حیدرآباد میں شدید بارش اور بلدیہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
حکومت کے کارندوں کو جن منصوبوں میں کرپشن کا موقع نظر نہیں آتا وہ کام یا تو ادھورے چھوڑ دیتے ہیں یا پھر ان منصوبوں کو ترک ہی کردیتے ہیں۔ شہر حیدرآباد میں  برسوں سے حکمرانی کرنے والی بلدیہ اور اس کو اپنے اشاروں پر نچانے والی سیاسی پارٹیوں نے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے نام پر جو بدعنوانیاں انجام دی تھیں اس کا ثبوت آج کے شہر حیدرآباد کی صورتحال سے ملتا ہے۔ تنگ سڑکیں ، ناقص بلدی نظام، ڈرینج کی کمزور پائپ لائنس اور بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے بنائی گئی نالیاں یہ سب ماضی کی حکومتوں اور اور حال کی بلدیہ کی لاپرواہیوں، بدعنوانیوں کا واضح ثبوت ہیں۔ تلنگانہ بنالینے کے بعد حیدرآباد کی ترقی کا راز اپنی مٹھی میں رکھنے والی سیاسی پارٹی نے بلدیہ پر بھی اپنے شہزادوں کا راج حاصل کرلیا۔150 کارپوریٹرس والے اس ادارہ کو عوامی سہولتوں کے لئے مالیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو کچھ بجٹ مختص ہوتا ہے اس پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے، لہذا کام کے نام پر ناقص کارکردگی نے تھوڑی سی بارش میں اپنی اصلیت کو آشکار کردیا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں سے حیدرآباد نے اپنے نگرانکاروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ اس واضح ثبوت کے باوجود شہریوں کا موقف بھی اتنا کمزور ہے کہ وہ حکومت کی دی گئی ہر پریشانی کا خوشی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے گذار رہے ہیں۔ شہر کی سڑکیں، محلے، کالونیاں، نشیبی علاقے خاصکر سلم بستیاں جھیل بن رہی ہیں تو سڑکوں پر موٹر گاڑیوں کی طویل قطاریں ٹریفک جام کے باعث بن رہی ہیں۔ اس پر کمشنر بلدیہ اور ٹریفک پولیس کی بے بسی یہ ہے کہ وہ شہریوں سے مؤدبانہ درخواست کررہے ہیں کہ براہِ کرم عوام گھروں سے نہ نکلیں۔ ان کی اس بے بسی نے مزید ثبوت دے دیا ہے کہ شہر کی نگرانی کرنے والا ادارہ معمولی بارشوں سے پیدا ہونے والی دشواریوں کو دور کرنے کا بھی اہل نہیں ہے۔
31اگسٹ کو 2تا3سنٹی میٹر بارش کے بعد دو بچوں اور پانچ بڑوں کی موت واقع ہوگئی تھی، اس بارش نے کھلے مین ہولس کو موت کا کنواں بنادیا۔ سال 2011 میں ایک خاتون بینک منیجر کھلے مین ہول میں بہہ گئی تھی جس کی نعش چند دنوں بعد ڈرین کنال سے برآمد کی گئی۔ 2014 میں بھی ایک 68سالہ شخص کھلے مین ہول میں گر کر ہلاک ہوا تھا۔ اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ شہر حیدرآباد میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہاں کا ڈرینج نظام ایک صدی قدیم ہے، نئے منصوبوں کو بروئے کار نہیں لایا جارہا یہ۔ اب تک جتنی بھی پارٹیوں نے حکومت کی ہے اس نے شہر کے ڈرینج نظام کو از سرِ نو بہتر نہیں بنایا بلکہ پرانی لائنوں کی ہی مرمت کرکے وقت گذارا گیا۔ ایک اندازہ کے مطابق گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو ڈرین اور سیوریج سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے کم از کم 1,240 کروڑ روپئے کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی 1500 کیلو میٹر کی ڈرینج لائینس اور 8 لاکھ مین ہولس کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے ڈرینج نظام کو وسعت دینے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ موجودہ 1500کلو میٹر کے ڈرینج لائنس کو 5000 کیلو میٹر تک وسعت دے کر موجودہ 2 لاکھ مین ہولس کے بجائے تقریباً 4.2 لاکھ مین ہولس تعمیر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ شہر حیدرآباد کا رقبہ اب 275مربع کیلو میٹر سے بڑھ کر 2,500 مربع کیلو میٹر تک پھیل گیا ہے۔ جی ایچ ایم سی میں6 زونس کے منجملہ 4 زونس ایسے ہیں جہاں ڈرینج کا پانی بہنے کا زیر زمین کشادہ راستہ نہیں ہے، اس لئے ہر دن کہیں نہ کہیں ڈرینج لائن اُبلتی رہتی ہے۔ ان دنوں حکومت کے شہزادوں نے بلدی اُمور کی ذمہ داری لی ہے تو ماضی میں مقامی جماعت کے جن شہزادوں نے تباہی مچائی تھی اس کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے اپنی باری پوری کرنے پر ہی اکتفاء کیا جارہا ہے۔

