عابد صدیقی
اورنگ آباد علمی اور ادبی اعتبار سے حیدرآباد دکن کا ایک سرسبز و شاداب علاقہ رہا ہے ۔ جہاں کی بے شمار شخصیتوں نے زبان و ادب کو اپنے فکر و فن اور اعلی صلاحیتوں کے ذریعہ مالا مال کیا ہے ۔ ان نامور شخصیتوں میں محترمہ سیدہ مہر بھی ہیں ۔ جو اردو دنیا کے لئے محتاج تعارف نہیں ہیں ۔ ایک مقبول افسانہ نگار ، انشاء پرداز ، شاعرہ اور اردو ادب کی قابل احترام استاد کی حیثیت سے انہوں نے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں طالبعلمی کے دور سے آج تک سیدہ مہر کا علمی و ادبی سفر جاری ہے ۔ اپنی عمر عزیز کے اس طویل سفر کو انہوں نے پڑھنے لکھنے اور زبان و ادب کی خدمت میں گذارا ہے ۔ یہی ان کی پرسکون اور پرمسرت زندگی کا راز ہے ۔ اورنگ آباد میں ان سے ملاقات کے دوران جب میں نے حیدرآباد جو کل تھا کے لئے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اس سلسلہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد نے نہ صرف زبان وادب بلکہ زندگی کے کئی شعبوں کو اعلی اقدار عطا کئے ہیں ۔ حیدرآبادی تہذیب ، یونان اور مصر و روما کی تہذیبوں سے بھی برتر رہی ہے ۔ اس تہذیب کی پروردہ شخصیتوں نے دنیا میں علم و ادب ، سیاست ، معیشت اور معاشرت کو بام عروج پر پہنچایا ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو ماضی کے اعلی اقدار ، انسانی رویوں اور حیدرآباد کے تہذیبی اثاثہ سے واقف کروایا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کے شب وروز میں ان خوشگوار روایتوں کے تسلسل کو باقی و برقرار رکھ سکیں ۔
سیدہ مہر 1927 ء میں حیدرآباد کے معزز مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں ، ان کی ابتدائی تعلیم گوشہ محل اور نامپلی گرلز ہائی اسکول میں ہوئی ۔ انٹرمیڈیٹ انہوں نے ویمنس کالج (کوٹھی) حیدرآباد سے کیا اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی سے خانگی طور پر گریجویشن کی تکمیل کی ۔ بعد میں وہ پیشہ تدریس سے وابستہ ہوگئیں اور اپنی شادی کے بعد مرہٹواڑہ کے ضلع جالنہ میں قیام پذیر ہوئیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس دور میں حیدرآباد کے معاشرہ میں قدامت پسندی زیادہ تھی ، اکثر گھرانوں میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا تھا، تعلیم کا مطلب یہی تھا کہ قرآن شریف ناظرہ کی تکمیل کروائی جائے اور پڑھنا لکھنا اس حد تک ہو کہ کم ازکم دھوبی کا حساب لکھنا آجائے ۔ قرآن شریف پڑھانے کے لئے بھی معلمہ یا پھر بزرگ مرد کو مقرر کیا جاتا ۔ لڑکیاں گھر کی چار دیواری میں سمٹ کر رہ جاتیں ، انھیں پکوان ، سلائی اور صاف صفائی کی تربیت دی جاتی ۔ عام طور پر والدین لڑکوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دیتے ، بعض گھرانوں میں لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ وسطانوی جماعتوں تک اسکولس کو روانہ کیا جاتا ۔ کچھ خاندانوں میں تو جیسے ہی لڑکی سن بلوغت کو پہنچ جاتی اس کی تعلیم ترک کروادی جاتی ۔ پردہ اتنا سخت تھا کہ لڑکیوں کو کسی اجنبی سے گفتگو کرنے کی بھی آزادی نہ تھی ۔ شرم و حیا کا پاس و لحاظ اس حد تک ہوتا کہ لڑکیاں اپنے بزرگوں کے سامنے بھی لب کشائی کی ہمت نہ کرتیں ، گھر پر عزیز و اقارب آجائیں تو ان کے سامنے سر پر اوڑھنی اوڑھے بغیر آنے کی اجازت نہ تھی ، عورت کی آواز گھر کے باہر سنائی دینے کو معیوب تصور کیا جاتا تھا ۔ یہ قدامت پسندی بعض صورتوں میں بڑی تکلیف دہ معلوم ہوتی ۔
