حیدرآباد جو کل تھا ڈاکٹر جی راجورکر

محبوب خان اصغر
ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی طرز زندگی سیاسی حالات اور ان کی بصیرت پر میں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا ۔ میں نے آغاز میں پنڈت نہرو کو خط لکھا ۔ اور اپنی خواہش کااظہار کیا کہ آپ حیدرآباد تشریف لارہے ہیں ۔ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔ ملاقات کے لمحے مقالہ لکھنے میں میرے معاونت کرینگے ۔ پنڈت نہرو نے جواباً لکھا کہ ’’میں حیدرآباد آتا ہوں تو منصرم و منظم باقاعدہ شیڈول بناتے ہیں ۔ جتنا وقت آپ کو چاہئے میں شاید دے نہ سکوں ممکن ہو تو آپ دلی تشریف لایئے‘‘ ۔ چنانچہ میں 16 اکتوبر 1956 کو ان کے گھر گیا ۔ میری عمر اس وقت اٹھائیس برس تھی اور ساری دنیا میں نہروجی کا مقام تھا مگر مقام و مرتبہ کو درمیان میں لائے بغیر انہوں نے مجھ سے مشفقانہ گفتگو کی ۔ وہ شرافت اور تہذیب کا منبع تھے ۔ دروازے تک آئے ۔ خود دروازہ کھولا ۔ ان کے چہرے پر مستقل مسکراہٹ اور چمک نظر آتی تھی ۔ انہوں نے نہ صرف میری قدر کی بلکہ ہر ریسرچ اسکالر کے وہ قدردان تھے ، اپنے اندر ایک بحر بیکراں کی سی روانی رکھتے تھے ۔ نفاست ان کی گفتگو میں بھی تھی اور لباس میں بھی ۔ سیکولر مزاج کے حامل تھے ۔ ملک کے سیکولرازم میں جس طرح حیدرآباد کا اہم رول ہے اسی طرح گاندھی اور نہرو کا بھی بڑا حصہ ہے ۔ بٹوارے کے بعد ہندوستان کو سیکولر رکھنا آسان نہیں تھا ۔ ایک نہرو کی شخصیت تھی جو ڈٹ کر کھڑے رہے ۔ کمیونزم سے وہ دور رہے اور کمیونل elements کو آگے بڑھنے نہیں دیا حالانکہ ان پر قدغن لگانا ایسا ہی تھا جیسا کہ صحراء کے بگولوں کو گرفتار کرنا ۔ مگر نہروجی نے ملک کی خاطر یہ بھی کیا ۔ ان سے ملاقاتوں کا کیف و سرور مجھے آج تک گرماتا ہے ۔ میں نے 1965 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی مگر میری بدبختی دیکھئے کہ 1964 میں نہروجی کا دیہانت ہوگیا ۔ میں نے انکی دختر محترمہ اندرا گاندھی جی کو مل کر اپنی سند کی نقل دی جس پر انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا ۔

جواہر لال نہرو کو حیدرآباد سے قلبی لگاؤ تھا ۔ حیدرآباد تشریف لائے تو ان کے خطابات اکثر فتح میدان پر ہوا کرتے تھے جس میں لاکھوں کا مجمع ہوتا تھا ۔ ان دنوں نور عباسی نام کے ایک بے باک صحافی ہوا کرتے تھے ۔ انہوںنے نہروجی کے دورہ حیدرآباد کے بعد شہر کے ایک انگریزی اخبار کو Rape of Fathemaidan (ریپ آف فتح میدان) عنوان سے خط لکھا جس میں انہوں نے شکایت بھی کی تھی کہ پنڈت جی آتے ہیں تو فتح میدان کی پوری پچ خراب ہوجاتی ہے ۔ دوسرے دن نہرو نے فون کیا اور کہا کہ اب کوئی بھی تقریر فتح میدان میں نہیں ہوگی بلکہ کہیں اور ہوگی ۔ اس کے بعد ان کی تقاریر نظام کالج میں ہوئیں ۔ اس واقعہ سے دونوں کی شخصیتوں پر روشنی پڑتی ہے ۔ نہرو جیسی شخصیت کا اعتراف ان کے قد کو بڑھاتا ہے ۔ اور نور عباسی کا طرز عمل صحافتی دیانتداری کا غماز ہے ۔

