حیدرآباد جو کل تھا منی کونڈہ ویدا کمار

محبوب خان اصغر
حیدرآباد دکن کی روایات و اقدار کی پاسداری اور آبا و اجداد کی یادوں کے ساتھ زندگی گذارنے والی شخصیت کا نام ایم ویدا کمار ہے ۔ ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے موضوع پر ان سے ہوئی گفت و شنید کی تلخیص قارئین سیاست کیلئے پیش کی جارہی ہے ۔ ’’میں 5 اگست 1952 کو ضلع میدک میں پیدا ہوا اور دسویں جماعت تک پریگناپور ضلع میدک تلنگانہ میں تعلیم حاصل کی ۔ پی یو سی جامعہ عثمانیہ سے کرنے کے بعد میسور یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تکمیل کی جبکہ اربن اینڈ ریجنل پلاننگ کورس JNTU کوکٹ پلی سے کیا ۔ آنجہانی بھوپتی راؤ میرے والد تھے جن کا انتقال 1993 میں اس وقت ہوا جب کہ ان کی عمر اسّی برس تھی ۔ میں اس وقت 63 برس کا ہوں ۔ فورم فار اے بیٹر حیدرآباد (FORUM FOR A BETTER HYDERABAD) کا صدر ہوں ، اس کے علاوہ ایسے متعدد اداروں سے بھی منسلک ہوں جو حیدرآباد میں فلاحی کام انجام دے رہے ہیں ۔
قدیم حیدرآباد کی بابت گفتگو کرتے ہوئے میرے ذہن و دل کے دروازے کھل گئے ہیں اور یادیں تاک جھانک کررہی ہیں ۔ اگرچہ ہم گاؤں میں رہتے تھے مگر وہاں بھی حیدرآباد کی دھڑکن سنتے تھے ۔ بچپن گاؤں میں گذرا اور اس زمانے ہی سے ہمارے کافی رشتہ دار حیدرآباد میں رہا کرتے تھے ۔ تعطیلات میں آتے تو ہفتہ دو ہفتہ ان کے ہاں قیام رہتا تھا مگر پہلے دن نامپلی سرائے خانہ میں ٹھہرنے ہی کو ترجیح دی جاتی تھی تاکہ اس بہانے نامپلی ریلوے اسٹیشن کے باہر کی دنیا کو دیکھ سکیں ۔ گاؤں کی حالت ان دنوں ابتر تھی اور ان دنوں کی مناسبت سے حیدرآباد ہمارے لئے ترقی یافتہ تھا ۔ رکشے کے گھنگھرو ، ٹیکسی ، تانگے ، گھوڑے ، اسٹیشن سے آنے والی ریل کی سیٹی ، یہ سب آنکھوں اور کانوں کو بھلا لگتا تھا ۔ نل کا پانی بالٹی میں گرنے سے جو آواز پیدا ہوتی تھی وہ کانوں کو اچھی لگتی تھی۔

