حیدرآباد جو کل تھا کے ۔ پرتاپ ریڈی

محبوب خان اصغر
’’بلاشبہ ریاست حیدرآباد کو دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں فوقیت حاصل ہے ۔ یہاں بھانت بھانت کے لوگوں نے اپنی اپنی زبان کو اپنے اظہار کا وسیلہ بناکر دنیا بھر میں اس ریاست کی شناخت بنائی ہے ۔ علوم و فنون کے اس مرکز میں جہاں مختلف مکتب فکر کے لوگ بستے ہیں ،وہیں اس شہر نے ساری دنیاکو سائنسی ، سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی تاریخ سے روشناس کرایا ہے‘‘ ۔ جی ہاں ! یہ خیالات روشن دماغ وکیل شری کے پرتاپ ریڈی کے ہیں جو ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے موضوع پر ہم سے بات کررہے تھے ۔ آپ کا شمار دکن کے نامی گرامی وکلاء میں ہوتا ہے ، ریڈی صاحب نصف صدی سے اس پیشے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ہائیکورٹ نے انہیں سینئر ایڈوکیٹ کی سند سے سرفراز کیا ہے ۔ وہ آندھرا پردیش بار کونسل اور آندھرا پردیش ہائی کورٹ ایڈوکیٹس اسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ۔

11 اپریل 1931 ء کو پیدا ہونے والے پرتاپ ریڈی کے والد کا نام کے رامچندر ریڈی تھا ، جو محکمہ جنگلات سے وابستہ تھے ۔ ورنگل ڈسٹرکٹ مونگولاپلی منڈل کا ایک چھوٹا سا قصبہ ’’پوٹوگل‘‘ آپ کی جائے پیدائش ہے ۔ اس وقت ورنگل کی جملہ آبادی 50 ہزار تھی ۔ پوٹوگل میں ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی ۔ ان کا ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔ چہارم تا انٹر کامیاب کرنے کے بعد حیدرآباد کی سرزمین پر قدم رکھا تو ان کی عمر سترہ برس کی تھی اگرچیکہ وہ اپنی عمر کے 84 ویں زینے پر کھڑے ہیں ، مگر ان کے ذہن میں دکن کی تہذیب ، ملنے جلنے کے آداب ، رسم و رواج ، حفظ مراتب ، مہمان نوازی ، شادی بیاہ ، تہوار ، طرز معاشرت اور یکجہتی کا ماحول آج بھی تابندہ ہے ۔

ریڈی صاحب نے1951ء میں جامعہ عثمانیہ سے اردو میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد 1954 میں انگریزی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ انہوں نے بتایا کہ ان دنوں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جامعہ کی طرف سے فراہم کردہ کمروں میں مقیم تھے ۔ منصور علی خاں ان کے رفیق خاص تھے ۔ میرے کمرے میں ایک صابن ، ایک توال ، ایک کنگھی ہوتی تھی جو دونوں استعمال کرتے تھے ۔ ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح رہا کرتے تھے ۔ جسٹس سردار علی خان کی قربت میں بھی ان کا کافی وقت گذرا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ کے انتخابات کی یاد تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دو گروپ تھے ۔ ایک خود ان کا اور دوسرا گروپ جسٹس سردار علی خان کا ۔ اس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ اسّی فیصد مسلمانوں نے انہیں (کے پرتاپ ریڈی کو) ووٹ دے کر جتایا تھا ۔ قدیم حیدرآباد مذہبی تعصب سے پاک تھا ۔

