محبوب خان اصغر
رحمن جامی کا شمارہ دکن کے سینئر شعراء میں ہوتا ہے ۔ مولوی قاری شیخ محمود صاحب مرحوم کے گھر تولد ہونے والے محمد عبدالرحمن جنیدی نقشبندی المعروف رحمن جامی نے بتایا کہ وہ 8 اکتوبر 1934ء کو ضلع رائچور میں پیدا ہوئے ۔ خاندان کی اکثر خواتین معلمات تھیں جو نہایت پردہ دار تھیں ۔ والدہ محترمہ دیندار ، راسخ العقیدہ اور صدر معلّمہ تھیں ۔ ان ہی کی آغوش جامیؔ کی پہلی درسگاہ رہی جہاں علم و دانش اور حکمت کی روشنی ملی ۔ ذرا عمر بڑھی تو والدہ صاحبہ نے انہیں ذکور کی جماعت میں داخل کروادیا ۔ اساتذہ نے طلبہ کے ساتھ جو طرز اختیار کررکھا تھا وہ آج بھی قابل تقلید ہے کہ اسباق ازبر کرنے اور پھر انہیں منہ زبانی سنانے پر چنگیری میں مٹھائی رکھ کر بطور تحفہ دی جاتی تھی ۔ اس عمل سے طلبہ میں علم کے تئیں اشتیاق بڑھتا تھا ۔ ذہین طلبہ کو چاندی کی چونی (حالی سکہ) بھی دی جاتی تھی جسے طلبہ مٹی کی کلیہ میں جمع کرتے تھے جب وہ سکوّں سے لبریز ہوجاتی تو پھر دوسری اور تیسری کلیہ کی طرف رجوع ہوتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس عہد میں ذریعہ تعلیم اردو تھا ۔ مگر پولیس ایکشن کے بعد اردو ذریعہ تعلیم کو مسدود کردیا گیا جس کے بعد وہ اور ان کے ہم جماعت دسرتھ چند ، مدن لال ، منگل چند ، دھرم چند پریشان رہے ۔ یہ تمام مدرسہ فوقانیہ عثمانیہ سرکار عالی ضلع رائچور کے طلبہ تھے ۔ ہمدرد ہائی اسکول میں نظرالدین اور کٹّی صاحب جیسے اساتذہ نے ان کی اصلاح کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ان کے ہم جماعت ماڑواڑی اور ہنود حضرات اسی تپاک سے ملتے ہیں جو کل کے حیدرآباد کا اہم اور نمایاں پہلو ہے ۔ جامی صاحب کے مطابق چادر گھاٹ ہائی اسکول کے استاد مولوی عبدالشکور ان کے محسن رہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ رائچور سے لال ٹیکری آئے تو وہ عنفوانِ شباب میں تھے ۔ بڑے بھائی قادری محمد عبدالعلیم صاحب کے ساتھ مقیم رہے ۔ اسی زمانے میں ممالک محروسہ سرکار عالی کے تمام مدرسوں میں جو قومی ترانہ پڑھایا جاتا تھا وہ نواب میر عثمان علی خاں کی شان کا مظہر تھا ۔
اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع کی داد و دہش اور تمول سے متعلق رحمن جامی نے بتایا کہ خود آصف سابع کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے نہ ہی ان کے کسی ماتحت کے پاس اس کا ریکارڈ تھا ۔ اعلی حضرت جواہرات کے عاشق تھے مگر دولت کو سینت رکھنا انکی عادت نہیں تھی ۔ بخشش ، فیاضی اور سخاوت ان کا وطیرہ تھا جب وہ اس عمل کو اختیار کرتے تو فرقہ ، مذہب ، نسل اور ذہنی تحفظات سے بالکل مبرّا ہوا کرتے تھے ۔ منادر ، مساجد ، گردوارے ، گرجا گھر ، تعلیمی ادارے ، دواخانے ، لائبریری اور تمام علوم کو فروغ دینے اور قوم کے افراد کو اعلی تعلیمی مراحل طے کرانے میں اعلی حضرت نے ہمیشہ کی اعلی ظرفی اور فراخدلی کا ثبوت دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ان ہی اوصاف حمیدہ کے پیش نظر اعلی حضرت کے دیدار کی تمنا ان کے دل میں انگڑائیاں لینے لگی اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے رفیق مرزا رحمت اللہ بیگ سے کیا اور ان کے ہمراہ بروز جمعہ شاہی مسجد باغ عامہ گئے جہاں بادشاہِ وقت اعلی حضرت نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے تشریف لاتے تھے ۔ وہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گئے ۔ خطبہ اور پھر نماز کے بعد انہیں اعلی حضرت کا دیدار نصیب ہوا ۔ ذہن و دل میں ایک قوی الجثہ بادشاہ کا تصور تھا مگر اعلی حضرت کم قد اور سیدھے سادھے لباس میں تھے ۔ شخصیت پرکشش اور وجیہ تھی ۔ ’’وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں‘‘ والا معاملہ تھا ۔
