محمد ریاض احمد
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
زندگی میں کچھ کردکھانے کے خواہاں افراد کی نظریں اپنے مقصد اور حدف کے حصول پر ٹکی رہتی ہیں۔ وہ اپنی تمام تر توانائیاں اس مقصد کے حصول کی خاطر صرف کردیتے ہیں ۔ ان کے بلند حوصلوں و عزائم ، مضبوط ارادوں اور اوالولعزمی کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی ۔ وہ بلند و بالا پہاڑوں کو ذرہ ذرہ کرتے ہوئے ان میں سے راستے نکال لیتے ہیں ۔ سمندروں کے سینے چیر کر کامیابی و کامرانی کی کشتی کو آگے بڑھانے سے کبھی نہیں چوکتے ۔ وہ طوفان کی پرواہ کرتے ہیں نہ ہی آندھیاں ان کا راستہ روک سکتی ہیں ۔ ان کی پرواز تخیل اس قدر بلندیوں پر اڑان بھرتی ہیکہ عام نگاہیں اس کا تعاقب نہیں کرسکتیں ۔ ایسی ہی خوبیاں ہندوستان کی تین بیٹیوں سارہ حمید احمد ، سیدہ سلویٰ فاطمہ اور عائشہ عزیز میں پائی جاتی ہیں اور تینوں میں کئی باتیں مشترک بھی ہیں ۔ تینوں عزم ، حوصلہ ، جراتمندی ، بیباکی ، بے خوفی کی بہترین مثالیں ہیں اور ان کی شخصیتیں اپنے آپ میں ایسی کہانیاں ہیں جو دوسروں کو بھی کچھ کردکھانے کا پیام دیتی ہیں ۔ قارئین یہ تینوں مسلم خواتین پائلٹس ہیں ۔ ہم آپ کو سب سے پہلے بنگلور میں رہنے والی سارہ حمید احمد سے ملاتے ہیں ۔ 25 سالہ اس مسلم لڑکی کو ہندوستانی شہری ہوابازی کی تاریخ میں پہلی مسلم خاتون کمرشیل پائلٹ ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے
۔ آپ نے اسپائس جٹ ایئر لائن کا نام سنا ہوگا اس ایرلائن میں سارہ حمید احمد زائد از دوبرسوں سے پائلٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ انھیں ہندوستانی شہری ہوابازی کے شعبہ میں خدمات انجام دینے والی 600 سے زائد خاتون پائلٹوں میں واحد مسلم خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ سارہ حمید احمد اپنے اس اعزاز کے باعث نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے عالم اسلام میں شہرت حاصل کرگئیں ہیں۔ میڈیا خاص طور پر مسلم میڈیا نے ملت کی اس گوہر نایاب کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے اسے مسلم خواتین و طالبات کیلئے ایک مثالی نمونہ قرار دیا ہے ۔ سارہ کے مطابق لوگ انھیں ابتداء میں عیسائی سمجھا کرتے لیکن جب وہ (سارہ) ان لوگوں کو اپنا مکمل نام بتاتے ہوئے تعارف کراتی ہیں تو ان کے منہ حیرت کے مارے کھلے کے کھلے رہ جاتے ۔ ان کی حیرانی سے ایسا لگتا کہ وہ یہی سوچتے ہیں کہ مسلمان لڑکیاں پائلٹ نہیں بن سکتی ۔ حالانکہ آج نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بیشتر مقامات پر مسلم لڑکیاں زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ان لوگوں نے حجاب کو کبھی رکاوٹ نہیں بننے دیا ۔ حجاب کا اہتمام کرتے ہوئے حجاب کے دشمنوں اور عریانیت کے حامیوں کو یہ بتادیا کہ ایک برقعہ پوش خاتون جہاں میدان جہاد میں زخمیوں غازیوں کو طبی امداد بہم پہنچاسکتی ہے ، اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسس کی شکل میں مریضوں کا علاج کرسکتی ہے ، اسکولوں میں نئی نسل کو زیور علم و ہنر سے آراستہ و پیراستہ کرسکتی ہے ، ایک کامیاب تاجر و صنعت کار کی شکل میں تجارت کو بام عروج پر پہنچاسکتی ہے ، ایک واعظہ کی حیثیت سے قوم و ملت میں صحتمند انقلاب برپا کرسکتی ہے ، اقتدار کے ایوانوں میں اپنی گھن گرج کے ذریعہ تعمیر ملک کے عمل کو آگے بڑھاسکتی ہے وہیں سیارہ (کاروں) سے لیکر طیارہ تک چلاسکتی ہے ۔ اسے بلندیوں سے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ سارہ حمید احمد کا جب بھی ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے تو ان لوگوں کے چہروں کی حیرانی ان (سارہ) کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہیں ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی کی بھی زندگی میں اس وقت اہم ترین موڑ آتا ہے جب وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے یا کوئی غیر معمولی کام کرنے کی دھن اس کے ذہن و قلب پر سوار ہوجاتی ہے ۔
