محمد ریاض احمد
حیدرآبادی تہذیب ، یہاں کے پکوان ، ذائقوں ، خاص طور پر میٹھے اور مٹھائیاں ساری دنیا میں مشہور ہیں ۔ روزنامہ سیاست نے نئی نسل کو حیدرآبادی تہذیب سے واقف کرانے کیلئے حیدرآباد جوکل تھا کے زیر عنوان جو سیریز شروع کی ہے اس کے ایک حصہ کے طور پر ہم نے آپ کو کل کے حیدرآباد میں فروخت کی جانے والی مٹھائیوں اور گھروں میں بننے والے میٹھوں کے بارے میں واقف کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ہم نے حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت ، حیدرآبادی روایات کی چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا محترمہ اودیش رانی اور شیوناتھ مانگی لال مٹھائی والا ، عیسی میاں بازار کے مالک جناب راجندر کمار المعروف راجو سیٹھ سے بات چیت کی ۔ جہاں تک محترمہ اودیش رانی کا تعلق ہے وہ اپنے دور کے ممتاز عوامی رہنما اور مجاہد اردو ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کی چچازاد بہن ، رائے محبوب نارائن کی بیٹی اور جناب وسنت کمار باوا آئی اے ایس (ریٹائرڈ) کی اہلیہ ہیں ۔ ہم نے ان سے ماضی میں حیدرآباد کے گھروں میں بنائے جانے والے میٹھوں کے بارے میں سوالات کئے تو ایک سوال کے جواب میں اودیش رانی نے بتایا کہ ’’حیدرآباد میں ایک بات خاص ہے ۔ یہاں صرف میٹھے ہی نہیں بنتے بلکہ حیدرآبادی میٹھی زبان بھی بولتے ہیں‘‘ ۔ انہوں نے بتایا کہ گھروں میں کئی طرح کی مٹھائیاں تیار کی جاتی تھیں ۔ عید و تہوار کے موقع پر تو گھروں میں بڑے پیمانے پر میٹھے بنائے جاتے اور پھر ان کی اڑوس پڑوس میں تقسیم عمل میں آتی ۔گھروں میں تیار کئے جانے والے میٹھوں کے بارے میں اودیش رانی نے بتایا کہ اس وقت گھروں میں بہت سارے میٹھے بنائے جاتے تھے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ تبدیلیوں کا اثر حیدرآبادی گھرانوں کے میٹھوں پر بھی پڑا ہے ۔ یہ میٹھے اب آہستہ آہستہ ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کا اندازہ وہ لوگ بہتر لگاسکتے ہیں جو پچھلے پچاس برسوں سے حیدرآباد میں رہے ہوں ۔ انھوں نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ آج وہ دیکھتی ہیں کہ لوگوں کی اکثریت کھانا گھروں سے نکل کر باہر بازاروں میں کھانے لگی ہے اور یہ بات ان کیلئے فخر اور شان و شوکت و خوشحالی کی علامت بن گئی ہے ۔ جبکہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہمارے شہر میں باہر کھانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔
ہاں ، جہاں اچھے کھانے بنتے تھے اُنھیں وہاں سے منگا کر گھروں میں بیٹھ کر کھاتے تھے ۔ بازاروں میں جا کر کھانے کا رواج نہیں تھا ۔ اب یہ حال ہے کہ لوگ سڑکوں ، فٹ پاتھوں پر بھی ٹھہر کر کھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ محترمہ اودیش رانی نے بتایا کہ ماضی کے حیدرآباد میں ایک میٹھا بہت زیادہ تیار کیا جاتا تھا اور اس کا نام ہے ’’رساول‘‘ ۔ رساول دراصل میٹھے چاول ہیں جن کو گنے کے رس میں پکاتے ہیں اور اس میں مختلف قسم کے مغزیات جیسے کھجور ، بادام ، کاجو ، چرونجی وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے ۔ رساول کا ذائقہ غیر معمولی ہوتا ہے ایک مرتبہ کھانے پر دوبارہ کھانے کی چاہ پیدا ہوتی ہے۔ اودیش رانی کے مطابق آخری مرتبہ انھوں نے رساول ڈاکٹر زینت ساجدہ کے ہاں کھایا ۔ گھریلو میٹھوں کے حوالے سے حیدرآباد کے مشہور خاندانوں کے بارے میں استفسار پر اودیش رانی کا کہنا تھا کہ نوائطوں کے خاندان میں میٹھے بڑے اہتمام سے تیار کئے جاتے تھے ۔ نوائطے خاندان کی بادام کی جالی آج بھی بہت مشہور ہے۔ جناب حسن الدین احمد آئی اے ایس (ریٹائرڈ) کے گھر سے لوگ فرمائش کرکے منگوالیتے ہیں۔ بادام کی جالی کی تیاری پر کافی خرچ آتا ہے ۔ ساتھ ہی بہت زیادہ محنت بھی کرنی پڑتی ہے ۔ اس میٹھے کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں استعمال کئے جانے والا اصلی گھی گھر میں ہی بنایا جاتا ہے ۔ مغزیات اور گھی کے زیادہ ملائے جانے کے باعث بادام کی جالی کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے۔ نوائطے گھرانوں میں ایک اور میٹھا خاص طور پر بنایا جاتا تھا
اسے چقندر کا میٹھا یا چقندر کا حلوہ کہا جاتا ہے ۔ اب تو نوائطے بھی کم ہوتے جارہے ہیں اور اس طرح کے میٹھے بھی نہیں بن رہے ہیں ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ جو جناب حسن الدین احمد صاحب سے قربت رکھتے ہیں بطور خاص فرمائش کرکے بادام کی جالی اور چقندر کا حلوہ بنواتے ہیں ۔ حیدرآبادی گھرانوں میں کئی طرح کی کھیر بنتی تھی ۔ جو آج بھی بنائی جاتی ہے ۔ سوجی کی کھیر ، چاول کی کھیر جسے فیرنی کہتے ہیں ۔ اسی طرح کدو کی کھیر بھی بہت مزیدار ہوتی ہے ۔ کدو کی کھیر حیدرآبادیوں کا بہت پسندیدہ گھریلو میٹھا ہے جو دعوتوں میں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے ۔ کدو کی کھیر کا بہت پیارا نام ہے اسے ہم گلِ فردوس کہتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے گلِ فردوس کیوں کہتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہیکہ یہ مٹی کے برتن میں جمائی جاتی تھی ۔ گِل مٹی کو کہتے ہیں اور فردوس تو سب سے اعلی جنت ہے ۔ اس طرح اس کے نام کے لحاظ سے گلِ فردوس کو مٹی کے برتن میں رکھا جاتا ہے ۔ ویسے بھی یہ میٹھا چونکہ کدو سے بنا ہوتا ہے اس لئے اس کی طبی اہمیت بھی ہے ۔ کدو میں بے شمار خوبیاں یقیناً ہوں گی ۔ یہ تو رہی کدو کے میٹھے یاگل فردوس کی بات ۔ اب رہی فیرنی ، یہ چاولوں کی بھی ہوتی ہے ۔ چاول کی فیرنی کے لئے چھوٹے چھوٹے دانوں کا ایک خاص چاول آیا کرتا تھا اسے تلگو میں چٹی متبِالو کہتے ہیں ۔ اس چاول کو بھگو کر سکھاتے ہیں ، مسلتے ہیں اور پھر اسے تھوڑے سے گھی میں بھونا جاتا ہے ۔ حیدرآبادی گھرانوں میں اکثر جو میٹھے اور مٹھائیاں بنائی جاتی تھیں ان میں سوجی کا حلوہ ، گُلگلے ، کدو کا حلوہ ، آملہ کا مربہ ،جام کا مربہ ، کھجور کا میٹھا ، آم کا مربہ ، ادرک کا مربہ ، ناریل کی مٹھائی ، مونگ پھلی اور گڑ کی پٹی ، سوئیوں کا میٹھا ، ملیدہ ، خوبانی کا میٹھا ، ڈبل کا میٹھا وغیرہ شامل ہے ۔ ڈبل کے میٹھے کو شاہی ٹکڑا بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کیلئے خاص طور پر ڈبل روٹی تیار کی جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ باسی ڈبل روٹی کا میٹھا بہت لذیذ ہوتا ہے ۔ جہاں مسلمان اپنے عید وتہوار کے موقع پر مختلف میٹھے بشمول شیرخورما تیار کرتے تھے اور کررہے ہیں ایسے ہی دیپاولی کے موقع پر ہندو گھرانوں میں ایک مخصوص مٹھائی تیار کی جاتی ہے اس کا نام ’’دیرے‘‘ ہوتا ہے ۔ یہ ایک طرح کا بسکٹ ہے ۔ میدے اور روے سے اس کی تیاری عمل میں لائی جاتی ہے ۔ یہ چھوٹی پوری کی طرح بنتی ہیں ۔
انھوں نے مزید بتایا کہ حیدرآباد میں کبھی موتیا بہار کا میٹھا بھی بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا ۔ یہ دراصل چاول کا میٹھا ہوتا ہے لیکن اعلی قسم کے چاول پر تہہ در تہہ موتیا کے پھول ڈالے جاتے ہیں اس طرح دور دور اس میٹھے کی مہک پھیل جاتی تھی ۔ اس زمانے میں مکانات وسیع و عریض ہوا کرتے تھے اور ہر گھر میں موتیا بہار کا درخت ضرور ہوتا ۔ اب وہ درخت رہے نہ ہی پھول اور پھولوں کی خوشبو باقی رہی ۔ نیم کے پھولوں کا بھی میٹھا بنایا جاتا تھا ۔ اس میں گڑ ، دوسرے مغزیات اور تھوڑی سی املی بھی ڈال دیتے تھے ۔ اس میٹھے میں 5 ذائقے ہوتے جیسے کڑوا ، میٹھا ، کھٹا وغیرہ ۔ اسے تلگو میں پچڑی کہتے ہیں ۔
حیدرآباد میں زائد از 170 سال قدیم شیوناتھ مانگی لال مٹھائی والا عیسی میاں بازار کے مالک راجندر کمار نے کل کے حیدرآباد اور آج کے حیدرآباد کی مٹھائیوں کے بارے میں بتایا کہ اُس دور اور اس دور کی مٹھائیوں میں کافی فرق ہے ۔ ماضی میں جو مٹھائیاں تیار کی جاتی تھیں ان میں استعمال ہونے والا میدا اور دوسری اشیا کی بات ہی کچھ اور تھی ۔ یہاں تک کہ کاریگروں کا بھی جواب نہیں تھا ۔ ایک سوال پر راجندر کمار نے بتایا کہ ’’ماضی میں اجمیری قلاقند تیار نہیں کیا جاتا تھا ۔ حیدرآباد میں یہ شمالی ہند سے آیا ہے ۔ بہرحال شہر میں قلاقند ، بالوشاہی ، گلاب جامن ، لچھے دار باسندی (جس میں ملائی کے لچھے ہوتے تھے اور مکمل طور پر زعفران سے تیار کی جاتی تھی) پسندیدہ مٹھائیوں میں شامل تھی ۔ یہ تمام مٹھائیاں اور باسندی آج بھی تیار کی جارہی ہے لیکن مٹھائیاں کھانے والے بہت کم ہوگئے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں محنت کی عادت نہیں رہی ۔ آرام پسندی بڑھ گئی ہے ۔ پیدل چلا نہیں جاتا ، تھوڑے فاصلے کیلئے بھی گاڑیاں ضروری ہیں ۔ چونکہ مٹھائیوں میں چربی اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لئے موجودہ زمانے میں لوگ مٹھائی کھانے سے ڈرتے ہیں ۔ اس زمانے میں لوگ دودھ ، گھی ، بالائی اوردہی کا زیادہ استعمال کرتے تھے ۔ اس طرح کی مٹھائیاں کھانے کے باوجود وہ بالکل چاق و چوبند رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے لوگ پیدل زیادہ چلتے تھے ۔ ورزش کا رواج تھا ۔ اب تو پیدل چلنے والوں کو ’’پیدل‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ حلوؤں سے متعلق سوال پر راجندر کمار نے کہا ’’کھیر ، حلوے اب بھی حیدرآبادی گھروں میں تیار کئے جاتے ہیں جبکہ رس گلے ، گاجر کا حلوہ ، رتالو کا میٹھا اور انواع و اقسام کے مربے بھی مٹھائیوں کی دکانوں میں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ گھروں میں بھی بنائے جاتے ہیں۔ حیدرآباد ہندوستان کا واحد شہر ہے جہاں آپ کو مشرقی ، مغربی ، شمالی اور جنوبی ہندوستان کی تمام مٹھائیاں بہ آسانی مل جائیں گی اور اسی وجہ سے شاید پنڈت جواہر لال نہرو نے اسے چھوٹا ہندوستان کہا تھا‘‘ ۔ اس سوال پر کہ آیا شیوناتھ مانگی لال مٹھائی والا شاہی خاندانوں کو مٹھائی سربراہ کرتے تھے ؟ راجندر کمار نے پرجوش انداز میں جواب دیا ’’میں اپنے دادا کے ساتھ نظام سرکار کی دیوڑھی (کنگ کوٹھی) جایا کرتا تھا ۔ وہاں سے خاص طور پر چار پانچ خوبصورت کشتیاں ہماری دکان پر بھیجی جاتیں اس کے ساتھ ایک فرمان بھی ہوتا جس میں ہر کشتی میں ایک ایک مخصوص مٹھائی روانہ کرنے کا حکم دیا جاتا ۔ اس دور میں دیسی گھی کی مٹھائیاں زیادہ استعمال ہوتی تھیں ۔ بالائی ، خشک میوہ جات کا استعمال بہت عام تھا ۔ ڈرائی فروٹس پیس کر مٹھائیوں میں استعمال کئے جاتے تھے ۔ اُس وقت خشک میووںکا گلاب جامن بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا ۔ دراصل گلاب جامن کے اندر ڈرائی فروٹ خالص زعفران اور الائچی بھری جاتی ۔ اس کی خوشبو سے سارا ماحول مہک اٹھتا تھا ۔ شاہی خاندان میں دیسی گھی اور دودھ کی مٹھائیاں بہت زیادہ استعمال کی جاتی تھیں ۔
باریک بوندی کی موتی پاک کی بھی بہت زیادہ طلب تھی ۔ دراصل بوندی کو اصلی گھی میں تلنے کے بعد شیرے میں زعفران ڈال کر ابالتے پھر اس میں کھوا ملا کر بادام پستہ کے ٹکڑے کشتی میں جمع کرکے اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جاتا ۔ اس موتی پاک کو ایک ماہ تک رکھ کر بھی کھایا جاسکتا تھا ۔ ہاں اس دور میں میسور پاک بنایاجاتا تھا ، آج بھی بنایا جاتا ہے ۔ میدے کا میسور پاک ، بیسن کا میسور پاک اور کاجو کا میسور پاک ۔ اب بھی لوگ میسور پاک پسند کرتے ہیں‘‘ ۔ راجندر کمار کے مطابق شاہی خاندانوں میں بالوشاہی کو بہت پسند کیا جاتا تھا ۔ اسے مکھن وڈا بھی کہا جاتا ہے جو منہ میں رکھتے ہی گھل جاتا ہے ۔ آج بھی تیار کیا جاتا ہے لیکن اسے خاص کسٹمرس تیار کراتے ہیں ۔ ایک استفسار پر جناب راجندر کمار کا کہنا تھا ’’نواب شاہ عالم خان ، محبوب عالم خان صاحب کی فیملی میں جو بھی تقاریب ہوں ان کیلئے ہم 11 اور 21 نمونوں کی مٹھائیاں تیار کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ویج پکوان بھی ہمارا ہی ہوتا ہے ، ماضی میں نوابوں کے خاندان اور گوڑ فیملی سے تعلق رکھنے والے مٹھائیوں کے شوقین تھے ۔ اپنے کاروبار کے بارے میں راجندر کمار کا کہنا تھا کہ اس کاروبار سے اب پانچویں پیڑھی جڑی ہوئی ہے ۔ ان کے بشمول پانچ بھائی ہیں جو اپنا کام الگ الگ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ شیوناتھ ان کے پردادا ، مانگی لال دادا ، بدری نارائن لالہ سیٹھ والد تھے ۔ راجندر کمار کے بڑے فرزند وکرانت چھوٹا بیٹا سونو چھوٹے بھائی کے بچے گوئند ، مہیش اور کرشنا ان کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ایک طویل عرصہ سے حیدرآباد میں مٹھاس بانٹ رہے ہیں ۔ اس خاندان کے ایک رکن کی حیثیت سے راجندر کمار کہتے ہیں کہ مٹھائی والے کو سب سے پہلے مٹھائی بنانے کی اچھی طرح جانکاری ہونی چاہئے ۔ فارمولہ سب سے اہم ہوتا ہے ۔ اس دوران محترمہ اودیش رانی نے ایک سوال پر بتایا کہ شہر میں چندولال بیلا بہت مشہور ہے جہاں کھوا ملتا ہے ۔ پہلے تویہ کھوے کی دستیابی کا بہت بڑا مرکز تھا کسی زمانے میں رگھونندن کھوے والے بھی بہت مشہور تھے ۔ شہر میں اور دو مٹھائی والے تھے سورج بھان ، نرسنگ بھان ، ان کی حسینی علم کمان کی طرف دکان تھی وہ شاہی رکاب دار کہلاتے تھے ۔ اس کے بازو حمیدی کنفکشنری والوں نے اپنی دکان کھولی تھی ۔ یہ لوگ کرنول سے آئے تھے ۔
حمیدی کنفکشنری نے حیدرآباد میں ایک نیا حلوہ متعارف کروایا تھا جوزی حلوہ جو آج بھی بہت مشہور ہے ۔ جی پلاریڈی بھی کرنول سے حیدرآباد منتقل ہو کر مٹھائیاں تیار کرنے لگے تھے ۔ راجندر کمار کے مطابق گڑ کی جلیبی ، گوند کے لڈو ، پنجیری وغیرہ بھی گھروں میں بڑے اہتمام سے تیار کئے جاتے لیکن اب یہ مٹھائی کی دکانوں میں تیار کئے جانے لگے ہیں ۔ پنجیری اکتوبر ، نومبر ، ڈسمبر میں بنتی ہے ۔ شہد کا استعمال مٹھائی کی کوٹنگ میں ہوتا ہے ۔ اب تو شوگر کے مریضوں کے لئے شوگرلیس ایٹمس بنائے جارہے ہیں ۔ یہ مٹھائیاں کاجو اور انجیر وغیرہ میں بنائی جاتی ہیں ۔ نمکین چیزیں بھی شہر میں بہت زیادہ استعمال ہوا کرتی تھیں کھاری بوندی ، سیودال مکسچر ، پیاز اور پالک کی پکوڑی وغیرہ ۔ اودیش رانی نے مٹھائی والوں کے حوالے سے بتایا کہ چارمینار جامع مسجد کے پاس ایک چھوٹی سی دکان ہوا کرتی تھی وہ میگھ راج حلوائی کے نام سے مشہور تھے ۔ وہاں نمکین اور مٹھائی اچھی بنائی جاتی تھی ۔ گھروں میں پورن پولی بنائی جاتی تھی آج بھی بنائی جاتی ہے ۔ خواجہ پوری گھریلو ایٹم ہے ۔ اب دکانات میں بھی تیار کی جانے لگی ہے ۔ راجندر کمار نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پہلے مسابقت نہیں تھی اب مسابقت بڑھ گئی ہے ۔ بالاجی کے نام سے 100 تا 150 افراد نے اپنی دکانات کھول لی ہیں ۔ شیوناتھ کی دو شاخیں ہیں ، مشیرآباد میں ایک اور عیسی میاں بازار میں ایک ۔ اب نئی نسل کو ہم بیکری کی صنعت میں بھی اتار رہے ہیں ۔ جہاں تک مٹھائی کے ذائقہ کا سوال ہے اس کا انحصار برتن ، درجہ حرارت ، کوئلہ یا گیس پر تیاری وغیرہ پر ہوتا ہے ۔