گاؤں سے حیدرآباد شہر کا تقابلی جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں چراغ جلا کرتے تھے اور یہاں بلب اور ٹیوب لائٹ جلا کر روشنی حاصل کی جاتی تھی ۔ ایرانی ہوٹل اور ایرانی چائے نے حیدرآباد کو بہت مقبولیت بخشی ۔ کریم نگر سے حیدرآباد آتے تو اکثر کنٹونمنٹ علاقے میں گھومنے کا اتفاق ہوتا تھا ۔ بلارم ، ماریڈپلی ، تاڑبن ، بوئن پلی ، کوم پلی ، کوکٹ پلی ، پیراڈائز وغیرہ سے ہمارا بہت گہرا تعلق ہے ۔ نرساپور میں ہماری جائیداد ہے ۔ ہمارے آبا و اجداد کا کاروباری سلسلے میں حیدرآباد آنا جانا رہتا تھا ۔ معظم جاہی مارکیٹ ، افضل گنج ، دیوان دیوڑھی ، سالار جنگ میوزیم ، حسین ساگر ان تمام مقامات کو عبور کرنے کے بعد ہی ہم حیدرآباد پہنچ پاتے تھے اور املی بن بس اسٹانڈ پر اترتے تھے ، جس کا نیا نام مہاتما گاندھی بس اسٹانڈ ہے ، جو غالباً ایشیا کا سب سے بڑا بس اسٹانڈ ہے ، جہاں سے مختلف اضلاع کو جانے کیلئے بسیں تیار کھڑی ملتی ہیں ۔ اس کے علاوہ سکندرآباد میں جوبلی بس اسٹانڈ بھی ہے اور یہاں سے بھی عوام کی سہولت کیلئے بسوں کا بہترین انتظام ہے ۔
میں جب اپنے سرپرسرتوں کے ہمراہ حیدرآباد آتا تھا تو نامپلی ریلوے اسٹیشن کو جیسا پاتا تھا آج بھی ویسا ہی ہے ۔ اسٹیشن کی عمارت جوں کی توں ہے ، البتہ آج کل کمپاونڈ وال کے ذریعہ عمارت کی حصاری بندی کرلی گئی ہے ۔ ریزرویشن کامپلکس ، پارکنگ کے انتظامات اچھے ہیں البتہ سرائے خانہ ان دنوں ناگفتہ بہ حالت میں ہے ۔
یہاں قطب شاہی دور سے آصف جاہی دور تک کی تمام عمارتیں موجود ہیں ۔مشہور اور مشاق آرکیٹکٹ کی خدمات حاصل رہیں اور اعلی قسم کا میٹریل قدیم عمارتوں میں شامل رہا جس کی وجہ سے آج بھی ان عمارتوں کی وہی آن بان اور شان ہے جو پہلے تھی البتہ کچھ عمارتیں مخدوش ہوگئی ہیں ۔
آندھرا پردیش ریاست بننے کے بعد حیدرآباد کی تاریخ اور تہذیب سے عدم واقفیت کی بنا پر قدیم تاریخی عمارتوں کو غیر اہم سمجھا گیا ۔ انہیں بچانے اور سنوارنے کیلئے منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت تھی اس کے بجائے انہدامی کارروائیاں کرکے کئی منزلہ عمارتیں بنا کر روپیہ کمانے کیلئے سازشیں کی گئیں ۔ حیدرآباد ہندوستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں جانا جاتا ہے ۔ ساری دنیا سے سیاحوں کا ہجوم سیاحت کیلئے آتا ہے ۔ سب ہی نے حیدرآباد کی معاشرتی زندگی کی سراہنا کی ہے اور اس شہر کو ایک اہم اور خوبصورت شہر کے طور پر قبول کیا ہے ۔ آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو سابق وزیراعظم ہند نے حیدرآباد کا دورہ کرنے کے بعد اپنے خوشگوار تاثرات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں ہندوستان کی تمام تہذیبوں کا سنگم پایا جاتا ہے ۔

نواب میر عثمان علی خان آصف سابع نے قطب شاہی اور آصف جاہی دور کی تمام یادگاروں کی حفاظت کیلئے حتی الامکان سعی کی اور شہر کی تزئین نو کیلئے آرٹ ، کلچر اور تہذیب پر زیادہ زور دیا ۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی ، لیکن اس سے قبل اعلی حضرت نے ساری دنیا کی دس تا پندرہ جامعات کا جائزہ لیا ۔ ڈیزائن ، کلاس روم ، برآمدے ، دروازے ، چوکھٹیں اور اس کے راستے نیز فرنیچر ، لیبارٹریز ، گرین کور (Green Cover) یعنی ہریالی اور درختوں کے جھنڈ اور اوپن ایریا ، بین الاقوامی شہرت کی حامل جامعہ عثمانیہ کی ہرچیز میں نزاکت کے ساتھ نفاست ہے ۔ دوسری جامعات سے اس کا تقابل کریں تو یہی جامعہ پرکشش معلوم ہوتی ہے جو ، حیدرآباد دکن کی شناخت ہے ۔ اردو کے بہترین کورس کے ساتھ تعلیم کا آغاز ہوا ، یہ دکن پر اعلی حضرت کا ایک بڑا احسان ہے ۔

