حیدرآباد جو کل تھا کمال الدین احمد

ایف ایم سلیم
آندھراپردیش کی سیاست میں اضلاع کی اقلیتوں کی نمائندگی میں جناب کمال الدین احمد نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آزادی کے 17 سال پہلے 15 اگسٹ کو پیدا ہوئے کمال الدین احمد نے عملی زندگی کی شروعات وکالت سے کی تھی۔ حالانکہ کچھ قلیل مدت کے لئے اُنھوں نے آندھراپردیش اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں بھی کام کیا تھا، لیکن عدالتوں کی زبان اُردو سے انگریزی میں تبدیل ہونے کے بعد اُنھوں نے جنگاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا اور یہی فیصلہ ان کی بعد کی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوا۔ کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر اُنھوں سے سیدھے انتخابی سیاست میں داخلہ لیا۔ پہلے ایم ایل اے اور بعد میں ایم پی کے طور پر ریکارڈ جیت درج کرائی۔ ورنگل سے ایک بار اور ہنمکنڈہ سے چار مرتبہ ایم پی منتخب ہوئے۔ پی وی نرسمہا راؤ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں انھیں مرکز میں مملکتی وزیر بھی بنایا گیا۔ واجپائی اور راجیو گاندھی دونوں سے ان کے اچھے تعلقات رہے۔ اٹل بہاری واجپائی جب وزیراعظم بنے تو انھیں سعودی عرب میں ہندوستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔ آندھراپردیش کانگریس کمیٹی کے صدر کی ذمہ داری بھی اُنھوں نے نبھائی۔ حیدرآباد جو کل تھا،والے کالم کے لئے ان کے ساتھ ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہاں پیش ہے :

حیدرآباد سے میرا تعلق بہت بعد کا ہے۔ میری پیدائش گاؤں کی ہے، لیکن عمر کا ایک بڑا حصہ میں نے حیدرآباد میں گزارا ہے تو یقینا اس شہر سے زندگی کی بہت سی اہم یادیں وابستہ ہیں۔ میں چاہوں گا کہ پہلے ابتدائی زندگی اور گاؤں کے ماحول کا ذکر کروں۔ورنگل ضلع میں جنگاؤں ایک مشہور جگہ ہے۔ جنگاؤں سے 20 کیلو میٹر کے فاصلے پر میرا آبائی گاؤں سلاخپور ہے۔ لیکن میری پیدائش وہاں سے کچھ دور لدنور گاؤں میں 15 اگسٹ 1930 ء کو خالہ کے گھر پر ہوئی۔
جنگاؤں تعلقہ ہونے کے باوجود وہاں پر مڈل اسکول نہیں تھا۔ پانچویں جماعت کی تعلیم کے لئے یا تو ہنمکنڈہ یا پھر بھونگیر آنا پڑتا۔ بڑے بھائی جناب نعمت اللہ نے جامعہ نظامیہ سے حفظ کیا تھا۔ ان کے کہنے پر ہنمکنڈہ میں داخلہ لیا۔ یہاں سے انٹرمیڈیٹ کے لئے 1946 ء میں چادرگھاٹ کالج چلا آیا۔ اُن دنوں چادرگھاٹ کالج کافی مشہور تھا۔ محمد عثمان صاحب اس کے پرنسپل تھے۔ عبدالحق صاحب انگریزی پڑھاتے تھے۔ ان کا خاندان اعلیٰ تعلیمی قابلیت رکھتا تھا۔ ان کے ایک بھائی اٹامک انرجی کمیشن کے رکن بنائے گئے۔ حیدرآباد میں اُن دنوں علم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اقدار کی بڑی اہمیت تھی۔ لوگوں میں ایک دوسرے سے محبت او رسماج کی خدمت کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔

اِدھر اُدھر گھومتے رہتے ہو، کچھ کام کرو
حیدرآباد آنے کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہی تھا۔ اس کے علاوہ شخصی طور پر کوئی سرگرمی نہیں تھی۔ بی کام کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد میں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ ڈگری کے دوران عثمانیہ یونیورسٹی ہاسٹل میں رہا کرتا تھا۔ بعد میں چراغ علی لین میں منتقل ہوگیا۔ یہاں کچھ دوستوں کے ساتھ رہنے لگا۔ قانون کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سید محمد احسن عابدی وکیل کا جونیر بن گیا۔ اس کے پیچھے ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ایک دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ جناب غوث پیر صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ اُنھوں نے کہا ’’اِدھر اُدھر گھومتے رہتے ہو، کچھ کام کرو‘‘۔ ان کے چھوٹے بھائی عبدالسلام بغدادی ہمارے ساتھیوں میں تھے۔ اُنھوں نے کہاکہ قانون کی تعلیم حاصل کرچکے ہو تو کہیں کام کرو۔ جب کچھ کرنے کی دھن سوار ہوئی تو صادق حسینی غوثوی نے سید محمد احسن عابدی سے ملاقات کروائی۔
وہ دور انسانی رشتے اور روابط کے لئے بڑا خوشگوار دور تھا۔ آج لوگوں کو اپنے پڑوسیوں کی خبر نہیں ہوتی۔ دوسروں کے لئے کچھ کرنا تو دور سوچنا بھی شاید دشوار ہوگیا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ اُس دور کی قدریں ہی کچھ الگ تھیں۔ حیدرآباد کے ہر گلی کوچے میں کچھ ایسے لوگ ضرور مل جایا کرتے جنھیں محلے کے ہر فرد کی فکر رہتی۔ نوجوانوں کو نصیحت کرتے اور نوجوان اور بچے بھی ایسے افراد کی عزت کیا کرتے، افسوس کہ آج وہ ماحول نہیں رہا۔

پانی پلانے کے بہانے سنا مشاعرہ
عثمانیہ یونیورسٹی اور بعد میں چراغ علی لین میں رہتے ہوئے اُردو کے ادبی ماحول سے رابطہ بڑھ گیا تھا۔ خصوصاً احباب کا ایک گروپ تھا۔ مشاعروں میں بڑی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ٹکٹ کے لئے روپیہ نہ ہوں تو بنا ٹکٹ مشاعرہ سننے کی حکمت عملی بھی بنایا کرتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک مشاعرے میں مجروح سلطان پوری اور دیگر مشہور شعراء کی شرکت کی اطلاع ملی۔ لیکن اس کے لئے 20 روپئے ٹکٹ رکھا گیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ 20روپئے کہاں سے لائیں۔ میرے ساتھ دو دوست اقبال احمد صدیقی اور راغب بھی تھے۔ ہم نے سوچا کہ ٹکٹ تو نہیں خرید سکتے، کیوں نہ والینٹر بن جائیں۔ اس کے لئے ہم پروفیسر مغنی تبسم صاحب سے ملے۔ آخرکار ہمیں شاعروں کو پانی پلانے کا کام مل گیا۔اس بہانے مشاعرہ بھی سنا اور شاعروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔ راجا پرتاپ گیر کی کوٹھی میں تقریب ہوئی تھی وہاں پروفیسر منظور حسین شور بھی آئے تھے۔

