حیدرآباد جو کل تھا ڈاکٹر ڈی راجہ ریڈی

محبوب خان اصغر
عروس البلاد حیدرآباد ایک ایسا مرکز ہے جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں ۔ اس شہر کا بنیادی وصف محبت ہے ۔ بانی شہر سلطان محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا ۔ اس رعایا پرور بادشاہ نے نہ صرف عوام و خواص کو محبت کا درس دیا بلکہ اردو ، فارسی اور تلگو زبان کو اپنی شاعری کا وسیلہ بنا کر زبانوں سے محبت کرنے کا سبق بھی ہمیں دیا ۔ حیدرآباد نے چار سو سے زیادہ برس مکمل کرلئے مگر آج بھی حیدرآبادی تہذیب اور کلچر کیلئے شہر حیدرآباد اپنی نظیر آپ ہے‘‘ ۔ جی ہاں یہ جذبات اور احساسات ڈاکٹر ڈی راجہ ریڈی کے ہیں جو ایک نامی گرامی نیورو سرجن ہیں ۔ ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے موضوع پر بات کرنے کیلئے ہم نے ان سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بخوشی حامی بھرلی ۔ جوبلی ہلز میں واقع وسیع و عریض مکان آپ کا مسکن ہے ۔ اس جگہ سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہ سارا پہاڑی علاقہ تھا ، پتھریلی زمین تھی ، پتھروں اور پہاڑوں کو کاٹ کر یہاں بڑی بڑی کوٹھیاں اور حویلی نما مکانات تعمیر کئے گئے ۔ بڑے بڑے دواخانے اور شاپنگ مالز نے اس علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ تو کیا ہے مگر معیار زندگی ناقابل برداشت حد تک بلند ہے ۔

ڈاکٹر ریڈی نے بتایا کہ اپنے مکان سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع کیئر ہاسپٹل میں وہ بحیثیت نیوروسرجن خدمات انجام دے رہے ہیں ، اگرچیکہ ان دنوں سرجری ترک کرچکے ہیں مگر متاثرین کا تانتا مشاورت کے لئے لگا ہی رہتا ہے ۔ گفتگو کے آغاز میں انہوں نے دکنی تہذیب اور ثقافت سے متعلق کہا کہ یہاں کے باشندے شیر و شکر ہو کر ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے تھے ۔ محرم ایک ایسا تہوار تھا جس کے استقبال کی تیاریاں قبل از وقت ہی شروع ہوجایا کرتی تھیں اور لگ بھگ ایک ماہ سے بھی زائد عرصہ یہ تہوار منایا جاتا تھا ۔ آج بھی حیدرآباد میں بلکہ دیہاتوں میں بھی ماہ محرم میں بڑا ہی جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ بالخصوص دیہاتی ہندوؤں میں ۔ ڈاکٹر ڈیمیی راجہ ریڈی ، ڈیمیی رام ریڈی کے فرزند ہیں ۔ ان کے والد اور دادا کو اردو اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔گھر میں اردو زبان ہی بولی جاتی تھی ۔ اپنی زندگی کی پچھتر بہاریں دیکھنے والے ڈاکٹر راجہ ریڈی نے بتایا کہ وہ جنگم پلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ کاما ریڈی ہائی اسکول سے دسویں جماعت کامیاب کرنے کے بعد 1956 میں سٹی سائنس کالج ہائی کورٹ سے انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کی ۔ 1957 تا 1962 گاندھی میڈیکل کالج میں تعلیم پائی جس کا سابقہ نام پیپلز میڈیکل کالج (Peoples Medical College) تھا جسے انوارالعلوم ایجوکیشنل سوسائٹی نے شروع کیا تھا ۔ آندھرا پردیش کے قیام کے بعد حیدرآباد منقسم ہوا تو حکومت نے مذکورہ کالج کو اپنے تحت چلانا شروع کیا ۔

ہندوستان میں ان دنوں نیورو سرجری ترقی یافتہ نہیں تھی ۔ سرپرستوں کی ایماء پر انہوں نے سرجیکل میں مہارت حاصل کرنے کی ٹھان لی ۔ 1968 تا 1971 کو انہوں نے اپنی زندگی کے یادگار دن بتاتے ہوئے خصوصی طور پر عثمانیہ دواخانے کی شان و شوکت کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ادنیٰ سے اعلی آدمی بھی عثمانیہ دواخانہ ہی سے رجوع ہوتا تھا ۔ مریض کو مرض سے اور تکلیف سے بچا کر راحت پہونچانا معالج کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ بہترین علاج ہوتا تھا ، تمام طبی سہولتیں بالکل مفت میں فراہم کی جاتی تھیں ۔ ڈاکٹر بنکٹ چندرا ، ڈاکٹر بہادر خان صاحب کا شمار بڑے سرجنوں میں ہوتا تھا جن کا تقرر نواب میر عثمان علی خان نے خصوصی طور پر کیا تھا ۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے دادا کا ہرنیا کا آپریشن 1950 میں اور والد کا آپریشن عثمانیہ دواخانے ہی میں ڈاکٹر بہادر خان صاحب نے کیا تھا ۔ مکمل علاج مفت میں ہوا تھا ۔ دواخانہ ہر اعتبار سے صاف ستھرا ہوا کرتا تھا ۔
1957ء میں گاندھی میڈیکل کالج میں ڈاکٹر سباراؤ صاحب ، ڈاکٹر پرساد راؤ صاحب اور ڈاکٹر سوامی نرسنگ راؤ صاحب نامور سرجنوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ اس زمانے میں جن طلباء نے بھی ان اساتذہ سے تعلیم اور تجربہ پایا کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ انہوں نے بتایا کہ مئی 2014 میں ڈاکٹر گوپال کرشنا کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل پائی اور عثمانیہ دواخانے کا دورہ کرنا طے پایا جس کے بعد انہوں نے اس بات پر اظہار تاسف کیا کہ آؤٹ پیشنٹ کی ایک بڑی تعداد مسائل سے دوچار ہے ۔ مریض فرش پر پڑے ہوئے ہیں ۔ ہر طرف گندگی ، کچرا اور عدم صفائی کی وجہ سے تعفن کا احساس بھی ہورہا تھا ۔ Bio Chemistry شعبہ کی ناگفتہ بہ حالت کمزور انتظامیہ کو ظاہر کررہی تھی ۔ انڈمنسٹریٹر ، سوپروائزر کے تساہل سے بہت سارے کام جہاں کے تہاں رکے ہوئے نظر آئے ۔ ڈاکٹر راجہ ریڈی نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ سابق چیف منسٹر روشیا ایک بار عثمانیہ دواخانہ آئے تھے ۔ پرانی عمارت کی زبوں حالی کا مشاہدہ کیا اور چراغ پا ہوئے اور دوسو کروڑ بلڈنگ کی تزئین اور دیگر کاموں کیلئے منظور کئے مگر آج تک نیا پیسہ نہیں ملا ۔

1980 میں سی ٹی اسکین وجود میں آیا ۔ دو سال بعد ٹاملناڈو میں اور شہر حیدرآباد میں یہی مشین دس سال بعد متعارف ہوئی ۔ گذشتہ سال پیش آئے بم بلاسٹ سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رات سات اور آٹھ بجے کے درمیان پینتالیس زخمیوں کو عثمانیہ دواخانہ لایا گیا مگر سی ٹی اسکین مشین کا بریک داؤن ہوگیا اور ایمرجنسی تھیٹر کام نہیں کررہا تھا ۔ شہر کے اس بڑے ہاسپٹل کی حالت پر اس وقت کے ریاستی وزیراعلی کرن کمار ریڈی کو میمورنڈم دیا گیا ۔ ہیلتھ منسٹر بھی ساتھ تھے ۔ مسٹر روشیا نے جس رقم کا اعلان کیا تھا وہ جاری نہیں کی گئی ۔ کرن کمار ریڈی کی توجہ کا مرکز اصل میں تروپتی سے پچاس کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک ہسپتال تھا جس کیلئے غیر معمولی رقم جاری کی گئی اور معلنہ رقم کی اجرائی عمل میں نہ آسکی ۔ یہ تلنگانہ سے تعصب کی مثال ہے کہ اس ریاست میں مسائل کی یکسوئی کیلئے کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی اور آندھرا میں دواخانوں کی تعمیر کیلئے کروڑہا روپیوں کی اسکیمات کو روبعمل لایا گیا ۔
