حیدرآباد جو کل تھا وسنت کمار باوا

پروفیسر بیگ احساس
وسنت کمار باوا کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے ۔ ان کی ننھیال کا تعلق فیروزپور سے ہے ۔ ان کے نانا فیروزپور کے ایک چھوٹے زمین دار تھے ۔ وی کے باوا فیروزپور ہی میں 1930 میں پیدا ہوئے ۔ بچپن پنجاب میں گزرا ۔ نانی کا انتقال ہوا تو ان کی عمر صرف سات برس تھی ۔ وہ پونا آگئے جہاں ان کے ماں باپ تھے ۔ ان کے دادا پونا کے تھے ۔ بحرین اور ایران میں عیسائی راہب رہ چکے تھے ۔ وی کے باوا نے پونا ہی میں تعلیم حاصل کی۔ 1950 میں فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکہ گئے ۔ تین چار سال جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھ کر 1954ء میں واپس آئے ۔ آئی اے ایس کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد ان کا الاٹمنٹ آندھرا کیڈر میں ہوا۔ 1954 میں کاکی ناڈا ، مشرقی گوداوری پھر نرساپور ، مغربی گوداوری میں سَب کلکٹر رہے ۔ 1956 ء میں حیدرآباد تبادلہ ہوا ۔ یہاں بھی سب کلکٹر رہے اور پھر ڈائرکٹر آرکائیوز بنے ۔ ہمارے سوال کے جواب میں کہ انھوں نے ڈائرکٹر ، آرکائیوز بننا کیوں پسند کیا ۔ انھوں نے فرمایا کہ ان کے فیملی فرینڈ پیٹر گوئین جو انگریز تھے ان کی درخواست پر اس عہدے کو قبول کیا ۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی دلچسپی ریسرچ میں زیادہ ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ یہ محکمہ دفتر دیوانی کہلاتا تھا ۔ لوگ اردو نام دفتر دیوانی حیدرآباد سے باہر نہیں جانتے تھے ۔ حالانکہ دفتر دیوانی ، دفتر مال صحیح نام تھے ۔ ہم نے نیشنل آرکائیوز کی مناسبت سے اس کا نام بدل کر آرکائیوز رکھا ۔ انھوں نے بتایا کہ اس محکمے کے قیام کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اورنگ زیب کے زمانے کے اہم کاغذات قلعہ ایرک میں ملے ۔ یہ کاغذات دفتر دیوانی بھیجے گئے ۔ اس کے لئے دفتر دیوانی نام مناسب نہیں تھا ۔ دفتر دیوانی نظام کا ہے اور مغل آرکائیوز بہت بڑی تعداد میں تھے ۔ حیدرآباد میں مغلوں کی بہت عزت تھی ۔ ایک تجویز یہ بھی رکھی گئی کہ الگ سے دفتر بنایاجائے ۔ یہ ریکارڈ الگ سے رکھ دیں ۔ فارسی ریکارڈ الگ رکھے جائیں ۔

ہم نے کہا کہ آرکائیوز ہی میں ریسرچ کے طریقے پر فارسی ریکارڈ رکھنا چاہئے ۔ ہمارے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ آرکیالوجی اور آرکائیوز دو مختلف محکمے ہیں ۔ حیدرآباد میں آرکیالوجی کے بانی غلام یزدانی تھے ان کا آرکائیوز سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ غلام یزدانی دلی کے تھے ، بہت پڑھے لکھے قابل آدمی تھے ۔ سر اکبر حیدری نے انھیں یہاں بلایا اور سپرنٹنڈنٹ بنایا ۔ غلام یزدانی نے دانستہ یا نادانستہ جو کام کئے وہ بہت اہم ہیں ۔ انھوں نے یادگاریں محفوظ کیں ، ریموز ٹامب ، ریموز گن فاؤنڈری ، جو عمارتیں استعمال میں تھیں ، نظام کالج ، ویمنس کالج ان پر توجہ دی اور بھی کئی کام کئے ہیں ۔ اصل میں حیدرآباد میں جن لوگوں نے زیادہ کام کیا ان میں اکثر باہر کے تھے ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آرکائیوز کے لئے انھوں نے کیا کارنامے انجام دیئے ۔ انھوں نے بتایا کہ اسٹاف کو ہم نے ٹریننگ کے لئے نیشنل آرکائیوز ، نئی دہلی بھیجا ۔ کاغذات کو محفوظ کرنے کے لئے ٹریننگ دی گئی ۔ میرے زمانے میں فہرست سازی کاکام ہوا ۔ پروفیسر نور الحسن جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈائرکٹر آف ہسٹاریکل ریسرچ تھے حیدرآباد آئے ۔ دین یار جنگ کا یہ طریقہ تھا کہ وہ لوگوں کو ناشتے پر مدعو کرتے تھے۔ انھوں نے نور الحسن صاحب سے میری میٹنگ رکھی ۔ اس لئے محکمہ آرکائیوز کو اہمیت حاصل ہوئی ۔ نور الحسن صاحب کئی بار آئے ۔ منسٹر بننے کے بعد بھی وہ کبھی کبھار آتے رہے ۔ وہ پورا انڈیا دیکھتے تھے ۔ شخصی دلچسپی دکھائی انھوں نے ! پروفیشنل ریسرچ کے لئے ہم نے لوگوں کو تیار کیا ۔ آرکائیوز سپرنٹنڈنٹ کی بجائے اسسٹنٹ ڈائرکٹر کا پوسٹ بنایا گیا ۔نئے لوگوں کے تقرر ہوئے ۔ پرانے لوگ کوالیفائیڈ نہیں تھے ، لیکن انھیں تجربہ تھا۔ ڈائرکٹر آرکائیوز کا عہدہ باوقار تھا ۔ ایک پوزیشن تھی ۔ بعد میں وہ اہمیت باقی نہیں رہی ۔ آندھرا پردیش گورنمنٹ کو اس محکمے سے دلچسپی نہیں تھی ۔میرے ماتحت ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب اور ڈاکٹر ایم اے نعیم نے کام کیا ۔ ڈاکٹر رمیش IAS مجھ سے سینئر تھے ۔

وہ بھی بہت دلچسپی لیتے تھے ۔ میرے بعد اس پوسٹ پر بیوروکریٹک تسلسل کے ساتھ سینیارٹی کے لحاظ سے لوگ بھیجے گئے ، لیکن انھیں آرکائیوز سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ آرکائیوز کی وجہ سے مجھے ہسٹری میں بہت دلچسپی پیدا ہوئی کیوں کہ میں پی ایچ ڈی تھیسس لکھ رہا تھا ۔ میرا مقالہ تولین یونیورسٹی امریکہ کے لئے تھا ۔ انھوں نے کہا تھا کہ کوئی موضوع حیدرآباد یا ہندوستان پر لیجئے ہم آپ کی مدد کرسکتے ہیں ۔ سفر خرچ کے طور پر ریسرچ گرانٹ بھی مل سکتی ہے ۔ میں نے کہا کہ میں سالار جنگ مختار الملک پر کام کروں گا ۔ حالانکہ موضوع پولیٹکل سائنس کا تھا لیکن ہسٹری سے بھی متعلق تھا ۔ میں نے کوشش کی کہ کتاب تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی جائے اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے ۔ جہاں تک یاد ہے اس زمانے میں بہت کم کتابیں حیدرآباد پر تھیں ۔ بعض پرانے زمانے میں لکھی گئی تھیں جیسے ہسٹری آف دی نظام وغیرہ ۔ افسوس کہ میں اپنی کتاب جلد شائع نہ کرواسکا ۔ برسوں بعد چھپوایا ۔ سرویس میں تھا اس لئے دوسرے کاموں میں الجھ گیا ۔ برسوں بعد ’’دی لاسٹ نظام‘‘ لکھی ۔ اس میں بے شمار انٹرویوز ہیں ۔ ہم نے پوچھا کہ انھیں حیدرآباد میں دوسرے شہروں سے الگ کیا لگا ۔ انھوں نے کہا کہ فیروزپور تو چھوٹی جگہ تھی ، لاہور بہت کم جانے کا اتفاق ہوا ۔کبھی کبھار جایا کرتا تھا ۔ پونا سے زیادہ تاریخ کا اثر میں نے حیدرآباد میں دیکھا ۔ 1956 تک حیدرآباد اسٹیٹ تھا ۔ آندھرا پردیش نہیں بنا تھا ۔ اس شہر کی خاص آئیڈیالوجی تھی ۔ یہاں مہاراشٹرین بھی تھے ، میں نے جو کتاب نظام پر لکھی اس میں ذکر کیا ہے ۔ پورے ہندوستان میں اتنی بڑی دیسی ریاست کوئی اور نہیں تھی ۔ مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ یہ مسلم اسٹیٹ تھی ۔ حالانکہ نظام مسلمان تھے لیکن سرکاری طور پر مسلم اسٹیٹ نہیں تھی ۔ آخری دنوں میں میر عثمان علی خان نے دوسروں کے دباؤ کی وجہ سے مشہور کیا لیکن آفیشیلی یہ بات نہیں تھی ۔ یہاں ہندو ، مسلم ، سکھ ،عیسائی سب ایک تھے ۔ ان میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ لیکن عثمان علی خان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر جناح کی طرفداری کی حالانکہ جناح خود بوہرہ تھے یا کچھ اور ، ایسے کٹر مسلمان نہیں تھے ۔ عثمان علی خان نے جناح سے دوستی کی ، میں نہیں مانتا کہ حیدرآباد مسلم اسٹیٹ کبھی تھی ۔

عثمان علی خان کے کچھ مشیر تھے ۔ باہر کے لوگ تھے جو کوشش کررہے تھے کہ حیدرآباد کی مسلم شناخت ہو ۔ سر علی امام ان میں نہیں تھے وہ تو کافی پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے ، بہار کے تھے ۔ سراکبر حیدری گجرات سے تھے ۔ بہت کمییٹڈ اور قابل تھے ۔ قاسم رضوی زیادہ طاقتور تھے ۔ بہادر یار جنگ کے انتقال کے بعد کافی طاقتور ہوگئے تھے ۔ بہادر یار جنگ تو بہرحال پڑھے لکھے آدمی تھے لیکن قاسم رضوی تو ایک معمولی وکیل تھے ۔ میں نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ قاسم رضوی کو بڑھاوا دے کر نظام نے غلطی کی ۔ انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا کہ ریاستیں آزاد رہ سکتی ہیں ۔ انگریزوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ خوشی سے ہندوستان چھوڑ رہے ہیں مجبور ہو کر نہیں ۔ نظام نے نہ صرف آزاد رہنے کی کوشش کی بلکہ علاقہ برار بھی واپس لینا چاہتے تھے ۔ یہ بالکل غیر حقیقی توقعات تھیں ۔ ایک گروپ نے ان کو آمادہ کیا تھا ۔ برار ایک زمانے سے انگریزوں کے پاس تھا ۔ 1853 سے جس سال سالار جنگ پہلی بار دیوان کے عہدے پر آئے ۔ اس سال سے 1947 تک انگریزوں کے قبضے میں رہا ۔ یہ نظام کی پراپرٹی تھی جو برٹش کے کنٹرول میں تھی ۔ انگریزوں کو برار سے دلچسپی یہ تھی کہ اس میں کاٹن بہت ہوتا تھا ۔ دوسرے دلی ، بمبئی ، ریولے لائن گزرتی تھی ۔ انڈین گورنمنٹ برار انگریزوں سے واپس لینا چاہتی تھی نہ کہ نظام کو واپس دینا ۔ نظام کو سیاست کی زیادہ سمجھ نہیں تھی ۔ یہ ایک طرح سے غیر حقیقی توقعات تھیں ۔ دوسری ریاستوں کے سربراہ جیسے نواب آف بھوپال ، مہاراجہ بیکانیر ، مہاراجہ میسور وغیرہ پڑھے لکھے تھے ۔ ان کا وژن تھا ۔ نظام کبھی حیدرآباد سے باہر نہیں گئے ۔ شاید ایک بار کلکتہ گئے تھے اور ایک بار دہلی گئے ۔ ولایت بھی نہیں گئے ۔ ان کے پاس کھُلا پن نہیں تھا ۔ خود کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے چنانچہ جناح وغیرہ سے ملاقات کے سلسلے میں ان لوگوں کو ناراض کیا ۔ جب ملک کی تقسیم ہوئی تو انھوں نے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ انگریز واپس چلے گئے تھے ۔ نظام نے ایک وفد UNO بھیجا اس سے بھی ہندوستانی حکومت ناراض ہوئی ۔ یہ ان کی خام خیالی تھی کیونکہ حیدرآباد کبھی آزاد نہیں رہا ۔ صرف پہلے نظام کے زمانے میں 1774 تا 1780ء شاید آزاد تھا ۔ وہ مغلوں کا دور نہیں تھا ۔ 1857 کے بعد سے برٹش کی حکمرانی رہی ۔ کبھی آزاد نہیں رہا ۔