ایم ویدا کمار نے بتایا کہ شہر کا جغرافیہ بھی قابل تعریف ہے ۔ دونوں شہروں کے وسط میں حسین ساگر ہے ، جس کے نیچے سکندرآباد ہے اور اوپری حصے پر حیدرآباد ہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی تو بالکل بالائی حصے پر کھڑی ہے اور ماضی میں اس سے وابستہ سٹی سائنس کالج ، سٹی کالج ، سکندرآباد کالج ، ویویک وردھنی کالج ، سیف آباد کالج وغیرہ میں تعلیم کا معیار بہت بلند تھا
1908ء میں رود موسیٰ کی طغیانی کے بعد اعلی حضرت کی دور اندیشی کے سبب ہی کچھ تالاب وجود میں آئے ، لیکن اس سے قبل طغیانی کے سبب پیش آئے نقصانات کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا ۔ تقریباً بیس ہزار جانیں تلف ہوئیں ، کئی عمارتیں منہدم ہوگئیں ۔ املاک کو شدید نقصان پہونچا ۔ حضور نظام میر محبوب علی خان کی ایماء پر شاہی محل کے گیٹ کھول دئے گئے ۔ انھوں نے متاثرین کی ہر طرح سے امداد کیلئے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا ۔ لنگر کا نظم کیا ، کمبل اور کپڑے تقسیم کئے اور بے گھروں کے لئے عارضی سائبان کا انتظام کیا ۔ مستقبل میں ایسی آفات سماوی سے نپٹنے کیلئے نواب میر عثمان علی خان نے 1920 میں عثمان ساگر اور 1927 میں حمایت ساگر تعمیر کروائے ۔
ویدا کمار کے مطابق عثمانیہ دواخانہ سے متصل افضل پارک ہوا کرتا تھا جس کی تاریخی حیثیت تھی ۔ بیرونی سیاح جب بھی حیدرآباد کا رخ کرتے چارمینار اور دوسری تاریخی عمارتوں کے علاوہ افضل پارک ضرور جاتے ، جس کا داخلہ پولیس اسٹیشن کے بازو ہی تھا ۔ وہیں پر املی کا درخت بھی ہے جسے غیر معمولی شہرت حاصل ہے اس کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ ندی کی طغیانی کے وقت اس درخت پر لگ بھگ ایک سو پچاس افراد چڑھ گئے اور اپنی جانیں بچاپائے اور وہ املی کا درخت ہنوز ایستادہ ہے ۔ 2008 میں طغیانی آئے سوسال ہوئے تھے اور ہم نے اس درخت کے پاس ہی ایک یادگار پروگرام منایا اور سب کو خراج عقیدت پیش کی تھی ۔ بہت سی تاریخی اہمیت کی حامل جگہیں صرف دولت بٹورنے کی خاطر ہاتھ سے نکل گئیں ان میں ایک افضل پارک بھی ہے ۔

1911 میں نواب میر محبوب علی پاشا گذر گئے اور عنان اقتدار آصف سابع اعلی حضرت کے ہاتھ آگئی ۔ یہیں سے شہر کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی شروع ہوئی اور 1940 میں شہر حیدرآباد کو مزید ترقی دینے کیلئے ’’آرائش بلدہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی ۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مثبت سوچ اور فکر کی حاصل شخصیتوں کے علاوہ معروف آرکیٹکٹس اور انجینئروں کو شامل کیا گیا ۔ پسماندہ علاقوں کو کالونیوں میں بدلا گیا ۔ کوارٹر بنائے گئے ۔ زیر زمین ڈرینج سسٹم ، پینے کے پانی کے حصول کیلئے ضوابط وضع کئے گئے ۔ قطب شاہی اور آصف جاہی دور میں شہر کی خوبصورتی کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی گئی تھی ، آزادی کے بعد بھی اس شہر کی خوبصورتی کو باقی رکھنا ’’آرائش بلدہ‘‘ کی اولین ترجیح تھی ، چنانچہ سڑکوں کو وسعت دی گئی ۔ مختلف جگہوں پر فوارے لگائے گئے ۔ درختوں کو اگا کر شہر کو ہرا بھرا رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ اسٹریٹ لائیٹ کا نظم بھی آرائش بلدہ کا مرہون منت ہے ۔

