حیدرآباد جو کل تھا ڈاکٹر پی پنٹیا

محبوب خان اصغر
اقبال نے کہا تھا
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اسی شعر کے مصداق ڈاکٹر پنجالا پنٹیا ماضی کی خوشگوار یادوں سمیت اپنے حال میں جی رہے ہیں مگر ان کی آنکھوں میں ایک ایسے مستقبل کا خواب بھی انگڑائیاں لے رہا ہے جب سب دروازے کھل جائیں گے ۔ جی ہاں ۔ جب ہم نے ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے موضوع پر ان سے گفتگو کی تو وہ اپنے حافظہ میں محفوظ  بے شمار یادیں ، باتیں اور خواب زیر بحث لے آئے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا مولد مسکن حیدرآباد ہے ۔ 9 مارچ 1927 کو انہوں نے آنکھیں کھولیں ۔ اس وقت ملک پر بٹوارے کے ہولناک سائے نہیں تھے اور پورا ملک مشترکہ تہذیب کی روشنی میں نہایا ہوا تھا ۔ علحدہ قومیت کا متعصبانہ خیال کسی کو چھو کر بھی نہیں گذرا تھا ۔ تمام فرقے کے لوگ ایک دوسرے کیلئے محترم تھے ۔ التفات کے جذبات سے لوگوں کے قلوب لبریز ہوا کرتے تھے ۔ کیا بڑے کیا چھوٹے ۔ سب کے ذہن صاف ستھرے ہوتے تھے اور اسی کے سبب لہجوں کی مٹھاس اور چاشنی دلوں کو موہ لیتی تھی ۔ خواتین دیگر مذاہب کے بچوں کو بھی اپنی اولاد کی مانند عزیز رکھتی تھیں ۔ پرائے درد کو اپنا جان کر اس کی درماندگی کو دور کرنے کے سامان کئے جاتے تھے ۔

پرانے شہر کے معروف علاقے ضیاء گوڑہ میں آنجہانی فقیرپّا کے گھر تولد ہونے والے ڈاکٹر پنٹیا کی تعلیم کا آغاز مستعد پورہ کے سرکاری مدرسہ میں ہوا جہاں یکم تا آٹھویں جماعت تک انہوں نے تعلیم پائی ۔ نویں تا دہم نامپلی ہائی اسکول کے بعد بارہویں جماعت تک سٹی کالج کو اختیار کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ عثمانیہ میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے اس وقت مسابقتی امتحان ہوتا تھا ۔ فزکس ، باٹنی ، زوالوجی ، اردو اور انگریزی کے متعلق عام سوالات کے ذریعہ طلبا کو پرکھا جاتا تھا ۔ اس امتحان میں حیدرآباد کے سولہ ضلعوں سے طلبا شریک ہوتے تھے کیونکہ سوائے عثمانیہ میڈیکل کالج کے کوئی اور کالج نہیں تھا جس میں داخلہ لیا جاسکتا ہو ۔ ہر اعتبار سے معیار کو ملحوظ رکھا جاتا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ عام معلومات پر مبنی امتحان میں امتیازی نمبرات کی بنیاد پر انہیں میڈیسن میں داخلہ مل گیا ۔ 1952 میں انہوں نے ڈاکٹر کی سند حاصل کی اور یہ بھی انکشاف کیا کہ ڈاکٹریٹ کرنے تک بھی ان کا ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔
تعلیم ، تعلم سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس دور میں اردو اور فارسی زبان سیکھنے کیلئے ہندو بھی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ ہوا کرتے تھے ۔ محمد حسین آزاد فارسی پڑھاتے تھے ۔ دوسرے قابل ذکر اساتذہ میں حامد علی ، انجیا ، عماد الدین ، جگدیش وغیرہ ہیں ۔ انہوں نے اس زمانے کی بعض اچھائیوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اساتذہ طلبا کے ناخن تک دیکھتے (چیک کرتے) تھے ۔ بال کٹوانے کی تاکید کی جاتی تھی ۔ اپنی جیب سے پیسے تک دیا کرتے تھے ۔ میل کچیل سے صاف کپڑے پہننے کی تلقین کیا کرتے تھے ۔ نہانے کیلئے کہا جاتا تھا ۔ سلام کرنے میں پہل کرنے اور ہر ایک کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر زور دیا جاتا تھا ۔ وسیع المشربی ، کشادہ ذہنی اور انسانی عظمتوں کو ملحوظ رکھنے کا سبق پڑھایا جاتا تھا ۔ ایک ایسی تہذیب کی نمائندگی کیلئے تیار کیا جاتا تھا جس کا ایک عالم رسیا ہے ۔
