حیدرآباد جو کل تھا محمد عبدالرشید انجینئر

عابدصدیقی
نظام الملک آصف جاہ نے 1741ء میں ریاست حیدرآباد قائم کر کے اورنگ آباد کو اس ریاست کا پایہ تخت بنایا تھا ‘ حیدرآباد کی خود مختاری کے بعد نظام الملک کو دہلی کے بادشاہ محمد شاہ نے آصف جاہ کا خطاب دیا تھا اور ان کی وفاداری ‘ جرات و بہادری کے عوض انہیں بے شمار انعامات اور اعزازات سے نوازا تھا ۔ اس طرح اورنگ آباد اور مرہٹواڑہ کے دیگر چار اضلاع ناندیڑ‘ پربھنی ‘ عثمان آباد اور بیڑ ریاست حیدرآباد میں شامل تھے ۔ ان علاقوں کے عوام نے حیدرآبادی تہذیب اور دکن کے تمدن کی آبیاری اور اس کے فروغ میں اپنا حصہ ادا کیا ۔ حیدرآباد ریاست کے ان اضلاع سے ایسی شخصیتیں اُبھریں جنہوں نے علوم و فنون‘ ادب اور دیگر شعبوں کو اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ منور و نایاب کیا ۔ ان ہی شخصیتوں میں محمد عبدالرشید المعروف رشید انجینئر قابل ذکر ہیں جن کی تعلیمی اور سماجی خدمات نے پربھنی کے علاوہ مرہٹواڑہ کے دیگر اضلاع کے عوام میں ترقی اور کامیابی کی اُمنگ پیدا کی ۔

محمد عبدالرشید انجینئر ‘ عثمانیہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں ‘ وہ 1932ء میں پربھنی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی اور ہائی اسکول کی تعلیم اردو میڈیم سے مکمل کی اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان امتیازی نشانات سے کامیاب کیا ۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد انہیں عثمانیہ یونیورسٹی کے کالج آف انجینئر نگ میں بی ای میں داخلہ مل گیا ۔ مرہٹواڑہ سے وہ واحد مسلم طالب علم تھے جن کا یونیورسٹی کے انجنیئرنگ کورس کیلئے انتخاب عمل میں آیا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں مسلم طلبہ کا زیادہ تر رجحان آرٹس کے مضامین میں اعلیٰ تعلیم کی طرف تھا ۔ سائنس اور انجنیئرنگ میں داخلہ کے خواہشمند طلبہ کی تعداد بہت کم تھی ۔ اُن کے داخلہ نے پربھنی اور اطراف و اکناف کے اضلاع میں مقیم بزرگوںاور خود طلبہ میں ایک نیا حوصلہ پیدا کیا اور پھر کئی طلبہ میں انجنیئرنگ اور سائنس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش پیدا ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں عثمانیہ یونیورسٹی کو بین الاقوامی حیثیت حاصل تھی ۔یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ اپنی ڈگری کے ساتھ ‘ عثمانیہ لکھتے تھے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے بی اے کامیاب کیا تو وہ بی اے کے ساتھ عثمانیہ ضرور لکھتا تھاجس سے اس کی ڈگری کی اہمیت اور اس کا وقار بڑھ جاتا ۔ اُس دور میں عثمانیہ کے علاوہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اعزاز حاصل تھا کہ طلباء و طالبات اپنی ڈگری کے ساتھ علی گڑھ لکھا کرتے ۔ انہوں نے یونیورسٹی کی یادو ںکو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ عثمانیہ یونیورسٹی میں اکیڈیمک ماحول تھا ۔ یونیورسٹی میں اردو ذریعہ تعلیم کا آغاز حضور نظام نواب عثمان علی خان کا ایک عظیم کارنامہ تھا ۔ انجنیئرنگ کے ساتھ ساتھ میڈیسن ‘ سائنس ‘ فلسفہ ‘ معاشیات ‘ سیاسیات و دیگر تمام علوم کی کتابیں دستیاب تھیں ۔ یونیورسٹی کے تمام کورس میں مسلم اور غیر مسلم سب ہی طلبہ شامل تھے ۔ اردو کے علاوہ انگریزی کا بھی معیار بہت اعلیٰ تھا ۔ آصف سابع نے عثمانیہ یونیورسٹی میں ایسے استاد مقرر کئے تھے جو عالمی شہرت یافتہ تھے ۔ وہ یوروپ اور دیگر یونیورسٹیوں اور درسگاہوں کے مستند تھے ‘ اُس دور کے اساتذہ اتنے قابل ‘ ماہر اور باصلاحیت تھے کہ ان کا ثانی ملک میں کہیں نہ تھا۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی ‘ قاضی حسین رینگلر‘ کشن چندر ‘ محمد فیاض الدین آرکٹیکٹ ‘ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ‘ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ‘ ڈاکٹر یوسف حسین خان ‘ پروفیسر میکنزی ‘ پروفیسر دورے سوامی‘ پروفیسر عبدالقادر ‘ ڈاکٹر جعفر حسین خان ‘ ترکی کے پروفیسر المامون ‘ ڈاکٹر سید حسین ‘چودھری برکت علی ریاضی داں ‘ شیخ برکت علی ‘ پروفیسر سروری‘پروفیسر محی الدین قادری زور ‘ مولانا عبدالقدیر صدیقی حسرت ‘ پروفیسر عبدالعزیز ‘ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ‘ ڈاکٹر شیو موہن لعل اور بے شمار اساتذہ شامل ہیں ۔ ان اساتذہ نے تدریسی مہارت کے ذریعہ یونیورسٹی کے معیار اور اعتبار کو عالمی معیارات سے ہمکنار کیا ۔ انہی کے فیض تربیت نے ایسے عثمانین پیدا کئے جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی نمایاں خدمات کے باعث یونیورسٹی اور حیدرآباد کا نام روشن کرتے رہے ۔
عثمانیہ یونیورسٹی میں حیدرآباد کے علاوہ کرناٹک اور مہاراشٹرا کے طلبہ بھی زیر تعلیم تھے ۔ الگ الگ علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ ایک مشترکہ تہذیب کا حصہ تھے ۔ کرناٹک اور مرہٹواڑہ کا تمدن حیدرآبادی تمدن میں جذب ہوچکا تھا ۔ کنڑا اورمرہٹی جاننے کے باوجود طلبہ صرف اردو بولنا اور اردو میں لکھنا پسند کرتے ۔ اسی لسانی یکجہتی اور علاقائی یگانگت نے حیدرآبادی تہذیب کو توانا اور مستحکم رکھا ۔

انہوں نے کہا کہ حیدرآبادی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی چند متعصب اور تنگ نظر افراد اور جماعتوں کو ناگوار گزرتی ۔ ایک مسلم ریاست میں مثالی رواداری اُن کیلئے ناقابل برداشت تھی ‘ اسلئے انہوں نے اس اتحاد کو درہم برہم کرنے کیلئے سازشیں کیں جن میں کانگریس کے بعض فرقہ پرست عناصر ‘ کمیونسٹ اور خود حضور نظام کے غدار اور نمک حرام ملازم بھی شامل تھے۔ ریاست حیدرآباد کے حکمران آصف سابع نے کبھی حیدرآباد کو اسلامی ریاست قرار نہیں دیا تھا لیکن فرقہ پرست قوتوں کے لئے اس ریاست کے حکمراں کامسلمان ہوناہی کھٹکتا تھا۔ حالانکہ نظام نے نریندر بہادر ‘ چندولال ‘ مہاراجہ کشن پرشاد اور دیگر غیر مسلم اصحاب کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا ۔ برہمن طبقہ زیادہ تعلیم یافتہ رہا ان کی ترقی کیلئے مواقع بھی زیادہ دیئے گئے ۔ سرکاری ملازمت میں برہمنوں کی بڑی تعداد تھی ۔ دوسری طرف نظام نے نیچی ذات والے ہندوؤں کی ترقی کیلئے بے شمار اقدامات کئے تھے تاکہ انہیں بھی برہمنوں کی طرح مواقع حاصل ہوسکیں ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کرائی تھی جس میں دیگر والیان ریاست سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ حضور نظام کی تقلید کرتے ہوئے پست اقوام اور اچھوتوں کیلئے ترقی کے احکامات جاری کریں اور ان کی تعلیمی اور معاشی حالت کو بہتر بنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ بہرحال تفصیلی واقعات کا ذکر کئے بغیر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں پولیس ایکشن ملک میں بسنے والے اور اقتدار پر رہنے والے بعض متعصب اور تنگ نظر افراد کی ایسی تاریخی غلطی تھی جس کو امن پسند ‘ جمہوریت پسند اور انصاف پسند عوام کبھی معاف نہیں کریں گے ۔
رشید انجنیئر نے کہا کہ ان خونریز واقعات کے باوجود حیدرآباد نے ملک بھر میں اپنی شناخت کو برقرار رکھا ۔ پولیس ایکشن میں مسلمانوں کا زبردست نقصان ہوا ۔ ہندو فرقہ پرست طاقتیں اور خود کم علم اور بے کردار مسلمانوں نے پولیس ایکشن کیلئے قاسم رضوی اور دیگر مسلم قائدین کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ پولیس ایکشن سے جانی اور مالی نقصانات ہوئے ‘ نظام کے اقتدار کو دہلا دیا گیا لیکن حیدرآباد شہر کے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی کردار پر کوئی آنچ نہ آئی ۔ انہوں نے کہا کہ اُس دور میں نواب بہادر یار جنگ کی ولولہ انگیز تقاریر کی بڑی شہرت تھی ۔ اپنی قیامگاہ واقع بیگم بازار پر وہ درس اقبال کا اہتمام کرتے جس میں کئی مسلم نوجوان شرکت کرتے ۔ بہادر یار جنگ نے مسلمانوں کی سونچ و فکر میںانقلاب پیدا کیا ۔ ان کے فیضِ صحبت سے اُس دور کے کئی لوگوں میں ملی خدمت اور ملت کی ترقی کیلئے جذبہ پیدا ہوا‘ اُن میں جناب سید خلیل اللہ حسینی ‘ مولانا سید غوث خاموشی ‘جناب سلیمان سکندر ‘ جناب عبدالرحیم قریشی صدر کُل ہند مجلس تعمیر ملت اور ان کے بے شمار رفقاء تھے ‘ جنہوں نے بعد میں بزم احباب قائم کیا اور اس کے بعد مجلس تعمیر ملت کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اُس دور کے قائدین میں علامہ رشید ترابی ‘ شیخ الاسلام مولانا سید بادشاہ حسینی قادری اور دیگر کئی علماء کا شہرہ تھا۔ ماہ ربیع الاول میں سیرت النبیؐ کے جلسوں کا اہتمام ہوتا ۔ پہلی ربیع الاول سے 12ربیع الاول تک مجالس اور خطابات ہوتے ‘ میلاد کی محفلیں منعقد کی جاتیں ۔ رشید انجنیئر نے کہا کہ خود انہیں قائد ملت کی تقاریر سننے کا موقع ملا اور اُن سے ملاقات کا بھی شرف حاصل رہا ‘ وہ نہایت باصلاحیت دور اندیش اور باکردار مسلم رہنما تھے ان کی خدمات پر یہ شعر یاد آتا ہے :

شورش عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ کلی کلی یہاں مست تھی خواب ناز میں
