حیدرآباد جو کل تھا ساجد اعظم

محبوب خان اصغر
حیدرآباد دکن ابتداء ہی سے آندھرا پردیش اور اب تلنگانہ کے دل کی دھڑکنوں کا محور رہا ہے ۔ اس بے مثال و بے نظیر شہر کی تاریخ ، تہذیب  ،تمدن اور یہاں کی بھائی چارگی لازوال ہے ۔ یہاں کے سیکولر کردار کا شہرہ ساری دنیا میں ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بلا تفریق مذہب و ملت آپس میں شیر و شکر کی طرح رہتے آئے ہیں جو اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ یہاں نفاق نہیں یگانگت ہے ۔ نفرت نہیں محبت ہے ۔ فاصلے نہیں قربت ہے ۔ کثرت میں وحدت کا جو تصور یہاں ہے کہیں اور نہیں ہے ۔ ان خیالات کا اظہار جناب ساجد اعظم نے کیا جو ہمارے ساتھ اپنی خوشگوار یادوں کو شیئر کررہے تھے ۔
ملک اعظم حسین خان المعروف ساجد اعظم حیدرآباد ہی میں اپنے والد ملک محمد حسین خان صاحب کے گھر تولد ہوئے ۔ آباء و اجداد کا سلسلہ قبیلہ ناغڑ سے تھا ۔ جد کا نام نواب احمد بخش خان ناغڑ تھا جو ریاست نرہڑ شفاوٹی کے آخری نواب عبدالکریم خاں کی اولاد میں سے تھے ۔ وہ شمال سے 1830 میں شہر حیدرآباد آئے تھے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ ان کے دادا نے وقار الآمراء کی سرپرستی میں پولو polo کی شروعات کی تھی ۔ وہ فن سپہ گری میں یکتائے زمانہ تھے ۔ اس زمانے میں مردانہ کھیلوں میں پولو پسندیدہ اور اہم کھیل تھا وہ کپتان بھی تھے ۔ ان کے والد بھی اپنے والد کی طرح پولو کے ساتھ ساتھ شکار اور گھوڑ سواری میں ماہر تھے بعد میں وہ معین الدولہ پولو ٹیم کے کپتان بھی رہے ۔ سبکدوشی کے بعد محکمہ دیوانی میں مہتمم شکارگاہ کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ اس شعبہ میں ان کی خدمات 1950 تک برقرار رہیں ۔

ساجد اعظم نے بتایا کہ ان کے خاندان کے اکثر لوگ وکٹوریہ پلے گراؤنڈ کے نزدیک دیوڑھیوں میں مقیم تھے ۔ 1908 کی طغیانی کے بعد حیدرآباد کے مختلف محلوں میں یہ خاندان بکھر گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ناغڑ خاندان حیدرآباد کا ایک مہذب اور معروف خاندان رہا ۔ آصف جاہی دور حکومت میں اس خاندان کے بہت سے لوگوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ۔ انہوں نے ایک واقعہ بتایا کرتے ہوئے بتایا کہ فضل رسول خان ناغڑ محکمہ سراغ رسانی سے وابستہ تھے جو کہ ان کے حقیقی چچا تھے ۔ انہوں نے اپنی خاندانی روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کے نام اسلاف کے ناموں پر رکھے جاتے تھے ۔ چچا کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے کا نام بھی فضل رسول خان رکھا گیا تھا ۔ ساجد اعظم کے مطابق آج بھی ان کے افراد خاندان مبارک منزل رام کوٹ میں آباد ہیں ۔
ساجد اعظم کے مطابق انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ، بعد میں ان کی تعلیم کا سلسلہ انوار العلوم تحتانیہ ، چادر گھاٹ مڈل اسکول ، انوار العلوم ہائی اسکول میں جاری رہا ۔ اردو اورینٹل کالج سے انٹرمیڈیٹ کے بعد جامعہ عثمانیہ سے بی اے کی سند حاصل کی اور سرپرستوں کی ایما پر اردو پنڈت کی ڈگری کیلئے متعلقہ کورس کامیاب کرلیا مگر پیشہ تدریس کو اختیار کرنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی ۔
