عابد صدیقی
ڈاکٹر جعفر قریشی حیدرآباد کے نامور ماہر نفسیات ، ممتاز دانشور ، سماجی جہدکار اور ملت کی ایک دردمند شخصیت ہیں ۔ وہ 1945 ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتداء سے ہائی اسکول تک انھوں نے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی ۔ چادر گھاٹ پرائمری و مڈل اسکول اور پھر سٹی کالج سے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کی اسکے بعد انھیں گاندھی میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا ۔ عثمانیہ میڈیکل کالج سے ہاوس سرجن شپ کرنے کے بعد ہی انھوں نے عثمانیہ ہسپتال میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس دور میں عثمانیہ ہاسپٹل کا شمار دنیا کے بڑے دواخانوں میں ہوتا تھا ۔ پانچ ہزار بیڈس پر مشتمل یہ دواخانہ ہر خاص و عام کے لئے تھا جہاں مریضوں کے لئے تمام طبی سہولتیں مہیا تھیں ۔ اس دور کے مشہور ڈاکٹرس میں ڈاکٹر حیدر خان ، ڈاکٹر بی کے نائیک ، ڈاکٹر نارائن سوامی کی کافی شہرت تھی ۔ ڈاکٹر کرلوسکر ، ڈاکٹر ستیش ، ڈاکٹر نظام الدین لودھی ، ڈاکٹر عبدالسمیع ان کے ہمعصروں میں شامل تھے ۔ ان دنوں متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم میڈیسن میںاعلی تعلیم کے لئے ولایت (برطانیہ) جایا کرتے تھے، جہاں سے ایف آر سی ایس اور ایم آر سی پی کی ڈگریاں حاصل کرتے تھے ۔ ڈاکٹر جعفر قریشی بھی میڈیسن میں اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ جانے کی تمنا رکھتے تھے ، چنانچہ رائل کالج کی فیلوشپ کے لئے ڈاکٹر مجید خان اور ان کا انتخاب عمل میں آیا ۔ ڈاکٹر مجید خان ان سے سینئر تھے ان کی شفقتیں اور مہربانیاں ہمیشہ ان کے شامل حال رہیں ۔ وہ ڈاکٹر مجید خان کی شخصیت و قابلیت سے ہمیشہ متاثر رہے ، برطانیہ میں قیام کے دوران انہیں کئی بار امریکہ منتقل ہونے کا مشورہ دیا گیا لیکن انھیں برطانیہ کی طرز زندگی بہت پسند تھی ۔ ایم ڈی کرنے کے بعد وہ مستقل طور پر برطانیہ میں رہنے لگے ۔
ڈاکٹر جعفر قریشی نے بتایا کہ حیدرآباد شہر تہذیبی ، ثقافتی اور علمی اعتبار سے دیگر شہروں میں ممتاز مقام رکھتا تھا ۔بچپن سے جوانی تک کا عہد انہوں نے حیدرآباد میں ہی گذارا اور حیدرآباد کے کلچر نے ان کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں نمایاں حصہ ادا کیا ۔ ڈاکٹر جعفر قریشی کے والد محترم اس دور میں ورنگل ضلع کے کلکٹر رہے ، وہ ریاست حیدرآباد کے ماہر نظم و نسق کی حیثیت سے مشہور تھے ۔ ڈاکٹر جعفر قریشی نے حیدرآباد کے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نظام حیدرآباد کے خلاف سوامی رامانند تیرتھ کی رہنمائی میں تحریک چلائی گئی تھی اور حکومت کی جانب سے تحریک سے وابستہ قائدین اور کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا تھا ، چنانچہ حیدرآباد کے پہلے چیف منسٹر بی رام کرشناراؤ کو بھی باغیانہ تحریک میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کرکے ان کے والد جناب باقر قریشی کلکٹر و مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ بی رام کرشنا راؤ کو ہتھکڑیاں پہنائی گئی تھیں ۔ باقر قریشی صاحب بی رام کرشناراؤ کے خاندان سے بخوبی واقف تھے ، چنانچہ انھوں نے بی رام کرشنا راؤ کو معاف کرتے ہوئے رہا کردیا ۔ ایک اعلی سرکاری عہدیدار ہوتے ہوئے انھوں نے جو اقدام کیا وہ مذہبی رواداری کی زبردست مثال تھی ۔ انکے والد کے اس اقدام پر بی رام کرشنا راؤ اور انکے افراد خاندان کافی متاثر ہوئے ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آصف سابع کی حکومت ختم ہوگئی اور کئی عہدیداروں کو معزول کردیا گیا جن میں جعفر قریشی کے والد بھی شامل تھے ۔ انھیں غیر ضروری مقدمات میں پھنسایا گیا تھا ۔ ان کے والد کو امید تھی کہ چیف منسٹر بی رام کرشنا راؤ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور انکی ملازمت بحال ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ انہیں ملازمت کی بحالی کے لئے باقر قریشی برکت پورہ میں واقع رام کرشنا راؤ کی کوٹھی پر کئی دن تک جاتے رہے اور آخر کار ایک دن اس وقت کے چیف منسٹر کی والدہ نے احساس ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ ان کا لڑکا چیف منسٹر ہونے کے باوجود مجبور ہے کیونکہ ان کی کارروائی سردار پٹیل اور کے ایم منشی کی نگرانی میں کی گئی ہے ۔ جس کے خلاف وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ ڈاکٹر جعفر قریشی کے خاندان کو بڑا صدمہ ہوا ، انہوں نے کہا کہ اس واقعہ نے شخصی طور پر ان کے ذہن کو بھی ہلادیا اور پھر انہوں نے دیار غیر میں اپنا مستقبل سنوارنے اور اپنی زندگی بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔
انھوں نے کہا کہ فرقہ پرستی کسی نہ کسی شکل میں ہر دور میں رہی ہے اگرچیکہ آج کے دور میں فرقہ پرستی اور عدم رواداری نے شدت اختیار کرلی ہے ۔ ڈاکٹر جعفر قریشی نے بتایا کہ پولیس ایکشن بڑا سانحہ تھا ۔ ایک مسلم ریاست کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش تھی ۔ مرکزی حکومت نے فسطائی قوتوں کے ساتھ مل کر نظام حیدرآباد کو اقتدار سے معزول کردیا ۔ ہندو مسلم اتحاد کی بنیادوں سے بنی اس ریاست کو زبردست نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ ریاست حیدرآباد کے امراء ، عہدیداروں اور فرض شناس ملازمین کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا، حالانکہ نواب میر عثمان علی خان ایک کامیاب و مقبول ترین حکمران تھے ۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں حیدرآباد کو عروج اور عظمت عطا کی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی ملک کی واحد درس گاہ رہی جہاں ہر طرح کے علوم و فنون کی تدریس و تحقیق کا موثر انتظام تھا ۔ اس مادر جامعہ نے ایسے ایسے سپوت پیدا کئے جنہوں نے سائنس ، میڈیسن ، سماجیات ، معاشیات اورکئی علوم میں اپنی اعلی صلاحیتوں کے ذریعہ عالمی شہرت و مقبولیت حاصل کی ۔ تمام علوم و فنون کو انگریزی سے اردو زبان میں ترجمہ کے ذریعہ منتقل کرنے کا کام اتنا آسان نہیں تھا لیکن آصف سابع نے دارالترجمہ قائم کرکے یہ کام کیا اور طلبہ اور اساتذہ کی ضرورتوں کی تکمیل کی ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت عامہ پر بھی زور دیا گیا ۔ عثمانیہ دواخانہ ، شفاخانہ یونانی اور دیگر دواخانوں کے ذریعہ ماہر ڈاکٹرس و اطباء کی نگرانی میں علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کی گئیں ۔ آصف سابع ایک روشن خیال حکمران تھے ۔ انہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ کو تعلیمی وظائف اور بیرونی مصارف کی تکمیل کے لئے مالی امداد بھی فراہم کی ۔ مالی امداد سے استفادہ کرنے والوں میں سروجنی نائیڈو بھی شامل تھیں ۔
