ڈاکٹر سید بشیر احمد
راقم ا لسطور کا تعلق محکمہ پولیس سے رہا ہے 1960ء میں نظام آباد سے تبادلہ ہوا اور حیدرآباد میں پوسٹنگ ہوئی ۔ ازروئے قواعد ملازمت راقم الحروف نے آئی جی پی سے تحریری اجازت لے کر ایوننگ کالج میں داخلہ لیا تاکہ گریجویشن کی تکمیل ہوجائے ۔ 1964ء میں مجھے بی اے کے سال آخر کا امتحان دینا تھا ۔ امتحان سے دو ماہ قبل میرا تبادلہ محبوب نگر ہوگیا اور احکامات بھی صادر کردئے گئے ۔ راقم الحروف کا استدلال تھا کہ دو مہینہ تک تبادلہ کو التواء میں رکھا جائے تاکہ امتحان سے فارغ ہوجاؤں لیکن شنوائی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ راقم کے خسر موظف کلکٹر تھے ۔ انہوں نے راقم الحروف سے کہا کہ اس وقت کے برسر اقتدار وزیر داخلہ سے نمائندگی کا مشورہ دیا جو جامعہ عثمانیہ میں ان کے ہم جماعت تھے اور اُن سے قریبی مراسم تھے ۔ خسر کی ہدایت پر راقم الحروف ان کے ساتھ وزیر داخلہ کے در دولت پر حاضر ہوا ۔ وزیر موصوف نے بڑے پرتپاک انداز سے ملاقات فرمائی اور ہمارے سامنے ہی آئی جی پی کو فون کرکے ہدایت فرمائی کہ تبادلہ کو دو تین ماہ کیلئے ملتوی رکھا جائے ۔ اُس کے بعد ہم لوگ اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس ہوگئے ۔ چار چھ روز کے بعد راقم الحروف کے محبوب نگر پر کارگذار ایک قریبی پولیس عہدیدار نے اطلاع دی کہ میری جگہ جو صاحب تبادلہ کے بعد حیدرآباد آنے والے تھے انہیں ایک روز میں ان کو وہاں سے ریلیو کیا جانے والا ہے ۔ راقم الحروف نے اپنے خسر کو اس کی اطلاع دی ۔ انہوں نے کہا کہ کل صبح وہ مجھے کو سابق وزیر داخلہ جناب نرسنگ راؤ صاحب کی سکونت حمایت نگر چلیں گے جو سابق میں اخبار ’’ رعیت ‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے ۔ چنانچہ دوسرے دن حسب طئے شدہ پروگرام ہم لوگ ان کی قیامگاہ پہونچے ۔ انہونے بڑی گرمجوشی سے ملاقات کی احوال سنا اور کہا کہ Genuine Case ہے اور وہ ضرور مدد فرمائیں گے ۔ چنانچہ انہوں نے ہم لوگوں کی موجودگی میں آئی جی پی کو فون کیا اور کہا کہ ان کے ایک سیول عہدیدار کے داماد کا تبادلہ معقول وجہ کی بناء پر تین مہینہ کیلئے التواء میں رکھا جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جلد سے جلد ضروری کارروائی کرکے جواب دیا جائے تاکہ وہ لوگ واپس ہوسکیں ۔ نصف گھنٹہ کے اندر ہی آئی جی پی کا جوابی فون آیا کہ انہوں نے Wireless message دے دیا ہے ۔ ہم لوگ واپس ہوئے۔ جب راقم الحروف اپنے آفس پہونچا تو التواء کے احکامات راقم کے میز پر موجود تھے ۔ آج بھی راقم الحروف یہ سوچتا ہے کہ برسر اقتدار وزیر اور سابقہ وزییر کے کام لینے کا طرز اور اس کے ساتھ حکم منوانے کے اسلوب میں کتنا فرق تھا ۔
ایم فل کرنے کے بعد اپنے مقالہ کو زیور طبع سے آراستہ کرنے اور اس کی رسم اجراء کے تعلق سے عزت مآب سنتوش ریڈی صاحب سے فون پر ملاقات کے ذریعہ وقت متعین کیا گیا ۔ راقم الحروف اپنے ایک دوست گپتا صاحب کے ساتھ وزیر موصوف کے مکان پہونچا ۔ میری کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی ۔ جب عزت مآب وزیر سنتوش ریڈی سے ملاقاتی کمرہ میں تشریف لائے تو بڑی گرمجوشی سے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ اپنے گلے سے بھی لگایا ۔ پھر انہو ںنے پوچھا کہ آیا ’’ آپ کے ذہن میں ان سے اس سے پیشتر کی ملاقات محفوظ ہے یا نہیں ۔ میں حیرت زدہ تھا اور ذہن میں یہی تھا کہ پہلی بار ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ مجھے متحیر دیکھ کر انہوں نے خود فرمایا کہ جب مجھینظام آباد میں تھا تو وہاں پر ایک سالانہ فٹبال ٹورنمنٹ کا انعقاد بڑے اہتمام سے کلکٹر آفس کے گراؤنڈ پر ہوا کرتا تھا ۔ جس میں حیدرآباد کی ٹیمیں بھی حصہ لیا کرتی تھی ۔ اس دور میں نظام آباد کے مہتمم پولیس جناب کرشنا چارلو صاحب تھے جو نوجوان عہدیدار تھے ۔ انہوں نے راقم کو بلواکر ہدایت کی تھی کہ ضلع کی پولیس ٹیم بنائی جائے اور اچھی پریکٹس کرکے ٹورنمنٹ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ ان کی ہدایت پر راقم نے بڑی محنت سے ٹیم تشکیل دی ۔ ایک ماہ کی مسلسل پریکٹس کے بعد ٹورنمنٹ میں ٹیم نے حصہ لیا ۔ گوٹیم فائنل تک نہیں پہونچ سکی لیکن اچھا مظاہرہ کیا ۔ سنتوش ریڈی صاحب نے فرمایا کہ جب ہم لوگ کھیلا کرتے تھے تو وہ لڑکپن کے دور سے گذر رہے تھے اور گراؤنڈ کی بارڈر لائین پر بیٹھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ میں نے ان کی اس غیر معمولی یادداشت کی ستائش کی اور اپنی ناقص یادداشت پر افسوس کا دل ہی دل میں اظہار کیا ۔ جب میں نے مقابلہ کی رسم اجراء کے موقع پر ان سے صدارت کی گذارش کی تو انہوں نے فی الفور قبول فرمایا اور تاریخ اور وقت مقررہ پر تشریف لائے اور اس طرح انہوں نے میری عزت افزائی فرمائی ۔
اُسی زمانہ میں جناب پی چندر شیکھر صاحب وزیر قانون مقرر ہوئے ۔ وہ اردو کے اچھے شاعر بھی ہیں ۔ ان سے وقت لے کر حاضری دی اور حیدرآباد میں غیر مسلموں کی اردو خدمات ( آزادی کے بعد ) کی رسم اجراء میں تشریف لائے اور اجراء کی رسم ان ہی کو ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ انہوں نے ازراہ حوصلہ افزائی اتفاق فرمایا اور اردو ہال حمایت نگر میں ان ہی کے ہاتھوں سے رسم اجراء عمل میں آئی ۔ اس کتاب میں موصوف کی ایک نظم ’’ گذارش ہے میری اے گجرات ‘‘ شامل ہے ۔
مرحوم انجیا صاحب کا حیدرآباد میں منسٹری سے سفر شروع ہوا اور وہ چیف منسٹر بھی ہوئے ۔ موصوف سے راقم الحروف کے دیرینہ مراسم تھے ۔ اس زمانہ میں جب وہ منسٹر نہیں تھے ۔ وہ اورینٹ ہوٹل عابڈس تشریف لایا کرتے تھے ۔ راقم الحروف بھی کبھی کبھار جایا کرتا تھا ۔ وہیں سے ان کی کرم فرمائیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 1968ء میں چند مخصوص حالات کی بناء پر راقم الحروف نے ملازمت سے استعفی دے دیا ۔ جب وہ چیف منسٹر ہوگئے تھے ۔ ایک بار میں کسی کام سے سکریٹریٹ گیا ہوا تھا ۔ واپسی پر عزمت مآب انجیا صاحب بھی اپنے آفس کی سیڑھیوں پر سے اتر رہے تھے ۔ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑی اور ازراہ کرم انہوں نے مجھے طلب کیا اور پوچھا ’’ امین صاحب کیا آپ کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے ‘‘ میں نے غرض کیا کہ میں محکمہ پولیس سے مستعفی ہوچکا ہوں ۔ عزت مآب چیف منسٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا‘‘ اس لئے شاید آپ نے کبھی آنے کی زحمت نہیں کی ‘‘ ۔ میں نے شرمندگی سے عرض کیا ایسی بات نہیں ہے ۔ آپ کی مصروفیت کا خیال کرتے ہوئے حاضر خدمت نہ ہوسکا ۔ جس کا مجھے بے حد ملال ہے ۔
گجراتی گلی حیدرآباد میں راجا ولبھ داس صاحب رہا کرتے تھے ۔ وہ بہت ساری جائیدادوں کے مالک تھے ۔ رام دیو صاحب ان کے پاس بحیثیت اسٹیٹ منیجر کام کیا کرتے تھے ۔ راقم الحروف پولیس سے سبکدوش ہونے کے بعد ’’ اسٹیٹ ( سیلس) کارپوریشن ‘‘ کے نام سے جائیدادوں کی خرید و فروخت اور ہراج کے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس طرح راجہ ولبھ داس صاحب کے پاس اکثر آنا جاتا ہوتا تھا ۔ ان کی بیشتر جائیدادیں میرے ذریعہ فروخت ہوئیں ۔ اس طرح جناب رام دیو صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوا کرتی رہیں ۔ جب جناب رام دیو صاحب کا بحیثیت منسٹر انیمیل ہسبنڈری تقرر عمل میں آیا اس زمانہ میں وہ کالا ڈیرہ نزد چنچل گوڑہ میں رہائش پذیر تھے ۔ اطلاع ملنے پر میں پھول لے کر ان کے دولت کدہ پہنچا ۔ کافی لوگ جمع تھے جناب رام دیو صاحب کی عنایت اور شرافت کا یہ عالم تھا کہ جونہی ان کی نظر مجھ پر پڑی وہ فوراً قریب تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ پھول وغیرہ کی زحمت اور لوگ کریں گے لیکن آپ کو نہیں کرنا چاہئے ۔ اب ایسے فرشتہ صفت لوگ کہاں نظر آتے ہیں ۔