ساجد اعظم نے بتایا کہ پولیس ایکشن کی تباہ کاریاں ان کے لاشعور میں آج بھی محفوظ ہیں جیسے ان کی بچپن کی آنکھوں نے دیکھا تھا ۔ انہوں نے کچھ واقعات اپنے بزرگوں سے سنے تھے وہ بھی ان کے ذہن کے اوراق سے چپکے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ہرسُو خوف ، ہراس اور سراسمیگی کا عالم تھا ۔ شہر پر حملہ کئے جانے کا ڈر تھا ۔ ہر طرف اندیشوں کے ہولناک سائے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ گھروں کے صحنوں میں بڑے بڑے کھڈ کھودے گئے تھے تاکہ ہوائی حملوں کی صورت میں ان میں پناہ لی جاسکے۔ اس پُرآشوب ماحول نے ہر شہری کو پرامن مقام تلاش کرنے پر مجبور کررکھا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ قرب و جوار کے علاوہ اضلاع سے بھی بے شمار رشتہ دار اور شناسا مبارک منزل آگئے تھے ۔ دکن ریڈیو سے نشر ہونے والی خبریں سننے کا اشتیاق بڑھ گیا تھا ۔ اس دور کے اخبار نظام گزٹ ، رہبر دکن اور ہمارا اقدام ہر کس و ناکس کے ہاتھوں میں دیکھے جاتے تھے۔ حالات سے باخبر ہونے کے یہی ذرائع تھے ۔ ان دنوں میڈیا کی سحر طرازی نہیں تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ سائرن کے بجنے پر انکی والدہ نے انہیں گود میں اٹھالیا اور کھڈ میں کود گئی ۔ سقوط حیدرآباد کے بعد شہر میں بالخصوص ضلعوں میں معاشی بدحالی بڑھ گئی تھی ۔ لال چاول ، چنے اور کھجور راشن کی دکانوں سے فراہم کئے جاتے تھے ۔ انہوں نے اس دور کے پردے سے متعلق کہا کہ ہاتھ کے رکشوں کا رواج تھا جس میں پردے لازمی طور پر ہوا کرتے تھے اگرچیکہ ٹانگے بھی مستعمل تھے مگر پردہ از حد ضروری تھا ۔
اعظم صاحب کے مطابق وہ اردو کے طالبعلم ہیں ۔ اردو زبان سے انہیں عشق ہے ۔ 1950 کے دور کو انہوں نے سنہرے دور سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں اردو اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ زندہ تھی ۔ اور ہر محکمے میں اردو ہی مروج تھی ۔ اردو کے رسائل پڑھے جاتے تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک عزیز اعظم راہی کے حوالہ سے بتایا کہ وہ ماہنامہ پیکر کے مدیر تھے ۔ ان کی صحبتوں نے ان کے اندر ادبی ذوق کو پروان چڑھایا ۔ انہوںنے بزم شکیل قائم کی تھی جس کے تحت ادبی محفلیں اور مشاعرے ہوا کرتے تھے چنانچہ جگر ، شکیل بدایونی ، خمار ، راز الہ آبادی ،فنا نظامی اور دوسرے شعراء و ادیب کی قربت نے انہیں فیض پہنچایا تھا ۔ اور افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے ۔ ہند و پاک کے موقر جرائد میں انکی کہانیوں کی اشاعت نے انکا حوصلہ بڑھایا ۔ 1966 میں ترقی پسند تحریک کے مندوب کے طور پرانھیں دہلی مدعو کیا گیا تھا یوں انہیں اپنے رفقاء سمیت ترقی پسند عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا تھا ۔ مخدوم دیدہ بینا رکھتے تھے ۔ نوواردوں میں انہیں پوشیدہ تخلیقی جراثیم نظر آجاتے تھے ۔

افسانوی مجموعہ ’’میرا غم‘‘ کے خالق ساجد اعظم نے بتایا کہ ایک اور افسانوں کا مجموعہ زیر طبع ہے ۔ نیز فلمی صنعت کے سو سال اردو کے ساتھ کے عنوان سے ان کی ایک اور تصنیف طباعت کے آخری مراحل میں ہے ۔ حلف (حیدرآباد لٹریری فورم) کے بانیوں میں شامل ہیں ۔ ٹیلی ویژن کے لئے اسکرپٹ لکھے ۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ ضلع کھمم میں ان کی جاگیر تھی جس پر زراعت کی جاتی تھی ۔ روپیوں کی ریل پیل ابتداء ہی سے رہی مگر اردو سے گریجویشن کرنے کے بعد ہی سرکاری ملازمت نہ ملنے کا انہیں افسوس ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد دکن کے مایہ ناز شاعر شاذ تمکنت ایک بڑی تشہیری کمپنی عذرا (IZRA) میں فلموں کے اشتہارات لکھا کرتے تھے اور اس شعبہ سے انہیں بھی خاص دلچسپی تھی جس کی بنا پر انہوںنے ’’اعلان‘‘ Elaan نامی تشہیر ادارہ شروع کیا جس کے تحت فلموں اور ٹی وی سیریلس کے علاوہ ریڈیو کی تشہیر بھی کی ۔ یہی سلسلہ دراز ہوا تو فلمی دنیا تک ان کی رسائی ہوئی ۔ انہوں نے اس دور کی بابت بتایا کہ فلموں کے ٹکٹ کے دام بہت کم تھے ۔ تین آنے ، آٹھ آنے اور روپیہ کی درجہ بندی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ فلمیں تفریح کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں اور ان کی شفافیت کا یہ حال تھا کہ گھر کے تمام افراد اکٹھے دیکھ سکتے تھے جبکہ آج کی فلمیں اس کے برعکس ہیں  ۔ فلموں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس عہد میں یہ مذہبی تبلیغ کا بھی ذریعہ تھیں ۔ انہوں نے ’’دیار حبیب‘’ کی مثال دی اور کہا کہ اس میں مدینہ منورہ کے مقدس مقامات اور حیدرآباد کی مشہور درگاہوں کا بھرپور ذکر تھا اور پس پردہ دلیپ کمار کی آواز کا استعمال کیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی معاشرتی کلچر کے علاوہ مسلم کلچر پر بھی فلمیں بنائی جاتی تھیں جیسے پکار ، بابر ہمایوں ، نجمہ ، تاج محل ، مغل اعظم اور پاکیزہ وغیرہ ۔ ان فلموں کی خصوصیت یہ تھی کہ مکالمے اور گیت شستہ اردو میں ہوا کرتے تھے ۔ غرض کہ جتنی بھی فلمیں بنائی جاتی تھیں وہ سب اردو زبان میں ہوتی تھیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 1950 تا 1960 مکمل ہونے والی فلم مغل اعظم ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوئی تھی ۔ پیلس ٹاکیز میں ریلیز ہوئی ۔ قبل ازیں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جو اس فلم کو دیکھنے کیلئے سب سے پہلا ٹکٹ خریدے گا اسے ایک تولہ سونا مفت دیا جائے گا ۔ ایک ہجوم تھا اور سب کی زبانوں پر گانے اور مکالمے تھے ۔

انہوں نے لوگوں میں فلموں کے اشتیاق کی وجہ یہ بتائی کہ اس دور میں ٹی وی نہیں تھا  ۔عصری ٹکنالوجی جتنی ترقی پذیر آج ہے اس وقت نہیں تھی ۔ فون نہیں تھے ۔ کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ نہیں تھے ۔ صرف فلمیں دیکھنے کا جنون تھا ۔ ساتھ ہی سرپرستوں کی جانب سے باز پرس کئے جانے کا کھٹکا بھی لگا رہتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ سکنڈ شو دیکھنے سے اجتناب ہی کیاجاتا تھا ۔ ایمبسی Embassy اور لائٹ ہاوز حیدرآباد کی چھوٹی تھیٹروں میں شامل تھیں اور ان میں انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں جبکہ پیلس ، تاج محل اور دلشاد کا شمار یہاں کی بڑی تھیٹر میں ہوتا تھا ۔ بمبئی فلمی صنعت نے حیدرآباد کی زبان اور کلچر پر عمدہ فلمیں بنائیں اور عالمی سطح پر وہاں کی تہذیب و تمدن اور گنگا جمنی تہذیب کو روشناس کروایا ۔ پلازہ ، منوہر ،پیراڈائز کو انہوں نے سکندرآباد کی مشہور تھیٹروں میں شمار کرتے ہوئے بتایا کہ اس دور میں بھلے ہی کھانا نہ ملے گانا سننے کو ملے تو گذارہ ہوجاتا تھا ۔ لوگ پیسے دے کر گراموفون پر گانے سنتے تھے ۔ کوٹھی پر کالی داس ہوا کرتا تھا جو معمولی نرخ پر گانوں کے کیسٹ بیچا کرتا تھا ۔ انہوںنے فلموں کی تشہیر کے حوالے سے بتایا کہ سعادت صاحب ، غنی صاحب اور جعفر صاحب مشہور پینٹر تھے جو کپڑا تان کر فلم کے مرکزی کردارں کے پوسٹر بناتے تھے اور ٹھیلے بنا کر گلی کوچوں میں گشت کروائے جاتے تھے ۔