بلا شبہ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے حیدرآبادکو صاف ستھرا اور ترقی یافتہ بنانے میں خصوصی دلچسپی دکھائی ہے اور انہوں نے حیدرآباد کو عالمی معیارات کا حامل شہر بنانے کا منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ مگر یہ منصوبے جادو کا آئینہ نہیں ہیں تو پھر شہریوں کی پریشانیاں حکومت کے منصوبے یوں ہی برقرار رہیں گے۔ جھوٹی کہانی کے کرداروں کو حقیقی دنیا میں لے آنا جتنا مشکل  ہے اتنا ہی مشکل حکومت کے منصوبوں کو بروئے کار لانا ہے۔ جن شہریوں کے پاس اپنا غصہ ظاہر کرنے کے لئے فیس بک کنٹسٹ اور لائیک کرنے یا ٹوئٹر پر یہاں پوسٹ کرنے کا وقت ہے تو حکومت بھی صرف منصوبے بنائے گی عمل نہیں۔بلدیاتی اداروں کو مؤثر طور پر کام کرنے کے لئے مضبوط مالیاتی پیاکیج کا ہونا ضروری ہے۔ بلدیہ کے پاس مالی صورتحال تشویشناک ظاہر کی جارہی ہے، اس لئے مقامی سطح کے مسائل کو لوگوں کی توقع کے مطابق حل نہیاں کیا جاسکتا۔ ٹی آر ایس حکومت میں کئی کم کرنے والے عوامی ادارے بری طرح سے مطلوبہ انتظامی اور مالیاتی اختیارات سے محروم ہیں۔ قبل ازیں کانگریس اور تلگودیشم حکومتوں میں سرکاری اداروں کی کارکردگی کے اعتبار سے خود مختاراور موثر تھی۔ بلدیہ کے 90 وارڈز پر حکمراں پارٹی کے کارپوریٹروں کو منتخب کرکے شہریوں نے اپنے ہی ہاتھوں مصیبت مول لی ہے تو سڑکوں پر کھڈ پڑنے، ڈرینج اُبلنے اور جان کی جوکھم والی سڑکیں نمودار ہونے پر چُپ رہنا چاہیئے کیونکہ عوام نے ووٹ دے کر اپنے پسندیدہ لیڈروں کو منتخب کرنے کے بعد اُف تک کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
بلدی انتخابات میں عوام نے جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اب اگر ان کے منتخب کارپوریٹرس پہلے کی طرح کام نہ کرسکیں یا عوام کی توقعات پر پورے نہ اُتریں تو عوام کے حق میں سوائے مایوسی کے اور کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری ڈگ وجئے سنگھ اور بی جے پی صدر امیت شاہ نے حال ہی میں ٹی آر ایس حکومت سے سوال کیا تھا کہ اس نے مرکز کے فنڈز کہاں استعمال کیا ہے۔ مرکز نے تلنگانہ کیلئے 90,000 کروڑ روپئے جاری کرنے کہا تھا۔ اتنی بڑی رقم آخر کہاں خرچ کی گئی۔ ٹی آر ایس قائدین کو صدر بی جے پی یہ بات ناگوار گزری ہے اور جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ مرکز نے 90,000 کروڑ روپئے جاری کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

جبکہ حقیقت میں یہ ریاست کو صرف 45000 کروڑ روپئے وصول ہوئے ہیں۔ تلنگانہ کے ساتھ مرکز کا رویہ دوہرے معیار والا ہے۔ مرکز ایک طرف آندھرا پردیش کو خصوصی پیاکیج اور خصوصی موقف دے کر راحت پہنچارہا ہے اور تلنگانہ کو بری طرح نظرانداز کردیا ہے۔ شہر کی ٹریفک کو جس طرح یہاں کی پولیس نے یکسر نظر انداز کردیا ہے اور موٹر رانوں کو گھنٹوں سڑکوں پر رینگتے چھوڑ دیا ہے۔ مرکز کے فنڈ کا ٹریفک پولیس اور بلدیہ کی کارکردگی کا بہت بڑا تعلق سمجھنے والی اس حکومت پر ٹریفک میں پھنسے یا سڑکوں پر ہونے والے کھڈوں سے گرنے والوں نے کوئی تنقید کرنا خود اپنی توہین سمجھنی شروع کی ہے۔ ایسی ٹریفک میں جب ایمبولنس کا سائرن یا پولیس عہدیدار کی گاڑی کا سائرن تیزی سے بجنے لگتا ہے تو ٹریفک میں بری طرح پھنسے ہوئے شہریوں کے کان بری طرح پھاڑ دیتے ہیں۔ پھر بھی شہری برداشت کرتے ہیں۔ ایمبولنس جس کو بیماروں کو لے جانے والی گاڑی کہا جائے ایسی ایمبولنس گاڑیاں سڑکوں پر سائرن آن کرکے دوڑتی ہیں اس میں مریض نہیں ہوتا پھر بھی یہ گاڑیاں سائرن بجاتی ہیں، ٹریفک ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ ایک نوجوان کو روزگار کے حصول کے لئے انٹرویو کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ انٹرویو میں کامیاب ہونے کے لئے اس نے خود کو مولوی ؍ عامل سے دَم کروایا، تعویذ بھی لے لی اور جس دن انٹرویو کے لئے گھر سے نکلا ٹریفک میں پھنس گیا اور انٹرویو کو دیر سے پہنچا تو نوکری سے محروم رہ گیا۔ دوسرے دن ٹریفک سے آسانی سے نکل جانے کی تعویذ لینے عامل کے پاس گیا، عامل نے معذرت خواہی کی اور کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ ٹریفک تعویذ سے نہیں پولیس کے ڈنڈے سے چلتی ہے۔ نوجوان سوچا مگر پولیس کا ڈنڈا پکڑنے والے ہاتھ تو رشوت کے نوٹ گننے، چالان جاری کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
kbaig92@yahoo.com