محبوب خان اصغرؔ
ہماری سماجی اور ثقافتی تہذیب کا ظاہری پیکر اور ایک معتبر استاذ مرزا غفار بیگ کا خمیر علم و فن ، مہمان نوازوں، پر خلوص انسانوں اور تہذیبی سرگرمیوں کی بستی سے اُٹھا ہے۔ وہ 21 فرری 1935 ء کو جناب مرزا ولی بیگ مرحوم کے گھر حیدرآباد ہی میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پرورش یہیں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیمی مدارج بھی یہیں طئے کئے ۔ حیدرآباد کا پروردہ فرد اخلاق، تہذیبی رکھ رکھاؤ اور ذات ، صفات کی سچائیوںکا مرقع ہوتا ہے۔
آغاز میں اپنی ابتدائی زندگی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ان کے والد بزرگوار نے ان کو گھر پر ہی تعلیم دی تھی۔ ان کاانداز کچھ اسطرح کا ہوتا تھا کہ بات کو سمجھنے میں انہیں دقت نہیں ہوئی تھی ۔ ان کے والد ایسی بات کے قائل نہیں تھے کہ بچہ چلنے لگتے ہی اسے اسکول بھیج دیا جائے بلکہ ایسی بات کو پسند کرتے تھے کہ بچے کو ذہنی طور پر حصول علم کیلئے تیار کیا جائے ۔ اس میں تجسس پیدا کیا جائے ۔ قلم ، کتاب، کاپی اور بستہ سے اس کو ایک خاص قسم کا لگاؤ ہونا چاہئے ۔ اس کے بعد ہی اس کو مدرسہ میں داخل کیا جانا چاہئے۔ چنانچہ یہی ہوا ۔ پانچ برس کی عمر تک انہیں پڑھنے اور اسکول جانے کا فطری شوق پیدا ہوگیا تھا ۔
انوارالعلوم پرائمری اسکول میں داخل کیا گیا تو روز اول ہی سے اخلاقیات پرمبنی درس اور مذہبی رواداری سے مزین باریک باریک باتیں بتائی جانے لگیں۔ یعنی یہ کہ بنیاد ہی میں ایسی اینٹیں رکھ دی گئی ہیں کہ تادم آخر جسم کی عمارت پر تغیراتِ زمانہ کا اثر نہ ہوسکے ۔ مذکورہ اسکول سے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد سٹی کالج سے انٹرمیڈیٹ اور نظام کالج سے گرایجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ مرزا غفار بیگ نے بتایا کہ ان کی پیدائش سے تیرہ برس تک یہاں امن و امان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا ۔ البتہ 1948 ء میں چھیڑچھاڑ شروع ہوگئی تھی کہ ہم نے وضاحت چاہی تو بتایا کہ معاہدے کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے حالات نے پلٹا کھایا ۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ملک کی فوج کا حیدرآباد میں داخل ہونا ہی درحقیقت حالات کے ناگفتہ بہ ہونے کا اہم سبب تھا ۔
ہم نے اس طرح کے حالات کے سدباب کیلئے کئے گئے اقدامات سے متعلق تفصیل جاننی چاہی تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ کانگریس، ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج نے ریاست کی آزادی کی مخالفت کی تھی ۔ انہوں نے بتایا گوکہ ان کی عمر چھوٹی تھی مگر بزرگوں کے چہروں پر انہوں نے خوف کے سائے دیکھے تھے ۔ انہوں نے سنا تھا کہ یہاں کے باشندوں کا تحفظ اور امن و امان کی بحالی ایک مسئلہ بن گیا تھا جن کا حل دور دور تک نظر نہ آتا تھا ۔ ان حالات میں منصوبہ بندی کا ایک تصور رضاکار تنظیم (Volunter) قاسم رضوی کے ہاں تھا ۔ انہوںنے اس کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا بتایا کہ اپنی حفاظت کیلئے رضاکاروں کو تیار کیا جانے لگا تھا اور اس کے سرخیل اگرچیکہ قاسم رضوی تھے مگر اس ذمہ داری کے بار کو اپنے شانوں پراٹھانے کے اہل نہیں تھے ۔اس کے برخلاف بہادر یار جنگ ایک ذہین، فطین ، فریس اور تجربہ کار انسان تھے ۔ ان کی تقریر میں ولولہ انگیزی کے ساتھ تدبر اور تفکر کا عنصر بھی پایا جاتا تھا ۔ ان ہی کے عہد سے رضاکار مجلس اتحاد المسلمین کا جز لاینفک رہے ہیں جن کا مقصد حفاظت خود اختیاری یعنی (Self Defence) تھا ۔ انہوں نے بعض ا ہم نکات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کی سرگرمیاں حد سے تجاوز کرنے لگیں تو ان پر تحدیدات لگائی گئیں۔ انہوں نے بات چیت کو جاری رکھتے ہوئے حیدرآباد میں وقوع پذیر ہونے والے پہلے فساد سے متعلق بتایا کہ دو نوجوان بے دردی سے قتل کئے گئے تھے اور ان کا تعلق چنچل گوڑہ سے تھا ۔ اس واقعہ کو لیکر سخت برہمی دیکھی گئی تھی ۔ غم و غصہ کا شکار ہجوم بے قابو ہوکر اپنا ردعمل ظاہر کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا ۔ ایسے نازک حالات میں مشتعل مجمع پر قابو پانے والے رہنما بہادر یار جنگ ہی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی دل کشیدہ ماحول پیدا ہوتا تھا اور حالات دگرگوں ہوا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے مفادات کا پاس و لحاظ رکھنا از حد ضروری سمجھا جاتا تھا ۔ بھائی چارگی ، اخوت اور محبت ہمارا ورثہ ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہمارا فریضہ ہے ۔
مرزا غفار بیگ نے اپنے پیشہ سے متعلق بتایا کہ وہ حیدرآباد پبلک اسکول (HPS) میں ریاضی کے استاذ تھے ۔ متذکرہ اسکول میں اکثریت ایسے طلباء کی تھی جن کا خاص خاندانی پس منظر ہوتا تھا ۔ امراء اور روساء کی اولادیں ہی نظر آتی تھیں۔ آسائیش انہیں میسر تھیں اس کے باوجود ان پر سر پرستوں کی کڑی نظر اور کنٹرول ہوتا تھا ۔ طلباء کو آزادی نہیں تھی کہ تنہا اسکول آیا جایا کریں۔ کوئی نہ کوئی سرپرست ان کے ہمراہ ہوا کرتا تھا ۔ طلباء اسکول کی چار دیواری کے باہر ہی اپنی جاگیرداری کو چھوڑ آتے تھے ۔ اسکول کے احاطے میںان کے ساتھ صرف علم کی طلب ہوا کرتی تھی ۔ اساتذہ خود ہی پابند ڈسپلن تھے اور طلباء ان ہی کے نقش قدم پر چلا کرتے تھے ۔ مدراس کرسچین اسکول سے کرویلا جیکب صدر مدرس بن کر آئے تھے ، وہ بہت کلچرڈ تھے ۔ بدنظمی اور غیر منظم طور طریقوں سے انہیں سخت چڑ تھی ۔ جہاں کوئی انہیں کوئی نقص نظر آتا بڑے ہی سلیقے سے اس کو دور کر دیتے تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کرویلاجیکب کی ایماء پر وہ شکاگو (امریکہ) بھی گئے اور ان کا یہ سفر Teacher Exchange Programmeکے تحت تھا۔ وہاں سے کچھ لوگ یہاں آتے تھے ۔ بیگ صاحب کے مطابق نقل مقام کرنا ان کیلئے نفع بخش رہا ۔ عربی کے استاذ سعادت اللہ حسینی اور محترمہ شہناز صاحبہ (بیگم پروفیسر یوسف سرمست) کے علاوہ اور بھی قابل اساتذہ درس و تدریس پر فائز تھے ۔ انہوں نے اپنے شاگردوں سے متعلق بتایا کہ آج اقطائے عالم میں وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ سردست انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جناب عامر علی خاں، نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست بھی ان کے شاگرد رہے ہیں۔ بیگ صاحب کے بموجب ان کے والد آرئش بلدہ میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کے والد نے انہیں یہی سکھایا تھا کہ مسائل سے کبھی ہراساں نہیں ہونا چاہئے ۔ وہ خود بھی بڑے ہی حوصلہ مند اور دلیر انسان تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد کی جن لوگوں سے رسم و راہ تھی وہ سب اعلیٰ صفات کے حامل تھے ۔ عزت نفس کا کچھ زیادہ ہی پاس و لحاظ رکھتے تھے اور اپنے خاندان کے تمام افراد کے مسائل سے آگہی رکھتے تھے اور ضرورت مندوں کی مدد یوں کرتے کہ دوسرے ہاتھ کو اس کی بھنک تک نہ ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد محترم کی وفات کے بعد ان کی زندگی زیر و زبر ہوگئی تھی اور غم و الم نے انہیں رنجور کردیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ مرحوم والد کا وہ جملہ کہ انسان کو کبھی ہراساں نہیں ہونا چاہئے، ایک میراث کی طرح ان کی گرہ میں رہ گیا تھا جوہر گام انہیں سنبھالتا رہا اور وہ اس اعتبار سے بھی اپنے آپ کو خوش بخت گردانتے ہیں کہ ان کے نصیب میں اجداد کی کوئی جائیداد نہ تھی ۔ شاید یہی سبب ہے کہ زندگی میں وہ کبھی بھی لا ابالی نہ رہے اور تساہل نے انہیںکبھی چھوا تک نہیں بلکہ زندگی میں کچھ کر گزرنے کا ایک مصمم ارادہ ان کی زندگی میں زینہ زینہ روشنی کا موجب بن گیا ۔ معاً انہوں نے یہ بھی منکشف کیا کہ وہ جدہ میں منارات انٹرنیشنل اسکول میں بھی کئی برس تک ریاضی (Mathematics) کے استاذ رہے ۔ اسی دوران عمرہ اور حج کی سعادت بھی انہیں نصیب ہوتی تھی ۔