اردو زبان سے اپنی گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کی تہذیب کو بنانے ، سنوارنے کا سہرا اردو کے سر جاتا ہے ، علوم کی ترقی کے علاوہ ادبی اور لسانی حیثیت سے بھی آصف سابع نے اردو کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ اردو ادب اور شاعری کو پروان چڑھایا ۔ انہوں نے دہلی کے زوال سے پیدا حالات کا اندازہ کرتے ہوئے شمالی ہند کے کئی شعراء کو اپنے دربار میں نمایاں مقام عطا کیا جن میں امیر مینائی ، داغ دہلوی ، فانی بدایونی ، فصاحت جنگ جلیل مانکپوری اور دیگر شعراء شامل تھے ۔ آصف سابع کی ادب نوازی اور فراخدلی کی دھوم سارے ہندوستان میں تھی ۔ چنانچہ غالب اور ذوق کی آرزو تھی کہ وہ دربار آصفی سے وابستہ ہوجائیں ۔ علامہ اقبال کو حیدرآباد بہت پسند تھا اور کئی بار حیدرآباد آئے اور کئی مشاعروں میں شرکت کی ۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے علامہ اقبال کی کافی پذیرائی کی ۔ حیدرآباد کی خانقاہوں میں بھی اردو کو کافی عروج حاصل ہوا ۔ کئی صوفیائے کرام نے اردو زبان میں تصوف اور دیگر مذہبی موضوعات پر کتابیں تحریر کیں ۔ اردو کی نعتیہ شاعری کو اس دور میں کافی شہرت ملی ۔ حیدرآباد ہمیشہ ہی سے مشاعروں کا شہر رہا ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی حیدرآباد کے مشاعروں میں نہ صرف دیگر ریاستوں بلکہ پاکستان سے بھی کئی شعراء شرکت کرتے اور داد و تحسین سمیٹتے ،اس دور میں مشاعروں کی اپنی تہذیب تھی ۔ سامعین کا شعری ذوق بہت بلند تھا ۔ حیدرآباد کے مشاعروں میں ادبی ٹرسٹ اور شنکر جی یادگار مشاعروں کی ملک گیر شہرت رہی ۔ جامعہ عثمانیہ کے طلبہ نے کئی مشاعروں کا اہتمام کیا جن میں بلند پایہ شعراء اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کرتے ۔
ڈاکٹر جعفر قریشی نے زوال ریاست حیدرآباد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یاد ہے کہ دکن ریڈیو کے اس وقت کے ڈائرکٹر جناب روشن علی تھے اور نظام حکومت کے خاتمہ کے اعلان سے قبل دکن ریڈیو سے یہ شعر نشر کیا گیا جس کو سن کر کئی حیدرآبادیوں کی آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
شاید یہ شعر کسی غزل کا تھا جسے مشہور فنکار استاد ایم اے روف گارہے تھے ۔ ڈاکٹر جعفر قریشی نے بتایا کہ حیدرآباد کی مہمان نوازی کے آگے عربوں کی مہمان نوازی بھی پانی بھرتی تھی ، حیدرآباد کے لوگ خواہ وہ ہندو ہوں کہ مسلمان مہمانوں کی خاطر مدارات کو ہمیشہ اپنا فرض سمجھتے ۔ ایک دوسرے کے غم میں اس طرح شریک ہوتے جیسے یہ غم کا پہاڑ ان ہی پر ٹوٹا ہو اور خوشیوں میں ایسے شامل بھی ہوتے جیسے یہ خوشیاں ن ہی کے حصہ میں آئی ہوں ، یہ اٹوٹ محبت ، بے لوث پیار اور حسن سلوک پورے معاشرہ میں موجود تھا ، رشتہ داروں سے محبت اور تعلقات کا یہ عالم کہ رشتہ داروں میں بیٹا یا بیٹی دینے کو اولین اہمیت حاصل تھی ۔ بزرگوں کی تعظیم معاشرہ کی پہچان تھی ، ماں باپ اور خاندان کے بزرگوں کے پیر تعظیماً چھوئے جاتے اور ہاتھ اٹھا کر سلام کرنا لازمی عمل تھا ۔ حیدرآباد کی یہ تہذیبی قدریں اتنی مشہور رہیں کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں آپ اور ہم بڑی آسانی کے ساتھ حیدرآبادی کو پہچان لیتے ، گفتگو میں بے تکلفی اور برجستگی ہوتی ، بات چیت میں دکنی اور مقامی بولیوں کا اثر ضرور تھا لیکن تحریر میں فصاحت ، سلاست اور روانی تھی ۔
