حیدرآباد جو کل تھا محمد عبدالقدوس صدیقی (ایک سو برس مکمل ہونے پر)

عابد صدیقی
حیدرآباد کی ایک برگزیدہ شخصیت مولانا محمد عبدالقدوس صدیقی نے تین ماہ قبل یعنی 7 جولائی 2015ء کو اپنی عمر عزیز کے ایک سو برس مکمل کرلئے ۔ انہوں نے ان سو برسوں میں حیدرآباد کے نشیب و فراز عروج و زوال ، بدلتی سماجی قدروں اور سیاسی ، مذہبی ، معاشرتی مدوجزر کو قریب سے دیکھا ہے ۔ ماضی کے ان گنت واقعات آج بھی ان کے ذہن و دل پر نقش ہیں ۔
عبدالقدوس صدیقی کا حافظہ بڑا تیز ہے ، صرف سماعت کچھ متاثر ہوئی ہے لیکن اس عمر میں انکا ذوق اور شوق متاثرکن ہے ۔ آواز کی گھن گرج ابھی باقی ہے ۔ جسمانی طور پر وہ نحیف ضرور ہوئے ہیں لیکن گفتار اور رفتار دونوں میں نرمی اور گرمی کی کیفیت نمایاں ہے ۔ ڈیڑھ گھنٹے کے طویل انٹرویو میں انکے ابرو پر ذرا بھی شکن نہیں آئی اور بڑے انہماک سے انھوں نے میرے سوالوں کے جواب دیئے۔
جناب محمد عبدالقدوس صدیقی7 جولائی 1915 ء کو ضلع کرنول کے موضع ہنسور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد محمد یوسف صدیقی اس دور میں 15 دیہاتوں کے نائب قاضی تھے ۔ سارے علاقہ میں ان کے خاندان کو کافی مقبولیت حاصل رہی ۔ شرافت ، دینداری ، تبحرعلمی اور رواداری کے باعث لوگ بلالحاظ مذہب ، انکے والد کا بڑا احترام کرتے تھے ۔ اس دور میں قاضی منصف بھی ہوتا اور مشیر و رہنما بھی ۔ عبدالقدوس کی ابتدائی تعلیم کرنول کے عبدالحق اسکول اور دیگر مدارس میں ہوئی ۔ اردو ذریعہ تعلیم ، قابل اساتذہ کے فیضان اور گھر کے علمی ماحول نے ان کی ذہنی تربیت میں نمایاں حصہ لیا ۔ 1930 ء میں وہ اور ان کا پورا خاندان حیدرآباد منتقل ہوگیا ۔ حیدرآباد آنے کے بعد انھیں اور ان کے دونوں بھائیوں کو جامعہ نظامیہ میں شریک کروادیا گیا ۔ جامعہ نظامیہ سے انھوں نے کامل کی ڈگری حاصل کی ۔ علوم دینیہ ، قرآن ، حدیث ، فقہ ، منطق ، عقائد اور تصوف کی تعلیم انھوں نے اس دور کے جید علماء سے حاصل کی ۔ انھوں نے بتایا کہ جامعہ نظامیہ کو اس زمانے میں عالمی شہرت حاصل تھی ۔ دنیا میں جامعہ ازہر مصر کے بعد جامعہ نظامیہ کا درجہ تھا ۔ حضرت انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ ، مفتی عبدالحمید ، مولانا الیاس برنی ، قاری میر روشن علی اور متعدد علمائے کرام تھے جن سے استفادہ کا موقع ملا اور ان کے آگے زانوئے ادب تہہ کرنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ وہ تجوید و قرأت کے مقابلوں میں متعدد انعامات و اعزازات سے نوازے گئے پھر محکمہ امور مذہبی سے وابستہ ہوگئے ۔ مذہبی تعلیم کے علاوہ انھوں نے تکنیکی و صنعتی تعلیم حاصل کی ۔ اپنی صلاحیت اور مہارت کے باعث انھیں اس وقت ورنگل کے پالی ٹکنیک کالج میں ملازمت مل گئی ۔ 1970 میں وہ وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے اور پھر بعد میں مستقل طور پر رائچور منتقل ہوگئے ۔

