۔ اس تقریب کا آغاز ڈاکٹر عبدالرحمان خان کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد فراح اور قیصر ثاقب نے انجام دیئے۔ ابتداء میں ڈاکٹر محسن قاضی نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ پر ایک دلچسپ آڈیو ویژول شو پیش کیا۔
اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے ماجد عبدالمحسن نے کہا کہ مجھے ہندوستان کی اس عظیم درس گاہ کے بانی سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کی تقریب میں شرکت کرکے بے حد مسرت محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الحکیر گروپ میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہے۔ جن کی کارکردگی سے گروپ بے حد مطمئن ہے۔ ماجد عبدالمحسن نے اموبا کی سالانہ ڈائرکٹری کا رسم اجراء بھی انجام دیا جس کے بعد سرسید کے یوم پیدائش کے سلسلے میں طلباء و طالبات کے لیے منعقد تقریری مقابلوں میں کامیابی حاصل کرنے والوں کو انعامات سے نوازہ گیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حفظ الرحمان نے کہا کہ سرسید احمد خاں کی فکر ترقی پسندانہ تھی۔ انہوںنے ہمیشہ فرسودہ تصورات کی مخالفت کی۔ وہ ایک اچھے نباض تھے۔ انہوں نے سوبرس قبل یہ جان لیا تھا کہ آنے والے وقت میں ہماری قوم کو کس علم کے حصول سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی قوم کو انگریزی اور سائنسی علوم کو حاصل کرنے کی صلاح دی۔ سرسید نے ’’سائنس سوسائٹی‘‘ اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعہ قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے اس تقریب کے لیے علیگرین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہاں علیگز کی ایک بھارتی تعداد اعلی منصبوں پر کام کرتی ہے۔
تقریب کے ایک اور مہمان پروفیسر عبدالعزیز حامد رکٹر (Rector) پرنس سلطان بن عبدالعزیز یونیورسٹی ریاض نے بھی اس محفل کو مخاطب کیا۔ صدر اموبا انجینئر سید محمد مطیب نے اسوسی ایشن کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ اموبا ریاض نے پہلی مرتبہ اموبا کی خواتین ونگ قائم کی ہے۔
آخر میں ہمایوں ہاشمی نائب صدر اموبا نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس تقریب میں خواتین کی بہت بڑی تعداد شریک تھی۔ ترانہ علیگڑھ، ہندوستانی اور سعودی قومی ترانہ کی پیش کش پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا۔