ایک دلچسپ بات انہوں نے بتائی کہ حیدرآباد میں اسلامی مہینوں کے نام اُس مہینہ کی اہمیت سے کہے جاتے جیسے ربیع الاول کو 12ویں کا مہینہ ‘ ربیع الثانی کو دستگیر کا مہینہ ‘ جمادی الاول کو مدار کامہینہ ‘ جمادی الثانی کو حسین شاہ ولیؒ اور محرم کو شہادت کا مہینہ ‘ صفر کو تیرہ تیزی کا مہینہ ‘ ذیقعدہ کو بندہ نواز کہا جاتا ۔ اسی طرح دیگر مہینوں کے نام بھی مخصوص نوعیت کے تھے ۔ حیدرآبادی گھرانوں میں محرم بھی بڑے اہتمام سے منایا جاتا ۔ شیعہ کے ساتھ ساتھ سنی طبقہ میں بھی شہیدان کربلا کا سوگ منایا جاتا ۔ محرم کے بارہ دنوں تک گوشت سے پرہیز کیا جاتا ‘ روزے رکھے جاتے ۔ حیدرآباد کا محرم سارے ملک میں مشہور تھا ۔ کئی عاشورخانوں کے متولی سنی حضرات ہوتے ۔ بی بی کا علم جب دبیرپورہ سے برآمد ہوتا تو شیعہ اور سنی مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم مرد و خواتین کی آنکھیں اشک بار ہوتیں ۔ کربلا کے سانحہ کی یاد ان کیلئے مشترک غم تھا ۔ ایک روایت ہے کہ یوم شہادت کووہ ہاتھی جس پر بی بی کا علم ایستادہ ہوتا اس ہاتھی کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوتے ‘ خاص طو رپر چارمینار کے پاس سے گزرتے ہوئے اُس ہاتھی کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ‘ اس کے کئی لوگ شاہد ہیں ۔ حیدآبادی تہذیب کا اثر تھا کہ عوام میں بھی امن پسندی اور آپسی بھائی چارگی غیر معمولی تھی ۔ خوشی اور غم ملاکر منانے کا یہ اہتمام صرف حیدرآباد ہی میں رہا ۔
رشید انجنیئر نے کہا کہ حیدرآبادی صحافت قومی صحافت سے کم نہیں رہی ۔ ابتداء ہی سے اردو صحافت نے ہر عہد میں عوامی شعور کی بیداری ‘ مکمل معلومات کی فراہمی اور عوامی احساسات کو اقتدار کے گوشوں تک پہنچانے کا اپنا فریضہ ادا کیا ۔ حیدرآباد کے اخبارات رہبر دکن ‘ مشیر دکن اور صحیفہ جیسے اخبارات سے لیکر نظام گزٹ ‘ رہنمائے دکن ‘ پیام‘ میزان ‘ انگارے ‘ سیاست ‘ ملاپ جیسے اخبارات نے عوام کی نہایت جرات سے خدمت کی۔ انہوں نے کہا کہ نظام گزٹ میں آصف سابع کے فرمان شائع ہوا کرتے تھے ۔ عام طور پر اردو اخبارات نے مثبت اور صحت مند پالیسی کو اختیار کیا تھا ۔تاہم زرد صحافت کے چند نمونے ایک دو ہفتہ وار اورپندرہ روز جرائد میں نظر آتے ۔ اردو اخبارات کا معیار دیگر ریاستوں کے اخبارات سے بلند تھا ۔

انہوں نے بتایا کہ طالب علمی کے زمانہ اور پھر ملازمت کے دوران انہیں ہمیشہ ملت کا درد ستاتا رہا ‘ چنانچہ ایگزیکٹیو انجنیئر کے عہدہ پر فائز ہونے کے کچھ عرصہ بعد یعنی 1990ء میں وہ ملازمت سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوئے اور خود کو ملت اسلامیہ کی خدمت کیلئے وقف کردیا ۔ علامہ اقبال کے افکار نے انہیں میدان عمل میں آنے کی ترغیب دی ۔ قائد ملت بہادر یار جنگ ‘ سید خلیل اللہ حسینی ‘ سید سلیمان سکندر اور مولانا عبدالرحیم قریشی جیسی شخصیتیں ان کیلئے سرچشمہ وجدان بنی رہیں ۔ اس پس منظر میں انہوں نے حیدرآباد کی کئی اہم شخصیتوں کو یاد کیا جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے حیات کو اپنی شخصیت اور صلاحیتوں سے بام م عروج پر پہنچایا ‘ بلکہ حیدرآباد کی کئی شخصیتوں نے عالمی شہرت حاصل کی ۔ ان سب کے نام لینا ان کیلئے مشکل ہے ‘ دوسری طرف حیدرآباد اولیاء اللہ کا گہوارہ رہا ہے جن کی روحانی عظمتوں اور جن کے تصرفات و فیوضات نے اس شہر کو فرخندہ اور تابندہ رکھا ۔ ہزاروں طوفان آئے ‘ سیاسی انقلابات آئے لیکن حیدرآباد اپنی آن بان اور اپنی تہذیبی عظمتوں کے ساتھ باقی رہا ۔ بقول مجروح سلطان پوری :