نہایت جذباتی انداز میں انھوں نے کہا کہ دنیا میں یوں تو ان گنت شہر ہیں، لیکن حیدرآباد ایک منفرد اور بے مثال شہر ہے ، جو اپنے تہذیبی بانکپن ، مذہبی رواداری ، سماجی میل جول اور وضعداری کے باعث عالمی شہرت کا حامل رہا ۔ سکندر علی وجدؔ نے حیدرآباد کے بارے میں سچ کہا تھا؎
بہت خوش نما شہر دیکھے ہیں میں نے
مگر تیرا جادو کہیں بھی نہیں ہے
مولانا عبدالقدوس نے کہا کہ حضور نظام آصف سابع نے 15 اگست 1947 کو مملکت حیدرآباد کو ایک آزاد ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ 17 ستمبر 1948 تک یعنی ایک سال ایک ماہ کے لئے حیدرآباد کو ایک آزاد ڈومینین کی حیثیت حاصل رہی اور 17 ستمبر کو یہ آزاد و مختار ریاست انڈین یونین میں ضم ہوگئی ۔ پولیس ایکشن کے ذریعہ نظام حیدرآباد کو سبکدوش کرنے کی سازش رچی ،جس میں سردار پٹیل ، کے ایم منشی کے علاوہ کئی ہندو فرقہ پرست اور نام نہاد کمیونسٹ قائدین شامل تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی سیاسی جماعت مجلس اتحاد المسلمین تھی ۔ ابتداء میں اسکا نام اتحاد بین المسلمین تھا ،بعد میں 1929 میں اسکا نام مجلس اتحاد المسلمین رکھا گیا ۔ ابتداء میں اس کی حیثیت ایک مذہبی جماعت کی تھی ۔ آریہ سماج کی شدھی تحریک کے ردعمل کے طور پر مجلس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ اس کے پہلے صدر حضرت مولانا بادشاہ حسینی صاحب تھے ۔ اس کے بعد 1938 سے 1944 تک قائد ملت نواب بہادر یار جنگ اسکے صدر رہے ۔ بہادر یار جنگ ایک معاملہ فہم ، دور اندیش ، سنجیدہ ، اور اعلی درجہ کے خطیب تھے جن کی ہندو اور مسلمان سب ہی عزت کرتے تھے  ۔ حضور نظام بھی انکا احترام کرتے تھے۔ بہادر یار جنگ کا انتقال جون 1944 میں ہوا اور اس کے بعد مجلس کے صدر ابوالحسن سید علی ، مظہر علی کامل ایڈوکیٹ اور اس کے بعد 1946 میں سید قاسم رضوی ایڈوکیٹ منتخب کئے گئے جس سے حیدرآباد کے سیاسی حالات ناسازگار ہونے شروع ہوئے ۔ مضبوط مسلم قیادت کی عدم موجودگی اور خود دربار کی ریشہ دوانیوں کے باعث حالات ابتر ہوتے گئے ۔ پولیس ایکشن کی دردناک داستان آج بھی خون رلاتی ہے ۔ مولانا عبدالقدوس صدیقی نے کہا کہ حیدرآباد کی مسلم حکومت ختم ہوگئی لیکن حیدرآبادی تہذیب کو مٹانے کی کوئی ہمت نہیں کرسکا ۔ حکومت ہند نے یکم نومبر 1956 کو ریاستوں کی لسانی بنیادوں پر تنظیم جدید کرکے حیدرآباد میں شامل مہاراشٹرا کے 5، کرناٹک کے 3 اضلاع کو متعلقہ ریاستوں میں ضم کردیا ، جس سے ان علاقوں کے عوام بڑے افسردہ ہوئے اور ان کے حیدرآبادی تہذیب پر بعض مضر اثرات بھی رونما ہوئے ۔

اعلی حضرت میر عثمان علی خان کے والد آصف جاہ ششم نواب محبوب علی خان ایک صوفی منش ، رعایا پرور اور اصلاحات پسند بادشاہ تھے ۔ چنانچہ آصف سابع میر عثمان علی خان نے اپنی خاندانی روایات کو نہ صرف برقرار رکھا ،بلکہ 36 سالہ دور حکومت میں ایسے نمایاں کارنامے انجام دیئے جو شاید ہی اس دور کے حکمرانوں نے انجام دیئے ہوں ۔ نظام حیدرآباد نے ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا اور اس کی سرپرستی کی ۔ ہندو عبادت گاہوں کی تعمیر اور انکی تزئین کے لئے نظام نے ایک بڑا بجٹ مختص کیا تھا ۔ ہندو اور مسلمان کو اپنی دو آنکھوں سے تعبیر کرنے والا یہ بادشاہ سب سے بڑا محب وطن تھا جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو ذریعہ تعلیم انکا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ دارالترجمہ کا قیام ، عثمانیہ دواخانہ ، صدر شفا خانہ یونانی ، صنعتی نمائش کا آغاز ، ہائی کورٹ ، عزا خانہ زہرا ، چومحلہ پیالس ، جوبلی ہال ، آصفیہ لائبریری ، نظام ساگر ، ناگرجنا ساگر ڈیم ، اسمبلی کی موجودہ عمارت  ،نئی دہلی میں حیدرآباد ہاؤس کی تعمیر ، نظام شوگر فیکٹری ، علی ساگر اور بے شمار تعمیرات ان کے سنہری دور کی یادگاریں ہیں ۔
آصف سابع اقتدار سے محروم ہونے کے بعد 19 سال بقید حیات رہے ، لیکن انکی غریب پروری ، عوامی خدمت اور وضعداری قائم رہی ۔ انھوں نے کئی ٹرسٹ قائم کئے ۔ نظام ٹرسٹ کے ذریعہ طلبہ کی مالی امداد ، بیرون ملک اعلی تعلیم کے حصول کے سلسلہ میں ہونہار طلبہ کی امداد کی گئی جن میں سروجنی نائیڈو بھی شامل تھیں ۔ اردو ٹرسٹ اور بے شمار اداروں کے ذریعہ انھوں نے عوامی خدمت کے اپنے مشن کو جاری رکھا ۔ نواب عثمان علی خان نے یہ ثابت کردیا کہ خدمت خلق کے لئے اقتدار پر قائم رہنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا تو جلوس جنازہ میں تقریباً حیدرآباد کی نصف سے زائد آبادی شریک تھی ۔ بعض مسلم اور غیر مسلم اصحاب و خواتین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ انھوں نے عوام کے دلوں پر حکومت کی تھی ۔ جناب صدیقی نے کہا کہ ایسے حکمران کی مثال پورے ملک میں نہیں ملتی ۔
حیدرآباد کے امراء کی ستائش کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کئی امراء نے بعض اہم یادگاروں کے ذریعہ اپنے جذبۂ خدمت کا ثبوت دیا ہے چنانچہ مسلم جنگ نے مسلم جنگ پُل بنادیا ، سکندر جاہ نے سکندرآباد شہر بسایا ، ٹیپو خان نے سرائے اور پل تعمیر کئے ۔ سالار جنگ نے ایک عالمی شہرت یافتہ میوزیم بناکر دنیا کے نقشہ پر حیدرآباد کو دائمی شہرت عطا کی ۔