ایم ویدا کمار نے ’’فورم فار اے بیٹر حیدرآباد FORUM FOR A BETTER HYDERABAD‘‘ کے اغراض و مقاصد کے متعلق بتایا کہ اسکا اہم مقصد عوام کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنا ہے ۔ قدیم عمارتوں کو متعلقہ افسران کے تساہل کے سبب لاحق خطرات کی تفصیلات بھی اس فورم کے ذریعہ حکومت کو پیش کی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کا ماسٹر پلان ٹھیک نہیں ہے ۔ غیر مجاز تعمیرات بلدیہ کی لاپروائی کا نتیجہ ہیں ۔ صنعتوں کا فاضل مادہ حسین ساگر نالہ ، بلکاپور نالا ، بیگم پیٹ اور پیکٹ نالے ٹھیک نہیں ہیں اس پر فورم نے حکومت کو توجہ دلائی ہے ۔ حسین ساگر ، عثمان ساگر اور حمایت ساگر کی صفائی کے لئے G.O. III کے تحت ہم سپریم کورٹ تک گئے ۔ سکریٹریٹ میں G block اڈمنسٹریشن بلڈنگ اور فینانس بلڈنگ کو منہدم کیا جانے والا تھا اس کے خلاف فورم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کامیاب رہے ۔ گاندھی میڈیکل کالج ، مولا علی کمان کو بھی منہدم کیا جانے والا تھا ۔ مگر فورم کی مداخلت کی وجہ سے یہ کارروائی رُک گئی ۔ مذکورہ نشانیاں حیدرآباد کی تاریخ کا اہم جز ہیں اور انہیں باقی رکھا جانا ازحد ضروری ہے ۔

ویدا کمار نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ دکن میں انگریزوں نے ریلوے لائن بچھانے کی پیشکش کی تھی جس کو اعلی حضرت نے قبول نہیں کیا اور 2300 کیلومیٹر کی ریلوے لائن نظام نے اپنے خرچ سے بنائی تھی جو آگے جا کر مرکزی لائن سے ملتی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ چھ مرتبہ ایران کا دورہ کرچکے ہیں ۔ موسیٰ ندی پروجیکٹ پر کام کرنے کیلئے انہوں نے جرمنی (برلن) کا دورہ بھی کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ قلی قطب شاہ کو گولکنڈہ میں درگم چیرو سے پانی سربراہ کیا جاتا تھا جو کہ نہایت ہی شفاف ہوا کرتا تھا ۔ چارمینار کی حصاربندی سے قبل کمان کے اندر سے ٹریفک کا گذر ہوتا تھا ۔ 1591 میں اس کی تعمیر ہوئی ۔ اصفہان (ایران) کے طرز پر حیدرآباد شہر کوبسایا گیا ۔ 1595 میں دارالشفاء میں دو منزلہ یونانی دواخانہ موجود تھا جہاں بہ یک وقت چار سو مریض رہ سکتے تھے ۔ مختلف شہروں ہی سے نہیں مختلف ممالک سے مریض بھی آتے تھے ۔اب یہ دواخانہ اسکول میں تبدیل ہوگیا ہے ۔
قدیم حیدرآباد میں شہر کی چاروں سمتوں میں سرائے ہوتے تھے ۔ علی آباد سرائے ، شیخ پیٹ سرائے وغیرہ اور یہ شہر کی دیوار سے متصل ہوتے تھے۔ شہر میں داخل ہونے کیلئے اجازت یعنی ویزا کا حصول ضروری تھا ۔