’’باہر جانے والے کتنے صحیح کتنے غلط‘‘ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سخت مالی دشواریوں کے پیش نظر ملک سے باہر جاکر اپنے تجربات اور اپنی تعلیم کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اور روپیہ کمانا غلط نہیں ہوسکتا ۔ البتہ روپیوں کا بیجا استعمال غلط ہوتا ہے ۔ خلیج میں زندگی سے نبرد آزما حیدرآبادیوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ خوشحالی کے باوجود وہ حیدرآباد دکن کی یادوں میں متغرق رہتے ہیں۔ یہاں کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی اور یہاں کے دلکش اور روح افزاء مقامات کی یادیں اور باتیں انہیں حیدرآباد سے زیادہ عرصہ تک دور نہیں رکھ سکتیں۔
انہوں نے بتایا کہ تعلیمی مراحل طئے کرنے میں انہیں مالی دشواریاں مانع رہیں۔ ٹیوشن اگرچیکہ انہوں نے کئی طلباء کو پڑھایا ہے مگر فیس کسی لالچ میں نہیں بلکہ سطح نظریہ تھاکہ دورانِ تعلیم دشوار گزار راستوں سے گزرنا طلباء کیلئے آسان ہو۔ ان کے بموجب اکتیس طلباء کو انہں نے بڑی جانفشانی سے آئی آئی ٹی (Indian Institute of Technology) کیلئے تیار کیا تھا۔ پچیس طلباء اچھے نمبرات سے منتخب ہوئے اور مابقی چھ طلباء کو برلا انسٹی ٹیوٹ پنجاب میں داخلہ ملا۔ بیگ صاحب کے مطابق ممتاز عثمانین مرحوم عابد علی خاں بانی روزنامہ سیاست ان کے محسن ہیں جنہوں نے ان کی چپ چاپ مالی مددکی تھی ۔ انہوںنے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ نواب شہامت جاہ کو بھی انہوں نے ٹیوشن پڑھایا ہے ۔ان کی والدہ محترمہ شہزادی انوری بیگم مشاہرہ کے طور پر انہیں سرفراز کرتی تھیں۔ انہوں نے حیدرآباد کے بگھارے بیگن کا تذکرہ نیویارک میں سنا، انگلینڈ میں سنا، جدہ اور دبئی میں بھی اس کے رسیا ہیں۔ مذکورہ ممالک میں وہ کھانے کیلئے بڑی بڑی ہوٹلوں میں گئے ۔ مینو میں بگھارے بیگن کو بھی درج پایا ۔ مگر لذت آشنا ہی یہاں کے ذائقے کو پہچانتا ہے ۔ یہاں ماضی میں خلوص ہو یا محبت یا بھائی چارہ اصلی تھا اور وہی اصلیت ہمارا شناخت نامہ ہے۔
مرزا غفار بیگ نے حیدرآباد میں ماضی میں قابلِ ذکر تنظیموں کی بابت بتایا کہ کامریڈ اسوسی ایشن بہت ہی متحرک اور فعال تھی اور یہ نام غالباً خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے دیا تھا جو فلسفہ کے پروفیسر تھے ۔ لاہور ان کا وطن تھا ۔ اقبال کے قریبی رفقاء میں شمار کئے جاتے تھے ۔ انہوں نے سید محمد جواد رضوی کے بارے میں بتایا کہ وہ بھی اس تنظیم کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے اور انتہائی خوبصورت تھے ۔ زمرد محل میں منعقد ہونے والے ایک جلسے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اقبال پر ایک یادگار جلسہ ہوا تھا جس میں خلیفہ عبدالحکیم نے پرمغز تقریر کی تھی۔ انہوں نے یہاں کے ادبی منظر نامے پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشاہیر کو یاد کیا ۔ دریں اثناء انہوں نے موجودہ ادبی منظر نامے کو غیر اطمینان بخش کہا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ نامی گرامی تخلیق کاروں کا ادبی سرمایہ اردو کی نئی پود کیلئے بڑا ہی کارآمد ہوسکتا ہے۔