سیدہ مہر نے بتایا کہ خوش قسمتی سے ان کے خاندان میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کو بھی بڑی اہمیت حاصل رہی ، ان کے والد نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ تعلیم نسوان کے پرزور حامی تھے ، چنانچہ انہوں نے اپنے سب ہی بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دلوائی ۔ والدہ بھی نہایت روشن خیال خاتون تھیں اور اردو زبان سے گہری محبت رکھتی تھیں چنانچہ والدہ نے بچوں کو بچپن ہی سے اردو پڑھانا شروع کیا اور اصلاحی کہانیاں سنا کر ان میں زبان سے محبت پیدا کرنے اور اخلاق و کردار سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں ۔ حیدرآباد کے دیگر گھرانوں میں بھی یہ طریقہ کار رہا کہ گھر کے بزرگ قصص الانبیاء اور دیگر مذہبی واقعات سنا کر سیرت سازی کا کام انجام دیتے تھے ۔ گویا گھر زندگی کا پہلا مدرسہ ہوتا ۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ عثمانیہ یونیورسٹی اس دور میں بین الاقوامی شہرت کی حامل تھی ۔ جامعہ کے قابل اور ماہر اساتذہ کے ساتھ ساتھ اس کے معیار تعلیم کی کافی شہرت رہی ۔ شعبہ اردو میں محترمہ زینت ساجدہ ، محترمہ رفیعہ سلطانہ اور محترمہ جہاں بانو نقوی جیسے قابل ترین اساتذہ کی شاگردی کا انھیں شرف حاصل رہا ۔ فارسی شعبہ کی صدر رفیعہ بیگم اور اردو کی محترمہ زینت ساجدہ نے ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی ۔ شوکت اعظمی ان کی ہم جماعت رہیں جو بعد میں مشہور شاعر کیفی اعظمی کی شریک حیات بن گئیں ۔ ویمنس کالج میں متوسط و اعلی گھرانوں کی لڑکیاں پڑھتی تھیں ۔ شوخی و شرارت کے ساتھ ساتھ پڑھائی سے دلچسپی کا ماحول رہا ۔ ادبی جلسے ، تقریری ، تحریری اور بیت بازی کے مقابلے ہوا کرتے ۔ مشہور شعراء کے اشعار لڑکیاں اپنی کاپیوں میں لکھا کرتی تھیں ، اس زمانے میں ٹیلی ویژن نہیں تھا اور کئی گھرانوں میں ریڈیوسیٹ بھی نہیں تھے ۔ صرف کتابیں و رسائل کا مطالعہ دلچسپی کا باعث ہوتا ۔ گھروں کے قریب کتب خانے اور دارالمطالعہ ہوا کرتے جہاں ایک دن کے لئے ایک ناول ایک روپئے میں دستیاب ہوجاتی ۔ اکثر خواتین ناولوں کا مطالعہ کرتی تھیں ۔ اے آر خاتون ، مسرور جہاں ، رضیہ بٹ ، زبیدہ خاتون ، عصمت چغتائی ، شوکت تھانوی اور دیگر ناول نگاروں و افسانہ نگاروں کی تخلیقات بہ کثرت پڑھی جاتیں ۔ سیدہ مہر نے بتایا کہ انھیں اسکول سے ہی مضامین لکھنے کا شوق تھا ۔ چنانچہ ان کی ایک ٹیچر عزت جہاں بیگم نے انھیں ’’فیشن اور لڑکیاں‘‘ کے موضوع پر مضمون لکھنے کے لئے کہا ، انہوں نے بڑی محنت سے یہ مضمون لکھا جس کی انھیں خوب داد و ستائش ملی ، اس دور میں بیسویں صدی ،شمع ، عکس ادب اور کئی مشہور رسائل کا بڑی پابندی سے مطالعہ کیا کرتی تھیں اور پھر وہ افسانہ نگاری کی طرف راغب ہوئیں ان کے کئی افسانے ادبی رسائل میں شائع ہوئے ۔ وہ روزنامہ سیاست کی ممنون ہیں کہ جناب محبوب حسین جگر مرحوم کی حوصلہ افزائی کے باعث ان کے کئی مضامین سیاست میں بھی شائع ہوئے ۔ ان کے نثری مضامین کا مجموعہ ’’ذکرِ جاودان‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ اخبار سیاست کے علاوہ ماہنامہ ’سب رس‘ ، ’صبا‘ ’پیام‘ ’عکس اردو‘ اور ’اورنگ آباد ٹائمز‘ میں بھی ان کے بیشتر مضامین شائع ہوئے ۔ انہوں نے اپنے مضامین میں لڑکیوں کی آزادی ، جہیز کی لعنت ، سماجی مساوات ، جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے ۔
