محبوب خان اصغر
دنیا میں ہندوستان کی شناخت حیدرآباد دکن سے تھی اور آج بھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سرزمین دکن اپنے جلو میں انسان دوستی اور مذہبی رواداری کی زرین تاریخ رکھتی ہے ۔ اس امر کا اظہار شری پریم آنند جی نے کیا جو مندرجہ بالا عنوان کے حوالے سے ہمارے سوالات کے جوابات دے رہے تھے ۔ انہوں نے قطب شاہی عہد حکومت کی مثال پیش کی اور کہا کہ اس عہد کے اکثر سلاطین یہاں کی تہذیب اور تمدن کے فروغ میں پیش پیش رہے۔ اپنے راج کے سب ہی طبقات کے بیچ رواداری، یکجہتی اور اتحاد کو وہ مقدم جانتے تھے۔ انہوںنے اپنی منطق میں دلیل یہ پیش کی کہ اس عصر کے اکثر لوگ تلگو زبان جانتے تھے ۔ اس کے پیش نظر قطب شاہی حکمرانوں نے تلگو زبان سیکھی ۔ اردو مغلیہ سلطنت کی دین ہے تو تلگو قطب شاہی بادشاہوں کی مرہون منت ہے ۔ اس عہد کے بادشاہ تلنگی کے قدردان تھے ۔ فارسی اور دکھنی کے علاوہ تلگو شعراء کے حوصلوں کو رفعتیں دی گئیں اور اپنی مملکت میں ہنود کو شامل رکھ کر رواداری ، وسیع المشربی اور وسیع النظری کی ایک زبردست نظیر پیش کی ۔ بناء بریں یہ کہنے میں عار تامل یا تذبذب قطعاً نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کی بنیاد اخوت ، محبت ، بھائی چارگی اور رواداری پر ہی رکھی گئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں نفرت گاہے ماہے سر تو اُٹھاتی ہے مگر اس کی عمر بہت ہی مختصر ہو تی ہے ۔ یہاں آدمیوں کے گھنے جنگل میں پاکیزہ سوچ رکھنے والے اب بھی موجود ہیں جو مشکل ترین لمحوں میں بر افروختگی کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب پر آنچ نہیں آنے دیتے اور عقدہ سلجھانے میں آپس کی چشمک کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیںاور یہ یہاں کے ماضی کا یہی روشن پہلو نہیں ہے بلکہ حال کا بھی ایک منور رخ ہے۔
پریم آنند 12 ڈسمبر 1934 ء میں ضلع میدک میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کانام کنہیا تھا جن کا اس وقت ایک اکیڈیمک کیریئر تھا ۔دیگر افراد خاندان بھی علم سے بہرہ ور تھے چنانچہ یہ بھی علمی خاندان کے پروردہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ اس ضلع کے اکثر مرد و خواتین اردو زبان سے کما حقہ واقف تھے ۔ عید اور تہواروں کے حوالے سے بھی میدک میں تہذیب کے مختلف رنگ اور پہلو نظر آتے تھے جو درحقیقت ہندوستانی رنگ کے مظہر تھے ۔ غرض کہ اس ملک کی معاشرتی زندگی اور ثقافتی میلانات کے نقش میدک میں جابجا ملتے ہیں اور یہی تاثیر پریم آنند کی شخصیت میںبھی در آئی ہے اور وہ اسم بامسمی یعنی جیسا نام ویسا گن کی حقیقی تصویر نظر آتے ہیں۔ کوئی انہیں آنند بھائی کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور کوئی انہیں پریم کے نام سے پکارتا ہے اور ہر دو انداز انہیں بہت بھاتے ہیں۔ وہ مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہوکر انسانوں سے نہ صرف پریم کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ پریم بتیاں کرتے ہوئے بہت مسرور ہوتے ہیں۔ پریم آنند کے بموجب اس عمل سے انہیں آنند یعنی روحانی خوشی اور انبساط حاصل ہوتا ہے اوریہ وصف انہیں اپنے پرکھوں سے ملا ہے ۔