قدیم حیدرآباد کے ادبی منظر نامے پر اٹھائے گئے سوال کا مفصل جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ مخدوم محی الدین اور ڈاکٹر راج بہادر گوڑ حیدرآباد دکن میں کمیونسٹ تحریک کے روح رواں تھے ۔ جو انقلابی تحریک کی بنا پر پوشیدہ ہوجایا کرتے تھے ۔ جب بھی ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوتا خود پولیس والے ان کے فرار ہونے میں مدد کیا کرتے تھے جسے عوامی مقبولیت کا ثبوت بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس زمانے میں مخدوم کی شاعری عروج پر تھی ۔ بمبئی سے ترقی پسند ادب کی قیادت علی سردار جعفری کررہے تھے ۔ شمالی ہند سے سجاد ظہیر اور جنوبی ہند میں بالخصوص حیدرآباد میں ترقی پسندوں کی قیادت مخدوم محی الدین ، عابد علی خان اور محبوب حسین جگر کے ہاتھوں میں تھی ۔ اخبار ’’سیاست‘‘ نے ہمیشہ ترقی پسندوں کا بھرپور ساتھ دیا ۔ اس زمانے میں مخدوم کے گروہ میں چند نوجوان ادیبوں اور شاعروں کا نام نمایاں تھا ان میں حسینی شاہد ، زینت ساجدہ ، س۔ا۔ عشرت ، برق یوسفی ، اختر حسن ، باجی جمال النساء ، رگھوبنسی نرمل ، مظہر حسین موہانی ، سلیمان اریب ، خیرات ندیم ، کامریڈ یوسف ، جاوید حیدرآبادی ، کنول پرشاد کنول ، امان ارشد ، ابن احمد تاب ، اقبال متین ، امجد باغی ، وقار خلیل ، منوہر لعل بہار ، جہاندار افسر ، حمایت اللہ ، حسن یوسف زئی ، ڈاکٹر غیاث صدیقی ، منوہر راج سکسینہ ایڈوکیٹ ، سلطانہ شریف الدین احمد ، اودیش رانی ، سری نواس لاہوٹی ، جہاں بانو نقوی ، عاتق شاہ ، کامریڈ علاء الدین ، سید ناظر الدین ناظر ، جواد رضوی ، بانو طاہرہ سعید اور آمنہ ابوالحسن قابل ذکر ہیں ۔
ماہنامہ ’’صبا‘‘ اور سلیمان اریب کا نام لازم و ملزوم تھا ۔ تقریباً ہر روز ’’صبا‘‘ کا دفتر مجردگاہ کمرہ نمبر سترہ معظم جاہی مارکٹ ادباء اور شعراء کی آماجگاہ بنا رہتا تھا ۔ حمید الماس ، وحید اختر ، رحمن جامی (جو اس وقت یار جامی سے معروف تھے) اور مغنی تبسم مجردگاہ کمرہ نمبر 17 پر بلا ناغہ آنے والوں میں تھے ۔ اریب نے مغنی تبسم کو نائب مدیر کی حیثیت دے رکھی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ماہنامہ ’’صبا‘‘ حیدرآباد دکن کا وہ واحد ادبی رسالہ تھا جس کی مقبولیت ہند و پاک میں تھی ۔ اریب نے بے شمار نئے لکھنے والوں کو ’’صبا‘‘ کے وسیلے سے متعارف کروایا اور حوصلہ افزائی کی ۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیفے سعدی نامپلی اور میر کیفے (جواب معراج کیفے ہے) میں بھی بعض شعراء کی بیٹھک ہوا کرتی تھی جہاں ایک دوسرے کو اپنی تخلیقات سنا کر ذوق کی تسکین کی جاتی تھی ۔ انہوں نے اورینٹ ہوٹل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں صبح سے رات دیر گئے تک ادب دوست حضرات کا ہجوم ہوا کرتا تھا اور یہاں دنیا بھر کے ادبی ، سماجی اور سیاسی مسائل زیر بحث رہتے ۔ مخدوم کی میز پر زیادہ رونق ہوا کرتی تھی ۔ اگر کسی ٹیبل پر قہقہے بلند ہوتے تو یہ اخذ کرلیا جاتا تھا کہ وہاں مجتبیٰ حسین ہیں کیونکہ وہ زندہ دلی کی باتیں کیاکرتے تھے ۔ سیاسی لیڈروں کی آمد و رفت نے بھی اس ہوٹل کو بہت نام دیا تھا ۔ ٹی انجیا ، وینکٹ سوامی اور چنا ریڈی جیسے سیاستداں بھی ادھر کا رخ کرتے تھے ۔ ایم ایم ہاشم اور سید رحمت علی کے علاوہ اور بھی کئی اہم شخصیتوں نے اورینٹ کی مقبولیت کو بڑھاوادیا ۔ افسانہ نگار عوض سعید کی شاذ سے بہت جمتی تھی بعد میں شاذ اور عوض سعید بھی اورینٹ ہوٹل میں نظر آنے لگے تھے ۔
قدیم حیدرآباد کی بعض اہم شخصیتوں کو یاد کرتے ہوئے رحمن جامی نے کہا کہ ڈاکٹر منان ، پروفیسر حبیب الرحمن ، ہارون خان شیروانی ، فیاض الدین صاحب چیف ٹاؤن پلانر ، رائے جانکی پرشاد ، عابد علی خان ، محبوب حسین جگر ، محی الدین قادری زؤر ، منظور احمد منظور ، ڈاکٹر مجید خان ، ڈاکٹر حیدر خان ، راجہ صاحب ، بنسی لال بدروکا ، ایچ ایم حسین ، اومکار لال بدروکا جیسے لوگ حیدرآباد کی تہذیبی شناخت رکھتے تھے بلکہ یہ لوگ یکجہتی اور ہم آہنگی کی روشن مثال بھی تھے ۔
انہوں نے کہا کہ گنبدان قطب شاہی جو کہ قطب شاہی بادشاہوں کا وسیع و عریض قبرستان ہے پہلے اس کو ہفت گنبد بھی کہا جاتا تھا ۔ ان دنوں سیر سپاٹے کی جگہ بن گیا ہے ۔ لوگ بطور تفریح ساز و سامان کے ساتھ یہاں ٹھہرنے لگے ہیں اس جگہ کی حرمت کو باقی رکھنا ضروری ہے ۔ یہاں کے مقبرے دیکھنے کے لائق ہیں اور یہ حیدرآباد کے حسن اور شوکت و شان میں اضافے کا باعث ہیں ۔ اس طرح حضور نظام کی رہائش گاہ کنگ کوٹھی ، فلک نما پیلس ، خلوت میں شاہی محلات ، چومحلہ پیلس ، حیدرآباد کے نوابوں کی دیوڑھیاں ، حویلیاں ، بالا خانے ، زنان خانے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں ۔
رحمن جامی نے حیدرآباد کی تہذیبی شخصیتوں عابد علی خان اور محبوب حسین جگر کی دوستی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ایکشن کے بعد کے نامساعد حالات میں اردو زبان میں اخبار ’’سیاست‘‘ جاری کیا اور کمال درجہ کی بلندیاں عطا کیں ۔ شکست خوردگی کے احساس کو دور کرتے ہوئے صحیح معنی میں مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کی ۔ قومی یکجہتی کا جادو جگایا ۔ سیکولر اقدار کو مضبوطی عطا کی اس کیلئے حیدرآباد میں کل ہند مشاعروں کی داغ بیل ڈالی ۔ اور بیرونی نامی گرامی شعراء کے ساتھ مقامی شعراء کو کھڑا کرکے انہیں وقار ، عزت اور عظمت عطا کی ۔
حیدرآباد کے بعض ناقابل فراموش واقعات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بابو خان اسٹیٹ کو Roof of Hyderabad کہا جاتا تھا جسکی تعمیر اور نقشہ اسٹرکچرل انجینئر ولی قادری کا تھا ۔اردو گھر کی تعمیر اور ڈیزائن میں بھی ان ہی کا ذہن کارفرما رہا ۔ اردو گھر میں منعقد ہونے والے جلسوں میں آنجہانی کرشن کانت گورنر آندھرا پردیش بھی تشریف لاتے تھے ۔ کیلی گرافر صادقین پاکستان سے تشریف لائے تھے ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والے جلسے کی یادیں اور باتیں بھی ہماری تہذیب سے مربوط ہیں ۔ اپنی گفتگو کو دراز کرتے ہوئے انہوں نے پروفیسر حبیب الرحمن سے متعلق کہا کہ وہ جامعہ عثمانیہ میں اکنامکس کے پروفیسر تھے ۔ انجمن ترقی اردو کا احیاء 1950 میں ہوا ۔ پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار دونوں مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم کے قریبی رفقاء تھے ۔آزاد کی ایماء پر دونوں قائدین حیدرآباد تشریف لائے تھے اور اردو کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔
انجمن ترقی اردو دوبارہ کارگر ہوئی تو مولوی عبدالحق پاکستان چلے گئے تھے ۔ اکبر یار جنگ صدر بنے ۔ حبیب الرحمن معتمد تھے ۔ ملت کا درد اور اردو کی محبت میں حبیب الرحمن نے اپنی زمین کو وقف کردیا ۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تعمیری کام کیلئے متمول حضرات سے چندہ اکٹھا کیا ۔ کے ایل مہندرا ۔ عابد علی خان ، زینت ساجدہ ، ڈاکٹر سید عبدالمنان اور راج بہادر گوڑ نے بھرپور مساعی کی ۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اردو ہال کی تعمیر میں رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی نے پچاس روپئے کا تعاون کیا تھا ۔ 1955ء میں ملک کے اول وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اردو ہال کا افتتاح کیا اتھا اور پرمغز تقریر کی تھی ۔ اس کے بعد اردو ہال میں بہ پابندی جلسے منعقد ہونے لگے ۔ پنجہ گٹہ اور بنجارہ ہلز کے رہنے والے ذوق و شوق سے شرکت کرتے تھے ۔ خوبصورت اسٹیج ہوا کرتا تھا اور مہمانوں کی ضیافت عمدہ طریقے سے کی جاتی تھی ۔ چینی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا ۔جلسے کے اختتام کے بعد بھی لوگ آپس میں مل بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے ۔ سالانہ جلسے ، تصانیف کی رسم رونمائی کے جلسے اور ماہانہ نشستوں کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ بے حساب سائیکلوں سے میدان بھر جاتا تھا ۔ انہوں نے لوگوں کی دلچسپی سے شرکت کی وجوہات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اس زمانے میں لوگوں کی دلچسپی کے سامان نہیں تھے ، ٹی وی نہیں تھا، فون نہیں تھے ۔ 1970 میں ٹی وی آیا پھر فون گشت کرتے ہوئے ہر کس و ناکس کے ہاتھ آگئے ۔
ایک اور ادارہ ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ ہنری مارٹن کی ذاتی ملکیت تھی ۔ انگریزی طرز کی یہ عمارت لائق دید تھی جو کہ کرسچین کمیونٹی کی عمارت تھی ۔ جس میں ایک مشہور لائبریری تھی یہاں مذہبی تبلیغ کی کتابیں وافر مقدار میں دستیاب تھیں اس کو CLS کرسچین لٹریچر سوسائٹی بھی کہا جاتاتھا ۔ ’’حلف‘‘ حیدرآباد لٹریری فورم اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی جلسے اسی ہال میں منعقد ہوا کرتے تھے ۔ ہال مفت دیا جاتا تھا ۔ حسن عسکری ، عالم خوندمیری ، سراج الدین ، جیسے مشاہیران جلسوں میں شرکت کرتے تھے ۔
ہم نے ایک اور تہذیبی عمارت ادارہ ادبیات اردو سے متعلق پوچھا تو انہوں نے برجستہ کہا کہ وہ در حقیقت ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی اہلیہ کا مکان تھا جس کا نام تہنیت منزل تھا ۔ فیاض الدین نظامی آرکیٹکٹ نے اسکا نقشہ بنایا تھا ۔ اردو زبان کی محبت میں اس عمارت کو وقف کردیا گیا ۔ جہاں تحقیق اور تنقید سے متعلق بے پناہ مواد دستیاب ہے ۔ یونانی دواخانہ ، عثمانیہ دواخانہ بھی فیاض الدین نظامی نے ڈیزائن کیا تھا ۔ اس ادارے میں خاص جلسوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا ۔ بخشی غلام محمد ، شیخ عبداللہ ، ڈاکٹر زور کی دعوت پر شرکت فرماتے تھے ۔ انہوں نے صراحت کی کہ اس ادارہ کی تاریخ اردو ہال سے بھی قدیم ہے ۔ حفیظ جالندھری ، جگر مراد آبادی جیسے تخلیقی فکر کے حامل افراد وہاں کے جلسوں میں شرکت کرکے زور صاحب کی عزت افزائی فرماتے تھے ۔
ہم نے طوالت کے خوف سے اپنی گفتگو کو سمیٹا اور آخری سوال کے طور پر کسی پند یا پیغام کی خواہش کی تو انہوں نے کہا کہ نئی نسل ادب سے پرے ہوتی جارہی ہے اور لغویات میں پڑ کر وقت کا زیاں کررہی ہے ۔ تعمیری کاموں میں اپنا وقت لگانے سے ذہن و دل کی گرد صاف ہوتی ہے ۔ روزمرہ کی زندگی کیلئے اصول و ضوابط بنائیں اور اس پر عمل کریں کہ یہ عمل ڈسپلن کہلاتا ہے اور ڈسپلن کامیاب زندگی کیلئے ناگزیر ہے ۔