ڈاکٹر آمنہ تحسین
ماہرِ لسانیات ودکنیات،دید ہ ور محقق و نقاد اور ممتاز شاعرہ و ادیبہ‘ پروفیسر اشرف رفیع کا شمار جامعہ عثمانیہ کی قابل فخر دختران میں ہوتاہے۔انھوں نے اپنے علم وعمل کے ذریعہ اردو دنیا میں ایک ممتاز مقام بنایا۔ اشرف رفیع کی اسکولی تعلیم گورنمنٹ سٹی ہائی اسکول فار گرلز‘کوٹلہ عالی جاہ میں مکمّل ہوئی ۔انھوں نے ۱۹۵۶ میں ایچ ایس سی کامیاب کیا۔ پھر ویمنس کالج سے بی۔ اے اور شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ سے ایم۔ اے اردو کی تکمیل کی ۔ماہرِ لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ تحریر کیا اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔تعلیم کی تکمیل کے بعد مختلف کالجس میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں پھر شعبہ اردو‘ جامعہ عثمانیہ سے وابستہ ہو گئیں۔ وہیں سے پروفیسر و صدر شعبہ کے عہدے پر کئی برس خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوئیں۔ان کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف اردو ادب کا بہترین سرمایہ قرار دی جا سکتی ہیں۔علاوہ ازیں دو شعری مجموعے ان کے شاعرانہ کمال کے ترجمان ہیں۔ان کے شاگردوں کی خاصی تعداد ہے جن میں بیشتر شاگرد درس وتدریس کے علاوہ دیگر شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔
پروفیسر اشرف رفیع نے حیدرآباد کے ماضی کے متعلق بتایا کہ یہاں ہمیشہ سے ہی دور دور سے افراد آتے رہے اور بود وباش اختیار کرتے رہے ۔مختلف ماہرینِ علوم و فنون نیز صوفیوں وعالموں کے لیے یہ شہر اہم مرکز رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان کے آبا واجداد کا تعلق ملتان سے تھا ۔ان کے پڑ دادا حضرت محمد سبحان الدین شاہ صدیقی قادری الملتانی‘ پربھنی سے ہو تے ہو ئے حیدرآباد کے محلہ یاقوت پورہ میں آکر بس گئے تھے۔اسی مقام پر ان کے بعد کی نسلوں نے بھی سکو نت اختیار کی ۔جس علاقہ کو لوگ آج پرانا شہر کہتے ہیں اصل حیدرآباد تو یہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جس مکان میں وہ قیام پذیر ہیں اس کے کاغذات پر موضع چچلم لکھا ہوا ہے۔ حیدرآباد کی تاریخ میں علاقہ چچلم کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے ۔ قلی قطب شاہ نے قلعہ گولکنڈہ کے احاطہ سے باہر شہر کو آباد کر نے کے لیے علاقہ چچلم کو منتخب کیا تھا اور چارمینار کی تعمیر کے ساتھ شہرِ حیدرآباد کی بنیاد رکھی تھی نیز رعایا کے آرام دہ رہن سہن وتجارت وغیرہ کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس علاقہ کے چاروں طرف خوب ترقی ا و ر وسعت ہو تی گئی۔قطب شاہی عہد کے بعد آصف جاہی سلاطین نے بھی یہاں پر مختلف عمارتیں تعمیر کیں اور کئی اہم شعبے قائم کیے جو آج بھی حیدرآباد کی عظمت ظاہر کرتے ہیں۔ عرصہ دراز سے ہی یہ علاقہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام و خواص کا پسندیدہ مقام رہاہے۔آپسی خلوص ،محبت ، بھائی چارگی اور رواداری کے ساتھ برسوں سے یہاں لوگ مقیم ہیں۔حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب کے کئی ایک منفرد نمونے آج بھی یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں کے مقیم معمر افراد کی بول چال اور رہن سہن سے ہم یہ بالکل بھی تفریق نہیں کرسکتے کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ صرف حیدرآبادی لگتے ہیں۔ حال تک بھی یہاں بے شمار دیوڑھیاں موجود تھیں جن میں امیر وکبیر افراد کے ساتھ ساتھ ما مائوں و خواصوں کی دیوڑھیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ یہ عمارتیں ایک شاندار و روادارماضی کی شان وشوکت کی داستانیں سناتی تھیں ۔ یہ داستانیں ایک ایسی مثالی ریاست کی تھیں جہاں نہ صرف نواب و امراء شان وشوکت سے رہا کرتے تھے بلکہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں کے خاص نوکرا ور محلات پر فائزمامائیں بھی نہایت وضع داری کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ ملازم افراد کی آمد ورفت کے لیے اعلیٰ حضرت نے ’’ کھاچر ‘‘ گاڑیاں رکھوائی تھیں۔اس سواری کے ذریعہ ملازم اپنی دیوڑھیوں سے سفر کرتے تھے۔اس علاقہ میں ماما جمیلہ کی دیوڑھی آج بھی خاصی مقبول ہے ۔ وہیں مسجد ِ الماس ایک حبشی غلام کی جانب سے بنائی گئی مسجد ہے۔یہ مثالیں دراصل ہمیں بتاتی ہیں کہ حیدرآباد کی تہذیب و تمدن کتنی منفرد رہی تھی۔ شاندارماضی کی وہ روایتیں اب بڑی حد تک ختم ہو گئیں۔ وہ عظیم عمارتیں اب بوسیدہ ہو چلی ہیں یا بدلتے وقت کے ساتھ آج نئی عمارتوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ آج شہرِ حیدرآباد بہت دور دور تک پھیل گیا ہے۔نئی نئی بستیاں آباد ہو ئی ہیں۔ لیکن آج بھی اصل حیدرآباد اور اس کی خاص تہذیب ہم کو پرانے شہر میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
حیدرآباد میں علم پرور اور مشائخین کے گھرانوں کی تعداد خاصی تھی ۔ اپنے گھروں پر یہ افراد تعلیم وتبلیغ دین کے لیے علمی مجالس منعقدکیا کرتے تھے ۔اس دور میں زنان خانے اور مردان خانے الگ الگ ہواکرتے تھے ۔ جہاںمرد وخواتین مریدوں کی بڑی تعداد اس تعلیمی وتدریسی نظام سے فیض یاب ہو تی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں خواتین ابتدائی دور سے ہی تعلیم ومختلف فنون میں ماہر تھیں۔ان کی تعلیم وتربیت کے متعلق سماج میںکشادہ ذہنی تھی۔ چونکہ بیشترعالم وصوفی گھرانوں میں خواتین کے لیے درس وتدریس کا نظم ہوا کرتا تھاجہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی ،فارسی واردو زبان کے علاوہ مختلف ہنر بھی سکھائے جا تے تھے۔ تاکہ وہ خود مکتفی ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی ہند کی بہ نسبت جنوبِ ہند بالخصوص حیدرآباد کی خواتین ماضی سے ہی خواندہ اور ہنر مند و بااختیار رہی ہیں۔ ان کو فارسی و اردو کی کئی داستانیں اور شعرا کا کلام ازبر ہوتا تھا۔گھروں میں اپنے بچوں کو ابتدائی سطح پر مختلف زبانیں سکھانے اور ادبی ذوق کی تربیت کی ذمہ داری خواتین ہی پورا کیاکرتی تھیں۔ انھوں نے مزیدبتایا کہ حیدرآباد میں ایک طرف روایتی طرزِ زندگی گذارنے والے افراد تھے تو دوسری طرف ایسے کئی وسیع النظر افراد بھی تھے جنھوں نے زمانے کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت انجام دیں۔