پرتاپ ریڈی کا شمار بانیانِ جنتا پارٹی میں ہوتا ہے ۔ جئے پرکاش نارائن کی قربت میں انہوں نے سیاسی شعور حاصل کیا ۔ وہ جنتا پارٹی حیدرآباد شاخ کے صدر رہے اور 1977 میں ریاستی سطح پر نائب صدر بھی مقرر ہوئے ۔ 1987 میں تشکیل پانے والی پارٹی جنتادل کے کنوینر رہے جس کے صدر آنجہانی وی پی سنگھ تھے ۔ آگے چل کر آندھرا پردیش برانچ کے نائب صدر بنے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انہوں نے احتجاجی جلسے منعقد کئے ، دھرنے دئے اور قرراردادیں منظور کرائیں ۔
پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں موظف سب انسپکٹر نظام الدین بطور منشی کام کرتے تھے ۔ بہترین آدمی تھے ۔ لگ بھگ ایک دہے بعد انکا انتقال ہوگیا ۔ محبوب کی مہندی میں رہتے تھے گوکہ وہ پتہ سے واقف نہیں تھے پھر بھی پرسہ دینے کے لئے ان کے گھر اندازاً چلے گئے اور قریب پہنچ کر ایک ہندو شخص سے نظام الدین کے گھر کا پتہ پوچھا تو اس نے کہا ’’وکیل صاحب کے منشی نا‘‘ اور وہ انہیں اپنے ساتھ لیکر ان کے مکان پہنچا ۔ اور پانچ منٹ میں مرحوم کی دس خوبیوں کا ذکر کیا ۔ پرانے شہر میں ایک دوسرے سے قربت و دوستی کا خوبصورت ماحول پایا جاتا تھا ۔ ہر ایک دوسرے سے واقف ہوتا تھا ۔ مصائب اور دشواریوں کو بانٹنے کے جذبات دیکھے جاتے تھے ۔ رشتوں کی حرمت اور تقدس کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا تھا ۔ ہر گھر کوچے میں ہندو مسلم کے مکانات ساتھ ساتھ ہوتے تھے ۔ اگر کوئی مخصوص سالن مسلمان کے گھر بنتا تو ہندو کے گھر بھجوایا جاتا تھا ۔ ہندوؤں کے گھروں سے مسلمانوں کے گھر پھل اور میوے بھجوائے جاتے تھے ۔ برہمن ، مسلمان ، ہندو ، کرسچین ، پارسی اور کایستھ سب بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے ۔ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابوالحسن تانا شاہ نے بھدراچلم میں رام مندر کی تعمیر میں ہر ممکنہ تعاون کیا ۔ اگرچیکہ رام داس نے سرکاری خزانے سے رام مندر کی تعمیر کرائی تھی مگر اس کیلئے تاناشاہ نے راہیں ہموار کیں ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پچاسی فیصد آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے اور مندر کی تعمیر ضروری ہے ۔ اس کی تعمیر میں ان کی حمایت کا بڑا دخل تھا ۔
ابوالحسن تاناشاہ کے وزیراعظم اور سپہ سالار اکنّا اور مادّنا دونوں ہندو تھے ۔ یہ سیکولرازم کی مثال ہے ۔ سیکولرازم کی بات آج کی نہیں ہے ۔ سیاسی پارٹیاں اس کا سہرہ اپنے سر لینے کی کوشش کرتی ہیں ، جبکہ سیکولرازم برسہابرس سے حیدرآباد کی تہذیب میں رچا بسا ہے ۔ راکھی کا تہوار بھی اسکی ایک عمدہ مثال ہے ۔ رانی کروناوتی اور ہمایوں کے زمانے سے اس تہوار کا آغاز ہوا ۔ اس سے قبل اس تہوار کا ذکر رامائن میں بھی نہیں ہے ۔ کروناوتی نے ہمایوں کو راکھی باندھ کر اپنا بھائی مانا تھا ۔

آصف جاہی حکومت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سیکولرازم کا رنگ آصف جاہی دور میں اور بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ آصف جاہ اول نواب قمر الدین خان نے حیدرآباد دکن کی باگ ڈور سنبھالی تو کولہاپور کے حکمراں سمبھاجی سے تعلقات استوار کئے ۔ ہندو رؤساء کو مشاورت کیلئے نامزد کیا ۔ ان کے دور حکمرانی میں تمام مسالک کے ماننے والوں نے نواب قمرالدین کا ساتھ دیا اور حکومت کو استحکام بخشا ، جس کی وجہ سے آصف جاہ اول کو پاک اور صاف حکومت چلانے میں آسانی ہوئی ۔
ریڈی صاحب نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ آصف جاہی دور میں سکندر جاہ سوم کے نام کی مناسبت سے سکندرآباد وجود میں آیا ۔ بلارم ، ماریڈپلی ، الوال ، سکھ ویلیج ، تاڑبن اور بوئن پلی یہ وہ مقامات ہیں ، جہاں فوج قیام کرتی تھی ۔ سکندر جاہ کے دور میں ہی سلطان شاہی میں دارالضرب (ٹکسال) قائم ہوئی جہاں سکے ڈھالے جاتے تھے ۔
حیدرآباد میں قطب شاہی حکومت سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ قلی قطب شاہ راسخ العقیدہ بادشاہ تھا ۔ اس منچلے اور شوخ بادشاہ نے تمام عقائد کے ماننے والوں کے ساتھ محبت کی ۔ امیر غریب کے درمیان امتیاز کے بغیر سب کو گلے لگایا ، تمام زبانوں سے اس کو رغبت تھی ۔ اس عاشق مزاج کو تلگو اور اردو سے بھی عشق تھا ۔وہ خود ایک شاعر تھا سیکولرازم کا علمبردار تھا ۔

کے ۔ پرتاپ ریڈی نے نواب میر عثمان علی خان آصف سابع سے متعلق پراعتماد لہجے میں بتایا کہ وہ ایک سیکولر ذہن کے حامل تھے ۔ انہوں نے ہندو اداروں کی بقاء کیلئے اور منادر کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے ۔ اورنگ آباد کا مندر اور اجنتا ایلورہ وغیرہ کے تحفظ کیلئے نگران متعین کئے ۔ ورنگل میں دیول ہزار ستون (Thousand Pillars Temple) کے اطراف و اکناف میں مسلمانوں کی قابل قدر تعداد بستی ہے ۔ یہ مندر کاکتیہ کے زمانے کا ہے ۔ اس مندر کے اندر بھگوان شیو کے سامنے نندی ہوتی ہے ۔ کسی نے اسکی ناک کو کاٹ دیا تھا ۔تحقیقات کے بعد مجرمین کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور یہ اعلی حضرت کے دور اقتدار میں ہوا اور یہ واقعہ جتنا مشہور ہوا اتنی ہی شہرت اعلی حضرت کو ملی ۔ انہوں نے ایک اور حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے کہا کہ ورنگل میں رامپّا مندر ہے ۔اس کے اندر عورت کا مجسمہ ہے ، جو پتھر کا بنا ہوا ہے ، جسے دیکھ کر جاندار عورت کا گمان ہوتا ہے اس کا سرقہ ہوگیا ۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ مسروقہ مجسمہ برآمد کرلیا گیا اور سارقین کو اعلی حضرت کے حکم کی تعمیل میں جیل بھیج دیا گیا ۔ آج بھی رامپّا مندر ورنگل میں وہ مجسمہ جوں کا توں ایستادہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ اس معاملے میں زبردست غلط فہمی کے شکار ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے دور میں منادر کو نقصانات پہنچائے گئے ، یہ سراسر بے بنیاد اور غلط بات ہے ۔ مسلمانوں نے کئی صدیوں تک اس ملک پر اور دکن پر حکمرانی کی ہے اگر ایسا ہوتا توآج کوئی بھی مندر اور ہندو مذہبی چیزوں کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔ سکندر جاہ سوم نے فرانسسیوں سے کہا کہ بھدراچلم شہر لے لیں مگر ٹمپل ہم نہیں دینگے ۔ سری رام نومی کے دن منادر کو چاول اور تاج بھیجے جاتے تھے اور جب تک انہیں مل نہیں جاتے تقریب کا آغاز ہی نہیں ہوتا تھا ۔ سکندر جاہ بہادر بیحد مقبول اور ہردلعزیز بادشاہ تھے ۔ سیکولرازم کا تصور آج کا نہیں بلکہ اس زمانے کا ہے ۔ پرتاپ ریڈی نے پختہ دلیلوں کی روشنی میں اپنی گفتگو کو جاری رکھا اور کہا کہ اعلی حضرت نے اجنتا کی نقاشی ، ہزار ستون مندر کے تحفظ اور مہابھارت کی اشاعت کیلئے رقومات منظور کیں اس کے علاوہ علماء ، ادباء ، شعراء اور علمی شخصیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے وظائف مقرر کئے ۔
پرتاپ ریڈی نے نواب میر عثمان علی خان کو مدبر اور دانشور کہا اور جامعہ عثمانیہ کو ان کی میراث قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جامعہ کے سبب حیدرآباد دکن علم و ادب کا اہم مرکز بنا ۔ پھر اس میں دارالترجمہ کا قیام سونے پر سہاگہ تھا جس کی وجہ سے ملک بھر کی متعدد علمی شخصیتوں نے حیدرآباد کا رخ کیا اور جامعہ عثمانیہ کی جانب راغب ہوئے ، جن میں محققین بھی تھے عالم ، فاضل اور دوسری علمی استعداد کی حامل شخصیتیں بھی ۔ سائنس ، طب ، قانون ، منشور کے علاوہ متعدد موضوعات پر نادر و نایاب کتب کا اردو میں ترجمہ ہوا کرتا تھا جو لوگوں میں خاص طورپر جامعہ عثمانیہ کے طلبہ میں ایک نئے ادبی شعور کا سبب بنا ۔ دوسرا اہم کام جو اعلی حضرت نے انجام دیا وہ دواخانہ عثمانیہ کا قیام ہے ۔ پورے ہندوستان میں ریلوے اور روڈ ٹرانسپورٹ کا ایک ہی شعبہ تھا ۔ حیدرآباد میں نظام اسٹیٹ ریلوے تھا ، اور روڈ ٹرانسپورٹ بھی نظام کا حصہ تھا ، جسے (NSRRT) کہا جاتا تھا ۔ سکندرآباد سے بنگلور جانے کیلئے کرنول تک ، سکندرآباد سے واڑی تک ، سکندرآباد سے وجئے واڑہ تک ہمارا ہی ٹرانسپورٹ تھا ۔ اسلامی ادارے اور ہندوؤں کے ادارے دونوں ’’امور مذہبی‘‘ کے تحت ہی تھے اور وہی محکمہ ہندو مسلم عبادت گاہوں کا محافظ تھا ، جس میں نوّے فیصد لوگ ہندو تھے ۔

قدیم حیدرآبادکا روشن چہرہ دکھاتے ہوئے مسٹر ریڈی نے کہا کہ آصفیہ دور اس لئے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دور میں حیدرآباد دکن میں ’’ستی کی رسم‘‘ کو ناپسندیدہ عمل کہہ کر رد کردیا گیا علاوہ ازیں کئی سماج سدھار کے کام اس دور میں ہوئے ، جس میں قابل ذکر ’’بیگار‘‘ ہے ۔ اس میں ہوتا یہ تھا کہ مزدور پیشہ لوگوں سے جبراً کام لیا جاتا تھا اور معاوضہ کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا تھا ۔ اس روایت کی بیخ کنی کی گئی اور اس جرم کے مرتکبین کیلئے سزا سنائی گئی ۔ اس طرح قدیم حیدرآباد کے سارے اڈمنسٹریٹرس غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔

اپنے پیشے سے متعلق پرتاپ ریڈی نے کہاکہ انکی مشق نصف صدی پر محیط ہے ۔ ترکہ ، کریمنل ، ملکیت کی تقسیم وغیرہ جیسے کیسس بہت زیادہ ہوگئے ہیں ۔ اور قانون کی کتابوں میں ہر چیز کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اسلام نے عورتوں کا حصہ ،عورتوں کی آزادی اور حقوق کو صدیوں پہلے تسلیم کیا تھا ۔ پہلے کسی بھی کمیونٹی میں بیوہ کو اجازت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ شادی کرے ۔ طلاق شدہ عورت تاحیات تنہا زندگی گذارتی تھی ۔ یہ اسلامی تعلیم ہی کا فیض ہے کہ بیوہ اور مطلقہ خاتون رشتہ ازدواج میں بندھ سکتی ہیں ۔ انہوں نے عدالت عالیہ کے متعلق بتایا کہ اسکی تعمیر میں چار تا پانچ برس لگے اور بیس تا پچیس لاکھ روپئے کا صرفہ ہوا ، مگر شہر کی رونق میں بھی اضافہ بھی ہوا ۔ آرائش بلدہ یعنی (City Improvement Board) کے تحت شہر کی خوبصورتی میں بے انتہا اضافہ ہوا ۔ آندھرا اور تلنگانہ کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ہند نے آندھرا اور تلنگانہ کے انضمام کے بعد تلنگانہ کے ملازمین کے لئے جو اصول اور قوانین وضع کئے تھے ان میں سے کسی پر عمل نہیں ہوا ۔ جب کبھی آندھرا کے ملازمین کا مفاد پیش نظر ہوتا تو ان پر عمل کیا جاتا ۔ تلنگانہ کے عوام کیساتھ مسلسل ناانصافیاں ہوتی رہیں ۔ آندھرا پردیش کے قیام کے بعد حکومت نے دو میڈیکل کالجس شروع کئے تھے ایک کرنول میں اور دوسرا تروپتی میں ، لیکن تلنگانہ میں کوئی کالج قائم نہیں کیا گیا ۔
پرتاپ ریڈی نے اپنے دوستوں کے حوالے سے عید ملاپ تقاریب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ راست عیدگاہ سے قبرستان جانا اور مرحومین کے لئے دعائیں کرنا انہیں اچھا لگتا ہے ۔ وہ جب بھی اپنے مسلمان دوست کے ہاں عید ملنے جاتے تو سیویاں اور شیر خورمے سے ان کی ضیافت کی جاتی ۔ پھر عطردان ان کے قریب کردیا جاتا جس میں چنبلی ، گلاب ، موتیا اور صندل کے عطریات ہوتے اور گھر کا ماحول معطر ہوجاتا تھا ۔ محرم سے متعلق انہوں نے کہا کہ نود فیصد ہندوؤں کا عقیدہ یہ ہے کہ علم بٹھانے سے مسائل اور مصائب دور ہوتے ہیں ۔ جہانگیر پیراں کے علاوہ حیدرآباد اور اطراف و اکناف کی درگاہوں میں ہندو معتقدین کی قابل لحاظ تعداد زیارت کیلئے آتی ہے ۔ قدیم حیدرآباد میں مساجد کے پاس بھی دم کرانے کیلئے لوگ آتے تھے ، ان میں بھی اکثریت ہندو خواتین کی ہوتی تھی ۔ پرانے دنوں میں ’’نوروز‘‘ کا اہتمام بھی شاندار پیمانے پر کیا جاتا تھا ’’بسنت‘‘ کے موقع پر ہندو خواتین پھولوں کی تھال اٹھاکر تالابوں کی طرف نکل پڑتی تھیں اور تالابوں کے پاس میلے کا سا منظر ہوجاتا تھا ۔ اس تہوار کو مہاراجہ کشن پرشاد بھی تزک و احتشام کے ساتھ منایا کرتے تھے اور لوگوں میں تحائف تقسیم کرتے تھے ۔

ماہر قانون کے پرتاپ ریڈی نے گم گشتہ حیدرآباد کی بے شمار یادوں کو تازہ کیا اور اسلاف کے روشن نقوش پر جمی گرد کو صاف کرکے حیدرآباد دکن کا اصلی چہرہ دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ شہر اپنے آپ میں اس قدر پرکشش ہے کہ اس سرزمین پر جس نے بھی قدم رکھا بہ یک نگاہ اسے اس قدر بھایا کہ وہ یہیں کا ہو کر رہ گیا ۔ حالانکہ قدیم حیدرآباد میں چوڑی چکلی سڑکیں تو کجا سڑکوں پر بجلی کی روشنی کا نام ونشان تک بھی نہ ہوتا تھا ۔ سائیکلوں کی کثرت تھی ۔ شاذ و نادر ہی موٹر کار نظر آتی تھی ۔ مگر اصل جو شئے تھی وہ یہاں کی فضا اور غذا تھی ۔ ترقی کے جو مواقع نوواردوں کو یہاں نظر آتے تھے اس کے پیش نظر انہوں نے دکن کو اپنا مستقل مسکن بنایا اور یہاں کی اعلی اقدار اور روایات میں بھی کچھ ایسی مقناطیسیت ہے کہ یہ شہر کسی کو آسانی سے چھوڑتا بھی نہیں ہے ۔