موجودہ تہذیب اور رواداری کو لاحق خطرات سے متعلق ڈاکٹر پنٹیا نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مٹھی بھر افراد  ملک کی نیک نامی کو داغدار کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں ۔ان پر قدغن لگانا ضروری ہے ۔ صدر جمہوریہ ہند نے بھی تواتر کے ساتھ اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے جس کا سخت نوٹ لینا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

ڈاکٹر پنٹیا اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے قبل فرسٹ بٹالین میں میڈیکل آفیسر بھی رہے ۔ انھوں نے کہا کہ فرسٹ بٹالین ابراہیم باغ میں تھا جبکہ سکنڈ بٹالین قلعہ گولکنڈہ میں اور تھرڈ بٹالین ممنور ورنگل میں تھا ۔ حسب ضرورت انہیں تینوں بٹالین میں جانا پڑتا تھا مگر باضابطہ ان کا تقرر پہلے فوجی دستے میں ہوا تھا ۔ انہوںنے بتایا کہ 1961 میں جامعہ عثمانیہ میں پوسٹ گریجویشن کی کشادگی عمل میں آئی ۔ ایم بی بی ایس میں امتیازی نمبرات کے سبب انہیں پی جی میں بآسانی داخلہ مل گیا ۔ 1963 میں انہوں نے ڈاکٹر آف میڈیسن (M.D.) کی ڈگری حاصل کی ۔ اپنی تعلیم سے متعلق انہوں نے وضاحت کی کہ ایم ڈی کی جماعتوں میں فارماکولوجی یعنی ڈرگس (ادویات) سے متعلق سمجھایا جاتا ہے کہ دوائیوں کی اقسام کیا ہیں کونسی بیماری میں کونسی اور کتنی دوا دی جانی چاہئے ۔ انہوں نے علاج کی شروعات کیلئے تشخیص کو اہم بتایا اور کہا کہ آج اکثر مریض غلط ڈاکٹروں کا تختہ مشق بن رہے ہیں ۔
طب کی ترقی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے ارتقاء کیلئے سلاطین آصفیہ نے بیحد سنجیدگی کا مظاہرہ کیا بلکہ اس سے بھی پیشتر بانی شہر محمد قلی قطب شاہ نے دارالشفاء کے نام سے دواخانے کی بنیاد ڈال دی تھی اور یہیں سے یہ ترغیب دلادی گئی تھی کہ آنے والے وقتوں میں پیشہ طب کو بڑھاوا دینا ضروری ہے ۔ دوسری اہم بات انہوں نے یہ بتائی کہ آصف جاہ چہارم نواب ناصر الدولہ جب علیل ہوگئے تھے تو ایک برطانوی ایجنٹ جو حکومت برطانیہ کی جانب سے ریاست حیدرآباد میں مقیم تھا اور جس کا نام میکلین تھا نواب ناصر الدولہ کا بہترین اور کامیاب علاج کیا تھا ۔ صحت پانے کے بعد سلطان نے طبی تعلیم (مغربی) کیلئے ایک میڈیکل اسکول کی داغ بیل ڈالی تھی ۔ توپ کے سانچے میں قائم اس میڈیکل اسکول میں طب کی تعلیم اردو زبان میں دی جاتی تھی ۔ انہوں نے صراحت کی کہ آگے چل کر یہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہوگیا ۔ اس میں مختلف ریاستوں سے طالبعلم آنے لگے ، بعد میں اس میڈیکل اسکول کو کالج کا موقف دے کر اس کا الحاق جامعہ عثمانیہ سے کردیا گیا ۔ انہوں نے نواب ناصر الدولہ کو محسنین میں شمار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے جانشینوں نے مغربی طب کی تعلیم کیلئے تمام سہولتیں عطا کیں ۔ حکومت وقت نے گرانٹ منظور کئے جس سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں نے برطانیہ کا رخ کیا جو تعلیم حاصل کرکے ڈگری یافتہ بن گئے اور اپنے شہر اور اپنی ریاست میں خدمات انجام دینے لگے ۔ اس طرح سلاطین آصفیہ کی مالی امداد سے شہر میں ڈاکٹروں اور دواخانوں کا جال بچھ گیا ۔ اس زمانے کے مشہور دواخانوں میں عثمانیہ جنرل ہاسپٹل ، زنانہ دواخانہ ، چادر گھاٹ دواخانہ ، سلطان بازار دواخانہ قابل ذکر ہیں ۔ بیرون بلدہ دواخانوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے اس کے علاوہ یونانی اور آیورویدک دواخانے علحدہ ہیں ۔

ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتایا کہ 1952 میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد بعض رفقاء کی مشاورت سے انہوں نے 1955 میں اپنا دواخانہ اپنے ہی نام سے قلب شہر یعنی لنگر حوض میں شروع کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ دواخانہ برائے نام خانگی تھا اس کی کشادگی کا منشا اور مقصد صرف یہ تھا کہ ایک عام آدمی کا بھی علاج کم سے کم پیسوں میں ہوسکے چنانچہ اس زمانے میں صرف دو روپئے فیس لی جاتی تھی اور جو اس کے بھی متحمل نہیں ہوسکتے تھے ان کا علاج مفت کیا جاتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وقت نے کروٹ بدلی ۔ سرکاری دواخانوں میں ہجوم ہے ۔ امراض وہی ہیں مگر عام ہوچکے ہیں ، خانگی دواخانوں کی چاندی ہورہی ہے ۔ ایک مریض تمام معائنوں کے ساتھ خانگی دواخانے سے رجوع ہوتا ہے مگر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق از سر نو معائنے کروانا پڑتا ہے گویا کہ مریض پر دوہرے مالی اخراجات کا بوجھ ڈال کر اسے پریشان کیا جاتا ہے ۔ اس رجحان میں تبدیلی لانے کی سخت ضرورت ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں مریض کی کیفیت اور اس احوال سنے جاتے تھے ۔ حوصلے کے ساتھ اسکا علاج کیا جاتا تھا ۔ اپنی منفعت نہیں بلکہ انسان کی صحت اور اس کی زندگی اہم جاننا چاہئے ۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق ان کی نشو و نما میں ان کے والدین اور اساتذہ کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ اس زمانے میں حیدرآباد دکن ایک ثقافتی مرکز تھا جس کی آب و ہوا میں صاحب کردار ، صاحب قلم اور دانشور طبقہ سانسیں لے رہا تھا ۔ علم و ادب کی محفلیں آراستہ کی جاتی تھیں جن میں شرکت کرکے کچھ سیکھا جاسکتا تھا ۔ اپنے علم کے گراف کو اٹھایا جاسکتا تھا ۔ بالخصوص اپنا املا  اور اپنا تلفظ سدھارنے کیلئے اس زمانے کی ادبی محفلیں ایک زبردست ذریعہ ہوا کرتی تھیں ۔ چاہت کے نغمے اور دیش بھگتی میں ڈوبے ہوئے گیتوں سے فضا معمور رہا کرتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ہند و پاک کا بٹوارہ ایک ناقابل تلافی سانحہ ہے ۔ اس زمانے کے اچھے اور بڑے لوگ ہجرت کا زخم لے کر پاکستان چلے گئے اور کچھ لوگ دنیا کے دوسرے ممالک میں مستقلاً رہائش پذیر ہوگئے ۔
انہوں نے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی مثالیں پیش کرتے ہوئے مختلف فرقوں کی عبادت گاہوں کے حوالے دئے جو اغل بغل ہیں ۔ ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرکے خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کا شریک ہونے کو ضروری سمجھا جاتا تھا  ۔انہوں نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ مسلمانوں کی اکثریت ان دنوں سرکاری شعبوں میں ملازمت کرتی تھی ۔ دوسرے خانگی پیشوں کو اختیار کرنا خلافت شان سمجھا جاتا تھا  ۔