اشرف رفیع صاحبہ نے اپنے والد مولوی محمدرفیع الدین صدیقی کے متعلق بتایا کہ وہ کشادہ ذہن و ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔درس وتدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے ۔ انھیںشاعری ، مصوری اور موسیقی سے بڑا شغف تھا۔ انھوں نے ہمیشہ تمام بچوں کو بالخصوص لڑکیوں کوجدید واعلیٰ تعلیم اور مختلف ہنر سیکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔انھوں نے ہم بھائی بہنوں کو بھی تعلیم وترقی کے بھر پور مواقع دیے۔حتیٰ کہ انھوں نے ہمیں موسیقی، تیراکی ، سائکلنگ ، بنوٹ جیسے ہنر بھی سکھائے تھے۔’’ بنوٹ‘‘ کے متعلق محترمہ نے بتایا کہ ماضی میں وہ ایک قسم کا فن تھا جو لکڑی گھمانے سے متعلق تھا۔اس فن کو اکثر لڑکے سیکھا کرتے تھے۔اس فن کے ماہر افراد کسی بھی طاقتور فرد حتیٰ کہ پہلوان کو بھی زیر کر سکتے تھے ۔جبکہ والد صاحب نے کسی بھی نا گہانی صورتحال سے نپٹنے کے لیے ہمیں باقاعدہ اس فن کی ٹریننگ فراہم کی تھی ۔ بلکہ محلے کی دوسری لڑکیوں کو بھی ہمارے گھر پر بنوٹ کی تربیت دی جاتی تھی۔ حیدرآباد میں ایسے کئی گھرانے تھے جہاں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی لکھنے پڑھنے نیز کھیل کود کے بھر پور مواقع حاصل تھے بلکہ کئی گھرانوں میں لڑکیوں کو باقاعدہ موسیقی کی تعلیم یا ستار بجانا بھی سکھایا جاتا تھا۔ استاد اکبر علی خاں جو بنارس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے امراء کے خاندان کی اکثر لڑکیوں کو ستار سکھایا کرتے تھے۔مجھے بھی انھوں نے اپنی شاگردی میں لے لیا تھا۔ اسکول وکالجس میں بھی مختلف کھیل کود اور ادبی وموسیقی کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے۔ڈرامے پیش کیے جاتے تھے جس میں لڑکیاں بھی حصّہ لیتی تھیں۔ویمنس کالج میں لڑکیوں کو ادبی وتہذیبی پروگراموں میں حصّہ لینے کا خوب موقع ملتا تھا۔ ان پروگراموںکی روحِ رواں‘ اردو کی استادڈاکٹر زینت ساجدہ ہوتی تھیں۔زینت آپالڑکیوں میں ادبی ذوق کو فروغ دینے کی بھر پور کو ششیں کیا کرتی تھیں۔وہ ڈرامے لکھ کر ہم سے اسٹیج بھی کرواتی تھیں۔
اسکول یا کالج کی سطح پرعلاقاعی ،مذہبی یا لسانی تعصب بالکل نہیں تھا۔اردومیڈیم اسکولس وکالجس میں غیر مسلم طلباء بھی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اسکول وکالج کو عموماً لڑکیاں بیل گاڑی یا شکرام کی سواری میں آیا کرتی تھیں۔ چند برسوں بعد سیکل رکشہ متعارف ہو گیا تو شکرام کا استعمال ختم ہو گیا۔ پردہ کا سخت خیال رکھا جاتا تھا۔شکرام کی طرح سیکل رکشہ پر بھی پردہ لگا رہتاتھا۔لڑکیوں کے مدارس میں صرف استا نیاں ہو تی تھیں ۔کسی مرد کو اسکول کے احاطہ میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔اپنے اساتذہ کو یاد کرتے ہو ئے انھوں نے بتایا کہ اسکول سے لے کر یو نی ورسٹی تک انھیں بہترین اساتذہ کا ساتھ نصیب ہوا۔سٹی ہائی اسکول کے اساتذہ میں منیزہ بانو کاواس جی ، خدیجہ آپا،بتول آپا، قمر آپا جبکہ ویمنس کالج میں مس لینن پرنسپل تھیں اور اساتذہ میں شاہجہاں آپا، سلامت آپا اور زینت آپا ان کی استاد رہی تھیں۔ شعبہ اردو‘ جامعہ عثمانیہ کے استادوں میں ڈاکٹر حفیظ قتیل،حمید شطاری، پروفیسر مسعود حسین خان اور ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ وغیرہ سے انھیں پڑھنے کا موقع ملا۔ پروفیسر صاحبہ نے یہ بھی بتایا کہ ۱۹۵۶ء میں ریاست ِآندھرا پردیش بننے کے بعد سے تلگو زبان کو اسکولی نصاب میں لازم کردیا گیا تھا۔۱۹۵۶ء کے بعد سے آندھرا کے علاقوں کے کئی افراد روزگار اور تعلیم کے حصول کے لیے حیدرآباد کا رخ کرنے لگے۔ان کے لباس و انداز سے پہلے وہ با آسانی پہچانے جاتے تھے کہ ان کا تعلق آندھرا کے علاقہ سے ہے ۔ دھیرے دھیرے ان کے رہن سہن میں تبدیلیاں آتی گئیں انھوں نے یہاں کا کلچر پوری طرح اپنا لیا۔وہیںآندھرا کے کلچر کے اثرات سے حیدرآباد کی تہذیب بھی بہت متاثر ہو گئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں عرصہ تک مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا۔تمام رشتے دارمل جل کر رہا کرتے تھے۔مکان کافی کشادہ ہوا کرتے تھے ۔شادی بیاہ کے لیے کسی شادی خانہ کا تصور ہی نہیں تھا۔ تقریبات میں رشتہ دار کئی دن قبل سے مہمان ہو تے تھے۔ ان کی خوب مہمان داری و خاطر مدارت ہو تی۔ ان مواقعوں پر بچوں کورشتوں کی اہمیت سمجھائی جاتی تھی ۔ماضی کے روایات اور رسوم و رواج دراصل رشتوں کو باندھے رکھنے کا اہم ذریعہ تھے۔مختلف تقریبات میں شرکت سے خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے کی خوشی وغم سے واقف رہتے تھے ۔ گھروں میں جب تقریبات منعقد ہو تیں توخاص موقعوں کی مناسبت سے ڈھولک کے گیت گائے جاتے تھے ۔خواتین اور لڑکیاں اس میں بھر پور حصّہ لیتی تھیں۔آپسی رشتوں میں خوب چھیڑ چھاڑ ہو تی ، جملے کسے جاتے۔ لیکن اس سے رشتوںمیںکوئی خرابی پیدا نہیں ہو تی تھی ۔ آج یہ تمام ماحول بالکل بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔اب رشتے اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ خاندان کے ساتھ ساتھ محلے کے افراد بھی بلا تخصیص مذہب سب خالہ ،مامو اور چچا کہلاتے تھے لیکن اب اپنے وغیر سب آنٹی وانکل ہو گئے ہیں ۔
حیدرآباد میں علم وادب کا چرچا گھر گھر تھا۔کئی گھرانوں میں نایاب کتب کا ذخیرہ ہوا کرتا تھا۔یہاں علمی وادبی محفلوں کا انعقادقطب شاہی دور سے ہی چلا آرہا ہے ۔اس ماحول کے نتیجے میں عوام وخواص کے علمی وادبی ذوق کو پروان چڑھنے کا خوب موقع ملتارہا ۔ جا معہ عثمانیہ کے قیام کے بعد سے علمی وادبی ماحول میں اور بھی نکھار آتا گیا ۔علمی وادبی انجمنیں قائم ہو ئیں جس کے تحت مختلف پروگرامس منعقد ہوتے۔بیرونِ ریاست اہلِ علم وادب افراد مدعو کیے جاتے۔ طلباء بھی تمام سرگرمیوں میں شریک ہو تے تھے۔تفریح اور ادبی ذوق کی تسکین کا ایک اہم ذریعہ ریڈیو تھا۔ حیدرآباد کی ادبی فضاء کو فروغ دینے میں آل انڈیا ریڈیو کا بھی اہم رول رہا ہے۔ریڈیو کے مختلف پروگراموں سے اس دور کے اساتذہ اور اہم شاعر و ادیب وابستہ تھے۔ بڑے معیاری پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔
پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ نے دکنی زبان وادب کو حیدرآباد کا اہم ورثہ قرار دیا اور بتایاکہ دکنی زبان میں بے حد اہم ذخیرہ علم وادب موجود ہے۔’’ دکنی‘‘ دراصل اردو زبان کا ابتدائی روپ ہے ۔اس ابتدائی دور میں ہی جنوبِ ہند کے دکنی بولنے والوں نے بہت جلد اس زبان میں اتنی صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ نثر و نظم کی کئی ایک معرکتہ الآرا تصانیف لکھی گئیں ۔بلکہ صوفیائے کرام نے بھی بالکل ابتدائی دور میں اس زبان کو اپنی رشد وہدایات کا ذریعہ بنایا اور ترسیل کا کام انجام دیا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ذخیرہ علم و ادب کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔اس سرمایہ ادب سے مرعوب ہونے کے بجائے اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کو ششیں ہو تی رہیں ۔ تاہم حیدرآباد کے محققین نے اس ذخیرہ علم و ادب کی بازیافت اور اسے منظرِ عام پر لانے کے لیے بہت اہم کام انجام دیے۔ انھوں نے ابتدائی محققین ‘عبدالجبار خاں صوفی ملکا پوری ، شمس اللہ قادری، نصیرالدین ہاشمی، داکٹر زور اور ان کے رفقا کو یاد کرتے ہو ئے کہا کہ دکنی زبان و ادب کو پامال ہو نے سے بچانے کی ان افراد نے جو کو ششیں کیں انھیں بعد کے دور کے محققین نے آگے بڑھایا۔دکنی زبان ،ادب وثقافت کے تحفظ و تعارف کے مقصد سے ڈاکٹر زور نے ادارہ ادبیاتِ اردو قائم کیا اور وہاں سے رسالہ سب رس شائع کیا تاکہ تمام اردو دنیا کو اس کی اہمیت سے واقف کر وایا جا سکے ۔ڈاکٹر زور کی اس تحریک کو تقویت پہنچانے میں اس دور کے کئی ایک افراد نے حصہ لیا اور بے حد اہم کام انجام دیے۔ دکنی زبان آج بھی حیدرآ بادکی عمر رسیدہ خواتین کے پاس کسی حد تک محفوظ ہے ۔ڈھولک کے گیت ،محاورے، ضرب المثل وغیرہ میں دکنی کی جھلک سننے کو ملتی ہے۔حیدرآباد کی خواتین نے برسوں اپنی تہذیب کو سنبھالے رکھا تھا۔ یہاں کے لباس و زیور کی اپنی ایک الگ شناخت تھی ۔ کئی گھرانوںکا لباس وزیور ان کے خاندان کے نام سے پہچانا جا تا تھا۔مخصوص گھرانوں کی خواتین وہی لباس وزیور زیبِ تن کرتی تھیں۔وقت کے ساتھ آج بڑی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ انھوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مادیت پرستی ،معیاری زندگی کی تگ ودودنیز ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ آرائی نے ہماری انفرادیت پر برا اثر ڈالا ہے۔ آج عورت چو مکھا لڑائی لڑرہی ہے۔ گھر اور باہر اس کے ہمہ پہلو کردار میں اب وہ صنفِ نازک نہیں رہ گئی ہے ۔ اب ہمیں اس کے ہاتھوں میں مہندی نظر نہیں آتی ۔وہ زیور اور سنگار نظر نہیں آتا جو کبھی اس کے وجود کا لازمی حصّہ تھا۔اب وہ دہری ذمہ داریوں کو نبھاتے ہو ئے وقت کی تیز رفتار دوڑ کا حصّہ بن گئی ہے اور کہیں نہ کہیں وہ رول جو اسے اپنی تہذیب و ثقافت سے باندھے رکھتا تھا وہ کہیںکمزور ہو کر رہ گیا ہے۔ باوجود ان تمام بدلتے حالات کے خواتین کو اپنی زبان وتہذیب کے تحفظ کا خیال رکھنا ضروری ہے اس لیے کہ نئی نسل تک اسے پہنچانے کی زائد ذمہ داری خواتین پر ہی ہو تی ہے۔اپنی زبان و تہذیب کی پاسداری کے ساتھ ہی ہم اپنی شناخت قائم رکھ سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو حیدرآباد کی عظمت ، شان وشوکت اور منفرد تاریخ و تہذیب کے بارے میں روشناس کروایا جائے۔اس ضمن میںروزنامہ سیاست کی یہ کو ششیں قابلِ تحسین ہیں۔