محبوب خان اصغر
ممتاز محقق اور دانشور ڈاکٹر جی راجورکر دکن کے روشن مینار ہیں ۔ ادب سے اپنے رشتے کو استوار رکھا ہے ۔ انگریزی ، مرہٹی اور تلگو حلقوں کے علاوہ اردو نواز حلقوں میں بھی عزت و احترام کے ساتھ جانے جاتے ہیں ۔ اپنے اندر اعلی انسانی اور اخلاقی صفات نیز پرانی قدروں کا احساس و شعور رکھنے والی اس شخصیت کا شمار دکن کے اہم نمائندہ اور قابل ذکر لوگوں میں ہوتا ہے ۔ وہ اولاً ایک کامیاب اور قابل قدر استاذ ہیں ۔ یہ اختصاص بھی انہیں حاصل ہے کہ انہوں نے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی شخصیت اور سیاست پر پی ایچ ڈی کیلئے پرمغز مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز کئے گئے ۔ مختلف موضوعات پر ان کی گرانقدر تصانیف بھی ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر جی راجورکر سے مندرجہ بالا عنوان پر ہم نے مفصل گفتگو کی مگر یہاں من و عن کے بجائے اس گفتگو کو اجمالی طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔
’’میری تاریخ پیدائش 24 ڈسمبر 1931ء ہے ۔ طویل مسافرت کے بعد بھی اپنے اندر تازگی ، تراوٹ کا احساس ہوتا ہے ۔ میرا ماضی ہی میرا سرمایہ اور پونجی ہے ۔ان دنوں ان یادوں ہی کے سہارے وقت کٹ رہا ہے اور دنیا کے ’’مسافر خانہ‘‘ ہونے کا احساس شدید ہوگیا ہے ۔ اپنی عمر کے چوراسی زینے طے کرلینے کے بعد خوشی اس بات کی ہے کہ اوپر والے نے اپنی فیاضیوں سے میرے دامن کو بھر دیا ہے ۔ عزت ، شہرت اور دولت یہ اس کے انعامات ہیں ۔ غم اس بات کا ہے کہ کئی ساتھیوں نے بے وفائی کی ۔ یار لوگ تیزگام تھے اور آہستہ خرامی کا مجھے یوں نقصان ہوا کہ ’’ایک ہم مرنے کو زندہ رہ گئے‘‘ ۔ میرے والد بزرگوار آنجہانی ڈاکٹر جی وی راجورکر مرنجان مرنج اور نستعلیق قسم کے انسان تھے ۔ مختلف زبانیں جانتے تھے ۔ نظام کالج میں ربع صدی سے بھی زائد عرصہ منتظم رہے ۔ اس زمانے کے طلباء احترام اور عقیدت سے انہیں یاد کرتے ہیں ۔ میرے دادا اور والد کا تعلق حیدرآباد دکن ہی سے رہا ۔ ان کی دانست میں حیدرآباد مختلف خصوصیات اور خوبیوں سے مزین شہر تھا ۔ انہوں نے اور ان کے اسلاف نے اسے اپنا مسکن بنایا ۔ اب ہماری کوئی چھٹی نسل یہاں کی فضاؤں میں سانس لے رہی ہے ۔
ہندو مسلم بھائی چارگی اور مذہبی رواداری کیلئے دکن اپنی نظیر آپ ہے ۔ اور اس کا سہرہ مغل بادشاہوں کے سر جاتا ہے ۔ حالانکہ اورنگ زیب کی نیک نامی پر انگشت نمائیاں کی گئیں اور مذہبی تعصب کو ان سے جوڑا گیا جو کہ سراسر الزام تھا ۔ اورنگ زیب نے تو منادر ، پنڈتوں اور پجاریوں کی جاگیروں کا تحفظ کیا اور آگے چل کر یہی طرز خاندان آصف جاہی کا بھی رہا ۔
اس شہر سے نابغہ روزگار شخصیتوں کا تعلق رہا ۔ سرراس نواب مسعود جنگ ، نواب مہدی یار جنگ ، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (پروفیسر الہ آباد یونیورسٹی) پروفیسر عبدالرحمان خان ، قاضی محمد حسین (وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ) سر اکبر حیدری کے علاوہ ان گنت نام ہیں جنہوں نے اپنے انداز اور طریقے سے اس ریاست کیلئے خود کو وقف کردیا ۔ ہمارے سرپرست اکثر کہا کرتے تھے کہ کوئی بھی کام بے دلی سے کیا جائے تو کامیابی کا حصول غیر یقینی ہوجاتا ہے اور دل سے کیا جائے تو یقینی طور پرکامیابی ملتی ہے ۔ کچھ ایسی ہی نصیحتوں کو گرہ میں باندھے میں نے مدرسہ عالیہ گن فاؤنڈری میں داخلہ لے لیا ۔ ان دنوں مذکورہ مدرسہ نظام کالج کا جز تھا ۔ ایک ہی احاطہ میں پرائمری اور ہائی اسکول کے علاوہ کالج بھی ہوا کرتا تھا ۔ اس طرح بنیادی تعلیم سے گریجویشن تک میں نے وہیں سے فیض پایا ۔ اس زمانے میں ہمیں جو اساتذہ میسر آئے علم اور قابلیت کے اعتبار سے ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔ میں اپنے استاذ احسن صاحب کا ذکر یہاں ضرور کرنا چاہوں گا کہ انہیں انگریزی پرکماحقہ عبور حاصل تھا ۔ وہ منہ زبانی برٹش ہسٹری اور ہندوستان کی تاریخ پڑھاتے تھے ۔ انہوں نے باریک سے باریک باتیں بتائیں ۔ غیر معمولی اخلاق کے مالک تھے ۔ ان کی کسی بات سے طالبعلم کو تکلیف ہوتی تو اس بات کا انہیں فوری طور پر احساس ہوجاتا تھا اور وہ اس سے معافی کے خواستگار ہوتے ۔ بھاسکر نارائن صاحب جغرافیہ پڑھاتے تھے طلباء میں بیحد مقبول تھے ۔ MAP سامنے رکھ کر تفصیلات بتانے میں انہیں بڑا لطف آتا تھا اور طلباء بھی ان کے انداز سے حظ اٹھاتے اور ان کی ہر بات کو ذہن نشین کرلیا کرتے تھے ۔ ایک اور خوبی ان میں یہ تھی کہ وہ کرکٹ کوچ تھے ۔ غلام احمد آف اسپنر کو انہوں نے ہی باؤلنگ کے گُر سکھائے تھے ۔ غرضیکہ اساتذہ کے اخلاق طلباء کے اذہان میں کچھ یوں مرتسم ہوجاتے تھے کہ انہیں بھلانا ناممکن تھا۔
مدرسہ عالیہ میں جاگیرداروں اور روساء کی اولادیں پڑھا کرتی تھیں ۔ متوسط طبقے کے طلباء بھی ہوتے تھے مگرکم ۔ ہر جماعت میں طلبا کی تعداد تیس ہوا کرتی تھی ۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں لگ بھگ چالیس طلباء ایسے تھے جو موٹرکار میں آتے تھے اور کچھ بگی میں ۔ جن کی رہائش نظام کالج سے قریب تھی وہ سائیکل پر آتے تھے۔ میرا تعلق اوسط درجے سے تھا ۔ میرے علاوہ اس درجے کے دوسرے طلباء کو بھی فیس میں رعایت دی گئی تھی جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں محکمہ تعلیم اور متعلقہ عہدیداروں کا منشا اور مقصد یہ تھاکہ تعلیم کی روشنی یکساں طور پر ہر طبقے تک پہونچے ۔ معین الدولہ کے دو لڑکے وحید الدین اور بہاء الدین میرے ہم جماعت تھے ۔ ظہیر یار جنگ کے دو لڑکے اور راجہ رائے کے تین لڑکے میرے ہمعصر و ہم جماعت تھے ۔ اس زمانے میں اخلاق اور حفظ مراتب کو مقدم سمجھا جاتا تھا ۔ مخاصمت کے جذبات سے عاری ہم شیر و شکر کی طرح رہا کرتے تھے ۔ گفتگو میں ’’تم‘‘ کا استعمال ہوتا ہی نہیں تھا بلکہ ’’آپ‘‘ ہی مستعمل تھا ۔ میں اسی دکنی تہذیب کا پروردہ اور ایک جز ہوں اور یہ بات میرے لئے سرمایہ افتخار ہے ۔ گریجویشن کے بعد میں نے جامعہ عثمانیہ کے شعبہ قانون میں داخلہ لے لیا ۔ چادر گھاٹ کالج میں اسکی جماعتیں ہوا کرتی تھیں وہاں بھی قابل اساتذہ کی معیت میں خود کو نکھارنے اور سنوارنے کے سنہرے مواقع ملے مثلاً مرتضی صاحب میرے استاذ تھے اور میں ان کا بہت ہی چہیتا شاگرد تھا ۔
میں نے وکالت تو کی مگر اس پیشہ کو اختیار نہیں کیا ۔ لکچرار شپ ملی نہیں تھی ۔ پولیٹیکل سائنس سے ایم اے کیا ۔ یہاں قانون کی تعلیم میرے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ۔ اس سے میرے پولیٹیکل سائنس کی معلومات کو تقویت ملی اور میں اس شعبہ کا لکچرار بن گیا ۔ 1955 تا 1991 تک تدریس سے وابستہ رہا ۔ لگ بھگ نصف صدی اس مقدس پیشے سے منسلک رہنے سے یہ فیض پہونچا کہ زبان ، علم اور دل ودماغ کو تعمیری کام کیلئے استعمال کیا ۔ جس طرح میرے اساتذہ نے اخلاقی قدروں کو مضبوط کرنے والی تعلیم اور درس دیا وہی درس میں نے اپنے تدریسی دور میں اپنے تلامذہ کو دیا ۔ نظام کالج میں آغا حیدر حسن نے مجھے اردو پڑھائی ۔ مغلیہ خاندان سے ان کا راست تعلق تھا ۔ غیر معمولی شخصیت تھی ۔ شکل و صورت کے بھی بہت اچھے تھے ۔ راج گوپال جو پولیٹیکل سائنس پڑھاتے تھے انگریزی زبان پر انہیں مہارت حاصل تھی ۔ میں اپنی حیات میں چار شخصیتوں سے بے حد متاثر رہا ۔ اردو شاعر حسرت موہانی جو کھدر پہنتے تھے ، دو جوڑے ان کے پاس ہوتے تھے ایک پہنتے تھے دوسرا دھوتے تھے ۔ دوسرے رابندر ناتھ ٹیگور ۔ تیسرے اربندو جو فلاسفر تھے اور پانڈیچری میں ان کا قیام تھا ۔ پنڈت جواہر لال نہروکی شخصیت تو کچھ ایسی تھی کہ دیکھنے اور ملنے والے گرویدہ ہوجاتے تھے ۔ مجھ پر بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوا ۔ لباس میں ، گفتگو میں ، چال ڈھال میں نفاست تھی ۔
نظام کالج کے کئی شاگرد ہیں جو فارغ التحصیل کے بعد بڑے اعلی عہدوں پر فائز رہے ۔ جی سدھیر چیف سکریٹری بنے ۔ وینکٹ راؤ انڈیا ٹوڈے کے ایڈیٹر بنے ۔ زاہد علی خان اردو روزنامہ سیاست کے مدیر ہیں میں نے انہیں سیاست کا مضمون پڑھایا تھا ۔ میرے رفقاء میں شیام بنیگل قابل ذکر ہیں ۔الوال میں رہتے تھے ۔ ٹینس کے اچھے کھلاڑی تھے ۔ سائیکل ان کی سواری تھی ۔ خاموش طبع مگر ذہین اور فطین ، ڈراموں سے انہیں خوب دلچسپی تھی ۔ ہمارے کالج کا مجلہ ’’کالجین‘‘ کے نام سے نکلتا تھا ۔ اول اول میں اسکا چیف ایڈیٹر تھا بعد میں شیام بنیگل اس کے چیف ایڈیٹر بنے اور اپنی ادارت میں انہوں نے مجلے کو بہت نکھارا ۔ وہ گرودت کے بھانجے تھے ، بنگالی سمجھتے تھے مگر جنوبی ہندوستان کے تھے ۔ سی ایچ ہنمنت راؤ ممبر آف پلاننگ کمیشن میرے ساتھی ہیں ۔ بی نرسنگ راؤ سے بھی یاری رہی ۔ سنتوش کمار مکرجی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے میرے بہت اچھے دوست تھے صرف اڑتالیس سال کی عمر میں قلب کے حملے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا تھا ۔ ان کو کھونے کا ملال ہنوز میرے دل کو تڑپاتا ہے ۔ آئی اے ایس آفیسر شراون کمار سے بھی میرے دوستانہ مراسم رہے اور بھی کئی اہم نام ہیں جن کی اپنی جگہ اہمیت ہے ۔ میں اپنے والد محترم سے بیحد متاثر رہا ۔ وہ میرے لئے رول ماڈل تھے ۔ ان کے کاندھے میں شدید درد تھا جس کا درماں ہو نہیں پارہا تھا ۔ درد کی شدت کی وجہ سے ان میں قلم تھامنے کی بھی سکت نہیں تھی دفتری کاموں سے نمٹنا دشوار ہوگیا تھا ۔ انہوں نے درخواست دی کہ ملازمت سے سبکدوشی میں چند سال رہ گئے ہیں ، صحت کی بنیاد پر گھر رہنا چاہتا ہوں ، نصف مشاہرہ بھی منظور ہے ۔ میرے والد کی درخواست اگرچہ منظور ہوگئی تھی مگر قادر حسین صاحب جو اسی شعبہ میں اہم عہدے پر فائز تھے اس بات پر معترض تھے ۔ انہوں نے اپنی ناراضگی اور برہمی کو ظاہر کرنے کی جرأت بھی کی ۔ ان کا یہ استدلال تھا کہ راجورکر صاحب بال بچے والے ہیں ۔ ان پر گھریلو ذمہ داریاں ہیں اور اپنے پورے کنبے کے تنہا کفیل ہیں ان کا ریکارڈ بھی قابل ستائش ہے اور دوران ملازمت ان کی کارکردگی پر کوئی داغ دھبہ بھی نہیں ہے لہذا نصف نہیں بلکہ انہیں مکمل مشاہرہ کے ساتھ رخصت دی جائے یہی ان کی خدمات کا اعتراف ہے ۔ یہ ہے ہمارے دکن کی حقیقی تصویر ۔ ایسے لوگ جو انسانیت کا درد رکھتے ہوں آج ناپید ہیں ۔ (باقی آئندہ…)