سیاسی فکر اور سیاسی بیداری ان میں نہ کے برابر تھی ۔ جب مسلمانوں کے حق میں حالات کچھ ناگفتہ بہ ہوتے نظر آئے تو ان میں سیاسی شعور بیدار کرنے کیلئے مجلس اتحاد المسلمین کا قیام عمل میں آیا ۔ سیاسی تدبر اور تفکر کے حامل کچھ لوگ جن کے پیش نظر مسلمانوں کا اتحاد تھا نظریاتی اختلاف کو بھول کر ایک مرکز پر جمع کرنے لگے ۔ انہوں نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ایک زبردست تحریک چلائی گئی ۔ جس کا اثر اضلاع تک پہنچا ۔ دوسرے طرف آریہ سماج اور ہندو مہا سبھا وغیرہ نے اپنی علاحدہ تحریکیں چلا رکھی تھیں ۔ کمیونسٹ پارٹی کے دلائل الگ تھے ۔ انہوں نے اپنی یادداشت سے بتایا کہ اس وقت جو حالات پیدا ہوئے وہ کچھ ٹھیک نہیں تھے ۔ فضا کو مکدر کیا گیا یہاں تک کہ اس کے اثرات گلبرگہ ، عثمان آباد ، پربھنی ، کلیانی ، نظام آباد ، لاتور اور مہاراشٹرا کے دوسرے علاقوں تک محسوس کئے گئے ۔ متذکرہ علاقوں میں گلبرگہ ریشمی و سوتی ساڑیوں اور خوشبودار مصالحوں کیلئے مشہور تھا تو عثمان آباد بھی تجارتی منڈی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا بالخصوص یہاں روئی صاف کرنے کے اور پاپوش سازی کے کارخانے بہت تھے ۔ پربھنی تابنے اور پتیل کے ظروف اور ان پر نقش و نگار کیلئے بڑی شہرت کا حامل تھا ۔ اس وقت کے پیدا کردہ حالات میں وہاں کے عوام اور وہاں کی صنعتیں متاثر ہوئیں ۔
اس دور کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 1946 میں قاسم رضوی مجلس کے صدر کے طور پر نامزد کئے گئے تھے ۔ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ انہوںنے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد ان اراکین کو بے اثر کرنا شروع کردیا جو ان کی دانست  میں یا تو غیر مفید تھے یا ان کے مفادات پر ضرب لگانے والے تھے اس کے برخلاف بہادر یار جنگ بہت سلجھے ہوئے انسان تھے ۔ اور نپی تلی تقریر کے ذریعہ عوام پر چھاجانے کا ہنر خود جانتے تھے ان میں بردباری اور فراست بدرجہ اتم موجود تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں ہندو برادری میں پنڈت نریندر جی ، اور رامانند تیرتھ کا طوطی بولتا تھا اور وہ اپنے طبقے میں بہت مقبول تھے ، عوام ان پر جان نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے  ۔ان کا مقصد کوئی مذہبی نہیں تھا بلکہ ریاست میں ذمہ دارانہ حکومت کی داغ بیل ڈالنا تھا ۔

امریکہ  ،برطانیہ ، یوروپ اور روم کا سفر کرنے والے ڈاکٹر پنٹیا سن رسیدہ ہو کر بھی ہفتہ میں تین مرتبہ تیراکی کے لئے جاتے ہیں ۔ شٹل ، بیڈمنٹن ، ٹینس ان کے پسندیدہ کھیل تھے مگر اپنے رفقاء کے ساتھ گولف آج بھی ضرور کھیلتے ہیں ۔ برسوں قبل ضیاء گوڑہ کو خیرآباد کہہ دیا اور 1962 سے بیگم پیٹ انکا مسکن ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ مرض ملیریا کی دوا کا موجد سررونالڈ راس کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا ۔ انہوں نے بحیثیت ڈاکٹر ملیریا کے بارے میں معلومات پہونچاتے ہوئے کہا کہ یہ مرض خطرناک ہوتا ہے ۔ زمانہ قدیم  میں انسداد ملیریا کے لئے کچھ خاص دوائیں بھی نہیں تھیں مگر جوں جوں طب نے ترقی کی ، اس مرض کے تدارک کیلئے دوائیں بھی ایجاد ہوئیں ۔ اس مرض کے علاوہ دوسرے مہلک امراض پر ہمارے ملک میں کافی تحقیقاتی کام ہوتا رہا جس کی وجہ سے ان امراض کی روک تھام میں کافی مدد ملی ۔ اور عالمی اداروں میں انسداد مرض کے ہمارے کام کو بیحد پسند کیا گیا ۔ ہم نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ان سے کسی پیغام کی خواہش کی تو انہوں نے کہا کہ صحت عامہ کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ باہر کی غذائیں ترک کردیں ۔ گھر میں ہری سبزیوں کو اپنی روزمرہ کی غذا میں شامل کریں ۔ ہر کام کو اپنے وقت پر انجام دینا اپنے اوپر لازم کرلیں ۔