حیدرآباد ہائیکورٹ کی تقسیم کا مسئلہ

ریاست تلنگانہ کے لئے ایک علیحدہ ہائی کورٹ کے مطالبہ میں اضافہ کے ساتھ ہی احتجاجی صورتحال ابتری تک پہونچ رہی ہے۔ جوڈیشیل آفیسرس کے تقررات کی فہرست کو واپس لینے کے بعد یہ صورتحال مزید ابتر ہوگئی۔ اس رسہ کشی میں مزید 9 جوڈیشیل آفیسرس کو معطل کردیا گیا۔ تلنگانہ ججس کی جانب سے کئے جانے والے احتجاج کا سخت نوٹ لیتے ہوئے ججس کی معطلی کے لئے حیدرآباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف احتجاج میں شامل جوڈیشیل آفیسرس کو معطل کردیا جانا نئی ریاست تلنگانہ میں شائد کسی نئے طوفان کا اشارہ دے رہا ہے۔ ججس نے علیحدہ ہائیکورٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے راج بھون تک مارچ نکال کر گورنر کو یادداشت پیش کی تھی اور تلنگانہ میں تحت کی عدالتوں میں آندھرائی نژاد ججس کے الاٹمنٹ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے احتجاجی استعفے پیش کئے تھے۔ زائداز 100 ججس نے اپنے استعفے تلنگانہ ججس اسوسی ایشن کے صدر کے رویندر ریڈی کے حوالے کئے۔ اس پر ججس کی اس حرکت کو ضابطہ کی خلاف ورزی قرار دے کر معطلی کے احکام جاری کئے گئے تھے۔ ہائی کورٹ کی اس کارروائی سے تلنگانہ وکلاء میں برہمی پیدا ہوئی ہے۔ کئی وکلاء نے ہائیکورٹ کے احاطہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ سٹی سیول کورٹ میں ایک وکیل نے خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔ وکلاء نے ہائیکورٹ کے کارگذار چیف جسٹس کی عدالت کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ صورتحال نازک رُخ اختیار کررہی ہے تو عدلیہ، قانون اور حکومت کے ذمہ داروں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی 13 سال کی طویل جدوجہد کے بعد تلنگانہ حاصل کیا تھا۔ اس کے قیام کے دو سال میں احتجاج کی لہر دوبارہ اٹھی ہے۔ حیدرآباد ہائی کورٹ کی تقسیم میں تاخیر کے خلاف اب وہ دارالحکومت دہلی میں دھرنے پر بیٹھنے پر غور کررہے ہیں۔ آندھراپردیش ہائیکورٹ کا نیا نام ہائیکورٹ آف حیدرآباد دے کر یہاں دونوں تلگو ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کے لئے خدمت انجام دی جارہی ہے۔ ہائیکورٹ کی تقسیم کے مسئلہ پر گزشتہ 6 جون سے ریاست بھر میں احتجاج جاری ہے

لیکن اس کے شدت اختیار کرجانے سے قبل مسئلہ کی یکسوئی سے مرکز عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہا ہے تو آگے چل کر عدلیہ اور قانون کے مسئلہ پر نیا تنازعہ پیدا ہوگا۔ ریاست تلنگانہ کے ججس کو اس بات پر مایوسی ہے کہ تلنگانہ میں ججس کی مخلوعہ جائیدادوں پر آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والے جوڈیشیل آفیسرس کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ اس کے خلاف تلنگانہ ججس و وکلاء کا احتجاج ہورہا ہے تو پھر ایک بار آندھرا ججس واپس جاؤ کے نعرے بلند ہوں گے۔ قانون کی حفاظت کرنے والی عدالتوں اور ججس کے ساتھ دیگر شعبوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے تو یہ سراسر لاپرواہی اور کوتاہی ہے۔ عدالتوں کو میدان جنگ بناکر چھوڑ دینا کسی بھی صورت بہتر نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے 5 مئی کو تحت کی عدالتوں میں ججس کے الاٹمنٹ کی فہرست جاری کی تھی۔ 335 جوڈیشیل آفیسرس کو تلنگانہ کے لئے الاٹ کیا گیا۔ 495 آفیسرس کو آندھراپردیش کے لئے مقرر کیا گیا۔ افسوسناک شرارت یہ نظر آئی کہ تلنگانہ میں جن 335 جوڈیشیل آفیسرس کا تقرر کیا گیا ہے۔ ان میں 130 آفیسرس آندھراپردیش کی وطنیت رکھتے ہیں۔ اس مسئلہ نے مقامی طور پر تلنگانہ کے ججس اور وکلاء کو برہم کردیا ہے۔ حکومت اور ہائیکورٹ ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ ہائیکورٹ کی تقسیم کے عمل میں شفافیت لائی جائے تو تقررات کے معاملہ میں احتیاط سے کام لے کر مقامی نژاد کو اہمیت دی جانی چاہئے۔ اے پی ری آرگنائزیشن قانون میں تلنگانہ کے لئے ایک علیحدہ عدالت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس پر عمل کرنے میں تاخیر سے کام لیا جارہا ہے۔ تحت کی عدالتوں میں کام کرنے والے ججس اور عملہ کے ارکان نے راج بھون تک مارچ نکال کر جمہوری طرز پر نمائندگی کی تو ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ احتجاجی ججس اور وکلاء سے ملاقات کرکے مسئلہ کی یکسوئی کے لئے کوشش کرنے پر توجہ دی جائے۔ تلنگانہ کی عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے وکلاء کا فیصلہ بھی حالات کو مزید ابتر بنا سکتا ہے۔