عزیز باغ ، اکبر باغ ، بشیر باغ ، جام باغ جیسے مقامات میں شہر کے امراء قیام کرتے تھے ۔ اور یہ حیدرآباد کے مصروف علاقے تھے ۔ عزیز باغ کا پھیلاؤ وکٹوریہ میٹرنٹی ہاسپٹل نور خاں بازار تک تھا ۔ آج بھی اس باغ میں عزیز جنگ بہادر شمس العلماء کی ساتویں پشت قیام پذیر ہے ۔ عزیز جنگ بہادر کے چار فرزند تھے ۔ غازی یار جنگ ، محی الدین احمد ، نواب دین یار جنگ بہادر اور نواب رکن الدین احمد ۔ نواب دین یار جنگ کے فرزند حسن الدین احمد آج بھی حیات ہیں جو کہ ریٹائرڈ آئی اے ایس ہیں ۔ عزیز باغ میں اعلی حضرت کے علاوہ معروف اداکار دلیپ کمار نے بھی قدم رنجہ فرمایا تھا ۔ اس طرح مذکورہ باغ بھی یہاں کی تہذیب کا اہم ترین حصہ رہے ہیں ۔
ویدا کمار نے کہا کہ عثمانیہ دواخانہ اور نمس کو دیکھ کر عوام کیلئے حفظان صحت سے متعلق اعلی حضرت کی فکرمندی کا اظہار ہوتا ہے ، جہاں ان پیشنٹ اور آوٹ پیشنٹ کا بالکلیہ مفت علاج ہوا کرتا تھا ۔ دودھ ، میوہ ، بریڈ ، ابلے ہوئے انڈے اور کمبل بھی مفت میں دیئے جاتے تھے ۔ اب متمول لوگ ہی ان دواخانوں کے متحمل ہوسکتے ہیں یا رسوخ کی بنیاد پر فیض اٹھایا جاسکتا ہے ۔
شیوا ریڈی ، کرشنا مورتی ، وینکٹیشور ، نائک اور شنڈے وغیرہ میرے اساتذہ رہے ۔ پڑھائی کے دوران ریڈی ہاسٹل ہی میرا مسکن تھا ۔ جہاں انجینئرنگ کالج ، میڈیکل کالج ، انوار العلوم کالج ، ممتاز کالج ، سکندرآباد سٹی کالج ، حیدرآباد سٹی کالج کے طلباء بھی مقیم تھے ۔ اس طرح ہر کالج سے میرا تعلق سا بن گیا تھا ۔ ان میں ہندو ، مسلم ، سکھ اور عیسائی سبھی تھے ۔ بغیر کسی بھید بھاؤ کے ہم مل جل کے رہتے تھے ۔ بَن مسکہ ، ایرانی چائے اور سموسے کھاتے تھے ۔ حیدرآباد کی خوبی یہ ہے کہ یہاں بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہیں جو اپنے اپنے طور طریقوں سے اپنے تہوار اور اپنی رسومات مناتے ہیں ، مگر دل سے دوسروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں شادیوں کے موقع پر حیدرآباد سے بینڈ باجا آتا تھا ۔ کم از کم ایک ماہ قبل ہی سے لگتا تھا کہ گھر میں شادی ہونے والی ہے ۔ مہمان نوازی کا لامتناہی سلسلہ چلتا ۔ لڈو بوندی وغیرہ اتنی مقدار میں بناتے تھے کہ روانگی کے وقت انہیں تحفتاً دے دیتے ۔ چار گھر مسلمانوں کے ایک گھر ہندو کا اور ایک گھر مسلمان کا اور چار گھر ہندو کے پھر بھی خود کو محفوظ تصور کرتے تھے ، جس سے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب آشکار ہوتی ہے ۔ یہاں اتحاد ہے اگر کچھ ہوا ہے تو وہ سب سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے ۔ جس سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ ڈی بی آر مل ، اعظم جاہی مل ، پراگاٹولز ، آلوین ، آئی ڈی پی ایل ، بیلکیٹ ہائی لام ان سب کا شمار حیدرآباد کی مشہور فیکٹریوں میں ہوتا تھا جو ان دنوں مسدود ہوگئی ہیں ۔ نظام شوگر فیکٹری کو خانگیا لیا گیا۔ یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں تھی ۔ اس طرح فیکٹریوں کی مسدودی سے حیدرآبادیوں کے مسائل بڑھنے لگے ۔ بیرونی ممالک جانے والوں کی نظام ٹرسٹ نے امداد کی ۔

حیدرآباد کے تہوار بھی اپنے اندر کشش رکھتے ہیں ۔ رمضان ، بقرعید ، بونالو پنڈوگا ، دسہرہ اور پیرو پنڈوگا (محرم) اس کے علاوہ ہولی اور تل سنکرات میں ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ حیدرآباد کے کتب خانے بھی بہت مشہور تھے جو کہ اس شہر کی شان کے مظہر تھے ۔ آصفیہ لائبریری تو دکن کی پہچان ہے ۔ 1891 میں میر محبوب علی خان نے نے اس کی بنیاد رکھی تھی ۔ اول اول یہ جنرل پوسٹ آفس کی عمارت میں واقع تھی غالباً 1935 میں رود موسیٰ کے کنارے سے معقول رقم صرف کرکے دو منزلہ عمارت تعمیر کی گئی تھی ۔ اس خوبصورت اور نفیس عمارت کا افتتاح اعلی حضرت میر عثمان علی خان نے کیا تھا ، جو آج بھی اسی شان کے ساتھ کھڑی ہے ، اس کو کتابیں پڑھنے والوں کا انتظار ہے ۔ کیونکہ پرانی تہذیب اب کتابوں میں بند ہو کر رہ گئی ہے ‘‘۔