جگتیال۔12اکٹوبر ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) دور حاضر میں دکنی لفظیات اور تراکیب سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے سلطان قلی قطب شاہ کی شاعری کی زبان حد درجہ بوجھل نظر آتی ہے جبکہ یہی زبان طویل عرصہ تک دکن کے علاقے میں عوامی بول چال اور لکھنے پڑھنے کی زبان تھی ۔ مادری مبان ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں‘ اس پر عبور حاصل کرنا اور اس کی ترقی و فروغ کیلئے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ جگتیال میں ریاستی سطح پر سمینار کا انعقاد قابل مبارکباد ہے ۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر مجید بیدار سابق شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے یو جی سی گرانٹ شتہ اردو گورنمنٹ ڈگری و پی جی کالج رائے نسوان جگتیال کے زیراہتمام تحریک اردو تلنگانہ کے اشتراک سے منعقدہ پہلادو روزہ ریاستی سطح کا سمینار بعنوان محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر میں بحیثیت مہمان خصوصی اپنے کلیدی خطاب میں مخاطب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سمینار کی صدارت ڈگری کالج پرنسپل ڈاکٹر کے کشن نے کی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر اکبر علی خان سابق وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد اور ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ اور اعزازی مہمان ڈاکٹر فضل اللہ مکرم چیرپرسن بورڈ آف اسٹیڈی عثمانیہ ‘ ڈاکٹر جعفر جری چیرمین بورڈ آف اسٹیڈی شاتا واہانہ یونیورسٹی ‘ڈاکٹر اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو نظام آباد ‘ڈاکٹر حمیرہ تسنیم صدر شعبہ اردو شاتا واہانا یونیورسٹی کے علاوہ عائیشہ بیگم لکچرر ڈگری کالج ظہیرآباد ‘ عبدالعزیز سہیل لکچرر محبوب نگر ‘ ڈاکٹر ناظم الدین منور صدر شعبہ اردو شاتاواہانہ یونیورسٹی کریم نگر ‘عبدالبصیر لکچرر ‘ مسرور جہاں لکچرر ‘ نثار پروانہ کے علاوہ معززان شہر محمد شعیب الحق طالب ‘ شیخ نسیم احمد ‘ محمد سراج الدین ‘ عبدالحکیم اور دیگر نے شرکت کئے ۔ اس موقع پر کالج کے طالبات نے قلی قطب شاہ پر اپنے خیالات کا اظہار کے علاوہ تمثیلی مشاعرہ کا انعقاد اور ڈرامہ پیش کئے ۔ اس موقع پر جناب مجید بیدار اور پروفیسر اکبر علی خان اور دیگر نے مخاطب کرتے ہوئے ریاستی سطح کا پہلا سمینار جگتیال میں انعقاد پر کالج پرنسپل ڈاکٹر کے کشن اور صدر تحریک اردو تلنگانہ خان ضیاء کی ستائش کی اور مبارکباد پیش کی ۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایک اچھے موضوع پر صحیح وقت پر اس طرح کا سمینار کا انعقاد قابل تعریف اور خوش آئند بات ہے ہے ۔ ایسا سمینار حیدرآباد میں انعقاد کیلئے معید جاوید صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ کو ترغیب دی ۔ نئی ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر قلی قطب شاہ کی گنگا جمنی تہذیب کو واپس لانے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کررہے ہیں جنہوں نے گولکنڈہ پر آزادی کا پرچم لہرا کر یہ ثابت کردیا کہ حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب قطب شاہی حکمرانوں کی دین ہے ۔ دکن کی گنگا جمنی تہذیب دنیا میں ایک مثال ہے ۔ دکنی قطب شاہ حکمرانوں نے نہ صرف فارسی‘ اردو کو فروغ بیا بلکہ تلگو زبان و ادب کو پروان چڑھایا ۔ قلی قطب شاہ کی شاعری کی زبان سے وابستہ تھی ۔ غرض دکنی مزاج کے اعتبار سے سلطان قلی قطب شاہ اپنے عہدہ کا نامور شاعر گذرا ہے جن کی شاعری عوام پرستانہ رجحانات اور موضوعات کا حد درجہ تنوع موجود ہے ۔ بے شمار سماجی عوامی موضوعات عشق مجازی ‘ عشق حقیقی تصوف و روحانیت کے موضوعات کے ساتھ ساتھ جنس اور جنس زوگس کے موضوعات کو بھی اپنی شاعری میں خصوصی جگہ دی اور فن عمارات اور عوامی میلے کے موضوعات بھی سلطان قلی کی شاعری کا وصف بنتے ہیں ۔ 15ویں صدی کا اور آخری 16ویں صدی کا اوائل میں دکنی شاعری کے ذریعہ اپنے فن و کمال کی نمائندگی کی جن کا خاندانی تعلق ایران کے تہذیب کے باوجود ایرانی تہذیب کے بجائے دکنی تہذیب کی خصوصیت دینے والا واحد بادشاہ دکنی تہذیب کو موثر نمائندگی دی ۔ قطب شاہی دور کا پانچواں فرمانرواں محمد قلی قطب شاہ 1580 سے 1611 تک 30سالہ طویل حکمرانی کی ۔ اس موقع پر مقالہ نگاروں نے محمد قلی قطب شاہ کے فن و شخصیت اور ان کے دور کے کارناموں اور مختلف موضوعات پر اپنے مقالہ وغیرہ پیش کئے ۔ اس موقع پر طلباء نے دوسرے دن آج جہیز کے موضوع پر ڈرامہ پیش کیا ۔ اس موقع پر کالج لکچرر عرشیہ سلطانہ لکچرر معاشیات ‘یاسمین سلطانہ لکچرر سیاسیات ‘ حمیرہ سلطانہ لکچرر تاریخ اور دیگر موجود تھے ۔