سارہ حمید کے ذہن و قلب پر بھی ایسی ہی دھن سوار تھی ۔ وہ خود بتاتی ہیں ’’میں کچھ غیر معمولی کام کرنے کی خواہاں تھی ۔ جیوتی نواس کالج میں جہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی ہے ایک آسٹریلیائی پائلٹ نے کیریئر کونسلنگ سیشن کا اہتمام کیا ۔ اس کونسلنگ سیشن نے میری زندگی کا رخ موڑ کر رکھ دیا اور میں آسمانوں کی بلندیوں پر طیارے اڑانے کا خواب دیکھنے لگی اور بالآخر اللہ رب العزت نے میرا وہ خواب پورا کیا‘‘ ۔ سارہ حمید کی والدہ محترمہ نسیم احمد بتاتی ہیں کہ ابتداء میں خاندان میں کسی نے بھی سارہ کی حوصلہ افزائی نہیں کی کیونکہ ہمارے معاشرہ میں لڑکیاں ایسا پیشہ یا کیریئر اختیار نہیں کرتیں جہاں انہیں اپنے گھروں سے دور اور ہاسٹلوں میں رہ کر خدمات انجام دینی پڑے ۔ سارہ نے ایک ایسے وقت کمرشیل پائلٹ بننے کے بارے میں فیصلہ کیا جب زیادہ تر مسلم طلبہ کو امریکی ویزے جاری کرنے سے انکار کیا جارہا تھا لیکن جب سارہ کو بنا کسی مشکل کے امریکی ویزا حاصل ہوگیا تب ان کی ماں کو احساس ہوا کہ شاید اللہ کا یہی فیصلہ ہے کہ سارہ پائلٹ کی تربیت حاصل کرے ۔ دیگر لڑکیوں کی طرح سارہ بھی شادی کرنے کی خواہاں ہیں ان کے ماں باپ بھی چاہتے ہیں کہ اپنی پائلٹ بیٹی کے ہاتھ پیلے کردیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سارہ کیلئے جو موزوں رشتہ آئے ان میں سے اکثر یہ چاہتے ہیں کہ سارہ اپنی ملازمت کو خیرباد کہہ دے یا دوسرے شہر منتقل ہوجائے ۔ اس بارے میں سارہ بڑی بیباکی سے کہتی ہے کہ اس طرح کی مانگ کرنے والے لڑکوں کے والدین کیلئے ان کے والد کا ہمیشہ ہی جواب رہتا ہیکہ وہ اپنے لڑکوں کی ملازمتیں ترک کرواکر دوسرے شہر منتقل ہوں ۔
سارہ حمید کی طرح اپنی اونچی پروازوں کے ذریعہ شاہین کی صفات کو عام کرنے والی مزید دو مسلم خاتون پائلٹس بھی ہیں جو حیدرآباد اور بنگلور سے تعلق رکھتی ہیں۔ حیدرآباد کی کیپٹن سیدہ سلویٰ فاطمہ آج کل میڈیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ سلویٰ نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح ڈاکٹر انجینئر بننے کا خواب دیکھنے کی بجائے ایسا مختلف کام کرنے کا تہیہ کرلیا تھاجو دوسروں کیلئے ایک مثال بن جائے۔ سلویٰ کی اس تمنا کو خالق کائنات نے پورا کیا ۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کو اس لڑکی کے صرف ایک جواب نے ایسے متاثر کیا کہ انھوں نے اسے پائلٹ بننے میں بھرپور مدد کی، اس طرح سلویٰ کمرشیل پائلٹ کا لائیسنس حاصل کرنے والی ہندوستان کی دوسری مسلم خاتون بن گئی ۔ سلویٰ فاطمہ کے والد ایک بیکری ورکر ہیں لیکن اس لڑکی نے اپنی سخت محنت کے ذریعہ ایک ایسے شعبہ میں داخلہ لیا جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے ۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ تاریخی شہر حیدرآباد کے اس حصہ سے تعلق رکھتی ہے جسے سارے ملک میں پرانا شہر حیدرآباد کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن پرانا شہر کے مکینوں کی محبت و مروت جذبہ ہمدردی ایثار و قربانی ، صلہ رحمی ، انسانیت دوستی اور مہمان نوازی اور میٹھی بولی ساری دنیا میں مشہور ہے ۔ سلطان شاہی کی رہنے والی سلویٰ کو اسکول کے دور سے ہی طیارے اُڑانے کا شوق تھا اور اکثر اخبارات میں شائع ہونے والی طیاروں کی تصاویر اور ان کے بارے میں رپورٹس کے تراشے کاٹ لیا کرتی تھی ۔ وہ بتاتی ہیں ’’9ویں جماعت سے مجھے اخبارات و جرائد سے طیاروں کی تصاویر اور ان کے بارے میں شائع ہونے والے مضامین کے تراشے کاٹ کر جمع کرنے کا شوق تھا جبکہ میری سہلیاں ڈاکٹرس یا انجینئرس بننے کی خواہش رکھتی تھیں میں اپنے خیالات سے جب سہیلیوں کو واقف کرواتی تو وہ یہی دریافت کرتیں کہ آیا یہ ممکن بھی ہے لیکن میری زندگی میں ایک ایسا دن بھی آیا جب اﷲ کے فضل و کرم سے میرا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا ۔
اعزہ ہائی اسکول ملک پیٹ کی طالبہ رہ چکی سلویٰ ، سید اشفاق احمد کے چار بچوں میں سب سے بڑی ہیں اگرچہ وہ کمرشیل پائلٹ لائیسنس حاصل کرچکی ہیں کبھی بھی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ آخر ان کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوگا ۔ روزنامہ سیاست کی جانب سے اہتمام کردہ ایمسٹ کوچنگ کیمپ نے سلویٰ کی زندگی بدل کر رکھ دی ۔ اس کیمپ کے ایک جلسہ میں سلویٰ کی تمنا کے بارے میں جان کر جناب زاہد علی خاں نے اس بچی کو پائلٹ کی تربیت فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس طرح پائلٹ کی تربیت حاصل کرنے کیلئے سلویٰ کو ایک سال تک تیاری کرنی پڑی اور پھر 2007 ء میں آندھراپردیش ایویشن اکیڈیمی میں ان کا داخلہ ہوگیااور پانچ سال بعد سلویٰ کو ان کی محنت کا پھل مل ہی گیا اور وہ پرائیویٹ پائلٹ لائسنس ، فلائٹ ریڈیو ٹیلیفون آپریٹر لائیسنس کے علاوہ کمرشیل پائلٹ لائیسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ 2013 ء میں کمرشیل پائلٹ لائیسنس حاصل کرنے کے بعد سلویٰ کو پتہ چلا کہ ایرلائن شعبہ میں ملازمت کیلئے صرف سی پی ایل کافی نہیں ہے بلکہ ملٹی انجن ٹریننگ اور ٹائپ ریٹنگ کی تربیت ضروری ہے اور اس پر 30 تا 32 لاکھ روپئے کے مصارف آرہے ہیں ۔ بلند عزم و حوصلوں کی حامل سلویٰ فاطمہ نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ہر حال میں اس مشکل کو بھی پار کرلینے کا عزم مصمم کرلیا۔ اس معاملہ میں سلویٰ کو ان کے شوہر شکیب کا بھرپور تعاون حاصل رہا ۔ قومی میڈیا سے بات کرتے ہوئے جناب زاہد علی خاں نے پرزور انداز میں سلویٰ کے بارے میں کہا تھا کہ انھوں نے سلویٰ کی مدد کرتے ہوئے ہندو مسلم سکھ یا عیسائی لڑکی کی مدد نہیں کی بلکہ ہندوستان کی ایک بیٹی کی مدد کی ہے اور دختران ملت کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے ۔ اب چلتے ہیں قوم کا نام روشن کرنے والی تیسری مسلم لڑکی 18 سالہ عائشہ عزیز کی طرف جس نے انتہائی کم عمر میں بیسک فلائنگ لائیسنس حاصل کرلیاہے ۔ شمالی کشمیر کے خواجہ باغ علاقہ سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی کشمیری لڑکیوں کیلئے ایک مثال بن گئی ہے ۔ واضح رہے کہ سیاست فیس بک پر سارہ حمید سلویٰ فاطمہ اور عائشہ عزیز کے بارے میں جو نیوز پوسٹ کی گئی انھیں 15 لاکھ سے زائد افراد نے دیکھا جبکہ آن لائن ایڈیشن پر ہٹس کی تعداد کئی ملین تک پہنچ گئی ہے ۔ بہرحال یہ تینوں خواتین علامہ اقبالؔ کے اس شعر کے مصداق ہیں ؎
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہیں اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
mriyaz2002@yahoo.com