حیدرآباد… جو کل تھا نواب شاہ عالم خاں

سید امتیاز الدین میرا کالم
کہنے کو ہم حیدرآبادی کہلاتے ہیں، لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم خود اس حقیقت سے بہت کم واقف ہیں کہ حیدرآباد کی عظمت ِ رفتہ کیا تھی۔ یہ وہ شہر ہے جو ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کا صدر مقام تھا۔ یہاں کی تہذیب، شان و شوکت لوگوں کے آداب و اخلاق بے مثال تھے۔ بزرگانِ دِین نے اپنے مبارک قدموں سے اس خطہ ٔ زمین کو مرجعِ خلائق بنایا۔ اہل علم دور دور سے یہاں آئے۔ اتحاد اور بھائی چارہ خواص و عوام کی فطرت میں داخل تھا۔ شرافت اور ملنساری یہاں کے رہن سہن کا جز تھی۔ آج کی کاروباری زندگی میں بہت سی اقدار بدل گئی ہیں۔ اگر آج کسی سے عہد ِ رفتہ کی بات کی جائے تو شاید لوگ اسے قصوں، کہانیوں پر محمول کریں۔ آج بھی اس شہر میں چند گنی چنی ہستیاں رہ گئی ہیں جنھیں ہم حیدرآباد کی نادر ہستیوں میں شمار کرسکتے ہیں۔

ادارہ ’سیاست‘ کی کوشش ہے کہ اس روزنامہ کے صفحات کے ذریعہ سے چند بزرگوں کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے۔ اس بات چیت کو ویڈیو گرافی کے ذریعے بھی محفوظ کیا جارہا ہے تاکہ ان یادگار زمانہ شخصیات کی باتیں کیمرے میں بھی محفوظ ہوجائیں۔ اس سلسلہ میں جب ہم نے غور کیا تو ہماری نگاہِ انتخاب نواب شاہ عالم خاں صاحب پر پڑی۔ نواب صاحب بِلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں جن سے ملنا، انھیں دیکھنا، ان کی یادوں کو سمیٹنا ایک ایسا خوشگوار تجربہ ہے، جسے لفظوں میں بیان کرنا آسان کام نہیں ہے۔ نواب صاحب کی پیدائش 1924ء کی ہے۔ وہ اپنی عمر کی نوے بہاریں دیکھ چکے ہیں اور ماشاء اللہ ابھی بھی جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست اور توانا ہیں۔

نواب صاحب حیدرآباد دکن سگریٹ فیکٹری کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں، جس کا شمار حیدرآباد کی قدیم ترین انڈسٹری میں ہے۔ اپنی بے شمار کاروباری مصروفیات کے باوجود انھوں نے قابل قدر سماجی اور تعلیمی خدمات انجام دی ہیں۔ آپ انوارالعلوم ایجوکیشن سوسائٹی اور مدرسۂ اعزہ کے تحت چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کے صدرنشین ہیں جن کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ یہاں انجینئرنگ، مینجمنٹ، کامرس اور دیگر کورسس کی پوسٹ گریجویشن تک تعلیم کا انتظام ہے۔

نواب شاہ عالم خاں کو باغبانی سے بے حد لگاؤ ہے۔ گُلابوں کا جیسا ذخیرہ آپ کے پاس ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ دنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کرچکے ہیں اور کئی ’’روز شوز‘‘ کے جج کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ شہ سواری آپ کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ آپ کا پکوان کا ذوق بھی نہایت عمدہ ہے۔اگر صرف نواب شاہ عالم خاں کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کی جائے تو شاید یہ کالم ناکافی ہو، لیکن ہمارا اصل موضوع ہے ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘۔ اس لئے ہم نے حیدرآباد کے ماضی کے بارے میں باتیں کیں، ان کو مختصراً عرض کرنا ضروری ہے۔