انہوں نے حیدرآبادی معاشرہ کے تناظر میں عورتوں کو وسیع تر اختیارات دینے کی بھی وکالت کی ۔ اس پس منظر میں انہوں نے بتایا کہ ماضی میں والدین اپنے بچوں کی شادی طے کرنے سے قبل ان کی مرضی معلوم کرنا بھی گوارہ نہ کرتے ۔ لڑکے و لڑکی کو اپنے ہونے والے شریک حیات کو دیکھنے کا تک اختیار نہ تھا ، لڑکے اور لڑکی کے خاندان کو دیکھ کر شادی طے کردی جاتی ۔ لڑکے کی تعلیم ، ملازمت اور ذاتی اوصاف کو ضمنی حیثیت حاصل تھی ۔ ماں باپ ان کے مقدر کا فیصلہ کرتے ، تاہم اکثر صورتوں میں ماں باپ کا انتخاب ہی درست رہتا ۔ شادی سے قبل دونوں خاندانوں کے بزرگ شادی کی تاریخ ، مقام اور دیگر تفصیلات باہمی مشورہ سے طے کرتے ، جوڑے کی رقم دینے کا رواج تھا لیکن عام طور پر یہ رقم معمولی ہوتی ۔ 3000 تا 5000 روپئے بطور جوڑے کے طے کئے جاتے ۔ مہر مقرر کرنے کے لئے کوئی تکرار نہیں ہوتی بلکہ لڑکے کی مرضی کو اہمیت دی جاتی ۔ لڑکے والے جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں کرتے بلکہ لڑکی کے والدین جہیز دینے کو ایک اخلاقی فریضہ تصور کرتے ۔ جوڑے کی رقم دینے کے لئے ’’پاؤں میز‘‘ کی رسم ہوتی ۔ جس میں لڑکی کے کپڑوں کے ناپ کے ساتھ ساتھ نہایت سلیقہ سے کشتی میں جوڑے کی رقم اور ناپ کا کپڑا سجا کر رکھا جاتا ۔ ایک دوسرے کا منہ میٹھا کیا جاتا ۔ اس رسم کے بعد شادی کی تقاریب کا آغاز ہوجاتا ۔ شادی سے چار یا پانچ دن قبل ’’مانجھوں‘‘ کی تقریب ہوتی ۔ مانجھوں کی تقریب سے ہی دلہن زرد لباس میں ملبوس ہوتی۔ اس کے لئے ایک رنگ تخت بچھایا جاتا جس کا فرش پیلا ہوتا تھا ، گھر والوں اور مہمانوں کے لئے ’’گلگے و ملیدہ‘‘ بنایا جاتا ۔ رت جگا کا اہتمام ہوتا ، دلہن کو مہندی لگائی جاتی اور ابٹن سے اس کا جسم معطر کیا جاتا جس کی خوشبو اور مہک دور دور تک پھیل جاتی ۔ کہا جاتا ہے کہ کئی خواتین دلہن کے پاس اپنی دستیاں لا کر رکھتی تھیں تاکہ اس کی خوشبو دستیوں میں بس جائے ۔ سانچق تک ہر روز ، عزیز و اقارب دلہن کو پھول پہنایا کرتے اور وہ بھی زرد لباس میں ملبوس ہوتے ۔ بعض گھرانوں میں دلہے کے بھی مانجھے ہوتے ۔ دلہن کی بہنیں اور لڑکیاں ڈھول بجاتیں اور ڈھولک کے گیت سے خوشیوں کا ماحول بن جاتا ۔ ہلدی پھوڑنے کی رسم بھی ادا کی جاتی ۔ حیدرآباد میں شادی سے ایک دن قبل سانچق کی رسم کا بھی رواج رہا ہے ۔