سرپرہوائے ظلم چلے سوجتن کے ساتھ
اپنی کُلاہ کج ہے اُسی بانکپن کے ساتھ
رشید انجنیئر نے کہا کہ اُس دور کا حیدرآباد نہ صرف سیاسی طور پر مستحکم تھا بلکہ معاشرہ میں اخلاق ‘ کردار اور شرافت کا دور دورہ تھا ‘ کسی کی عظمت کا معیار دولت یا جاہ و اقتدار نہیں بلکہ اس کی خاندانی شرافت اور ذاتی قابلیت تھا ۔ شادی بیاہ کے معاملات ہوں کہ خاندانی تعلقات لوگ محبت ‘ مروت اور باہمی احترام کا بڑا لحاظ کرتے ‘ خاندان کے اندر ہی اکثر لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتے طئے کردیئے جاتے تاکہ محبت اور خلوص میں اضافہ ہو ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مہاراشٹرا کے مختلف اضلاع میں جو تعلیمی انقلاب رونما ہوا وہ حیدرآباد کا مرہون منت ہے ۔ چنانچہ وہ خود سونچتے کہ انہیں مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کیلئے کام کرنا ہوگا ۔ ان کا خواب تھا کہ ریاست کے ہر ضلع میں ایک سرسید پیدا ہو جو مسلم معاشرہ میں تعلیمی انقلاب کا نقیب بن سکے ۔ چنانچہ پربھنی میں انہوں نے پربھنی ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کی جس کے تحت 16اسکولس قائم کئے گئے ‘ اس کے بعد ناندیڑ میں جناب فاروق کی رہنمائی میں کئی اسکولس کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس طرح اور بھی اضلاع جیسے اورنگ آباد اور بیڑ وغیرہ میں تعلیمی اصلاحات کی لہر پیدا ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اب بھی کُل ہند مجلس تعمیر ملت کے نائب صدر ہیں اور ہفتہ میں تقریباً تین دن حیدرآباد میں قیام کرتے ہیں ۔ اُن کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر پر حیدرآباد کے اثرات نمایاں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں شادی بیاہ میں مطالبات ‘ جہیز اور بے جا رسومات دراصل ہندو مسلم مشترکہ کلچر کا نتیجہ تھے لیکن رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی تعلیم ‘ مذہبی شعور کے باعث یہ خرافات کم ہونے لگے ہیں۔ اب مسلم دولھے کے چہرہ پر قدآدم سہرا نظر نہیں آتا ‘ جہیز کی فہرستوں کے تبادلے عمل میں نہیں آتے ‘ اگر علماء سخت ہوجائیں تو صورتحال مزید بہتر ہوسکتی ہے ۔
رشید انجنیئر نے کہا کہ کل کا حیدرآباد تہذیب و ثقافت کی مضبوط بنیادوں پر کھڑا تھا ‘ زمانے اور حالات کے سرد و گرم سے یہ بنیادیں متاثر ضرور ہوئی ہیں لیکن منہدم نہیں ہوئی ہیں ۔ آباو اجداد کی تربیت کے اثرات کئی گھرانوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ آج کے حیدرآبادی معاشرہ میں بھی وہ تہذیبی نقوش کہیں دھیمے تو کہیں ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں ‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کی نسل اُس تہذیبی سرمایہ کا احیاء کرنے کی کوشش کرے ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے کی شخصیت اور کردار اس شعر کے مصداق ہے کہ :
حلقہ یاراں ہو تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن