محبوب خان اصغرؔ
پروفیسر مسعود احمد خان ایک ایسے حوصلہ مند انسان کا نام ہے جو اپنی زبان اور تہذیب کی بقاء کیلئے سرگرم عمل ہے ، وہ بھی ایسے وقت جبکہ زبان کے ساتھ تہذیب کو بھی خطرہ درپیش ہے ۔ زندگی کی بیاسی بہارمیں قدم رکھنے کے باوجود وہ پیشہ وارانہ مصروفیات سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ انہوں نے 13 جنوری 1935 ء کو محمد عبدالوحید خان مرحوم و مغفور کے گھر آنکھیں کھولیں جو بہ اعتبار پیشہ سیول انجیئر تھے ۔ تلنگانہ کا مردم خیز خطہ حیدرآباد ہی ان کی جائے پیدائش ہے۔ جس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی وہ کچھ ایسا تھا کہ اردو بولی جاتی تھی ۔ اردو لکھی جاتی تھی ۔ اردو کے اخبار اور رسائل خرید کر پڑھے جاتے تھے ۔ اس عہد میں ایک نظام زندگی تھا۔ صبح کو بیدار ہونے اور رات کو سونے کے اوقات متعین تھے ۔ دینی امور پربھی عمل آوری اس لئے ناگزیر تھی کہ گھر کے بزرگ پابند ڈسپلن اور ضوابط پر سختی سے عمل پیرا رہتے تو انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آج پورا معاشرہ مغربی تہذیب کے چکر میںآگیا ہے ۔ جدیدیت (Modernism) نے یہاں کی شاہانہ روایات کو اس حد تک پامال کردیا ہے کہ تاحدِ نظر نئی روشنی کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ انسان تہذیب اور شائستگی کے نام پر مصائب میں اس قدر گرفتار ہوچکا ہے کہ گناہ کا احساس بھی جاتا رہا ۔
پروفیسر مسعود احمد خان کے بموجب وہ حیدرآباد کے قدیم محلے قطبی گوڑہ میں تولد ہوئے ۔ بعد میں وہ ا پنے دادا حافظ محمد عبدالمجید خان مرحوم کے ساتھ چادر گھاٹ سلطان پورہ والے مکان میں منتقل ہوگئے تھے جو وسیع بھی تھا اور روشن بھی ۔ ان کے دادا مدرسہ فرنگی محل لکھنو کے فارغ التحصیل تھے ۔ عالم ، فاضل اور حافظِ قرآن تھے ۔ حیدرآباد دکن آنے کے بعد ان کے دادا نے جوڈیشنل کا امتحان درج اول میں کامیاب کیا تھا ۔
والد مرحوم نے اشرف المدارس ترپ بازار سٹی کالج میں تعلیم پائی تھی ۔ میٹرک درجہ اول میں کامیاب کیا ۔ انٹر کے بعد بی اے میں داخلہ لیا ۔ جامعہ عثمانیہ میں انجنیئرنگ کالج سے ڈگری حاصل کی ۔ محکمہ روڈ ویلڈنگس میں ایوانات شاہی ڈیویژن (Palace Division) میں ان کا تقرر ہوا تھا ۔ اعزہ خانہ زہرا اور دواخانہ زہرا (موجودہ میسکو دواخانہ) کا تعمیری کام راست ان ہی کی نگرانی میں ہوا اور پایہ تکمیل کو پہونچا تھا ۔
پروفیسر مسعود احمد خاں کے مطابق وہ 1940 ء میں سنگا ریڈی اور ورنگل گئے تھے ۔ قاضی پیٹ میں بھی قیام کیا ۔ ڈیزل سے چلنے والی ٹرین کا سفر بڑا ہی پر لطف ہوتا تھا ۔ کچھ ٹرینیں اسٹیم انجن سے چلتی تھیں۔ جن میں کرسیاں نصب ہوتی تھیں۔ خواتین کیلئے بالکل علحدہ کوچ ہوتے تھے ۔ اضلاع کی بسوں میں خواتین کیلئے پردے کا خاص نظم ہوتا تھا ۔اب یہ باتیں خواب خیال ہوکر رہ گئی ہیں۔ انہوں نے موضوع کے حوالے سے بتایا کہ ان کے اساتذہ میں قابل ذکر استاذ عبدالمجید صاحب ہیں، جنہوں نے طلباء میں زندگی کی لہر دوڑائی تھی ۔ عبدالحئی ، فیض ا لحسن ، وامن راؤ، حسن صاحب وغیرہ نے بھی طلباء کی شخصیت سازی اور معاشرتی قدروںکی معنویت اور اہمیت کا درس دیا تھا ۔ جناب درانی صاحب صدر مدرس تھے ۔زندگی کی اعلیٰ قدروں کے ساتھ ایک خوبصورت تہذیب کے علمبردار تھے ۔