حیدرآباد کی ہندو مسلم تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس تہذیب نے انسانیت کو سب سے اولین اہمیت دی ۔ چنانچہ پورے حیدرآبادی معاشرہ پر ہندو مسلم تہذیب اور رسم و رواج کے اثرات غالب رہے ۔ شادی بیاہ ہو کہ دیگر تقاریب ، اسی مشترکہ کلچر کے آئینہ دار تھیں ۔ اس دور میں غیر مسلم اصحاب بھی شیروانی اور ٹوپی زیب تن کرتے ۔ چنانچہ ایک واقعہ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا کہ پولیس ایکشن کے بعد کے ایم منشی نے حیدرآباد میں غیر مسلم عہدیداروں کا اجلاس طلب کیا تھا ۔ اس وقت کی حکومت نے صرف غیر مسلم عہدیداروں کو اجلاس میں مدعو کیا تھا ۔ حسب معمول اجلاس میں ایک ہندو عہدیدار شیروانی اور ٹوپی پہن پر آگئے ۔ کے ایم منشی نے سمجھا کہ شاید مسلم عہدیدار کو بھی مدعو کیا گیا ہے ۔ وہ متعلقہ حکام پر برس پڑے ۔ جب انھیںبتایا گیا کہ شیروانی میں ملبوس عہدیدار مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں تو وہ حیرت سے دم بخود ہوگئے ۔ صدیقی صاحب نے بتایا کہ مہاراجہ کشن پرشاد ، رائے جانکی پرشاد ، خواجہ پرشاد اور کئی غیر مسلم ان دنوں شیروانی ہی زیب تن کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ راجپوت اور مارواڑی گھرانوں میں عورتیں پردہ کرتی تھیں ۔ آصف سابع نے بھگوت گیتا کا ترجمہ اردو اور دیگر زبانوں میں کروایا ۔ ان کے عہد میں سرکاری خزانے سے کئی مندر تعمیر کروائے گئے ۔
انھوں نے بتایا کہ اس دور میں جملہ مذہبی امور کے لئے ایک علحدہ محکمہ قائم تھا جو محکمہ امور مذہبی سے موسوم تھا  ۔عیدین ، محرم ، ربیع الاول اور دیگر مذہبی تہوار کے مواقع پر سارے انتظامات محکمہ مذہبی امور کے ذمہ ہوتے ۔ اعلی حضرت آصف سابع ہر جمعہ کو مکہ مسجد میں نماز ادا کرتے اور مسلمانوں سے ملاقات کرتے ۔ مکہ مسجد میں اس دور کے ممتاز عالم دین شیخ الاسلام حضرت بادشاہ حسینی صاحب کا وعظ ہوتاجس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ۔ اس دور میں علماء اور مشائخ کا بڑا دبدبہ تھا ۔ لوگ ان کا بڑا احترام کرتے ۔ دینی مسائل پر ان کی رائے پتھر کی لکیر سمجھی جاتی ۔ علماء بھی فقہی امور اور شرعی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ۔ حکومت بھی علمائے کرام کی سرپرستی کرتی ۔ بعض علماء کے لئے وظائف اور منصب مقرر کئے جاتے ۔  اس دور کے علماء میں بحرالعلوم مولانا عبدالقدیر صدیقی اور مولانا ولی اللہ حسینی ، مولانا نور اللہ حسینی افتخاری ، مولانا پاشاہ حسینی ، ڈاکٹر عبداللطیف ، مولانا حسام الدین ، مولانا حمید الدین حسامی عاقل ، ڈاکٹر کلیم اللہ حسینی ، قاری میر روشن علی اور دیگر کئی علماء شامل ہیں جن کے فیضان سے کئی لوگوں نے استفادہ کیا ۔
اس وقت کے حیدرآباد میں ماں باپ کی عزت کرنا اور ان کی خدمت کرنا اولاد اپنا فریضہ سمجھتی ۔ ماں باپ کے سامنے اولاد پست آواز میں لب کشائی کرتی ۔ بھائیوں ، بہنوں میں محبت بدرجہ اتم موجود تھی  ۔بڑے بھائی ، بہنوں کا احترام کیا جاتا ۔ انکے نام کے استعمال کو بے ادبی تصور کی جاتی ، جیسے بڑے بھائی ، بڑی آپا ، آپا ماں کے القاب استعمال کئے جاتے ۔ حیدرآبادی تہذیب میں ماں باپ کے علاوہ دیگر بزرگوں کے احترام کی روایت رہی  ۔ انھوں نے اسی سلسلہ میں ایک مصرع سنایا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