یہاں اچھے لوگ زیادہ دنوں تک رہ بھی نہ سکے ۔ سالار جنگ جب 1876 میں ولایت گئے تھے ۔ انھوں نے اگھورناتھ چٹوپادھیائے کا نام سنا جو اڈمبرا میں تھے ۔ انھوں نے انھیں حیدرآباد بلوایا ۔ وہ سائنٹسٹ تھے۔ نظام کالج کے پرنسپل کا عہدہ دیا گیا ۔ عام تاثر یہ ہے کہ نظام کالج انھوں نے بنایا ۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے وہ بہت کم دن رہے ۔ بہت جلد کلکتہ چلے گئے ۔ان کی ایک اہمیت تھی اگر زیادہ دن رکتے تو حیدرآباد کے لئے اچھا ہوتا ۔ ان کے بیٹے ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے بہت بڑے لیکھک تھے۔ بیٹی سروجنی دیوی شاعرہ تھیں ۔ قومی لیڈر تھیں لیکن تھنکر نہیں تھیں ۔

1996 میں حکومت ہند نے ایک ہریٹیج کمیٹی بنائی تھی جس میں شراون کمار ، شیوکمار وغیرہ تھے ۔ ایس پی شورے بنگال کے پنجابی تھے ۔ HUDA ، (Hyderabad Urban Development Authority) میں ان کا تقرر ہوا ۔ 1970 میں وائس چیرمین آف حدا ہوئے ۔ انھوں نے ہیریٹیج کو محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ پرنسس اسریٰ قابل تعریف ہیں ۔ ان کا تعلق ترکی سے ہے لیکن یہاں کی عمارتوں میں دلچسپی لے رہی ہیں وہ مکرم جاہ کی پہلی بیوی ہیں ۔ اب تو طلاق ہوگئی ۔ چومحلہ پیالیس ان کے مہر میں آیا تھا ۔ وہ اس کی دیکھ بھال کررہی ہیں ۔ ایک اور خاتون انورادھا نائک ان کے ساتھ کام کررہی ہیں جو ڈاکٹر سدھیر نائک کی صاحبزادی ہیں ۔ ان کے علاوہ کشن راؤ ہیں ۔ وہ لوگوں کو بلاتی ہیں ، مکرم جاہ کی دوسری بیویوں کے بچے بھی آتے ہیں ۔ فلک نما کو بھی انھوں نے محفوظ کردیا ۔ ہریٹیج کو محفوظ کرنے میں زیادہ دلچسپی لینے کی ضرورت ہے ۔ ہم نے دکن ہیریٹیج قائم کیا ۔ حیدرآباد کے پرانے اور نئے روشن خیال لوگوں کو آگے آنا چاہئے ۔ حیدرآبادی کچھ نہیں کرتے جو بھی کرتے ہی وہ زیادہ تر باہر کے علاقوں کے لوگ ہیں ۔ اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ تو باہر کا ہے وہ کیا جانتا ہے ۔ اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ آوٹ سائیڈر کہہ کر کسی پر الزام عائد کرنا غلط ہے۔ اب تو تلنگانہ اسٹیٹ بن گیا ہے ۔ چیف منسٹر نے سلطان بازار اور اسمبلی سے میٹرو لائن شفٹ کرنے کی بات کی ہے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ سلطان بازار اور ریذیڈنسی بازار بہت پرانا ہے ۔ تقریباً سو سال پرانا ہے ۔ ہم نے پوچھا کہ کیا لندن کی طرح حیدرآباد کے بھی بعض محلے محفوظ کئے جاسکتے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ خانگی جائیداد کو محفوظ کرنے کے لئے اراضی کا حصول ضروری ہوتا ہے ۔ یہاں یہ ممکن نہیں ہے ۔ اب تلنگانہ بن گیا ہے تواچھی توقعات رکھی جاسکتی ہیں ۔