سانچق میں دلہے والے دلہن کے لئے قیمتی جوڑے لاتے ، بری کا سامان بھی شامل رہتا ۔ سمدھنیں قیمتی لباس میں ملبوس رہتیں ۔ اس زمانے میں دلہا اور دولہن کو دالان میں پھول پہنانے کا رواج تھا ، سانچق کے دن دلہن کے ہونٹوں کو مسّی سے لبریز کردیا جاتا اور زیور پہنائے جاتے جن میں چندن ہار ، ڈنڈ کے کڑے ، ٹھسی ، نکلس ، کرن پھول شامل ہیں ۔ دونوں خاندانوں میں مذاق و دل لگی کا ماحول ہوتا لیکن یہ تہذیب کے دائرے میں ہوتا ۔ سانچق کے بعد دلہن والے دلہا کے گھر مہندی کی رسم ادا کرنے جاتے ، دلہے کو چوکی پر بٹھایا جاتا ، ایک طرف دلہے کی سالیاں براجمان ہوتیں ، بیچ میں پردہ پڑا رہتا اور دلہے کی انگلیوں پر مہندی لگائی جاتی ۔ اس رسم کے دوران بھی کافی مذاق اور دل لگی کی جاتی ، سالیاں اپنے ہونے والی بہنوئی سے زیادہ سے زیادہ نیگ (رقم) کا مطالبہ کرتیں اور اس کے بعد ہی دلہے کا ہاتھ چھوڑتیں ۔ اسی طرح دلہے کے جوتے چھپائے جاتے اور پیسے لے کر جوتے واپس کئے جاتے ۔ شادی کے دن دلہے کی آمد پر گیٹ کے پاس دلہے کو دھنگانے کی رسم ادا کئے بغیر شادی خانہ میں داخلہ کی اجازت نہ ہوتی ۔ بہرحال اس طرح کے مذاق کا مقصد دونوں خاندانوں کے درمیان محبت و خلوص کو بڑھاوا دینا ہوا کرتا ۔ شادی کے دوسرے روز چوتھی کی رسم ادا کی جاتی ، دلہا کے گھر میں رنگوں سے کھیلا جاتا تھا اور سمدھن ملاوا کی رسم بھی ادا کی جاتی ۔ ولیمہ کی تقریب دلہے کی طرف سے ادا ہوتی ۔ شادی کی تمام تقاریب کا اختتام پانچ جمعگیوں تک ہوتا ۔ شاید یہ رسومات اب باقی نہیں رہیں لیکن اس دور میں ان رسومات کا مقصد نہ صرف دلہا ودلہن میں پیار و محبت بڑھانا بلکہ دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنا تھا ۔ سیدہ مہر نے بتایا کہ بعض گھرانوں میں اگر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہوجائے تو گڑیوں کی شادیاں انجام دی جاتیں ۔ اس کے پس پردہ یہ تصور تھا کہ شاید گڑیوں کی شادیاں کرنے پر حقیقی شادی کے امکانات روشن ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم شادیوں کی کئی رسومات پر ہندو گھرانوں کے رسومات کا اثر رہا کیونکہ حیدرآباد ایک مشترکہ تہذیب کا گہوارہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس دور میں نہ صرف شادیاں بلکہ کئی دعوتیں اور نیازیں بھی ہوا کرتی تھیں ۔ گھروں میں نہ صرف عزیز و اقارب بلکہ ملازمائیں بھی بڑی ہمدردی سے ان کاموں میں حصہ لیا کرتیں ، دعوتوں میں کنڈوں کی فاتحہ کا اہتمام حیدرآباد کے اکثر مسلم گھرانوں میں ہوا کرتا جس میں عزیز و اقارب کے علاوہ غریبوں کی بھی بڑی تعداد شامل رہتی ۔ اسی طرح گیارہویں کی دعوتیں بھی مسلم معاشرہ میں ناگزیر حیثیت رکھتی تھیں ۔
سیدہ مہر نے بتایا کہ پولیس ایکشن کے وقت وہ جالنہ میں مقیم تھیں جو تباہی کا شکار ہوا ان کے کسی عزیز کی مدد سے انھیں مال گاڑی سے اپنے خاندان کے ہمراہ حیدرآباد آنا پڑا ، ان کے گھر کا پورا سامان لُٹ چکا تھا اور ذہن و دل پر پولیس ایکشن کی تباہیوں کے واقعات کا اثر ایک عرصہ دراز تک برقرار رہا ۔ اس کی سیاسی وجوہات میں گئے بغیر وہ صرف اتنا ہی کہیں گی کہ ایک مسلم حکمران کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے سینکڑوں معصوم انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ چنانچہ انہوں نے پولیس ایکشن پر ایک مضمون بھی لکھا ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد اور حیدرآبادیوں نے کئی نشیب و فراز دیکھے لیکن ان کے پائے استقامت میں کوئی جنبش نہیں آئی ۔ انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس مصرعہ پر اپنی گفتگو ختم کی ۔
مرنے کو ہم زندہ رہ گئے