حیدرآباد کے اخباروں میں دکن کرانیکل 1938ء کی پیداوار ہے ۔ پیام ، وقت اور میزان کے علاوہ daily news بھی اس زمانے کا ہے ۔ رہنمائے رکن کے بعد روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور دیگر اخبارات بھی منظرعام پر آئے ۔ جہاں تک عہد آصفیہ کی بات ہے ہم نے سنا ہے کہ یہاں کی معیشت بہتر تھی ۔ جن میں اکثر جاگیردار اور منصب دار لوگ تھے ۔ البتہ آصف جاہ ثالث سکندر جاہ کے عہد میں حیدرآباد میں کچھ خزانے موجود تھے ۔ بعد میں معاشی حالات ابتر ہوگئے تھے ۔ آصف جاہ چہارم ناصر الدولہ کے دور حکومت میں سالار جنگ اول نے ریاست حیدرآباد کو معاشی استحکام دیا اور آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کے عہد حکومت میں معیشت کو بھرپور توانائی ملی ۔ رعایا پر سے ٹیکس کا بوجھ ہٹایا گیا ۔ ان دنوں پورے ملک میں کوئی چوبیس سکوں کاچلن تھا ۔ سکہ قرطاس اعلی حضرت کے عہد حکومت میں اجراء کیا گیا اس عہد میں سو اور دس کے نوٹ بھی جاری ہوئے ۔ دو روپئے اور پانچ روپئے کے نوٹ 1920 کے آس پاس میں منظر عام پر آئے مگر جو مقبولیت قرطاس کو حاصل ہوئی وہ کسی اور سکے کو حاصل نہ ہوسکی ۔ حیدرآباد کا سکہ حالی کہلاتا تھا اور ہندوستان میں برطانوی سکے کو کلدار کہا جاتا تھا ۔ قدیم حیدرآباد کی یادوں کو تازہ کیا جائے تو نظام کالج کے اردو کلچرل فیسٹول یاد آتے ہیں ۔ 1960 میں تو یادگار ادبی تقریب منائی گئی تھی جامعہ عثمانیہ کے طلباء نے اسکا انعقاد عمل میں لایا تھا ۔ نظام کالج کے سالار جنگ ہال میں مشاہیر کی تقاریر ہوا کرتی تھیں ۔ سروجنی نائیڈو کی تقریر بھی ہم نے سنی آغا حیدر حسن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ۔ سروجنی نائیڈو تقریر کیا کرتی ہیں کہ سحر کرتی ہیں کہ سننے والا مبہوت ہوجاتا ہے ۔ پاکستان کے گورنر غلام محمد کی تقریر بھی ہم نے سماعت کی ۔ سراکبر حیدری اور سالار جنگ کے خطابات بھی ہم نے سنے ۔ جسٹس سردار علی خان دو سال مجھ سے سینئر تھے ۔ غیر معمولی تقریر کرتے تھے اگرچیکہ انہوں نے ابتداء میں اردو زبان کو اپنے اظہار کو وسیلہ بنایا تھا ۔ بعد میں انگریزی زبان میں بھی نپی تلی تقریر متعدد بار ہمارے گوش گزار ہوئی ۔ بی پی آر وٹھل چیف سکریٹری حکومت آندھرا پردیش کا بھی ان دنوں طوطی بولتا تھا ۔ نظام کالج میں بڑے ہی دانا لوگ آیا کرتے تھے اور اپنی خردمندی کا مظاہرہ کرتے تھے جس سے بالخصوص طلباء مستفید ہوا کرتے تھے ۔ یہ بھی دکن کے ماضی کا ایک منور پہلو ہے ۔

