عابد صدیقی
حیدرآباد میں ہومیوپیتھک طریقۂ علاج کا پس منظر نہایت دلچسپ ہے ۔ 1924 ء میں اسی شہر کے ایک ہونہار ایلوپیتھک فزیشن ڈاکٹر بھومنا بمبئی میں قیام پذیر تھے ۔ انہیں شدید ڈائریا ہوگیا تھا ۔ متعدد ڈاکٹروں کے علاج کے باوجود مرض سے افاقہ نہیں ہوا ، وہ بہت پریشان ہوگئے ۔ اسی زمانے میں بمبئی میں ایک مشہور جرمن ہومیوپیتھ ڈاکٹر آئے ہوئے تھے ، انہوں نے ڈاکٹر بھومنا کا علاج کیا اور چند ہی گھنٹوں میں وہ صحت یاب ہوگئے ۔ اس طریقہ علاج سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور جرمن ڈاکٹر سے اس طریقہ علاج کو سیکھنا شروع کردیا ۔ ان کی غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر جرمنی کے ڈاکٹر نے انہیں نہ صرف بہت ساری کتابیں فراہم کیں ، بلکہ جرمنی سے بے شمار دوائیں بھی روانہ کیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر بھومنا نے 1924 میں باقاعدہ حیدرآباد میں ہومیوپیتھک علاج کا آغاز کیا ۔ اپنی پچاس سالہ پریکٹس کے دوران انھوں نے ہزاروں مریضوں کی خدمت کی ، بلکہ بعض لاعلاج اور مایوس مریضوں کا کامیاب علاج بھی کیا ۔ ڈاکٹر بھومنا نے زندگی بھر مفت علاج کیا اور تادم حیات اپنے پاس سے دوائیں مفت دیتے رہے ۔ کاچی گوڑہ میں واقع ان کے مطب میں ہمیشہ مریضوں کا ہجوم رہتا۔ انھوں نے حیدرآباد میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو باقاعدہ متعارف کرایا ۔ اپنی غیر معمولی ہمدردی ، جذبۂ خدمت اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں مہارت کے باعث انھیں زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ انہوں نے اپنے انتقال سے قبل اپنے فرزند ڈاکٹر سری رام ناتھ کو وصیت کی تھی کہ انکے بعد وہ ہومیوپیتھک علاج کے اس سلسلہ کو جاری رکھیں اور مریضوں کو بغیر کسی معاوضہ کے مفت دوائیں دیں ۔ ڈاکٹر رام ناتھ بنیادی طور پر ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے ۔ اپنی ملازمت کے دوران شام کے اوقات میں وہ اپنے والد کے مطب میں انکے ہمراہ کام کرتے ۔ اس طرح ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں انھیں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ والد کے انتقال کے دوسرے ہی دن سے انہوں نے ڈاکٹر بھومنا کی جگہ سنبھال لی اور ہومیوپتھی طریقہ علاج کے ذریعہ مریضوں کے علاج کی مقدس خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ۔ وظیفہ پر سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کردیا ۔ اپنی قابلیت ، صلاحیت ، ملنساری ، سادگی اور جذبۂ ہمدردی کے باعث وہ بھی اپنے والد کی طرح عوام میں کافی مقبول ہیں ۔ گفتگو کے دوران انھوں نے اپنے متعلق اور ماضی کے حیدرآباد کے بارے میں دلچسپ اور کارآمد باتوں کا تذکرہ کیا ۔
ڈاکٹر رامناتھ جن کا پورا نام سری رامناتھ ہے ، 1939 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم ہندی میڈیم اسکولوں میں ہوئی اس کے بعد حیدرآباد کے تاریخی آل سینٹس ہائی اسکول میں داخلہ لیا ، وہاں سے میٹرک کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد نظام کالج سے انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کی اور گاندھی میڈیکل کالج حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کا امتحان کامیاب کیا ۔ اپنے طالب علمی کے دور کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس دور میں ریاست میں صرف دو ہی میڈیکل کالجس تھے ۔ جن میں ایک عثمانیہ اور دوسرا گاندھی میڈیکل کالج تھا ۔ عثمانیہ میڈیکل کالج کا نام پہلے نظامس اسکول آف میڈیسن تھا ، جہاں سے ان کے والد ڈاکٹر بھومنا نے ایم بی بی ایس کیا تھا ۔ کچھ عرصہ بعد ورنگل میں کاکتیہ میڈیکل کالج قائم ہوا تھا ۔ میڈیسن میں عام طور پر انگریزی میڈیم اسکولوں کے طلبہ کو داخلہ ملتا تھا جیسے گرامر اسکول ، میتھوڈسٹ ، عالیہ اور آل سینٹس اسکول ۔ علاوہ ازیں سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو بھی داخلہ ملتا ۔ ڈاکٹر رامناتھ نے بتایا کہ اس دور میں میڈیسن کی تعلیم کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ انھیں فخر ہے کہ ڈاکٹر بنکٹ چندر ، ڈاکٹر بہادر خان ، ڈاکٹر حیدر خاں ، ڈاکٹر شیوشنکر جیسے قابل اور ماہر اساتذہ سے انھیں استفادہ کا موقع ملا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی اس زمانہ میں عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی سمجھی جاتی تھی ۔ یونیورسٹی کے گریجویٹس کی ولایت میں بڑی مانگ تھی ۔ میڈیسن کے بعد حیدرآباد کے کئی ڈاکٹرس نے لندن میں ایف آر سی ایس ، ایم آر سی پی جیسی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹر رامناتھ نے اپنے والد کے ساتھ میڈیکل پریکٹس شروع کی پھر سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے اور 1997 میں وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے ۔
انھوں نے بتایا کہ ماضی میں شہر حیدرآباد ملک بھر میں کئی اعتبار سے ایک مثالی شہر تھا ، جہاں کے لوگوں میں مروت ، محبت اور غیر معمولی رواداری نمایاں تھی ۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹرس بھی اسی سماج کا حصہ ہیں چنانچہ انھوں نے وظیفہ کے بعد ہومیوپیتھک طریقہ علاج جاری رکھا ۔ انھوں نے کہا کہ اس دور میں آبادی محدود تھی ، بیماریاں کم تھیں اور ڈاکٹروں کی تعداد بھی محدود تھی ۔ لوگوں کا طرز زندگی نہایت سادہ تھا ۔ ڈاکٹرس خواہ وہ ملازمت پیشہ یا پھر خانگی پریکٹس کرتے ہوں ، ان میں جذبہ ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ وہ بندگان خدا کی خدمت کو مقصد زندگی سمجھتے ۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ انکے والد ڈاکٹر بھومنا اپنے مطب میں دوائیں بھی دیتے اور بعض مریضوں کی عیادت کے لئے انکے گھر بھی جاتے اور انھیں تسلی دیتے ۔ اس طرح کا کردار اس پیشہ کے وقار کو مزید بلند کرتا ہے ۔ اس زمانے میں ڈاکٹروں کی فیس معمولی ہوتی ، کم دوائیں تجویز کرنے کا رجحان تھا ، علاج سستا تھا ، اکثر ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا تھی ۔
مرض کی تشخیص کے لئے کوئی پیچیدہ طریقہ نہیں اپنایا جاتا بلکہ مریض کی کیفیت اور نبض دیکھ کر ہی تشخیص کرلی جاتی اور علاج کیا جاتا ۔ یہ رجحان نہ صرف ہومیوپیتھک بلکہ ایلوپیتھک اور یونانی طریقۂ علاج میں بھی تھا ۔ بعض ڈاکٹرس تو مریض کی body language ، جسمانی کیفیت دیکھ کر دوائیں تجویز کرتے اور مریض کو شفا ہوجاتی ۔ ڈاکٹروں کا بھی عام طور پر عقیدہ تھا کہ مرض کا علاج کرنا انکا کام ہے اور شفا دینے والا مالک حقیقی ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب دواؤں کے نسخے پر سب سے پہلے ’’یا شافی یاکافی‘‘ لکھا کرتے ۔ اگر کسی مریض کو مطب میں ہی دوا استعمال کرنا ہوتا تو اسے یا شافی یاکافی پڑھ کر دوا لینے کی ہدایت کرتے ۔ انھوں نے اپنے والد کی مثال دی کہ ان کے بارے میں اکثر مریضوں کو شکایت تھی کہ وہ مریض سے تفصیلی کیفیت نہیں سنتے اور کبھی کبھی جھنجھلاجاتے ۔ ڈاکٹر رامناتھ نے کہا کہ ان کا تجربہ اس قدر وسیع تھا کہ وہ صرف دو جملہ سن کر اور مریض کی ظاہری حالت دیکھ کر اس کے مرض کو پہچان لیتے ۔ یہ جوہر بہت کم ڈاکٹروں میں ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر رامناتھ نے بتایا کہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق ضلع کریم نگر سے ہے۔ وہ ذات کے درزی ہیں ۔ اس دور میں ان کے آبا و اجداد کو شاہی پوشاک سینے اور وردیوں کی تیاری کا کام سپرد کیا گیا تھا ۔ اورنگ زیب کے ایک سپہ سالار انھیں اپنے ساتھ حیدرآباد لائے تھے اسی وقت سے ان کا خاندان حیدرآباد میں بس گیا ۔ ان کے نانا بھی دربار آصفجاہی میں ملازمت کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اردو زبان سے اپنے والد کی طرح غیر معمولی محبت اور لگاؤ ہے ۔ وہ دواؤں کے نام اردو میں لکھتے رہے ہیں۔ اب چونکہ کئی مریض اردو نہیں جانتے تو انھیں انگریزی میں لکھنا پڑرہا ہے ۔ اردو اس دور میں سرکاری زبان تھی ۔ ان کے والد اردو میں بڑی اچھی گفتگو کرتے ۔ اخبار سیاست اور اردو ملاپ کا مطالعہ کرتے۔ دیگر ڈاکٹرس کو بھی اردو پڑھنا لکھنا آتا تھا ۔ تجارت ، کاروبار ، تعلیم اور تمام امور میں اردو کا چلن تھا ۔ ایک دوسرے سے مخاطبت کے لئے ’’آپ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ، خواہ وہ کم عمر ہو کہ بزرگ ، ان کے لئے مہذب الفاظ کا استعمال کیا جاتا ۔ لوگوں کا رہن سہن معمولی تھا ، لیکن رکھ رکھاؤ تھا ، خودداری اور عزت نفس کا بڑا پاس و لحاظ رکھا جاتا ۔ حیدرآبادی گفتگو پر دکھنی اردو کا زیادہ اثر رہا اور مرہٹی و تلگو زبان کے الفاظ بھی بول چال میں استعمال کئے جاتے ۔ مخصوص حیدرآبادی لب و لہجہ سے دیگر علاقوں کے لوگ بہ آسانی پہچان لیتے کہ یہ حیدرآبادی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ حیدرآبادیوں کی وضعداری ، ملنساری اور انکساری بے مثال رہی ۔ شاہی حکومت کے باوجود حیدرآباد کے عوام میں رعونت ، غرور اور تعصب کبھی بھی نہیں رہا ۔ حیدرآبادی عام طور اچھے کھانوں کے شوقین تھے ۔ حیدرآبادی بریانی ، دالچہ ، بگھارے بیگن ، کھچڑی ، قیمہ ،چٹنی اور دیگر کئی ڈشس صرف حیدرآباد کے گھرانوں میں بنتیں ۔ حیدرآباد کی مہمان نوازی سارے ملک میں مشہور ہے ۔ لوگوں کو مہمانوں کی ضیافت کرنے سے کافی دلچسپی تھی ۔ رشتہ دار ایک دوسرے کے گھر دو تا چار دن تک قیام کرتے ۔ رشتہ داروں میں غیر معمولی محبت تھی ۔ مشترکہ خاندان (جوائنٹ فیملی) کا رواج عام رہا ۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں میں بھی خاندان کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ مذہب یا دھرم کا تقدس اور اس کے اثرات انفرادی و اجتماعی زندگی میں نمایاں رہے ۔ ایک دوسرے کے مذہب یا دھرم کا احترام کرنا ضروری تھا اس لئے سماج میں امن ، یکجہتی اور ہم آہنگی تھی ۔ انسانی اقدار کو معاملات زندگی میں نمایاں اہمیت حاصل تھی ۔ وسائل کی کمی تھی ، لیکن قناعت پسندی اس قدر تھی کہ لوگ اپنی محدود آمدنی میں بھی چین و سکون کی زندگی گزارتے ۔
حمل و نقل کے لئے سائیکلوں ، سائیکل رکشہ اور بسوں کا استعمال کیا جاتا ۔ موٹر کاریں بہت کم تھیں ۔ سڑکوں پر آج کی طرح ٹریفک کا ہجوم نہ تھا ۔ جان ومال کی سلامتی تھی ۔ قانون کی حکمرانی کے ڈر سے لوگ غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں سے گریز کرتے ۔ حضور نظام کی کامیاب اور انصاف پرور حکمرانی کا ہر کوئی معترف تھا ۔ رعایا ان کا بڑا احترام کرتی اور ان سے غیر معمولی محبت رکھتی تھی ۔ چنانچہ انھوں نے ایک ذاتی واقعہ سنایا کہ ایک بار وہ اپنی کار میں اپنے والد ڈاکٹر بھومنا کو لے کر کنگ کوٹھی کے راستے سے گذر رہے تھے ، اتفاقاً اعلی حضرت کی قیام گاہ پردہ گیٹ کے پاس انھوں نے ہارن بجادیا جس پر ان کے والد ان پر کافی برہم ہوئے اور کہا کہ اعلی حضرت کے آرام میں خلل ہوا ہوگا اور انھیں تاکید کی کہ آئندہ ایسی گستاخی نہ کریں ۔ حضور نظام ایک سیکولر اور انصاف پسند حکمران تھے ۔ انھوں نے ہندو اور مسلمان دونوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا اور انھوں نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان میری دو آنکھوں کی طرح ہیں۔ انھوں نے اپنے انداز فکر اور طرز عمل میں کسی قسم کے بھید بھاؤ اور تعصب کو اختیار نہیں کیا ۔ بادشاہ کے اس طرز عمل کے اثرات رعایا پر بھی مرتب ہوئے اور عوام ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکر کی طرح رہے ۔ ایک دوسرے کی عیدوں ، تہواروں کو مل جل کر منانا، ایکدوسرے کی خوشی اور غم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا حیدرآبادی تہذیاب کا اپنا ایک منفرد اور مخصوص کلچر تھا ۔ ہندو لوگ ، مسلمان بزرگوں کو نام سے نہیں پکارتے بلکہ چاچا ، چاچی ،ماما ، مامی کہہ کر پکارا کرتے ۔ رشتوں کا احترام تھا ، اپنا ہو یا پرایا بڑوں کا ادب ضروری سمجھا جاتا ۔ والدین اپنی اولاد کو نصیحت کرتے کہ بڑوں کا احترام کریں ۔ انھیں افسوس ہے کہ آج والدین بچوں کو اچھی تربیت نہیں دے رہے ہیں ۔ سلام آداب کو رسمی طریقہ سمجھ کر اولاد اس کی پابندی نہیں کررہے ہیں ، لیکن بعض والدین اب بھی ان اقدار کا پاس و لحاظ کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان کے دواخانہ میں معصوم بچے اپنے والدین کے ہمراہ آتے ہیں تو بڑے مخصوص انداز میں سلام کرتے ہیں جس سے خوشی ہوتی ہے ۔
اس دور میں مسلمانوں میں پردہ کا رواج بہت عام تھا ، مرد ڈاکٹروں سے علاج کے لئے رجوع ہونے کو معیوب سمجھا جاتا ۔ اگر مجبوری ہوتی تو پردہ میں رہ کر کیفیت بیان کی جاتی یا پھر کاغذ پر اپنی بیماری اور کیفیت لکھ کر ڈاکٹر کے حوالے کردیا جاتا ۔ مسلمانوں کے علاوہ کایستھ خاندانوں، مارواڑی اور راجپوت گھرانوں کی عورتیں بھی پردہ کرتی تھیں ۔ اس دور میں ڈاکٹر بنکٹ چندر ، ڈاکٹر سکسینہ ،ڈاکٹر ایس ایس جین ، ڈاکٹر منان ، ڈاکٹر شاہنواز ، ڈاکٹر ابوالحسن صدیقی اور دوسرے بہت مشہور تھے ۔ عثمانیہ ہاسپٹل کو افضل گنج کا دواخانہ کہا جاتا ۔ گاندھی ہسپتال کا نام پہلے کنگ جارج ہسپتال تھا ، جو ایم جی ایم کے نام سے بھی مشہور رہا ۔ انھوں نے بتایا کہ اس دور میں یونانی طریقۂ علاج بھی کافی مقبول تھا ۔ ایلوپیتھک ڈاکٹرس بعض مریضوں کو یونانی یا ہومیوپیتھک علاج کرانے کا مشورہ دیتے ۔ یہ پیشہ ورانہ یگانگت حیدرآبادی تہذیب کے اثرات کا نتیجہ تھی ۔ اس سوال کے جواب میں کہ ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک علاج میں وہ کیا فرق محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ وہ دونوں ہی طریقہ علاج میں پریکٹس کرتے رہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دونوں ہی طریقہ علاج کی اہمیت ہے ۔ ان کا تقابل کرنا مشکل ہے ، لیکن Chronic امراض کے لئے ہومیوپیتھک علاج زیادہ موثر ثابت ہوا ہے ۔ بعض لوگ اسے سابودانے کی گولیاں سمجھ کر مذاق اڑاتے ہیں ، لیکن اس کے فوائد وہی جانتے ہیں جو زیر علاج رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہندوستان میں ہومیوپیتھک علاج کا مستقبل نہایت تابناک ہے ۔ پہلے صرف جرمنی سے دوائیں آتی تھیں ، لیکن آج ملک میں کئی کمپنیاں ہومیوپیتھک دوائیں تیار کررہی ہیں ۔
حیدرآباد کے رسم و رواج کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حیدرآباد میں رسم و رواج کی پابندی کا چلن بہت زیادہ رہتا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں گہرے اور قریبی روابط کے باعث دونوں کی شادیوں اور دیگر تقاریب میں ایک دوسرے کے رسم و رواج کا چلن تھا ۔ مسلم شادیوں میں تقریب سے پہلے شہنائی اور نوبت بجتی ، ہندوؤں میں ناداسورم بجایا جاتا جو شادی سے آٹھ دس دن پہلے سے بجنا شروع ہوجاتا ۔ یہ ایک قسم کا منہ کا باجا ہے ۔ سنگیت ، مہندی اور مسلمانوں کے پاس مانجھے سانچق وغیرہ کی رسمیں مشترکہ تہذیب کا نتیجہ تھیں ۔ شادی سے قبل دولہا اور دلہن کے والدین خاندان کے بزرگوں اور رشتہ داروں کو شخصی طور پر ان کے گھر جا کر دعوت نامے پیش کرتے ۔ کسی اور سے روانہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ۔ یہ طریقہ نہ صرف ہندوؤں بلکہ مسلمانوں میں بھی رہا ہے ۔ شادی کی تقاریب میں امیر غریب سب کی مہمان نوازی ، میزبان کا فریضہ ہوتا ۔ عام عقیدہ یہ تھا کہ شادی بیاہ میں بزرگوں کی دعائیں اور ان کا آشیرواد ضروری ہے ، اس لئے دولہا دلہن کو بزرگوں کے ہاتھوں سے پھول پہنائے جاتے ۔ مہمانوں کی جانب سے سلامی یا تحفہ دیا جاتا ۔ رقمی تحفہ ہو تو اسے رنگین لفافوں میں رکھ کر دیا جاتا ۔ اپنی حیثیت کے مطابق سلامی دی جاتی ۔ اس میں کوئی تصنع یا بناوٹ اور دکھاوے کا شائبہ تک نہ ہوتا ۔ یہ کردار حیدرآبادی تہذیب کو دیگر تہذیبوں سے نمایاںاور ممیز کرتا ہے۔
ڈاکٹر رامناتھ نے کہاکہ ایک دوسرے سے ملاقات ’آداب عرض‘ یا آداب سے شروع ہوتی ۔ بڑوں سے جھک کر ملنا اپنی سعادت مندی اور ان کا احترام تصور کیاجاتا ۔ یہ طریقہ کار ہندو اور مسلمان سب میں موجود تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ ملک کے دیگر علاقوں میں سیکولرازم اور قومی یکجہتی کی باتیں محض ظاہری ہیں لیکن حیدرآباد کا سیکولرازم عملی اور حقیقی سیکولرازم ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ انھوں نے مسٹر ہنمنتیا سے اردو سیکھی ، جنھوں نے ’بولتا قاعدہ‘ سے اردو تعلیم کی شروعات کی تھی اور تلگو زبان انھوں نے مرزا اسمعیل سے سیکھی ، جن کا تعلق شاید رائلسیما سے تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زبان کا تعلق کسی مخصوص طبقہ سے نہیں ہوتا ۔ انھوں نے کہا کہ ان کے والد ڈاکٹر بھومنا کی عظیم طبی خدمات کے پیش نظر محکمہ بلدیہ حیدرآباد نے ان کی قیامگاہ سے متصل روڈ کو بھومنا روڈ سے منسوب کیا ہے ،
جو واقعی عوام کی جانب سے انھیں خراج عقیدت ہے ۔ اپنے مکان کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ناگرجنا ساگر کے چیف انجینئر طاہر علی خان تھے ، جن سے اعلی حضرت نے بنگلور تک ریلوے لائن بچھانے کا حکم دیا تھا ۔ اس پراجکٹ میں جو پٹریاں بچ گئیں ، وہ ان کے والد کے حوالے کردی گئیں ، کیونکہ طاہر علی خان ان کے نہ صرف مریض تھے ، بلکہ معتقد بھی تھے ۔ ڈاکٹر بھومنا نے چند ہزار رویہ دے کر یہ سودا کیا تھا اور طاہر علی خان کے تعاون سے ان کا مکان اتنا شاندار اور مضبوط بن گیا ۔ طاہر علی خان کے احسان مند ہیں ۔ اس طرح کے متعدد واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نظام سرکار کے دور میں حیدرآباد کے عوام میں کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا بلکہ میل جول ، رواداری اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہی سب کا منشا اور مقصد تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے مذہب ، زبان اور علاقہ کے نام پر زندگی کے ہر شعبہ کو آلودہ کیا ہے ، جس سے سماج میں بے چینی اور انتشار کا ماحول پیدا ہورہا ہے ۔ اس سلسلہ کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ یہ طرز عمل عوامی احساسات کے منافی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہوگا ۔
ڈاکٹر صاحب نے آخر میں موجودہ دور کے حیدرآبادی اور خاص طور پر نوجوان نسل کو مشورہ دیا کہ وہ حیدرآبادی تہذیب کے تسلسل اور ان اعلی روایات کو زندہ رکھیں جو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خوشی ، امن وچین اور ترقی کی ضمانت ہے ۔
٭٭٭٭