اپنی ابتدائی تعلیم سے متعلق بتایا کہ میدک ہی کے پرائمری اسکول میں انہیں داخل کروایا گیا تھا جہاں ذریعہ تعلیم تلگو تھا ۔ انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی کے سبب اردو زبان سیکھی جو آگے چل کر ان کیلئے بیساکھی ثابت ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ تلنگانہ کے تمام اضلاع امن کا گہوارہ رہے ہیں۔ تہذیبی ، ثقافتی ، علمی اور ادبی سطح پر میدک کو ایک خاص مقام حاصل تھا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سابق میں اس ضلع کا نام سدا پورم (Sidda Puram) تھا ، اس کے بعد برسہا برس تک اس ضلع کو گلشن آباد کے نام سے شہرت ملی ۔ اس ضلع کی مجموعی آبادی سنہ 2011 ء تک پینتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ۔ سرکاری امور غیرسرکاری شعبوں میں اردو اور تلگو زبانوں کا چلن تھا ۔ آنجہانی والد بزرگوار اگریکلچر لسٹ رہے مگر ان کا اصل میدان تعمیرات تھا ۔ وہ سیول انجنیئر تھے اور حیدرآباد کنسٹرکشن کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے، جہاں انہیں اس وقت کی انتہائی اہم شخصیت لائق علی کا قرب حاصل ہوا ۔ اپنے والد کی معرفت انہیں پتہ چلا کہ مرحوم نواب لائق علی کو خدا نے فہم و فراست کی دولت سے مالا مال کردیا تھا ۔ وہ اس عہد کے نامی گرامی صنعتکاروں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ اعلیٰ تعلیمی مراحل انہوں نے برطانیہ اور یوروپ میں طئے کئے ۔ اس دوران انہوں نے بڑی بڑی علمی شخصیات سے اپنے مراسم بڑھائے جو کہ ان کی پرسنالٹی کو نکھارنے اور سنوارنے میں ممدو معاون ثابت ہوئے ۔
ریاست حیدرآباد میں ایچ سی سی یعنی حیدرآباد کنسٹرکشن کمپنی کا بہت شہرہ تھا اور اس کے صدر مرحوم بابو خان تھے ۔ عابد شاپ پر اس کی آفس تھی ۔ حضور نظام کے عہد کی اکثر تعمیرات متذکرہ کمپنی ہی کے زیر اہتمام ہوئیں۔ عادل آباد، ورنگل اور مہاراشٹرا کی مختلف سڑکوں کی تعمیر میں اس کمپنی نے اہم رول ادا کیا ہے۔ نظام شوگر فیکٹری ، سنگارینی کالریز ، راما گنڈم تھرمل پاور اسٹیشن ، حکیم پیٹ ایرپورٹ ، بیگم پیٹ ایرپورٹ بھی مذکورہ کمپنی کے تعمیر کردہ ہیں۔ سکندرآباد کنٹونمنٹ کے علاقے بوئن پلی ، ماریڈ پلی ، الوال ، ترملگیری اور سکھ ولیج وغیرہ میں آرمی بیرکس بھی اس کمپنی کا کارنامہ ہے جس میں فوجی اپنے افراد خاندان کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے ۔ بیدر ، رائچور کے علاوہ اور بھی کئی ضلعوں میں تمام سڑکیں اسی تعمیراتی کمپنی نے بنوائیں تھیں ، اس طرح اس کمپنی کا ریاست حیدرآباد کی شناخت میں اچھا خاصا کردار رہا۔
پریم آنند نے اپنے تعلیمی سلسلے سے متعلق بتایا کاہ وہ میدک سے سکندرآباد کنٹونمنٹ منتقل ہوگئے۔ ان کی رہائش مونڈہ مارکٹ اسٹریٹ میں تھی ۔ ان کے سرپرستوں نے انہیں محبوب کالج میں داخل کروادیا ، جس میں داخلے کیلئے تحریری امتحان دینا پڑتا تھا ۔ چنانچہ میرٹ کی بنیاد پر انہیں پانچویں جماعت میں داخلہ مل گیا ۔ جہاں انہیں آنجہانی سبا راؤ اور مرحوم عبدالشریف جیسے اساتذہ نصیب ہوئے ۔