دوسری جنگ عظیم کے حیدرآباد میں اثرات سے متعلق بتایا کہ مدارس کے باب الداخلوں کے سامنے دیواریں اٹھادی گئی تھیں۔ بم پھٹنے کے امکانات کے پیش نظر یہ ایک بچاؤ تدبیر تھی کہ جنگ سامان سے لیس ہوائی جہاز کا گزر ہوتا تو تمام طلباء زمین پر لیٹ کر کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے تھے ۔ رات میں اسٹریٹ لائیٹ عمداً بند کردی جاتی تھی تاکہ دشمنوں کے ہوائی جہاز آبادی کا اندازہ نہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ جاپان برما پر قابض ہوگیا تھا اور اندیشہ تھا کہ وہ ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوگا ۔ حکومت نے محکمہ اے آر پی (Air Raid Prevention) قائم کیا تھا جس کے تحت شہر کے تقریباً ہر محلے میں پناہ گاہیں اور حوض بنائے گئے تھے تاکہ حملہ ہونے کی صورت میں پناہ لی جاسکے اور آگ لگ جائے توپانی بآسانی دستیاب ہوسکے ۔ پناہ گاہیںاور حوض قدیم ملک پیٹ میں مارکٹ کے پاس اور جدید ملک پیٹھ میں والی بال گراؤنڈ کے قریب (جہاں آج کل مندر ہے ) بنائے گئے تھے۔ شاہ علی بنڈہ (بھارت گن مارک لائبریری) نور خاں بازار ، لکڑی کا پل اور جام باغ وغیرہ میں بھی انہوں نے پکی پناہ گاہیں اور حوض دیکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی کی شکست کے بعد حیدرآباد کے مختلف مقامات میں جنگی نمائش دکھائی گئی تھی ۔ ملے پلی اور وجئے نگر کالونی کے کھلے میدانوں کی نمائش دیکھنے کیلئے لوگ ٹوٹ پڑے تھے۔ طلباء اپنے اپنے مدرسوں سے آتے اور مشاہدہ کرتے تھے ۔نواحی بستیوں کے لوگوں نے بھی نمائش سے استفادہ کیا تھا ۔ بالخصوص جرمن کی قندیلیں حیدرآباد میں بیحد مشہور تھیں۔ ہٹلر کی شکست کے بعد جنگ کے اختتام کا اعلان ہوا اور خوشیاں منائی گئیں تھیں اور مدرسوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس دور میں روزنامہ ’’میزان‘‘ میں ایک کارٹون شائع ہوا تھا جس میں ہٹلر کو کچھ ساتھیوں کے ساتھ سرنگ میں جاتے ہوئے بتایا گیا تھا اور اوپر بندوق بردار فوجی ہٹلر کی تلاش میں تھے ۔
جناب مسعود صاحب نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ آزادی سے قبل شمال میں گڑبڑ کے سبب علاقہ برار ، مدھیہ پردیش اور بہار سے مہاجرین ریاست حیدرآباد کا رخ کرنے لگے تھے ۔ حکومت حیدرآباد نے ان کے لئے مختلف محلوں کے کھلے میدانوں میں مثلاً چادر گھاٹ، فیل خانہ ، کالی قبراور مکہ مسجد کے قریب متاثرین کیلئے رفیوجی کیمپس (Refugee Camps) بنائے تھے جس میں پناہ گیروں کیلئے عافیت کا سامان مہیا کیا گیا تھا ۔ مزید برآں انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حضرت بلا ناغہ کنگ کوٹھی سے خلوت تک پابہ رکاب ہوتے تو عابڈس ، معظم جاہی مارکٹ ، سدی عنبر بازار ، افضل گنج اور پتھر گٹی ، دارالشفاء ، عزا خانہ زہرا جانے والے راستوں کو دھویا جاتا تھا ۔ سڑکیں سمنٹ کی ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ قدیم حیدرآباد میں ہاتھ کے رکشے کا چلن عام تھا ۔ پھر سیکل رکشہ کلکتہ سے منگوائے گئے ۔ زنانہ سواری کیلئے پردہ لازم تھا ۔ نہ صرف مسلم خواتین بلکہ کائستھ گھرانوں کی مستورات بھی پردہ کا اہتمام کرتی تھیں جبکہ ماڑواڑی گھرانوں کی عورتیں گھونگھٹ میں رہا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے روبرو ایک وسیع میدان تھا ۔ جس میں محلے کے بچے فٹبال ، کبڈی ، لکڑی پاشا، گلی ڈنڈا اور چاندنی راتوں میں نون پاٹ کھیلتے تھے ۔ کسی بھی ملک کی تہذیب اپنے عہد کا آئنہ ہوتی ہے۔ کھیل کود میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شامل ہوتے۔ ان کے پڑوس میں سری ہری ، نائیڈو پربھاکر اور جناردھن رہا کرتے تھے ۔ دسہرے کے موقع پر ہندو عورتیں رات بھر بتکماں کھیلا کرتیں۔ ملک کی تہذیب کا آئینہ اپنی شفافیت کیلئے مشہور تھا ۔ دونوں طبقوں کے چند مفاد پرست لوگوں کے سبب آئینہ میں بال آیا ہے ۔انہوں نے حیدرآبادکے محرم سے متعلق بتایا کہ اس موقع پر بھی گنگا جمنی تہذیب کا کھل کر مظاہرہ ہوتا تھا ۔ ہندو معتقدین کی کثیر تعداد پیش پیش رہتی۔ میلہ لگتا تھا ، کھلونے اور کھا نے کی اشیاء فروخت ہوتی تھیں۔ سنار لڑکیوں کے کان چھیدا کرتے۔
1946 ء میں پھیلنے والے مرض سے متعلق بتایا کہ طاؤن کی وباء سے عوام ہراساں ہوگئے تھے ۔ مدارس اور دفاتر کو سرکاری سطح پر لامتناہی تعطیلات کا اعلان کردیا گیا تھا ۔ پرانے شہر کے متعدد محلوں سے عوام تخلیہ کر کے پڑاؤ یعنی (Camps) میں منتقل ہو گئے تھے جو کہ نظام سرکار کی طرف سے ڈالے گئے تھے ۔ کورنٹی دواخانہ طاعون کے مریضوں سے پر ہوگیا تھا ۔ حکومت نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کئے تھے اور متاثرین کو ہر ممکنہ تعاون دیا تھا ۔
پروفیسر مسعود احمد خان نے اس عہد میں ریڈیو کی اہمیت اور افادیت کو ظاہر کیا اور کہا کہ ریڈیو صرف چند ہی گھروں میں ہوتا تھا ۔ خود ان کے ہاں تھا ۔ ان کے ہمسائے امیرالدین اور کٹل گوڑہ میں مرتضیٰ صاحب المعروف میاں بھائی بطخ والے کے ہاں تھا ۔ مرتضیٰ صاحب موسمِ گرما میں آبدار خانہ کا انتظام بھی کرتے تھے ۔ جہاں سے لوگوں کو پینے کیلئے ٹھنڈا پانی دیا جاتا تھا ۔ محکمہ بلدیہ کی جانب سے آبادی کے بیچ ریڈیو کیبن (Cabin) نصب کئے گئے تھے ۔ مئی 1946 ء میں محمد علی جناح ، مولانا ابوالکلام آزاد ، نے ریڈیو پر تقریر کی تھی جو ملک کی آزادی سے متعلق تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ محلے کے معمرین اور بزرگ شخصیتوں نے ان کے گھر جمع ہوکر تقریر سنی تھی ۔حکومت حیدرآباد کا دکن ریڈیو خیریت آباد میں تھا جہاں اب آبرسانی کا دفتر ہے۔ ہفتہ میں ایک دن بچوںکیلئے دلچسپ پروگرام پیش کیا جاتا تھا ۔ ماموں جان (ظفر الحسن) اس کے پروڈیوسر تھے ۔ انہیں ترقی ملنے کے بعد مذکورہ پروگرام اعجاز حسین کھٹا کے ہاتھوں میں آگیا تھا ، جسے وہ اسی شان کے ساتھ نشر کرتے تھے ۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ موجودہ املی بن بس اسٹیشن کو گوکہ ایشیاء میں کلیدی اہمیت حاصل ہے مگر اصلاً وہ موسیٰ ندی کا حصہ ہے اور وہاں ایک بڑے چمن کو آباد کرنے کا منصوبہ تھا جبکہ عملی جامع نہ پہنایا جاسکا۔
ہمارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بہادر یارجنگ کے انتقال کے بعد جناب ابوالحسن سید علی (ایڈوکیٹ) اور جناب مظہر صاحب مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بنے۔ بعد میں روزنامہ ’’وقت‘‘ کے مدیر عبدالرحمان اور قاسم رضوی (ایڈوکیٹ) لاتور کے مابین مقابلہ ہوا ۔ جس میں قاسم رضوی کو فتح حاصل ہوئی ۔ ان کی جذباتی تقاریر کے سبب رضاکار تنظیم نے زور پکڑا اور ہنود میں خوف و بے چینی بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اسی زمانے میں کمیونسٹوں نے تلنگانہ تحریک شروع کی تھی جو جاگیرداروں ، زمینداروںاور اعلیٰ حضرت کے خلاف تھی ۔ کانگریس اور کمیونسٹ اکثرجاگیرداروں اور زمینداروں کے خلاف حملے کرتے تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ نواب چھتاری جب دوسری مرتبہ وزیراعظم مقرر ہوئے تو وقت ان کیلئے بڑا ہی کڑا تھا۔ ایک طرف حکومت ہند چاہتی تھی کہ حیدرآباد انڈین یونین میں شامل ہوجائے اور دوسری طرف مجلس اتحاد المسلمین کا یہ تقاضہ تھاکہ حیدرآباد آزاد مملکت رہے جو کہ دیوانے کا خواب تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد اعلیٰ حضرت نے بھی آزاد مملکت کا اعلان کردیا۔ حکومت ہند نے حیدرآباد کی ناکہ بندی کردی جس کے بعد ادویات اور دیگر اشیاء کی سخت قلت ہوگئی ۔ آسٹریلیا سے بذریعہ ہوائی جہاز سامان آیا کرتا تھا ۔ حکومت ہند کے نمائندے کے ایم منشی حیدرآباد کو انڈین یونین میں شامل کرنے کی خفیہ طور پر کوشش کر رہے تھے ۔ اس دوران نواب چھتاری کو حیدرآباد چھوڑنا پڑا۔ ریاست حیدرآباد کے لائق فائق انجنیئر میر لائق علی کو وزیراعظم بنایا گیا ۔ ان کی وزارت میں چار وزیر مجلس کے نمائندے تھے ۔
انہوں نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ اعلیٰ حضرت نے حیدرآباد کی ترقی کیلئے غیر معمولی جوش اور عقیدت سے کام کیا تھا اور اپنی آخری سانس تک مملکت کی بہتری اور بھلائی کیلئے کوشاں رہے۔ وہ آصف جاہی عہد حکومت کے پیشرو سلاطین کی درخشندہ روایات کے علمبردار رہے ۔ انہوں نے کتہ گوڑم ، منچریال ، رام گنڈم اور بیلا پلی کے علاقے میں کوئلے کے ذخیروں کی دستیابی کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے متذکرہ علاقوں کو مانچسٹر (برطانیہ )کی طرح ترقی دینے کیلئے حتی المقدور مساعی کی تھی ۔ سنگاریڈی کالریز منچریال میں Power Plant اور بیلم پلی میں کارخانے بنوائے ۔ بودھن میں ایشیا کی سب سے بڑی شوگر فیکٹری ، کاغذ نگر میں پیپر ملز سرسلک اعظم جاہی ملز ، عثمان شاہی ملز، احمد آباد شہر کے لئے (Thermal Power House) آلوین کمپنی ، اسبسطاس کمپنی (Asbestos Company) میں تمام نظام حکومت کی مرہون منت نہیں۔