نواب صاحب نے عثمانیہ یونیورسٹی کے سنہرے دور میں تعلیم حاصل کی۔ آپ کی میٹرک تک کی تعلیم انگریزی ذریعہ تعلیم سے ہوئی تھی، لیکن ڈاکٹر میر ولی الدین مرحوم سابق صدر شعبۂ فلسفہ کے مشورے پر آپ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا، جہاں ذریعہ تعلیم اُردو تھا۔ اُس وقت جامعہ عثمانیہ میں نہایت قابل اساتذہ موجود تھے، جن میں چند قابل ذکر ہستیاں آج بھی نہایت مشہور ہیں۔ ریاضی میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، انگریزی میں پروفیسر حسین علی خاں کے نامِ نامی سے کون واقف نہیں۔ پروفیسر امتیاز حسین خاں اور پروفیسر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، پروفیسر عبدالقادر سروری، پروفیسر کلیم اللہ قادری اور دیگر اساتذہ اپنے اپنے مضامین کے ماہر تھے۔ یونیورسٹی کا یونیفارم اودی شیروانی تھا۔ ہاسٹل کی فیس اُنیس (19) روپئے تھی، جس میں طعام کے علاوہ حجام اور دھوبی کا خرچ بھی شامل تھا۔ہم نے پوچھا کہ کیا اُس زمانے میں بھی Ragging ہوتی تھی؟ نواب صاحب نے بتایا کہ ہوتی تھی، لیکن اس کے حدود تھے۔ خود نواب صاحب جب ہاسٹل میں شریک ہوئے تو ان کے سینئر طلباء نے انھیں ابتداء میں کھڑا رہنے کو کہا۔ پھر کہا شیروانی اُتاریئے۔ پھر کہا کُرتہ اُتاریئے۔ اس کے بعد بنیان اُتروائی۔ اب جب کہ نواب صاحب صرف پاجامے میں ملبوس تھے تو نواب صاحب نے خود پوچھا ’’فرمائیے، اب کیا حکم ہے؟‘‘ سینئر طلباء اس دلیرانہ سوال سے مرعوب ہوگئے اور انھیں دوبارہ کپڑے پہن لینے کو کہا۔

حضور نظام کی سلور جوبلی 1936ء میں ہوئی تھی۔ پورے شہر میں روشنی ہوئی تھی۔ خطابات اور وظائف دیئے گئے تھے۔ باغِ عامہ کا جوبلی ہال اُس موقع کی یادگار ہے۔ اُس وقت کی دو یادگار تصاویر ابھی بھی جوبلی ہال میں موجود ہیں، جن میں مہاراجہ کشن پرشاد کمخواب کی شیروانی زیب تن کئے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ اُس زمانے میں صدراعظم کو یمین السلطنت کہا جاتا تھا۔ وزراء صدر المہام کہلاتے تھے۔ ریاست کے کچھ علاقے امراء کی جاگیریں تھیں جنھیں پائیگاہ کہتے تھے۔

حیدرآباد سیول سرویس قائم تھی۔ اول تعلقدار اور ناظم کا گریڈ 500 اور 900 ہوتا تھا۔ دوم تعلقدار 350 روپئے کے گریڈ میں ہوتا تھا اور تحصیلدار 200 تا 400 یافت پاتا تھا۔ روپئے کی قوتِ خرید بہت زیادہ تھی۔ ایک روپئے میں 10 تا 20 سیر چاول ملتے تھے۔ ایک روپئے میں 96 انڈے اور پانچ روپئے میں بکرا مل جاتا تھا۔ معمولی یافت پانے والا بھی آرام سے زندگی گزارتا تھا۔ اِنعام یا خیر خیرات میں چار آنے یا آٹھ آنے بھی دیئے جاتے تو لوگ سلام کرکے قبول کرتے تھے۔ہم نے پوچھا کہ ان دنوں شہر کے بلدی حدود کیا تھے؟ نواب صاحب نے بتایا کہ ایک طرف فلک نما بلدی حد تھا۔ دوسری جانب ملک پیٹ اور ایک طرف آصف نگر بلدی حدود میں تھا۔ دلسکھ نگر، دلسکھ رام صاحب کے نام سے موسوم ہوا، جو ایک بڑے افسر تھے۔ سکندرآباد کا علاقہ کنٹونمنٹ کہلاتا تھا۔ سکندرآباد کی گاڑیوں کے نمبر پلیٹ بھی علیحدہ ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں زمین کی قیمتیں کم تھیں۔ مہنگی سے مہنگی زمین پانچ روپئے سے سات روپئے گز میں دستیاب تھی۔ زمین سے زیادہ مکان کی قیمت دیکھی جاتی تھی۔