اس عہد سے متعلق آنند صاحب نے بتایا کہ محبوب کالج کنٹونمنٹ علاقے میں آباد تھا ۔ اس زمانے میں مدراسی لوگوں کی بہتات تھی جو تجارت کی غرض سے سکندرآباد میں پھیل گئے تھے ۔ دکن کرانیکل انگریزی اخبار بھی ان ہی کا تھا ۔ اسٹیشنری کی بڑی بڑی دکانوں کے وہی مالک تھے ۔ دواخانوں اور مدرسوں میں بھی مدراسیوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ محبوب کالج میں اپنے تین سالہ تعلیمی سفر سے متعلق انہوں نے بتایا کہ محبوب کالج درحقیقت اسکول ہے جس میں متمول گھرانوں کے لوگ پڑھا کرتے تھے لیکن متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے بھی اس کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ یہاں تعلیم کا معیار بلند رہا اور طلباء کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوا کرتی تھی ، جس کے سبب A تا H سیکشن بنائے گئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ نواب میر عثمان علی کی جانشینی سے قبل ہی نواب میر محبوب علی خان نے سکندرآباد کے تمام کنٹونمنٹ علاقوں کو برٹش کے حوالے کردیا تھا ۔ اس وقت محبوب کالج ایک چھوٹا اسکول تھا ۔ نظام سرکار سال میں دو تین مرتبہ کنٹونمنٹ کے علاقوں کا دورہ کرتے تھے ۔ اس دوران انہیں اس اسکول میں روشنی نظر آ ئی اور پتہ چلا کہ یہ اسکول ہے ، دوسرے دن انہوں نے محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو روانہ کیا اور رپورٹ پیش کرنے کی تاکید کی ۔ نواب میر محبوب علی خان نے پانچ ایکر اراضی اسکول کیلئے فراہم کی اور کالج کا قیام عمل میں لانے کیلئے ضروری ہدایات دیں چنانچہ یہ ہنوز اسکول ہی ہے جو کہ محبوب علی پاشاہ کے نام سے موسوم ہے۔ تاحال کالج نہیں بن پایا ۔
پریم آنند نے بتایا کہ مشہور فلم ڈائرکٹر پروڈیوسر شیام بینگل سے ان کی دوستی محبوب کالج میں ہوئی ۔ زندگی میں پہلی انگریزی فلم بھی ان ہی کے ساتھ دیکھی ۔انہیں فلمیں دیکھنے کا بیحد اشتیاق تھا ۔ ٹیولی ، پیراڈائیز ، ڈریم لینڈ میں انگریزی فلمیں دیکھنے کا ایک سلسلہ چل پڑتا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ دوسری جنگ عظیم جو 1939 ء میں ہوئی تھی اس کے مناظر تمام تھیٹروں میں فلم شروع ہونے سے قبل دکھانا ضروری تھا ، جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ فلم بینوں کا شعور بیدار ہو اور وہ فن حرب سے واقف ہوسکیں۔ قبل ازیں انہوں نے اس بات پر اظہار تاسف کیا کہ شیام بینگل بمبئی میں فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ لیکن اس سے قبل انہوں نے بلیز ایڈورٹائیزنگ ایجنسی بھی خریدی تھی ۔ معاشی مسائل کے سبب وہ ایک دوست سے دور ہوگئے۔
سکندرآباد میں قیام کے دوران ان کے مشاہدے میں جو چیزیں آئیں ان کی بابت انہوں نے بتایا کہ سکندرآباد کے سارے علاقے پرسکون تھے ۔ حیدرآباد کے متمول لوگ اپنا وقت گزارنے ادھر کا رخ کیا کرتے تھے۔ گرانڈ، الفا اور پیراڈائز ہوٹلوں کے ذائقے دار کھانے بہت شہرت رکھتے تھے ۔ سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کے سبب یہاں چہل پہل زیادہ تھی تاہم کشادہ سڑکیں اور کم آبادی کی وجہ سے سفر کرنا کٹھن نہیںتھا ۔ مرکزی وزراء بشمول صدر جمہوریہ ہند حیدرآباد کا دورہ کرتے تو سکندرآباد کے AOC سنٹر اور الوال میں قیام کرتے جو کہ مکمل فوجی علاقے تھے۔