آصف جاہی دور میں حیدرآباد کی آبادی اور جملہ دواخانوں سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آصف جاہی دور میں ریاست کی جملہ آبادی 1,44,36,148 تھی اور حیدرآباد 4,66,894 نفوس پر مشتمل تھا جبکہ 150 دواخانے تھے ۔ عثمانیہ دواخانہ ، گاندھی دواخانہ ، زچگی خانہ ، فیور اسپتال ، سروجنی دیوی ہاسپٹل ، کان ناک اور حلق (ENT) کا دواخانہ ، مینٹل ہاسپٹل جیسے بہترین دواخانے موجود تھے ۔ انہوں نے ان تفصیلات کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ان تمام دواخانوں میں عوام ، خواص ، امیر ، غریب سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ ان دنوں ایلوپیتھی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی جتنی کہ آج ہے اسی لئے لوگ یونانی اور آیورویدک کو ترجیح دیتے تھے اور فائدہ بھی حاصل کرلیتے تھے لیکن آج ایلوپیتھی ہی میں منفعت زیادہ بھی ہے اور جلدی بھی ۔ نت نئے معائنوں سے پوشیدہ امراض کی نشاندہی آسان ہوگئی ہے جومعالجین کیلئے معاون علاج ثابت ہوتی ہے ۔

ڈاکٹر راجہ ریڈی نے ملیریا کی دوا کے موجد سررونالڈ راس سے متعلق یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ مذکورہ مرض کی دوا کو دریافت کرنے والا بیگم پیٹ سکندرآباد میں رہائش پذیر تھا ۔ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے ملیریا کی دوا کی ایجاد کی جس کی سخت ضرورت تھی بعد میں اسے نوبل پرائز کا مستحق قرار دیا گیا ۔ 16 سپٹمبر 1932 کو رونالڈراس کی وفات ہوئی ۔
ڈاکٹر راجہ ریڈی 1983 تا 1988 عثمانیہ میڈیکل کالج میں پروفیسر رہے ۔ 1988 تک 1990 نمس ہاسپٹل کے ڈائرکٹر رہے ۔ 1990 تا 2014 اپولو ہاسپٹل جوبلی ہلز میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں پولیو کے مریضوں کی بڑھتی تعداد سے نظام سرکار متفکر رہا کرتے تھے ۔ پولیو سرجری تو تھی ہی نہیں ، جس میں بہتری لانا اور ترقی حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا تھا ۔ نواب میر عثمان علی خان نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور 20 ایکڑ زمین دواخانہ کیلئے دینے کا اعلان کیا جس پر نظام آرتھوپیڈک ہاسپٹل تعمیر کیا گیا۔ اس سے متصل نظام ٹرسٹ بھی تھا ۔ اس دواخانے میں ہڈیوں کے امراض کے علاوہ دوسرے تمام کیسس بھی دیکھے جاتے تھے ۔ حقیقتاً اس دواخانے نے حیدرآباد کی مقبولیت کے گراف کو اٹھایا تھا ۔ ڈاکٹر رنگاریڈی ، ڈاکٹر وجئے راگھون وغیرہ پر مشتمل ماہرین کی ایک ٹیم تھی جنہوںنے پولیو سرجری کو ڈیولپ کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو جھونک دیا تھا ۔اس زمانے میں ہر دواخانے میں علاج مفت ہوا کرتا تھا ۔ نظام کے دور حکومت میں تو نہ آمدنی سے متعلق پوچھا جاتا تھا اور نہ ہی پریشان کن سوالات سے مریض کو الجھن میں ڈالا جاتا تھا ۔ آندھرا پردیش کی تشکیل کے بعد مہنگائی آئی اور سیاست بھی دبے قدموں دواخانوں میں گھس پڑی ۔ تلگودیشم برسراقتدار آئی تو مفت علاج بالکلیہ طور پر ختم ہوگیا ۔ سابق چیف منسٹر آنجہانی این ٹی راماراؤ نے مفت علاج پر روک لگادی ۔
آروگیہ شری اسکیم آنجہانی راج شیکھر ریڈی نے شروع کی تھی جس کیلئے چودہ سو کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے اس اسکیم سے مستحق افراد کو فائدہ کم اور غیر مستحق افراد کو فائدہ زیادہ ہوا ۔ نظام آرتھوپیڈک ہاسپٹل جو آگے چل کر نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (NIMS) ہوا اس میں شعبہ طب کے ماہرین کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نواب میر عثمان علی خان نے تمام سہولتوں کے ساتھ تربیت یافتہ ڈاکٹروں کا تقرر کیا جس میں ڈاکٹر بنکٹ چندرا ، ڈاکٹر بی کے نائک کے علاوہ اور بھی کئی نامی گرامی ڈاکٹروں نے نمس کا نام روشن کیا ہے۔ حکومت وقت نے حیدرآباد میں خانگی پریکٹس پر دوبارہ یعنی 1971 میں اور 1983 میں پابندی لگائی تھی تاہم بعد میں پابندی ہٹالی گئی ۔ ڈاکٹر راجہ ریڈی نے نکسلائیٹس کے پسندیدہ شاعر چلاّملاّ راج کا سترہ گھنٹوں تک کئے گئے آپریشن کو اپنی زندگی کا اہم کام بتایا اور کہا کہ زمانہ طالب علمی میں حصول علم کیلئے وہ اور ان کے ہمعصر بارہ کیلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتے تھے ۔ میڈیکل کالج کیلئے سیکل ان کی بہترین ساتھی تھی ۔ آج سواری کی سہولتوں نے قوت برداشت کو اس قدر کم کردیا ہے کہ معمولی سی زحمت بھی ان کیلئے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے ۔
ڈاکٹر ڈی راجہ ریڈی نے دماغی امراض پر دو سو پچاس سے زیادہ مضامین لکھے جو ملک اور بیرون ملک میں شائع ہوئے ۔ اس طرح انہوں نے بے شمار سرجریاں بھی کیں اور بہت سارے امراض پر قلم بھی اٹھایا ۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں پہلا میڈیکل کالج 1846 میں قائم ہوا ۔

پیشہ طب سے وابستگی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود حیدرآبادی سکوں پر ڈاکٹر ڈی راجہ ریڈی کی تحقیق قابل ستائش ہے ۔ مختلف ادوار جیسے مغلیہ دور ، آصف جاہی دور میں چلنے والے سکوں کے علاوہ ان ادوار کی بڑی بڑی ٹکسالوں کے متعلق تفصیلات پر مبنی ان کی تصنیف Asaf Jahi Coins – A Guide کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حیدرآباد کی تاریخ اور تہذیب سے انہیں کتنی انسیت ہے ۔ نیز ان کی یہ کتاب اس اعتبار سے بھی دلچسپ ہے کہ اس میں مختلف حکمرانوں کی میعاد حکومت ، ان کے نام اور کام کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے ۔ B.R. Publishing Corporation نئی دہلی نے اس کتاب کو شائع کیا ہے ۔ ہم نے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ سکّوں سے متعلق معلومات رکھنا کیوں ضروری ہے ؟ جواباً انہوں نے کہا کہ سکّوں سے متعلق جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ سکّے اپنے دور کے مظہر ہوتے ہیں ۔ سلاطین کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں ، اس کے علاوہ سرکاری زبان ، معاشی حالات ، رسم الخط ، تاریخی پس منظر ، فنون لطیفہ ، فائن آرٹس اور مذہب سے متعلق تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور مسالک کا پتہ بھی چلتا ہے ۔ جہاں سکّے ڈھالے جاتے ہیں اسے دارالضرب یعنی ٹکسال بھی کہتے ہیں ۔ اس دلچسپ موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گولکنڈہ میں دارالضرب ہوا کرتا تھا جہاں سونا چاندی اور تانبے کے سکے ڈھالے جاتے تھے ۔ سکے گول ، چوکور ، موٹے اور پتلے ہوتے تھے ۔ بادشاہوں کی تصاویر ان پر ہواکرتی تھیں ۔ انہوں نے بتایا کہ سکے کا چلن ایران سے شروع ہوا تھا اور یہاں سکندراعظم کے بعد سے سکہ بننا شروع ہوا ۔ چارمینار جس کی تعمیر 1491 میں ہوئی درحقیقت حیدرآباد کی اہم نشانیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔ آصف جاہی حکمرانوں نے سکے کو چارمینار کی تصویر کے ساتھ ڈھالا تھا جو بہت ہی پرکشش تھا اور مشہور بھی ۔ دراصل یہ ایک روپئے کا سکہ تھا جس کی ایک جانب نظام الملک آصف جاہ بہادر اور چارمینار کمان کے اندر ’’م‘‘ کا نشان واضح نظر آتا تھا ۔
آصف جاہی دور میں بادشاہ محمد شاہ کے دور حکومت میں دہلی ، مچھلی پٹنم اور بیجاپور کے ٹکسال میں سکے ڈھالے جاتے تھے جس کی نگرانی محمد شاہ کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سکے آج بھی سالار جنگ میوزیم میں موجود ہیں جو سونے اور چاندی کے بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اس دلچسپ موضوع پر بلاوقفہ بات کی اور کہا کہ سکندر جاہ نے 1239 ہجری میں حیدرآباد منٹ میں جو سکے ڈھالے اس پر اپنے نام کا پہلا لفظ یعنی ’’س‘‘ کندہ کروایا ۔ اسی طرح ناصر الدولہ نے اپنے دور اقتدار میں حیدرآباد منٹ میں جو سکے ڈھالے تھے اس پر ’’ن‘‘ درج تھا جو سونے اور چاندی کے بنے ہوتے تھے ۔ ڈاکٹر راجہ ریڈی اپنے پیشے سے بالکل مختلف موضوع پر بات کررہے تھے انہوں نے قدیم حیدرآباد کے چارمینار والے سکے سے متعلق بتایا کہ اسکی ایک جانب میر محبوب علی خان آصف جاہ ششم یعنی ’’م‘‘ اور دوسری طرف نواب میر عثمان علی خان آصف سابع یعنی ’’ع‘‘ کے ساتھ دونوں سمت چارمینار ہوتا تھا ۔ یہی سکہ بعد میں بوستان آصفیہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ ایک روپیہ اور آٹھ آنے سے متعلق ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک روپئے کا سکہ 1904 سے شروع ہوا ، آدھا روپیہ یعنی آٹھ آنے یا اٹھنی کا 1910 میں چلن شروع ہوا ۔ چونی 1905 میں چلنے لگی ۔ پیسہ اوردھیلا یعنی ایک پائی 1909 میں شروع ہوئی ۔ کلدار برٹش سکے کو کہا جاتا تھا اور حالی سکہ ہمارا اپنا تھا ۔ 1956 کے آس پاس میں آندھرا کے قیام کے بعد NP کا رواج شروع ہوا ۔ حیدرآباد جو کل تھا کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انتہائی مسرور ڈاکٹر ڈی راجہ ریڈی نے بتایا کہ ٹکسال کے نگران کو مہتمم یا منٹ ماسٹر کہا جاتا تھا جب تک سلطان شاہی میں ٹکسال قائم تھی مہدی یار جنگ منٹ ماسٹر تھے ۔ ہمارا سوال تھا کہ ٹکسالیں سرکاری ہوتی تھیں یا خانگی؟ جواباً انہوں نے کہا کہ بے شمار خانگی ٹکسالیں ہوا کرتی تھیں ۔ سالار جنگ نے اُنھیںمسدود کردیا اور غیر مجاز طور پر چلائی جانے والی ٹکسالوں کے خلاف قانونی کارروائی کا عمل شروع ہوا اور صرف منظور شدہ ٹکسال میں سکے ڈھالے جانے لگے ۔

حیدرآباد میں سب سے پہلے منٹ کب اور کس نے قائم کیا اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں سب سے پہلے سکندر جاہ نے 1803 میں قدیم رائل پیالس سلطان شاہی میں قائم کیا ۔ بعد میں 1839 میں قدیم رائل پیالس سے یہ ٹکسال دارالشفاء سے متصل میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد کی بلڈنگ میں منتقل ہوگئی ۔ حیدرآباد کے تاریخی سکوں پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر راجہ ریڈی نے کہا کہ حیدرآباد کی تاریخ بڑی ہی عظیم ہے اور حیدرآباد کا ماضی بڑا ہی روشن ہے ۔ یہاں کی فضاؤں میں مرثیہ بھی گونجتا ہے ، بتکماں کا شور بھی انگڑائیاں لیتا ہے اور دیش بھگتی میں ڈوبے ہوئے گیت بھی ہماری سماعتوں میں رس گھولتے ہیں ۔ تعصب کی وباء سے پاک حیدرآباد جو کل تھا اس میں رعایا کو خوش رکھا جاتا تھا ۔ آج یہ ماحول حیدرآباد کے منظرنامے سے غائب ہوگیا ہے ۔ خوف ، دہشت ، ہراس اور اجنبیت آج ہماری میراث بن گئے ہیں ۔