مجھے اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی سلور جوبلی بھی ہلکی سے یاد ہے جسے 1936میں ہونا تھا ۔ مگر نظام پنجم کے انتقال کی وجہ سے ملتوی کرکے 1937 میں منائی گئی تھی ۔ معظم جاہی مارکٹ کو برقی قمقموں سے روشن کردیا گیا تھا ۔ ہم اعلی حضرت کو روز دیکھا کرتے تھے ۔ ان کی سواری گذرتے سے پندرہ منٹ پیشتر راستے مسدود کردئے جاتے تھے ۔ ان کے ہاں سیاہ رنگ کی کار تھی ۔ مہاراجہ کشن پرشاد راستے سے گذرتے تو سائل خوش ہوکر ’’راجہ آرہے ہیں راجہ آرہے ہیں‘‘ کی صدائیں لگاتے تھے ، کشن پرشاد کے سکریٹری چونی اٹھنی اور روپیہ غرباء کی نذر کرتے جاتے تھے اور یہ ان کا روز کا معمول تھا ۔ بہت ساری خوشگوار یادوں کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ بھی مجھے یاد ہے جب قاسم رضؤی مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بنے تھے ۔ دکن ریڈیو خیریت آباد میں واقع تھا ۔ ریڈیو کی نشریات میں قاسم رضؤی کی تقریر بھی شامل تھی ۔ ان دنوں ریڈیو ہی تھا جو اچھے برے حالات سے آگاہ کرتا تھا ۔ مجھے یاد ہے جو ریڈیو سے اعلان ہوا تھا ’’مجاہد اعظم ، صدیق دکن صدر مملکت مجلس اتحاد المسلمین جناب قاسم رضوی مخاطب فرمائیں گے‘‘ ۔ ان کی تقریر کے چند جملے میرے ذہنی گوشوں میں آج بھی محفوظ ہیں ۔ ’’ہندوستان کے نادان سیاستدانو ۔ بنیو اور برہمنو ۔ دیڑھ سو سال کے بعد حاصل ہوئی آزادی کو نہ کھو بیٹھو ۔ نادانو ۔ ہمارا مقابلہ نہ کرو ۔ نہرو نے تو بہت کوشش کی تھی مفاہمت اورمصالحت کی ۔ رضاکار موومنٹ شروع ہوا۔ مظالم کم و بیش دونوں اقوام پر ہوئے ۔ عثمان آباد میں میرے کئی رشتہ دار متاثر ہوئے ۔ چار دنوں میں آصف جاہی جھنڈا لال قلعہ پر لہرانے والوں نے خون کاایک سمندر دیکھا ۔ قاسم رضوی کی دوسری تقریر زمرد محل میں ہوئی تھی ۔ ان ہی دنوں کی بات ہے نوجوان مسلم ایڈیٹر شعیب اللہ خان اخبار ’’امروز‘‘ نکالا کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اخبار میں رضاکاروں کی مخالفت میں لکھا اور کہا تو 22 اگست 1948 کو رات کے بارہ بجے ان کے ہاتھ کاٹے گئے اور قتل کردیا گیا ۔ اس طرح ان دنوں کی یادیں بڑی ہی دردناک ہیں ۔

میں 1979 سے حمایت نگر میں مقیم ہوں اس سے قبل حیدرآباد کے مختلف مشہور محلوں میں بھی قیام رہا ۔ نامپلی میں رہا ۔ بیچلرز کوارٹر کے عقب میں رہا ۔ معظم جاہی مارکٹ پھولوں اور پھلوں کے لئے اس زمانے سے مشہور ہے ۔ سلیمان اریب ، شاذ تمکنت ، وٹھل راؤ ، سوشلسٹ جلال صاحب کے علاوہ بے شمار تہذیبی و ثقافتی اور فنون لطیفہ سے جڑی شخصیتیں مجردگاہ آتی تھیں ۔ ان دنوں اورینٹ ہوٹل شعراء ادیب اور دانشور لوگوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی ۔ غیر معمولی شخصیتوں نے اورینٹ ہوٹل اور مجردگاہ کو غیر معمولی شہرت بخشی ۔
مجھے قلبی طور پر بھی اور روحانی طورپر بھی یوسف بابا اور شریف بابا کی درگاہ سے بے پناہ لگاؤ ہے ۔ درگاہ کی گنبد پر بیٹھنے والا ایک پرندہ ہمارے گھر پر آکر بیٹھتا تھا جو ہمارے لئے خیر کا سامان تھا اس زمانے میں پتنگ کی دو دکانیں کافی مشہور ہوئیں ۔ نامپلی میں گلاب سنگھ کی اور گلزار حوض میں شیر خان کی دکانات پر خریداروں کا اژدھام دکھا جاتا تھا ۔ ایک اور بات جو یاد بن کر ذہن کے گوشے میں رہتی ہے ۔ میں ایوننگ کالج میں پڑھاتا تھا وہاں میرے طالب علم بڑی عمر کے ہوا کرتے تھے جو ملازمت بھی کرتے تھے اورپڑھائی بھی ۔ عاتق شاہ میرے طالبعلم رہے ۔ قمر ساحری جو عمر میں مجھ سے بڑے تھے میں نے انہیں بھی پڑھایا ۔ کنول پرشاد کنول کا بھی میں استاد رہا ۔ شاذ تمکنت بھی میرے شاگرد رشید رہے ان کا رول نمبر 147 تھا ان کا اصل نام مصلح الدین تھا ۔ ان کی نجی گفتگو خاص اور دلچسپ ہوا کرتی تھی ۔ حمید الدین محمود صحافی جو اندرا گاندھی کیلئے تقاریر لکھا کرتے تھے وہ بھی میرے اسٹوڈنٹ رہے اور بعد میں ان سے گہری دوستی بھی ہوگئی تھی ۔

پرانے شہر کی گنجان آبادی میں دارالشفاء کے نام سے جو دواخانہ عوامی خدمات کیلئے قائم کیا گیا تھا وہ دراصل قطب شاہی دور کی اہم نشانیوں میں سے ہے ۔ آصف جاہی دور حکومت میں شفاخانہ افضل گنج کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا سہرہ نظام پنجم افضل الدولہ بہادر کے سر جاتا ہے ۔ اس زمانے کے اعلی صفات کے حامل لوگوں کی ان شفاخانوں سے وابستگی نے متذکرہ دواخانوں کو دائمی شہرت عطا کی ، ڈاکٹر محمد وزیر علی ، ارسطو یار جنگ ماہرین طب تھے اور ایک طویل عرصہ تک ان کی خدمات رہیں ۔ اعلی حضرت نے اپنے زمانے میں شفاخانہ افضل گنج کو عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا نام دیا ۔ اس کے بعد وکٹوریہ زنانہ ہاسپٹل ، سلطان بازار ہاسپٹل ، کنگ ایڈورڈ یادگار دواخانہ وغیرہ بڑی سرعت سے کام کرنے لگے تھے جو سیول سرجن کے زیر نگیں تھے ۔ آبادی کم تھی ، امراض بھی کم تھے ۔ اطباء میں خدمت خلق کا جذبہ ہوا کرتا تھا اعلی حضرت نے دکن کے علمی اور ثقافتی سرمائے کے تحفظ کیلئے کئی اقدامات کئے تھے اس سے عوام میں بیداری پیدا ہوئی ان میں ایک سیاسی تدبر تھا ۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک بے تعصب بادشاہ تھے ۔ ہندو ، مسلمان ، کائستھ ، کھتری، برہمن ، مرہٹے ، ریڈی ، انگریز ، پارسی اور سکھ غرضیکہ انہوں نے سب کو گلے لگایا ۔ اور ان کی مذہبی یادگاروں کیلئے ہر لحاظ سے اعانت کی ۔ جامعہ عثمانیہ کا قیام اعلی حضرت کا اہم کارنامہ ہے جس کے ذریعہ اردو کو وقعت دی گئی ۔ مقامی ہو کہ غیر مقامی طالب علم سب کیلئے اس جامعہ کے دروازے کھلے ہوتے تھے اس طرح حیدرآباد دکن ایک ایسا مرکز بن گیا تھا جہاں جوق در جوق لوگ آتے گئے ۔ طوالت کا خوف مانع نہ ہوتا تو اور بھی بہت سی یادوں اور باتوں کا اظہار ہوسکتا تھا ۔ آخری بات نصیحت کا طور پر یہ ہے کہ اپنے پیشرو سلاطین اور حکمرانوںکے کارناموں کو فراموش نہ کریں اپنی تہذیب کو زندہ رکھیں ۔ یار زندہ صحبت باقی!