اسٹیج ڈراموں سے متعلق بتایا کہ یہ بہت پسند کئے جاتے تھے ۔ آغا حشر کاشمیری بہترین ناٹک کار تھے ۔ کانپور ، بنارس ، لکھنؤ اور بمبئی میں ڈراموں کا بہت چلن تھا ۔ فلم اسٹوڈیو سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہاں کوئی اسٹوڈیو نہیں تھا  ۔ انہوں نے یہ عقدہ کھولا کہ ماضی میں درحقیقت آٹونگر فلم نگر تھا ۔ ایل وی پرساد نے وہاں ایک اسٹوڈیو بنایا تھا جس میں کھلونا کی شوٹنگ بھی ہوئی تھی بعد میں یہ اسٹوڈیو مسدود ہوگیا ۔ 1956 سے سارتھی اسٹوڈیو قائم کیا گیا ۔ انا پورنا ، پدمالیہ ، راما نائیڈؤ اور بھاگیہ نگر اسٹوڈیوز کی شہرت اور مقبولیت عام ہوگئی ۔ تلگو فلموں اور سیریل کیلئے مدراس اہمیت کا حامل تھا ۔ آندھرا بننے کے بعد فلمیں یہاں منتقل ہونے لگی تھیں ۔ برہمانند ریڈی نے فلموں کے فروغ میں اہم حصہ ادا کیا ۔ گورنمنٹ آف آندھرا پردیش فلموں کو بڑھاوا دینے کیلئے ایک لاکھ روپئے ڈپازٹ کے طورپر دیا کرتی تھی ۔
ساجد اعظم نے اردو ٹی وی سیریل ہماری زینت بنائی ۔ مخدوم ، ندا ، آغا حشر کاشمیری اور جیلانی بانو کے علاوہ اردو غزل آغاز و ارتقاء اور شہر اردو حیدرآباد کے نام سے ڈاکومنٹریاں بنائیں ۔ انہیں تلگو سیریل کا جنم داتا بھی کہا جاتا ہے ۔ انہیں نندی ایوارڈ کے علاوہ اور کبھی کبھی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ۔ فلم نیلیما اور گھر والی باہر والی بھی ان ہی کے زور قلم کا نتیجہ ہیں ۔

حیدرآباد میں راموجی فلم سٹی کو وقت کی اہم ضرورت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ راموجی صاحب ہمہ پہلو شخصیت ہیں ۔ غالباً 1973 میں ایناڈو شروع کیا اور چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں اسکو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوگئی ۔ ابتداء میں یہ اخبار مفت تقسیم کیا جاتا تھا ۔ پرکشش مضامین قاری کے دلوں کو موہ لیا کرتے تھے ۔ اس دوران انہوں نے پانچ یا چھ میگزین بھی شروع کرڈالے ۔ سارتھی اور پدمالیہ اسٹوڈیوز میں سہولتوں کا فقدان تھا ۔ راموجی کے ذہن میں تمام ضروریات سے آراستہ وسیع و عریض اسٹوڈیو کا تصور ابھرا ۔ انہوں نے جاگیرداروں سے اراضی خریدی جو لگ بھگ دو ہزار ایکڑپر محیط ہے ۔ 1991 میں انہوں نے تلگو فلموں کے حقوق لینے شروع کئے ۔ ای ٹی وی تلگو کی شروعات کی ۔ فلم سٹی بن جانے کے بعد انہوں نے کچھ اور چیانل شروع کئے ۔ آج بھی دنیاکا سب سے بڑا فلم اسٹوڈیو ہے ۔ گنیز بک میں اسکی شمولیت ہی اس کی انفرادیت ہے ۔ اس میں پانچ ستارہ (فائیو اسٹار ہوٹل) گلی چوبارے ، چھوٹی بستی ، بڑی بستی ، پارک ،شہر ، گاؤں اور تفریحی مقامات غرض کہ تمام لوکیشنس ہیں ۔ لیبس labs ہیں ۔ عصری قسم کے Equipments ہیں ۔ ارتھ اسٹیشن کی اجازت بھی انہیں حاصل ہے ۔ مرہٹی ، گجراتی ، تلگو ، کنڑی  ،اڑیا ، بنگالی زبانوں میں نشریات کا سلسلہ جاری تھا ۔ 2000 میں راموجی راؤ نے ای ٹی وی اردو چینل کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ وہ  اردو زبان کی خدمت کیلئے اردو چینل کا آغاز کررہے ہیں ۔ افسانوی اداکار دلیپ کمار نے اسکا افتتاح کیا تھا ۔ مسلمانوں کی نئی نسل کی اردو سے دوری پر اظہار تشویش کیا اور کہا کہ زندگی کے لئے تقاضوں کا ساتھ دیں ، نیا شعور پیدا کریں ۔ تصورات کے نئے چراغ جلائیں مگر قدامت سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں ۔ قدروں کی دل و جان سے قدر کریں کہ یہی ہمارا اصل سرمایہ ہے ۔