چھوٹوں سے شفقت ، بچوں سے لاڈ پیار ، پڑوسیوں سے حسن سلوک ، خواہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں کو ناگزیر سمجھا جاتا ۔ عزیز و اقارب کا ایکدوسرے کے گھر آنا جانا لگا رہتا ۔ دکھ سکھ کے موقعوں پر رشتہ داروں کی موجودگی ضروری ہوتی بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں  کے لئے عزیز و اقارب میں ہی رشتے طے کرنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ خاندانوں میں باہمی محبت بے مثال تھی ، مشترکہ خاندان  ، حیدرآبادی تہذیب کی پہچان تھی ۔ صدر خاندان کو حاکمانہ حیثیت حاصل رہی جو ہر فرد خاندان کے مفاد کا نگہبان اور جملہ امور کا نگران ہوتا ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کا ماحول رہا ۔ شیعہ اور سنی ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ۔ محرم میں سنی بھی نہایت عقیدت و محنت سے حضرت امام حسینؓ اور شہیدان کربلا کا غم مناتے ۔ کئی عاشور خانوں کے متولی ، سنی حضرات تھے ۔ حیدرآباد میں کبھی بھی شیعہ ،سنی کا جھگڑا نہیں ہوا ۔ اسی طرح حیدرآباد میں دیگر عقائد کے لوگ بھی بستے رہے لیکن وہ آپس میں شیر و شکر کی طرح رہے ۔ یہ پہلو ہمارے شہروں کو دوسرے شہر سے ممیز کرتا ہے ۔
ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے جناب عبدالقدوس صدیقی نے کہا کہ حیدرآباد کو اردو زبان و ادب کے مرکز اور گہوارہ کی حیثیت حاصل رہی ۔ ریاست کی سرکاری زبان اردو تھی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ عوام میں اردو شاعری اور ادب کی خوب پذیرائی تھی ۔ خود آصف سابع اور وزیراعظم مہاراجہ کشن پرشاد اچھے شاعر تھے ۔ داغ دہلوی ، امیر مینائی ، فانی بدایونی نے حیدرآباد میں مستقل قیام کیا ۔ علامہ اقبال کو بھی حیدرآباد سے بڑی محبت تھی وہ دو بار حیدرآباد آئے ۔ کلام اقبال کا پہلا شعری مجموعہ 1924ء میں کلیات اقبال کے نام سے حیدرآباد میں ہی شائع ہوا ۔ جوش ملیح آبادی بھی کئی بار حیدرآباد آئے اور اس شہر سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار اپنے اشعار کے ذریعہ کیا ۔

حیدرآباد ، اے نگار گل بداماں السلام
السلام اے قصۂ ماضی کے عنواں السلام
حیدرآباد کی نامور ہستیوں اور دانشوروں میں مولانا سید مناظر احسن گیلانی ، مولوی عبدالحق ، خلیفہ عبدالحکیم ، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، ڈاکٹر یوسف حسین ، پروفیسر عبدالقادر سروری ، مولوی فیاض الدین ، شیو موہن لال ، ڈاکٹر زور اور بے شمار شخصیتیں شامل ہیں جنھوں نے علم کی شمع کو نہ صرف روشن کیا بلکہ اسے فروزاں کرتے رہے ۔ حیدرآباد کے اردو اخبارات نے بھی نہایت موثر رول ادا کیا جن میں ، صحیفہ ، مشیر دکن ، رعیت ، رہبر دکن ، نظام گزٹ ، پیام کافی مقبول رہے ۔ رہبر دکن کا نام تبدیل کرکے رہنمائے دکن رکھا گیا ۔ اسکے بعد انگارے ، سیاست اور دیگر کئی اردو اخبار شائع ہوئے ۔
حیدرآباد کے کھانوں کی اس دور میں بھی کافی شہرت تھی ۔ حیدرآبادیوں کو کھانے کے ساتھ ساتھ کھلانے کا بڑا شوق تھا ۔ گھر پر اگر مہمان آجاتے تو ان کی کھانے سے تواضع کی جاتی ۔ بریانی ، بگھارا کھانا ، کھچڑی اور سالنوں میں مرچ کا سالن، ماہی  خلیہ ، دم کے پسندے ، شامی شکمپور ، کوفتوں کا سالن اور نہ جانے کیا کیا نام تھے ان ڈشس کے ۔ شاید ہی ایسی ڈشش دنیا کے کسی گوشے میں میسر تھیں ۔ میٹھوں میں ڈبل کا میٹھا ، میٹھا کھانا ، خوبانی کا میٹھا ، کھیر (گل فردوس) کا ذائقہ ہی کچھ اور ہوتا ۔ پرانا شہر حیدرآباد نیا پل سے شروع ہوتا اور پہاڑی شریف پر ختم ہوتا تھا۔ پتھرگٹی پر تانگے اور رکشے کھڑے ہوتے ۔ اکثر لوگ پیدل جانا زیادہ پسند کرتے ۔ سائیکلوں کا بھی چلن ہوا ۔ حیدرآباد سے باہر کا سفر بیل گاڑیوں سے طے کیا جاتا ۔ دریائے کرشنا اور تنگبھدرا سے گزرنا ہوتا تو بڑے ٹوکروں میں بیٹھ کر دریا پار کرتے ۔ مرغی بارہ آنے ، انڈا ایک پیسہ میں مل جاتا ۔ ایک آنے میں بارہ کوڑیاں ملتی تھیں ۔ ہر چیز سستی تھی اور غریب آدمی کے لئے خریدنا اتنا مشکل نہ تھا ۔ شادیوں میں سادگی اختیار کی جاتی تھی ۔ گھروں کے دالانوں میں نکاح کی تقریب ہوتی یا پھر گھر کے باہر ڈیرا لگادیا جاتا۔  نکاح اکثر صبح کے اوقات میں ہوتا ۔ نہ طلاق کے واقعات اور نہ ہی خلع کے دردناک قصے ۔ اختلافات ہوں بھی تو دونوں خاندان کے بڑے تصفیہ کردیتے اور معاملہ رفع دفع ہوجاتا ۔

برقی نظام موثر نہ تھا ۔ اکثر لوگ سر شام گھر لوٹ آتے اور گھروں میں مغرب کے ساتھ ہی مٹی کے تیل سے قندیلیں اور چراغ جلائے جاتے ۔ لوگ رات کے ابتدائی حصے میں سوجانا پسند کرتے ۔ ٹپہ کا نظام بڑا اچھا تھا ۔ خطوط ہی دور دراز رہنے والے اقرباء اور رشتہ داروں سے تعلقات برقرار رکھنے کا ذریعہ تھے ۔ خط کو نصف ملاقات تصور کیا جاتا ، بعد میں تار (ٹیلی گرام) اور منی آرڈر کا آغاز ہوا ۔ بہرحال زندگی پرسکون اور لوگ قناعت پسند تھے ۔ صبر وشکر اور نفس مطمئنہ سے بھرپور زندگی ہی انکی حقیقی خوشی کا راز تھا ۔
آخر میں مولانا عبدالقدوس صدیقی سے میں نے انکی طویل عمر کا راز بتانے کی خواہش کی تو انھوں نے کہا کہ اللہ کی مرضی اور اس کا کرم ، اس کے بعد بندگان خدا کی دعائیں اور بس ۔ اس شعر کو سنا کر انھوں نے انٹرویو ختم کیا
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا ترکِ مفاجات