انہوں نے بتایا کہ اس دور میں حیدرآباد کو نگینہ کہا جاتا تھا ، کوہ نور کے ہیرے سے بھی اس شہر کی پہچان تھی ۔ نوابوں اور جاگیرداروں نے حیدرآبادی تہذیب کو تابندہ اور پائندہ رکھنے میں بھرپور حصہ ادا کیا ۔ جناب جعفر قریشی نے بتایا کہ حیدرآباد کی شادیاں نہایت آن بان کے ساتھ انجام پاتی تھیں، اسراف اور فضول خرچی سے گریز کیا جاتا تھا ۔ خاص طور پر متوسط طبقات اس طرح کی لعنتوں سے محفوظ تھے ۔ شادیوں میں مہمانوں کی تواضع ’’ایک کھانا اور ایک میٹھا‘‘ سے کی جاتی تھی ۔ لڑکے والے اور لڑکی والے ایک دوسرے کے حالات کو محسوس کرتے اور اس بات کی کوشش کرتے کہ لڑکی والوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے تاہم امراء کی شادیوں میں زیادہ اہتمام کیا جاتا ۔ جناب جعفر قریشی نے بتایا کہ وہ 44 سال بعد حیدرآباد آئے ہیں اور انھیں بعض شادیوں میں شرکت کا بھی موقع ملا ۔ انھیں افسوس ہوا کہ حیدرآبادی مسلمان ابھی تک رسوم و رواج ، جہیز، لین دین اور فضول خرچی جیسی شرمناک لعنتوں میں مبتلا ہیں ۔ تقاریب وقت مقررہ پر نہیں انجام دی جاتی ہیں اور بدانتظامی زیادہ ہے ۔
ڈاکٹر جعفر قریشی ان دنوں لندن میں انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائرکٹر اور ٹرسٹی ہیں وہ کیو ٹی وی اور دیگر چیانلس کے بورڈ آف مینجمنٹس کے ایگزیکیٹو ڈائرکٹر ہیں ۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ برطانیہ میں 20 ٹی وی چیانلس مسلم انتظامیہ کے تحت کارکرد ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں ان کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کیا اور ان کی ہمیشہ خواہش رہی کہ دنیاوی زندگی میں اسلام نے نوع انسانی کی جو رہنمائی کی ہے ، اس پہلو کو اجاگر کیا جائے ۔ چنانچہ وہ لندن میں اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے کام میں مصروف ہیں ۔ حیدرآباد کے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہندوستان بھر میں اس وقت حیدرآباد کے علماء ، مشائخ کی شہرت تھی ۔ حضرت عبدالقدیر صدیقی حسرت ، حضرت یحیی پاشا صاحب قبلہ ، عبداللہ شاہ ، حضرت پاشاہ حسینی صاحب اور کئی روحانی بزرگوں نے بندگان خدا کی رہنمائی کی ۔ خانقاہوں میں ذکر الہی اور تربیت نفس کا اہتمام ہوتا ۔ ڈاکٹر قریشی کے والدین حضرت یحیی پاشاہ صاحب کے ارادت مندوں میں شامل تھے ۔ وہ شرفی چمن کے بزرگ سے وابستہ رہے ۔ انہوں نے کہا کہ خانقاہی نظام نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں حصہ لیا اور حیدرآبادی تہذیب کی آبیاری میں صوفیائے کرام کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ آج کی مادہ پرست دنیا نے ہر شعبہ کو تجارتی اور کاروباری بنادیا ہے ۔ مذہب کی روحانی اسپرٹ کو برتنے اور اسے جاری رکھنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ موجودہ معاشرہ مذہبی و روحانی اقدار سے محروم ہوگیا ہے
ڈاکٹر جعفر قریشی نے مسلم نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ حیدرآباد کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور ان تہذیبی و انسانی اقدار کو بحال کریں ۔ اپنے مذہبی و علمی ورثہ کا تحفظ کریں ۔ انھوں نے آخر میں یہ بھی کہا کہ حیدرآبادی تہذیب کی بازیافت کے لئے نوجوانوں کو ایثار و قربانی سے کام لینا ہوگا ۔