شری پریم آنند نے اس بات پر اظہار تاسف کیا کہ پولیس ایکشن کے بعد سکندرآباد بھی کمیونل مسائل سے محفوظ نہ رہ سکا ۔ عدم تحفظ کا احساس دونوں قوموں میں تھا ۔ انہوں نے سکندرآباد کے بعض علاقوں میں رضاکاروں کے ہیڈ کوارٹر یعنی فوجی مرکز دیکھے جہاں بڑے ہی شد و مد سے وہ پریڈ اور حکمت عملی اختیار کرتے تھے ۔ ان کے بزرگوں نے حیدرآباد میں حمایت نگر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ یہاں آکر ان کا داخلہ میتھوڈسٹ اسکول (Methodist School) میں ہوا ۔ مشنری اسکول کے اساتذہ انگریزی میں ہی درس دیا کرتے تھے ۔ نظام کالج سے بی اے کیا اور اسی کالج سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا اور عثمانیہ لاء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی مگر پیشۂ وکالت اختیار نہیں کیا ۔ حیدرآباد کی ان جامعات سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طلباء و طالبات نے ان جامعات سے فارغ التحصیل ہوکر ساری دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنے علمی، تعلیمی اور ثقافتی ورثے کو دنیا بھر میں متعارف کروایا ۔
آندھرا فارمیشن کے بعد ہونے والی ناانصافیاں بالخصوص تلنگانہ میں ہوئی حق تلفی کے بارے میں بتایا کہ ضلع میدک کے صدر مقام پر کوئی کالج قائم نہیں کیا گیا ۔ سارے تلنگانہ کے طلباء سٹی کالج پر ہی انحصار کرتے تھے ۔ اضلاع میں چند برائے نام بڑے تعلیمی ادارے ہیں مگر نصاب کی سہولتوں سے عاری ہیں۔ ہاسٹلس نہیںہیں ۔ صرف دو پالی ٹکنک کالج تلنگانہ میں تھے جبکہ آندھرا میں ان کی تعداد دس تھی ۔ غرض کہ ہر شعبہ ہائے حیات میں تلنگانہ کے باشندوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوئیں ہیں اورانہیں توقع ہے کہ موجودہ حکومت اس کی تلافی کرے گی۔
پولیس ایکشن کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 1947 ء میں ہندوستان اور پاکستان کو آزادی مل گئی ۔ برطانیہ کا تسلط ختم ہوگیا اور 563 رجواڑے برطانیہ کے ہاتھ سے نکل گئے ۔ مگر دونوں ملکوں کے مابین ان صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ تھا ۔ نواب میر عثمان علی خان آصف سابع نے انڈین یونین کا رفیق بنے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ تاہم فیصلہ ہنوز ہونا تھا ۔ انڈین یونین اور اعلیٰ حضرت اپنا مورچہ سنبھالے ہوئے تھے ۔ قانوناً اسے اعلیٰ حضرت کا ایک درست فیصلہ کہا جاسکتا ہے ۔
معاہدے اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 27 نومبر 1948 ء کو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ حالات دگرگوں ہورہے تھے مگر دونوں فریق بے خبر تھے ۔ نتیجتاً فوجی کارروائی ہوئی جسے پولیس ایکشن یا آپریشن پولو کہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ریاست حیدرآباد میں کانگریس منقسم اور کمزور تھی ۔ اعلیٰ عہدیداروں تک رسائی حاصل کرنا یا کمیونسٹ تحریک کا سامنا کرنا کانگریس کے بس کی بات نہ تھی۔ اعلیٰ حضرت کی سلطنت کو کمزور کرنا ان کیلئے آسان تھا ۔انہوں نے واضح کیا کہ کمیونسٹوں کے بہت سے لیڈر آندھرائی تھے حتیٰ کہ مدراس (موجودہ نام چینائی) کے آندھرائی وزراء نے کمیونسٹوں میں اسلحہ تقسیم کئے ۔ انہوں نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں ریاست حیدرآباد کے انضمام کو تقاضۂ وقت کہا جاسکتا ہے ۔ یہ کسی کی جیت یا کسی کی ہار نہیں ہے ۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اعلیٰ حضرت ایک سیکولر کردار کے حامل حکمراں تھے ۔ ہندو اور مسلمان کو انہوں نے اپنی دو آنکھیں کہا ہے ۔ یہ زبانی جمع و خرچ نہیں ہے بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی رہے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی رعایا کی مذہبی آزادی کی طرفداری کی ۔ انہوں نے جہاں مساجد ، عاشور خانے ، درگاہیں، خانقاہیں وغیرہ پر نظر کرم کی وہیں مندر ، دھرم شالے ، گوشالے ، وغیرہ کو بھی اہمیت دی ہے ۔ سلاطین کا یہی طرز ہندوستان بالخصوص ریاست حیدرآباد کو ایک مہذب ملک اور ایک مہذب ریاست کا درجہ دیتا ہے۔
انہوں نے بالخصوص حیدرآباد کے نظم ونسق کے ارتقاء سے متعلق بتایا کہ ریاست کو خود مکتفی بنانے کیلئے بینک کا قیام عمل میں لانا ایک بڑا ہی اہم کارنامہ تھا ۔ 1942 ء میں اعلیٰ حضرت نے حیدرآباد اسٹیٹ بینک کی بنیاد ڈالی جس کے تحت حکومت کے علاوہ عام لوگوں کے محفوظات کی نگرانی کو آسان بنایا گیا۔ قبل ازیں عوام اور حکومت کے سرمایہ کی حفاظت کی ذمہ داری ایپیریل بینک آف انڈیا کے تحت تھی ۔ ایس بی ایچ کے قائم ہونے کے بعد رقومات کا تحفظ اس کے سپرد کردیا گیا جس سے اضلاع کے لوگ بھی استفادہ کرنے لگے۔ پریم آنند جن کا تعلق بینکنگ کے شعبہ سے بھی رہا کہا کہ آصف تباہی عہد حکومت ہی میں ایمپیرئیل بینک کی ایک شاخ کی کشادگی 1868 میں عمل میں آچکی تھی جبکہ دوسرا برانچ سکندرآباد میں 1906 ء میں شروع کیا گیا ۔ سنٹرل بینک آف انڈیا حیدرآباد میں 1918 ء میں اور سکندرآباد میں 1925 ء میں اپنی کارکردگی شروع کی ۔ انہوں نے بتایا کہ راجا پنا لال پٹی Raja Pannalal Patti حیدرآباد کے امراء اور روساء میں شمار کئے جاتے تھے۔ 1935 ء میں مرچنٹائل بینک آف حیدرآباد کی داغ بیل ڈالی تھی، وہی اس کے بانی ہیں۔
جناب پریم آنند نے آصف جاہی عہد حکومت میں رعایا کو دی جانے والی سہولتوں کا ذکر کرتے ہوئے آبرسانی کے نظم کی سراہنا کی اور کہا کہ ما ضی میں ریاست حیدرآباد میں کبھی بھی پانی کی قلت نہیں رہی ۔ ریاست کے گرد و نواح کے ہر گھر میں باؤلی ہوتی تھی اور اس سے استفادہ کیا جاتا تھا جس سے ہوتا یہ تھا کہ شام ہوتے ہوتے سطح آب کم ہوجاتی تھی اور علی الصبح پانی کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا تھا ۔ ہر باؤلی میں قدرتی جھرنے ہوا کرتے تھے ۔ گھر کی خواتین پانی سینچا کرتی تھیں۔ مسالے پسنے میں بھی لڑکیاں پیش پیش رہتی تھی ، گرانڈر یا مکسر کا تصور بھی نہیں تھا ۔ معمر خواتین اپنی لڑکیوں کو دستی ہنر کی طرف راغب کرتی تھیں۔ لکڑیوں کے چولہے اور مٹی کے برتنوں کا چلن تھا ۔ برے بڑے مٹی کے آنگنوں میںبوریئے بچھاکر اکٹھے کھانا کھاتے تھے اور اف کرنے پر گھر کے بڑے لوگ ڈانٹتے تھے اور اس ڈانٹ میں بھی پیار ہوتا تھا ۔ کہتے تھے ’’پانی نکوسٹ‘‘
انہوں نے بتایا کہ ریاست تلنگانہ کے تمام علاقوں میں تالابوں اور کنٹوں کی بھرمار تھی ۔ بارش کا پانی ان میں جمع ہوتا جو زرعی اغراض کیلئے کام میں لایا جاتا تھا ۔ غرض کہ آج ہر اعتبار سے ریاست حیدرآباد میں ایک زبردست تغیر و تبدل نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ قدیم حیدرآبادی روایات ، قدامت پسند ، خالص ، اصل اور کھرے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