امراء اور نوابوں کے دسترخوان بہت مشہور تھے۔ نواب سالارجنگ کا دسترخوان انواع و اقسام کے لوازمات کے لئے شہرت رکھتا تھا۔ آج کل شادیوں میں مجمع بہت ہوتا ہے۔ اُن دنوں چار سو مہمان بھی شریک ہوجائیں تو وہ بڑی شادی کہلاتی تھی۔ کھانوں میں بریانی کے علاوہ کباب اور بڑے بڑے نان ہوا کرتے تھے۔ بریانی میں سفیدہ بابیضہ (انڈوں کے ساتھ) اور زعفرانی بریانی کا رواج تھا۔ بگھارے بیگن یا دم کے بیگن ہوا کرتے تھے۔ میٹھوں میں ڈبل کے میٹھے اور کھیر کا رواج تھا۔ کھیر کو شیر برنچ بھی کہتے تھے۔ شادی صبح تا نصف النہار ہوتی۔ دسترخوان لمبے یا چوکور ہوتے۔ میز کرسی کا رواج نہ تھا۔ چوکی ڈنر ہوتا۔ کھانے کا خرچ ایک روپیہ فی مہمان ہوا کرتا تھا۔ سجاوٹ میں دولہے کے لئے مسند بچھتی تھی۔ شادی کی جگہ نوبت بجتی تھی۔

نواب صاحب کو گھوڑ سواری سے بھی دِلچسپی رہی ہے۔ فرسٹ لانسرس میں کیولری سنٹر قائم تھا، جہاں گھوڑ سواری کی دو سالہ تربیت دی جاتی تھی۔ نواب معین الدولہ کو کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ لندن سے کرکٹ ٹیم آتی۔ سکندرآباد کے پاس ڈیرے لگتے اور کرکٹ کے شائقین کھیل دیکھتے۔ خود معین الدولہ بہادر کی ایک ٹیم ہوتی تھی۔شادیوں کے موقع پر بعض خاندانی زیور دُلہنوں کو پہنائے جاتے۔ مثال کے طور پر نواب صاحب نے جو نتھ اپنی دُلہن کو پہنائی تھی، اسے ان کے خاندان کی کئی دُلہنیں شادی کے موقع پر پہن چکی ہیں۔ نواب صاحب نے بتایا کہ ایسے زیور کو مبارک و مسعود خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت جوہری یا سُنار کی نظر سے نہیں آنکی جاتی بلکہ اس کی ایک جذباتی قیمت ہوتی ہے۔جب ہم اس ملاقات کے بعد واپس ہورہے تھے تو ہم نے نواب صاحب کا ’روز گارڈن‘ اور کروٹن کا باغیچہ دیکھا۔ نواب صاحب نے باغبانی میں بھی عالمگیر شہرت حاصل کی ہے اور آپ کے نام سے شاہ عالم گُلاب اور شاہ عالم کروٹن موسوم ہوچکے ہیں اور ان کی تصاویر باغبانی سے متعلق کتابوں میں شامل ہیں۔نواب صاحب اپنی بزرگی کے باوجود ہمیں لینے کے لئے دروازے تک آئے اور لاکھ منع کرنے کے باوجود وداع کرنے کے لئے پھر دروازے تک آئے۔ اس طرح ہمیں اِک گونہ اطمینان ہوا کہ حیدرآباد جو کل تھا، آج بھی ہے۔ چاہے ایک یادگار کی صورت میں سہی۔
( حیدرآباد کی بزرگ ہستیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ)