سید جعفر آصف
میری والدہ الحاجہ پروفیسر ریحانہ سلطانہ صاحبہ مایہ ناز خاتون ، حیدرآباد کی ملت اسلامیہ نرگس بیمار کے مانند اپنی بے نوری پر روتی رہتی تھیں ۔ والدہ محترمہ کی پیدائش انیسویں صدی اور آزادی کے بعد ہوئی تھی ان کی پیدائش 22 جنوری 1956ء کو حیدرآباد کے پرانے شہر دبیرہ پورہ کے متوسط طبقہ میں ہوئی ۔ انکی والدہ آمینہ بیگم ، جو گدوال کے متوسط گھرانے سے تھیں اور گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر کی خدمات انجام دیتی تھیں ۔ انکے والد شیخ محبوب تھے ، انکے کاروبارکا انداز الگ تھا وہ کبھی گاڑیو کا کاروبار کرتے تو کبھی کچھ ، لیکن مستقل کاروبار تو محبوب ریڈیو سروس کے نام سے ایک دکان ہے جو آج بھی چھتہ بازار کمان میں ہے ۔
پروفیسر ریحانہ سلطانہ کا گھرانہ پروفیسر سید لیاقت حسین قادری کا مرید تھا اور یہ گھرانہ کافی عرصہ سے قادری گھرانے سے جڑا ہوا ہے ۔ آج بھی دبیرہ پورہ علی کیفے کے روبرو ان کا گھرانہ موجود ہے ۔ ان کا بچپن اسی محلہ الاوہ بی بی میں گزرا ۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایک گورنمنٹ پرائمری اسکول میں ہوئی اور پھر اشرف المدارس اسکول میں اپنی آگے کی تعلیم حاصل کی جو نہم جماعت سے ترک کردی ، ان کی والدہ کی صحت کی خرابی کی وجہ سے 14 سال کی عمر میں تعلیم ترک کی ۔ انکی والدہ کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ، حیدرآباد سے نیلور تک کئی آنکھوں کے ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا مگر فائدہ نہیں ہوا ۔ پندرہویں سال میں ان کی شادی ہوئی ۔ شادی کے ایک سال بعد وہ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئیں اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ پہلے عثمانیہ یونیوسٹی سے SSC کیا اس کے بعد انٹر (HEC) کیا ، اور تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور آگے بڑھتی گئی ۔
اس دور میں محترمہ ریحانہ سلطانہ نے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں غور و فکر کرنے لگیں اور ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام پہلے دکن اسکول تھا ، 1977 میں جہاں تعلیم حاصل کی تھیں اور اس ادارے کی ذمہ داریاں انکے کاندھوں پر آگئیں ، اس کے بعد اس ادارے کا نام 1980 میں گلوریس دکن اسکول کے نام سے شروع ہوا اور اس اسکول میں غریب خواتین اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرتیں ۔ پروفیسر ریحانہ چاہتی تھیں کہ جس طرح انہوں نے تعلیم حاصل کی اسی طرح ہر لڑکی تعلیم حاصل کرے اور آگے بڑھے ، وہ تعلیم کو آسان کرنا چاہتی تھی اور خواتین سے ان کی استطاعت کے مطابق فیس لیتی ۔ اپنی صلاحیتوں سے وہ ایک اچھی ٹیچر اور لیڈر کے روپ میں ابھرتی گئیں اور وقفے وقفے سے اپنے صلاحیتوں کو عام کرتی گئیں ۔ پھر انہوں نے St.John Ambulance ادارے سے Firtt Aid Medical Course کی تعلیم حاصل کی اور اپنا خود کا ایک First Aid Clinic چلاتی تھی اور اس پروفیشن سے بھی انہوںنے آس پاس کے لوگوں کو اپنی دوا اور تجربے سے فائدہ پہنچایا ۔ Phd., BOL, M.A. (Urdu), M.A.(Pub Admn.), M.Phil کی تعلیم حاصل کی اور کامیاب ہوئیں ۔ ان کی اس تعلیم میں ان کی گائیڈ پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ کا بہت اہم رول رہا ہے ۔ M.Phil میں ان کے مقالہ کا عنوان ’’دکن کے محققین‘‘ تھا اور پی ایچ ڈی میں ’’پروفیسر مسعود حسین کی ادبی خدمات‘‘ تھا ۔
پروفیسر ریحانہ سلطانہ کو خواتین اور لڑکیوں کے مسائل کی فکر رہتی تھی اس لئے انہوں نے LAW کی ڈگری حاصل کی کیونکہ خواتین اور لڑکیوں کے مسائل کو قانونی طور سے حل کرسکیں اور ان کا حق دلاسکیں ۔ ان کے اس تعلیمی سفر میں ان کے استاد ڈاکٹر عبدالرحمن خان اور ان کے ساتھی دوست دگمبر راؤ نے کافی تعاون کیا ، یہ دونوں ریحانہ سلطانہ کو اپنی بیٹی اور بہن کی طرح عزیز رکھتے تھے ۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کئی مراسلے آئے جن میں 1996-97 میں ایک مراسلہ جناب جگر صاحب ، رائٹر روزنامہ سیاست کا تھا ، انہوں نے اپنے کالم میں لکھا تھا جس کا نام ’’حیدرآباد کی سب سے ڈگری یافتہ خاتون پروفیسر ریحانہ سلطانہ ہیں‘‘ ۔ یہ ایک مضمون تھا جو حیدرآباد بلکہ تلنگانہ اور ہندوستان کے کئی پرچوں میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد وہ حیدرآباد بلکہ ہندوستان کے کئی علاقوں میں پہچانی جانے لگیں ۔ یکم ڈسمبر 1998 ء کو بحیثیت پروگرام کم فیلڈ آفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ان کا عارضی تقرر ہوا اسکے چھ ماہ بعد اس پوسٹ کو مستقل کردیا گیا ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں پہلا ریگولر کورس D.ED شرع ہوا جس میں وہ بحیثیت لکچرر خدمات انجام دیں ۔ اس کے عبد وہ شعبہ ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سے مسلسل جڑی ہوئی تھیں ۔ 2002 میں ان کو اس شعبہ میں بحیثیت انچارج پرنسپل بنادیا گیا ۔ اسی دوران انکی نگرانی میں دو سالہ D.Ed کورس کا امتحان منعقد ہوا اور اسکے نتائج کا اعلان اندرون 5 تا 7 یوم میں دیا گیا کیونکہ اس سال D.Sc کا امتحان منعقد ہورہا تھا جو طلبہ و طالبات کیلئے کافی مددگار ثابت ہوا ۔ اس سال D.Sc. میں ان کے سات تا دس طالب علموں کو سرکاری ملازمت حاصل ہوئی ۔
سال 2002 میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم نسوان میں پروفیسر ریحانہ سلطانہ کو ریڈر کا پوسٹ دیا گیا ۔ پروفیسر ریحانہ سلطانہ کو خواتین اور لڑکیوں کے مسائل سے خاصی دلچسپی تھی اس لئے وہ اس شعبہ سے جڑی ہوئی تھیں ۔ سال 2005 میں بحیثیت صدر شعبہ تعلیم نسواں تقرر ہوا اور بحیثیت انچارج ڈائرکٹر مرکز برائے مطالعات نسواں بھی تھیں ، پھر 2009 میں انہیں پروفیسر کا عہدہ دیا گیا اور اس سال ان کو ڈائرکٹر مرکز برائے مطالعات نسواں (Centre for Women’s Studies) بنایا گیا ۔انکی قابلیت کی بناء پر انھیں سال 2013 میں ڈین اسکول آف آرٹس اینڈ سوشل سائنس کا پوسٹ دیاگیا ۔ وہ تین بار شعبہ تعلیم نسواں کی صدر رہیں اور آخری لمحات تک اس شعبہ اور اس عہدے سے رخصت لی ۔
پروفیسر ریحانہ سلطانہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی مختلف کمیٹیوں کی رکن تھیں جیسے Adademic Council اور Executive Council کی بھی ممبر تھیں ۔ انکی ایسی ناقابل فراموش خدمات کیلئے حیدرآباد کے علاوہ ملک کے کئی نمائندہ اداروں نے انھیں مختلف اعزازات سے سرفراز کیا ۔ پروفیسر ریحانہ سلطانہ نے کئی سمیناروں میں حصہ لیا جو بیرونی ممالک میں تھے ۔ جن میں دبئی ، جدہ اور ممبئی شامل ہیں اور ہندوستان کی کئی ریاستوں میں حصہ لیا جو کل 24 ہیں ۔ پروفیسر ریحانہ سلطانہ صاحبہ نے دو سمینارس منعقد کرائے جن میں ۔ وہ میڈیا سے بھی جڑی ہوئی تھیں ۔ ایک ان کا مباحثہ کو عرب شیخ کی شادیوں پر تھا وہ سب سے زیادہ چرچہ میں رہا اور اس کو ساکشی ٹی وی چینل پر 2009 میں دکھایا گیا ۔ اور بھی ہیں جن کی تعداد 7 ہے اور اس کے علاوہ وہ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ تھیں جس میں خواتین کے حقوق پر مشتمل مباحث میں انھوںنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