ہمدردی اور بے لوث تعاون حیدرآباد کی پہچان
حیدرآبادی تہذیب میں ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ کسی کی مدد یہ سوچ کر نہیں کی جاتی تھی کہ وہ بھی ہمارے کام آئے گا یا اس سے کچھ ملنے والا ہے بلکہ دوسروں کو ان کی ضرورتوں کے حساب سے مواقع فراہم کرنا یہاں کے لوگوں کی خاص بات تھی۔ میری اپنی زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ ڈگری کے بعد میں نے ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا۔ اسی دوران اے جی آفس میں کچھ جائیدادیں خالی ہونے کی اطلاع ملی۔ میری کلاسیس صبح 7.30 بجے سے 11 بجے تک ہوتی تھیں۔ اس لئے جو بھی کام کرنا تھا کالج کے وقت کے بعد ہی کرنا تھا۔ دفتر کا وقت تو صبح 10 بجے شروع ہوتا تھا۔ پھر بھی میں نے اے جی آفس میں حامد معین الدین صاحب سے ملاقات کی۔ وہ میرے ایک دوست کے رشتہ دار تھے۔ میں نے ان سے گذارش کی کہ میں 12 بجے کے بعد آؤں گا۔ لیکن دفتر میں میرے سپرد جو کام ہیں وہ پورا کروں گا۔ ان کو یہ بات پسند آئی اور انھوں نے اس کی اجازت دے دی۔
اس وقت اعلیٰ عہدوں پر جو مسلمان تھے، ان میں منفی ذہن نہیں تھا۔ بلکہ جہاں بھی وہ کسی کی مدد کرسکتے تھے، کھلے دل سے تیار ہوجاتے۔ اس زمانے میں سکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہ 101 روپئے سے شروع ہوتی تھی۔ اے جی آفس میں میری درخواست قبول ہوتے ہی مجھے 162 روپئے تنخواہ پر تقرر کیا گیا۔ یہ ملازمت میری زندگی کا ابتدائی مرحلہ تھا۔ حالانکہ بعد میں مجھے اسے ترک کرنا پڑا لیکن وہ تجربہ میرے بہت کام آیا۔ اس دور کے لوگ ہی الگ تھے۔ جہاں بھی کسی مدد کی جاسکتی تھی کردیتے تھے۔ دوسری جانب جس کی مدد کی جاتی تھی، وہ بھی احسان فراموش نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی اپنے محسن کو مایوس کرتے۔ زبان (وعدے) کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔ لالچ، چاپلوسی اور کرسیوں کی کشش کا اثر لوگوں کی زندگیوں پر اتنا گہرا نہیں تھا۔

جب انگریزی نے لی اُردو کی جگہ
جب میں نے وکیل کے طور پر عدالت میں قدم رکھا تو عدلیہ اُردو میں کام کرتی تھی۔ عدالتوں میں اُردو کا ماحول تھا۔ وکیل اور جج سارے لوگ اُردو میں بولتے اور تحریری کام بھی اُردو ہی میں ہوتا تھا۔ لیکن 1953 ء میں عدالت کی زبان اُردو سے بدل کر انگریزی کردی گئی۔ جو لوگ اضلاع اور منصفی عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان کے لئے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔ میرے ایک رشتہ دار سلطان الدین صاحب منصفی میں تھے۔ ان دنوں میں سید محمد احسن عابدی کا جونیر تھا۔ سلطان الدین صاحب ان کے پاس آئے اوران سے کہا :’’انگریزی ہمارے لئے مصیبت بن گئی ہے۔ شہر میں تو لوگ اس سے واقف ہیں۔ لیکن اضلاع میں حالت اتنی اچھی نہیں ہے۔ اس نئے نظام سے کئی وکلاء کی پریکٹس متاثر ہوئی ہے۔ آپ کمال کو میرے ساتھ کردو تو ہمارا کام وہاں جاری رہے گا‘‘۔
عابدی صاحب نے کہاکہ اگر کمالؔ جانے کے لئے تیار ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اور اس طرح میں حیدرآباد سے جنگاؤں چلا گیا۔ وہاں زیادہ تر وکیل، جوڈیشیل کامیاب تھے۔ ایل ایل بی کامیاب وکلاء کم تھے۔ حیدرآباد کی عدالتوں میں کام کرنے کی وجہ سے گاؤں میں لوگوں میں مقبولیت بڑھی اور بہت جلد آس پاس کے سات آٹھ گاؤں کے مقدمے آنے لگے۔ چوں کہ کام انگریزی میں شروع ہوگیا تھا، تو عدالت کی ساری ذمہ داری مجھ پر آگئی تھی۔ اس طرح وہاں پریکٹس چل نکلی۔ لوگوں کے ساتھ جان پہچان میں بھی اضافہ ہوگیا۔

سیاست میں داخلہ
جنگاؤں میں جب پریکٹس شروع ہوئی تو سیاسی میدان میں کام کرنے والے لوگوں سے بھی دوستی ہوئی۔ مدن موہن صاحب میرے اچھے دوست تھے۔ انھیں دنوں تلنگانہ پرجا سمیتی بھی شروع ہوئی تھی۔ پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹری این رام چندرا ریڈی کے رشتہ دار سوم نرسمہا ریڈی سے میرے اچھے تعلقات تھے اور رام چندر ریڈی کے چیف منسٹر ڈی سنجیویا سے اچھے روابط تھے۔ انتخابات قریب تھے۔ اُن دنوں ہر ضلع سے ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا تھا۔ ریڈی صاحب نے میرے نام کی تجویز رکھی۔ حالانکہ اس وقت شکور بیگ صاحب ہنمکنڈہ کے سیٹنگ ایم ایل اے تھے۔ پارٹی میں یہ بات کہی جارہی تھی کہ شکور بیگ صاحب الیکشن میں نہیں کھڑے ہوں گے۔ پھر بھی میں نے مناسب یہی سمجھا کہ راست طور پر ان سے ملاقات کی جائے۔ ورنگل میں سیشن کورٹ کے بالکل سامنے اُن کا مکان تھا۔ مزاحیہ شاعری بھی کرتے تھے۔ حیدرآباد سے بھی ان کے گہرے تعلقات تھے۔ جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے انتخابات میں اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد میں الیکشن کے لئے تیار ہوا، لیکن جب مرکز سے فہرست آئی تو شکور بیگ کا نام اس میں شامل تھا۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ جب بھی پنڈت نہرو ورنگل آتے تو ان کا استقبال شکور بیگ صاحب کرتے اور نہرو ان کی مزاحیہ شاعری بھی پسند کرتے تھے بلکہ قہقہے لگاتے تھے۔ خود نہرو نے فہرست میں ان کا نام داخل کردیا تھا۔
اب جب شکور بیگ کا نام آگیا تھا تو مجھے ہٹ جانا چاہئے تھا، لیکن رام نرسمہا ریڈی نے کہا ’’کیا ضروری ہے کہ ضلع سے ایک ہی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا جائے، ایک سے زائد کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کو اچھے امیدوار ملتے کہاں ہیں‘‘ اور آخر کار انھوں نے پی سی سی میں اپنی بات رکھی اور میرے نام کا اعلان کردیا۔
یہ میرے لئے بالکل نیا تجربہ تھا۔ لیکن نرسمہا ریڈی بہت خوش تھے بلکہ وہ ایسا کام کررہے تھے جیسے وہ خود الیکشن لڑرہے ہوں۔ اس سے پہلے کانگریس کا امیدوار یہاں سے ہار گیا تھا۔ اس بار جتانے کی کوشش تھی۔ میرے حلقہ میں تین ریونیو سرکل تھے چریال، ریبرتی اور نرمٹا۔ دو سرکل نرسمہا ریڈی نے ہی سنبھال لئے اور کہاکہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق ہی برّاکتھا کہ دلم بنائے گئے اور بس ایک بار ان کے ساتھ تقریر کے لئے چلا گیا۔ میرے لئے اُن کا تعاون عجوبہ تھا۔ کسی نے اُن سے پوچھا کہ امیدوار کون ہے تو اُنھوں نے خود اپنی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’میں ہی ہوں‘‘۔ سی پی آئی کے گوپال ریڈی صاحب سیٹنگ ایم ایل اے تھے۔ وہ بھی بھلے آدمی تھے۔ اس الیکشن میں، میں نے 2100 ووٹ سے کامیابی حاصل کی۔اس طرح سے میرا وکالت سے سیاست میں داخلہ ہوا اور پھر شروع ہوئی تلنگانہ جدوجہد۔ لوگوں کے مسائل میں دلچسپی لینا اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرنا۔ اس جذبے نے مجھے سیاست میں آگے بڑھنے میں مدد دی۔

میں نے حیدرآباد میں پہلی مِنی بس سرویس شروع کی
1971 میں جب میں آندھرا پردیش اسمبلی میں جنگاؤں کا رُکن اسمبلی تھا تو برہمانند ریڈی نے، جو اُس وقت آندھرا پردیش کے چیف منسٹر تھے ، تو اُنھوں نے میرے مخلص دوست اور کرم فرما نرسا ریڈی صاحب کی سفارش پر مجھے آندھرا پردیش روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا چیرمین بنایا۔ یہ میرے کیریئر کی پہلی بڑی ذمہ داری تھی جو مجھ پر عاید کی گئی۔ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن بہت بڑا اِدارہ تھا جس میں ہزاروں ملازمین کام کرتے تھے۔ سابق ریاست حیدرآباد میں نظام کے دَور ِ حکومت میں 1933 میں روڈ ٹرانسپورٹ کاا یک محکمہ قائم کیا گیا۔ اس محکمہ کے تحت شروع میں صرف 33بسوں کی مدد سے بس سرویس ریاست میں شروع کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو ریلوے لائن ریاست حیدرآباد میں شروع کی گئی ہے اُس کے اسٹیشنوں تک مسافرین کو بسوں کے ذریعہ پہنچنے کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس محکمہ کے عہدیدار انگریز ہوا کرتے تھے۔ بسیں بھی بہت چھوٹی ہوتی تھیں جن میں صرف 16( سولہ ) مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی۔1956 میں ریاست آندھرا پردیش کے قیام کے بعد روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کیا گیا، اُس میں ہزاروں ملازمین کام کرتے تھے اور بسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ اس حوالہ سے یہاں ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بھی کافی فعّال تھیں۔ چنانچہ جب پہلی ایمپلائیز یونین تشکیل دی گئی تو اُس کے پہلے صدر مشہور رہنما اور شاعرمخدوم محی الدین بنائے گئے۔ مخدوم کے انتقال کے بعد ڈاکٹر راج بہادر گوڑ اس یونین کے صدر بن گئے۔

مخدوم اور ڈاکٹر راج بہادر گوڑ سے میرے ہمیشہ گہرے مراسم رہے، یوں بھی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ایمپلائیز یونین ریاست میں ایک مضبوط یونین سمجھی جاتی تھی جس کے ارکان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔میں نے اپنی چیرمین شپ میں بسوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کرنے کے علاوہ شہر حیدرآباد میں تجربہ کے طور پر پہلی مِنی بس سرویس دو راستوں پر چلوائی۔ یہ بسیں ( دبیر پورہ تا نامپلی اور( پُرانا پُل تا منگل ہاٹ ) کے راستوں پر چلاکرتی تھیں۔
شہر اور گاؤں کا فرق
یہاں وہاں کے ماحول میں کوئی میل نہیں تھا۔ بلکہ زمین آسمان کا فرق تھا۔ لوگوں میں مذہبی طور پر ایک دوسرے سے الگ ہونے کا جذبہ وہاں نہیں تھا۔ سیاست میں بھی ابھی مذہبی شناخت کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں تھا۔ سوشلزم کی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ زمینداروں اور دیشمکھوں کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں۔ عام لوگوں کا ذہن زمینداری کے خلاف تھا۔
جب اسمبلی شروع ہوئی تو میں پہلی باراس بلڈنگ میں داخل ہوا اور غلطی سے سکریٹری کے روم میں داخل ہوگیا۔ یہاں شہر میں لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو محسوس ہوا کہ ان کے مسائل الگ تھے۔ شہر کے کئی مسلم قائدین سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں ان کے مسائل کی یکسوئی کے لئے کام کروں، لیکن میرے پاس میرے حلقے کے ہی بہت کام تھے۔ خصوصاً پانی، بجلی، سڑک جیسی بنیادی سہولتوں کے لئے جدوجہد کرنی پڑی اور اسی کی وجہ سے دوسرے الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی۔ دوسری بار الیکشن میں میرا حلقہ بدل دیا گیا۔ لوگ جانتے تھے کہ میں نے چریال میں کئی اہم کام کروائے ہیں، اس لئے جنگاؤں کے لوگوں نے برقی کا مسئلہ میرے سامنے رکھا۔ میں نے ان سے ان مواضعات میں بجلی کا نظام قائم کرنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ حالانکہ مجھے وہاں سے جیتنے کی اُمید نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود میں لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ زندگی میں ایک بات کا دامن میں نے کبھی نہیں چھوڑا کہ ’ہاں‘ کو ہاں اور ’نہیں‘ کو نہیں کہا جائے۔ لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ ایم ایل اے رہتے ہوئے چیریال حلقہ میں، میں کئی گاؤں کو برقی پہنچانے کا کام کیا تھا۔ اس لئے شائد انھیں اُمید تھی کہ میں ایسا کرسکتا ہوں۔ الیکشن میں جیت حاصل کی اور وعدے کے مطابق پورے حلقے کو صد فیصد برقی انتظام مہیا کرانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اس وقت جب یہ بات چیف منسٹر کو بتائی تو وہ بھی حیران ہوگئے۔ 1989 ء میں ہنمکنڈہ سے پارلیمنٹ کے لئے ٹکٹ دیا گیا اور اس میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔

تقریب حلف برداری
پی وی نرسمہا راؤ سے ملاقات تو تھی، لیکن ایسے کوئی بہت قریبی تعلقات نہیں تھے۔ وہ ہمارے گاؤں کے نزدیک کے تھے اور پہچانتے تھے۔ الیکشن کے بعد ان کی قیادت میں وزراء کی حلف برداری کی تقریب راشٹرپتی بھون میں منعقد کی گئی تھی۔ حالانکہ مجھے اس بات کی اطلاع تھی کہ حلف برداری تقریب ہے لیکن شخصی طور پر کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریب میں شرکت کرنے کے بجائے میں کچھ دوستوں کے ساتھ دوسری جگہ بیٹھا ہوا گفتگو کررہا تھا۔ دوستوں نے ازراہِ مذاق کہاکہ میرا نام وزراء کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ وہاں سے جیسے ہی آندھراپردیش گیسٹ ہاؤز پہنچا ، اٹنڈر دوڑتا ہوا آیا اور کہا :’’صاحب میں بہت دیر سے آپ کو تلاش کررہا ہوں۔ وہاں راشٹرپتی بھون میں آپ کا نام لیا جارہا ہے۔ آپ کا نام وزراء کی فہرست میں شامل ہے‘‘۔ میں فوراً کار سے راشٹرپتی بھون پہنچا اور پہنچتے ہی میرا نام پکارا گیا۔ اس طرح مرکزی وزارت میں داخل ہونے کا اتفاق ہوا۔
مرکز میں راجیو گاندھی کے علاوہ اٹل بہاری واجپائی سے بھی میرے اچھے روابط رہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب این ڈی اے حکومت کا دور آیا تو واجپائی صاحب نے مجھے منصوبہ بندی کمیشن کا رکن بنایا۔ پھر تین سال کی میعاد مکمل ہونے پر اُنھوں نے سعودی عرب میں سفیر ہند کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی تجویز میرے سامنے رکھی جس کو میں نے بخوشی قبول کرلیا۔ اگرچہ اس عرصہ میں، میںنے بی جے پی میں رسمی طور پر شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن سعودی عرب میں سفیر ہند کے عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد میں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اب ریٹائیرڈ زندگی گذار رہا ہوں۔

عزیزی زاہد نواب سلمہ
ہزاروں دعائیں
آپ کے موقر اخبار میں ہر اتوار کو ’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘ کے سلسلے کو میں بے حد شوق اور دلچسپی سے پڑھتا ہوں‘ شخصیات بھی قابل قدر ہیں اور انٹرویو لینے والے صحافی بھی قابلِ تعریف ہیں۔ آپ ایک ایسی تاریخ مرتب کررہے ہیں جو ہم جیسے سِن رسیدہ لوگوں کے لئے یادداشت کی حیثیت رکھتی ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
چونکہ یہ انٹرویو ایک نشست میں قلم بند ہوجاتا ہے اس لئے کبھی بعض باتیں اور نام معرضِ تحریر میں آنے سے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس لئے قارئین کا کام ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسی باتوں کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ عبدالکریم کاظمی صاحب کے انٹرویو میں پروفیسر ڈاکٹر میر ولیؔ الدین کا ذکرِ خیر ہونا چاہیئے تھا جو جامعہ عثمانیہ کے قابل ترین اساتذہ میں تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر سدھیر نائیک کے انٹرویو میں ڈاکٹر بنکٹؔ چندرا کا نام آنے سے رہ گیا۔ جو ایک عدیم المثال معالج تھے۔
ایسے اچھے سلسلے کو شرو ع کرنے کے لئے ایک بار پھر مبارکباد قبول فرمائیں۔
فقط
دعاگو
شاہ عالم خاں