پروفیسر مسعود احمد خان نے ریاست حیدرآباد کی لائبریریوں سے متعلق بتایا کہ ہر لائبریری میں تمام عمر کے لوگ مطالعہ کیلئے آتے تھے ۔ انہوں نے بالخصوص شعیب لائبریری کا ذکر کیا جو کہ 14 نومبر 1952 ء میں رجسٹرڈ کی گئی تھی ۔ چونکہ 14 نومبر کو نہرو جینتی منائی جاتی ہے اسی مناسبت سے شعیب لائبریری کے احاطے میں سالانہ تقاریب منعقد کی جاتی تھیں۔ اکثر تقاریب کی صدارت عابد علی خاں مرحوم اور محبوب حسین جگر مرحوم فرمایا کرتے تھے ۔ ان کی نپی تلی تقاریر میں نوجوانوں کیلئے خاص پیغام ہوا کرتا تھا ۔انہوں نے کہا کہ لائبریری کا پہلا مشاعرہ حیرت بدایونی کی صدارت میں ہوا تھا اور نظر حیدرآبادی کراچی سے تشریف لائے تھے۔ اگرچیکہ وہ تقسیم سے قبل حیدرآبادی تھے بعد کو وہ کراچی چلے گئے تھے اور یہ مشاعرہ ان ہی کے اعزاز میں تھا جس میں مخدوم ، اریب اور اوج یعقوبی نے کلام سنایا تھا ۔ رؤف خلش اور حسن فرخ پہلی بار اسی مشاعرے کی وساطت سے منظر عام پر آئے تھے ۔ طنز و مزاح کی محفلوں میں رشید قریشی ، بھارت چند کھنہ ، نریندر لوتھر ، مسیح انجم ، طالب خوندمیری ، مجتبیٰ حسین ، حمایت اللہ ، مصطفیٰ علی بیگ اور پرویز یداللہ مہدی نے بھی اپنی نگارشات پیش کیں اور محفلوں کو زعفران زار بنایا تھا ۔
معزز مہمان نے کچھ دلپذیر اورکچھ ناگوار یادوںکے حوالے سے سلسلۂ گفتگو جاری رکھا تھا ۔ ہم نے ان کی ملازمت کی بابت تفصیلات جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ 1969 ء میں APPSC آندھراپردیش پبلک سرویس کمیشن میں بحیثیت لکچرار سیول انجنیئر منتخب ہوئے تو ڈپارٹمنٹ آف ٹکنیکل ایجوکیشن میں تقرر ہوا۔ نظام آباد اور حیدرآباد پالی ٹکنک میں بھی ملازمت کی ۔ 1972 ء میں ناگرجنا ساگر پر بھی خدمات انجام دیں۔ 2 اکتوبر بموقع گاندھی جینتی (JNTU) جواہر لال نہرو ٹکنالوجیکل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو انہوں نے اپنی مساعی اور تجربات سے مذکورہ یونیورسٹی میں ملازمت حاصل کرلی جس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملازمت کے ساتھ سماجی خدمات اور تعلیمی شعبوں میں اصلاحات پر کام کرنے کا انہیں موقع ملا۔
پروفیسر مسعود صاحب کے بموجب انہوں نے یو جی سی کیلئے تنخواہوں میں بڑھوتری کیلئے ایک تحریک چلائی تھی۔ ڈاکٹر چکرورتی راؤ ، ڈاکٹر رمیش ، پرساد راؤ، ناگی ریڈی اور دوسروں نے مل کر APFUTA (Andhra Pradesh Fedration of University Teachers Association) کو متحرک کیا ۔ اس تحریک میں مختلف جامعات کی اہم شخصیتوں نے بھرپور حصہ لیا تھا ۔ پہلی بار یونیورسٹی ٹیچرس نے نظام کالج سے اسمبلی تک جلوس نکالا۔ سکریٹریٹ کے پاس بھوک ہڑتال کیمپ ڈالا گیا۔ وزیر تعلیم اندرا ریڈی نے ہمدردی ظاہر کی تھی ۔ این ٹی راما راؤ سابق ریاستی وزیر اعلیٰ کے ہمراہ کئی میٹنگ ہوئیں اور بالآخر حکومت نے UGC کے Scales منظور کئے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف انجمنوں سے وا بستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست حیدرآباد میں اپنے حق کیلئے ماضی میں تحریکیں چلائی جاتی تھیں لیکن امن و امان کو درہم برہم نہیں کیا جاتا تھا ۔ طریقہ کار ایسا ہوتا تھا کہ لوگ متاثر ہوکر تحریک کا حصہ بننے لگتے تھے ۔ انہوں نے ماضی کی تحریکوں کے حوالے سے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا کہ شہر میں کمیونسٹ پار ٹی کی ایک علحدہ تحریک تھی ۔ ان کی پالیسیوں کے سبب ان کے لیڈرس پکڑے گئے تھے ۔ راج بہادر گوڑ دیور کنڈہ کے پہاڑوں پر اور مخدوم محی الدین اوپل کے ایک بنگلہ میں شطرنج کھیلتے ہوئے پکڑے گئے تھے ۔ اکثر نوجوان کمیونسٹ پارٹی کے فعال اور متحرک کارکنوںکے قصے سنتے اور ان سے ملنے کے مشتاق رہتے تھے ۔ مخدوم محی الدین کو چنچل گوڑہ جیل میں بند کردیا گیا تھا ۔ مگر ان کی فکر، تخیل اور قلم تو آزاد تھے ۔ جیل میں رہ کر انہوں نے ایک نظم ’’قیدی‘‘ لکھی تھی ۔ بعد میں وہ سیاست کی زینت بھی بنی تھی جسے قارئین نے بیحد پسند کیا تھا ۔
انہوں نے ڈاکٹر جئے سوریہ (فرزند سروجنی نائیڈو) کی معیت میں ترقی پسند جماعتوںکے فرنٹ PDF (Peoples Democratic Front) سے متعلق بتایا کہ یہ ’’پہلے عام انتخابات‘‘ سے قبل بنا تھا جس کا آفس اسٹیشن روڈ پر سروجنی نائیڈو کے گھر میں تھا ۔ اس وقت نوجوان فرنٹ کے جلسے جلوس میں جوش و خروش سے شرکت کرتے تھے ۔ کامریڈ مخدوم محی الدین نے جیل سے رہائی کے بعد پہلے جلسے کو مخاطب کیا تھا جو کہ یاد حسین کے سلسلے میں نور خاں بازار میں منعقد ہوا تھا ۔ انہوں نے حق و باطل کی لڑائی کو اپنی تقریر کا محور بنایا ۔ ان کے فکرانگیز خطاب سے سامعین کی کثیر تعداد محظوظ ہوتی تھی ۔ پہلے عام انتخابات میں مخدوم نے حلقہ شاہ علی بنڈہ سے ایم ایل اے کی سیٹ کیلئے نامزدگی داخل کی تھی ۔ انہیں جلوس کی شکل میں چارمینار تا لال دروازہ جلسہ گاہ تک لیجایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس جلوس میں بمبئی کے ترقی پسند شاعر و ادیب بھی شریک ہوئے تھے جن میں قابل ذکر ساحر لدھیانوی ، سردار جعفری ، مجروح اور جاں نثار اختر ہیں۔ پی ڈی ایف کے جلسے دیوان دیوڑھی ، دھن راج گیرجی کی کوٹھی میں بھی ہوتے تھے ۔ مخدوم کو انتخابات میں شکست ہوئی لیکن بعد میں ذیلی الیکشن میں حضور نگر سے مقابلہ میں جیت گئے ۔ اسمبلی میں PDF کی ایک طاقتور اپوزیشن کی حیثیت تھی۔ مخدوم کے مباحثوں میں ادبی چاشنی ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اسی وقت کے وزیر تعلیم پھول چند گاندھی نے اپنی اسکیمات اسمبلی میں پیش کیں لیکن جس پر مخدوم نے برجستہ کہا تھاکہ اسکیم میں ’’پھول چند‘‘ اور ’’کانٹے ز یادہ ‘‘ ہیں۔ سردست انہوں نے کہا کہ مخدوم جیسی شخصیتوں کا بار بار پیدا ہونا سہل نہیں ہے ۔ خاک کے پردے سے ایسی شخصیتیں گاہے ماہے ہی نمودار ہوتی ہیں۔