حیدرآباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر کی خودکشی

غضنفر علی خان
یونیورسٹی آف حیدرآباد ایک باوقار ادارہ ہے جس کو تعلیمی حلقوں میں عزت و توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ لیکن گذشتہ چند دنوں میں ایسے شرمناک واقعات ہوئے کہ اس کی نیک نامی حد درجہ بدنامی میں بدل گئی ۔ یونیورسٹی کے ایک دلت اسکالر نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور عہدہ داروں کے علاوہ دو مرکزی وزراء دتاتریہ اور مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کی مداخلت اور واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کی وجہ سے روہت ویمولا نے خودکشی کرلی ۔ یہ ایسا واقعہ ہے جس میں جرم سے پہلے ہی کئی شہادتیں اور ثبوت فراہم ہوگئے ۔ بس پھر کیا تھا سیاسی پارٹیوں کے بھاگوں جیسا چھینکا ٹوٹ پڑا ہو ۔ بشمول کانگریس پارٹی ہر پارٹی نے حیدرآباد یونیورسٹی کا دورہ کرنے آنجہانی طالب علم کی دردناک موت پر اظہار تعزیت کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے شہر حیدرآباد میں واقع  اس یونیورسٹی کا دورہ شروع کردیا ، جیسے ہر سیاسی پارٹی کو دلت طالب علم اور دلت طبقہ سے حقیقی ہمدردی ہو حالانکہ اصل مقصد اس ناخوشگوار اور انتہائی دردناک واقعہ سے ایک نیا سیاسی بحران پیدا کرنا تھا ۔ دلتوں اور اقلیتوں سے فی الواقع اگر سیاست دانوں اور پارٹیوں کو ہمدردی ہوتی تو اس سے پہلے کے واقعات پر بھی ایسا ہی واویلا مچا ہوتا جیسے کہ آج ہوا ہے ۔ دلت اور اقلیتیں تو صرف انتخابی ضرورت کے طور پر ہی یاد آنے والی ’’جنس ارزاں‘‘ بن گئے ہیں ۔ راہول گاندھی سے لیکر تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے روہت کی ناگہانی اور دردناک موت کا ماتم خوب منایا ۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ کیسے ہمارے اتنے بڑے تعلیمی ادارہ میں دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ روہت یونیورسٹی آف حیدرآباد کا ہونہار اسکالر تھا وہ روشن خیال تھا ۔

اس کے نزدیک دلت ہونا کوئی جرم نہیں تھا ۔ اب اسکی موت کے بعد جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسکی روشن خیالی ، وسیع النظری بھی اس کی موت کے اسباب میں شامل ہے ۔ مرکزی وزیر لیبر بنڈارو دتاتریہ نے جو خود بھی یادو ہیں کیوں بیجا دخل اندازی کی ۔ کہا جارہا ہے کہ اس یونیورسٹی میں دلت طلبہ نے ’’امبیڈکر اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن‘‘ بنارکھی تھی ۔ کیونکہ دلت ہی نہیں عام ہندوستانی بھی ڈاکٹر امبیڈکر کو دلتوں کا مسیحا کہتے ہیں ۔ روہت اور مذکورہ اسوسی ایشن دلت طلبہ کی کسی حد تک نمائندہ تنظیم بن گئی تھی ۔ جیسا کہ ہر اعلی سطح کے تعلیمی اداروں میں ہے اس یونیورسٹی میں بھی بی جے پی کا طلبہ ونگ ’’اے بی وی پی‘‘ زور وشور سے کام کرتا ہے ۔ دونوں طلبہ یونینوں میں اختلاف رائے کا پیدا ہونا ایک قدرتی بات ہے جس کو بڑھا چڑھا کر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ (حلقہ سکندرآباد) اور مرکزی مملکتی وزیر بنڈارو دتاتریہ نے فوراً مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل کو مکتوب لکھا کہ ’’یونیورسٹی آف حیدرآباد میں دلت طلبہ انتہا پسندی ، ذات پات کی سیاسی اور قوم دشمن سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں‘‘ ۔ اس مکتوب  کے جواب میں مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے لگاتار 5 مکتوب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اپاراؤ کو لکھے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا امبیڈکراسٹوڈنٹس اسوسی ایشن نے ایسا کوئی مکتوب روانہ کیا ہوتا تو مرکزی وزیر اتنی تندہی اور عجلت کے ساتھ وائس چانسلر کو مکتوبات روانہ کرتیں اور کیا معاملہ کا اس عجلت میں فیصلہ  کرنے کو کہتیں ۔ بات چونکہ دلت طلبہ کی تھی اور شکایتی مکتوب ایک دوسرے مرکزی وزیر نے لکھا تھا اورمعاملہ اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا تھا اس لئے فوراً دباؤ ڈالنے کی پالیسی اختیار کی گئی ۔ روہت کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ۔ روہت کے لئے کوئی راستہ نہیں رہا تھا اس کی ساری امیدیں ختم ہوگئی تھیں ۔ وہ طاقتور سیاسی مداخلت سے سخت ذہنی الجھن میں پھنس گیا تھا ۔ اس کے لئے اس مشکل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا چنانچہ اس نے خودکشی کرلی ۔ اب اگر سیاسی پارٹیاں سر مارتی ہیں تو اس سے کیا حاصل ۔ مودی حکومت کے دور میں جو اسکام ہوئے ہیں ان کی طرح یہ واقعہ بھی کچھ دنوں بعد ختم ہوجائے گا ۔ زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں حکومت کی لے دے ہوگی لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا ۔ ان ساری باتوں کے علاوہ اہم ترین پہلو اس سانحہ کا یہ ہے کہ ذات پات کی لعنت ملک کی آزادی کے 68 برس بعد آج بھی زندہ ہے ۔ کیا دلت اور اقلیت دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں بے سہارا بے بس اور بے یار و مددگار ہی رہے گی ۔ روہت کی موت نے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں ۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیوں ہمارے اعلی ترین تعلیمی اداروں میں ذات پات کے فرق کا چلن جاری ہے  ،کیوں دلت طلبہ یونیورسٹیز میں امتیازی سلوک کے شکار بنائے جاتے ہیں ۔ روہت کی موت کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد کے دلت طلبہ نے بعض دل شگاف انکشافات کئے ہیں کہ کس طرح یونیورسٹی میں اپنی ریسرچ کے لئے انھیں دو برس تک کوئی گائیڈ نہیں ملتا ۔ صرف  اس لئے کہ ریسرچ اسکالر دلت طبقہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں دلت ریسرچ اسکالر گائیڈ حاصل کرنے سے محض دلت ہونے کی بنیاد پر محروم رہا اور بعض صورتوں میں دلت اسکالرس کو قصداً ستایا جاتا ہے ۔ ان کے تیار کردہ مقالہ کو آخری مراحل میں اس لئے مسترد کردیا جاتا ہے کہ وہ ناقابل قبول ہے ۔ ساری محنت رائیگاں جاتی ہے ۔ اس یونیورسٹی کے دلت طلبہ نے کہا ہے کہ دوسرے اعلی طبقات کے طلبہ ان کے ساتھ میل ملاپ رکھنا یا کھانا ، گھومنا پھرنا تک پسند نہیں کرتے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ذات پات کے نظام کے تحت ایسا سلوک اگر یونیورسٹی کی سطح پر جہاں سب سے زیادہ قابل اور پڑھنے لکھے لوگ ہوتے ہیں روا رکھا جاتا ہے تو عام آدمی اور سماجی میں بھی ایسے امتیازی سلوک کو روا رکھا جاتا ہوگا ۔ بی جے پی حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیوں اس کے دور میں امتیازی سلوک کے ایسے واقعات ہورہے ہیں ۔ صرف بی جے پی کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ تمام سماجی سدھاروں اور سابقہ حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں سے بھی یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ ذات پات کی اس لعنت کو سماج سے ختم کرنے کے لئے کیوں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا ۔ اگر سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں یہ سمجھتی ہیں دلتوں اور کمزور طبقات شیڈول کاسٹ کو کچھ فیصد تحفظات فراہم کرکے یہ لعنت ختم کی جاسکتی ہے تو پھر کیوں آج آزادی کے چھ سے زائد دہوں کے بعد یہ برائی پوری طرح سے ہمارے اعلی ترین تعلیمی اداروں میں تک موجود ہے ۔ عام سطح پر اگر ذات پات چھوت چھات کا چلن ہے تو یہ بھی تشویش کی بات ہے لیکن درسگاہوں اور جامعات میں ایسا رجحان رمق برابر بھی پایا جاتا ہے تو یہ ہمارے لئے ایک قومی سانحہ ہے جو شکایتیں اس یونیورسٹی کے دلت طلبہ کی ہیں وہ کوئی ان ہی کی یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے دوسری جامعات کا بھی یہی حال ہے ۔ امتیازی سلوک اہانت آمیزی کی حدوں کو جب چھونے لگتا ہے تو تعلیمی ادارہ کے لئے اس سے زیادہ سانحہ کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی ۔ روہت کی خودکشی کے سیاسی اسباب تو خیر منظر عام پر آہی جائیں گے لیکن اس واقعہ نے سب سے بڑی حقیقت کو بھی عیاں کردیا ہے کہ ہندوستانی سماج میں ذات پات کے بھید بھاؤ کا چلن آج بھی باقی یہ اور ہمارے یہ دعوے کہ ہم نے ہندوستان کو اس لعنت سے پاک سماج بنالیا ہے انتہائی جھوٹا دعویٰ ہے۔