حیدرآباد جو کل تھا حکیم بشیر احمد

عابد صدیقی
یونانی طریقۂ علاج صدیوں پرانا ہے ، جس کی اہمیت ، افادیت اور عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں حیدرآباد میں یونانی ہی وہ واحد طریقۂ علاج تھا ، جس سے 80 فیصد آبادی استفادہ کیا کرتی تھی ۔ یونانی اطبانے اپنے فن کی ترقی اور اسے مقبول بنانے کے لئے نہایت عرق ریزی سے کام لیا ، اپنی محنت ، جانفشانی اور صلاحیتوں کے ذریعہ اس پیشہ کو بام عروج تک پہنچایا ۔ اس دور میں ایلوپیتھک طریقۂ علاج مقبولیت حاصل نہ کرسکا ۔

حیدرآباد کے نامور اطباء میں حکیم ڈاکٹر بشیر احمد کا شمار ہوتا ہے جو نظامیہ یونانی دواخانہ حیدرآباد میں چیف میڈیکل آفیسر اور نظامیہ طبیہ کالج کے پروفیسر رہے ۔ حکیم بشیر احمد 1934 ء میں پیدا ہوئے ۔ طب یونانی کی یہ دولت انھیں ورثہ میں ملی ، ان کے والد حکیم ابوالفیض صغیر احمد بھی اپنے زمانہ کے نامور طبیب تھے ۔ نواب مقصود جنگ بہادر کے طبیب رہے اور ان کے انتقال کے بعد انھیں آصف سابع کے دربار میں شاہی طبیب کا اعزاز حاصل رہا ۔ 1953 ء میں انہوں نے نظامیہ طبی کالج میں داخلہ لیا ۔ طالب علمی کے زمانہ سے ہی انھیں حکیم ہبت اللہ ، حکیم حمید اللہ بیگ ، ڈاکٹر قاسم حسین صدیقی ، حکیم عبد علی، حکیم میر فاروق علی جیسے نامور اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے کا موقع ملا ۔ اس کے علاوہ اس دور کے مشہور اطباء میں حکیم محمود الرحمن خان، حکیم محمد اعظم ، حکیم یوسف حسین خان ، حکیم محمد شبلی ، رانی کیسر موہنی ، ڈاکٹر سروج استھانہ ، ڈاکٹر راج موہنی دیوی اور ڈاکٹر لکشمنا شامل تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دورمیں یونانی کا عین مقصد خدمت خلق تھا ۔ وہ پیشہ طب سے اس قدر وابستہ رہے کہ اب اپنے فن کے علاوہ انھیں دولت کمانے یا شہرت حاصل کرنے سے دلچسپی نہیں رہی ، ان کے اسی dedication کے باعث یونانی طرز علاج کو نہ صرف درباروں بلکہ عوام میں بھی مقبولیت ملی ۔ انہوں نے کہا کہ آصف سابع نواب عثمان علی خان نے 1938 میں شفاء خانہ یونانی اور طبیہ کالج کے قیام کے ذریعے اس فن کو فروغ دیا ۔ آصف سابع نے کتب خانہ ، ادویات کی تیاری اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ذریعہ اطباء و طلباء کے لئے تمام سہولتیں مہیا کیں ۔ آصف سابع کی سرپرستی نے اطباء کے حوصلے بڑھائے اور علاج و معالجہ کے ساتھ ساتھ ریسرچ کی سرگرمیاں بھی تیزتر ہوئیں ۔ آصف سابع تاحیات یونانی طرزعلاج سے استفادہ کرتے رہے ۔ حکیم نابینا ان کے خاص طبیب رہے ۔ اس دور میں طاعون کا بڑا زور تھا اور صرف اطباء یونانی نے شہر و اضلاع میں طاعون سے متاثرہ مریضوں کے علاج کا کام انجام دیا ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کے اطباء اپنے prescription لکھنے کا آغاز ’’ھو الشافی‘‘ سے کیا کرتے کیونکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ حکیم و ڈاکٹر صرف علاج کا ذمہ دار ہوتا ہے ، لیکن شفاء دینے والا صرف اور صرف رب العالمین ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں اطباء اپنی نگرانی میں دوائیں تیار کرواتے ۔

موسم کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے گرمیوں میں خمیرہ مروارید اور سردیوں میں دوا المشک تیار کی جاتی ۔ جاگیرداروں ، منصب داروں اور دیگر امراء کے پاس یہ دوائیں روانہ کی جاتیں اور وہ انعام واکرام سے اطباء کو سرفراز کرتے ۔ انہوں نے بتایا کہ یونانی دوائیں نباتاتی اور معدنیاتی اشیاء سے تیار کی جاتیں ۔ ان دونوں کے کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے ۔ حکیم بشیر احمد نے بتایا کہ حکماء نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کو پہچانتے ۔ دائیں ہاتھ کی نبض پر انگلیوں سے گردہ ، مثانہ اور دیگر امراض کی نشاندہی کرتے اور بائیں ہاتھ پر چار انگلیاں رکھ کر معدہ ، جگر اور دیگر اعضاء کی کارکردگی کا اندازہ لگاتے۔ اس کے علاوہ مریض کے قارورہ (پیشاب) کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ قارورہ کی رنگت اور اس کی ماہیئت سے مرض کو پہچاننا آسان ہوجاتا ۔ مٹی کی کٹوریوں میں جوارش و معجون دئے جاتے ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ یونانی دوائیں مضر اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یونانی طرز علاج کے تحت مرض کے ختم ہونے میں کافی دیر لگتی ہے ۔ یہ بات تو دیگر طرز علاج پر بھی صادق آتی ہے ۔ مرض کی نوعیت اور مریض کے مزاج پر بھی اسکا انحصار ہوتا ہے ۔ علاج میں اعتقاد کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ نیک گمان کے مثبت اثرات رونما ہوتے ہیں ۔ طبیب کی فیس انتہائی معمولی ہوتی ۔ کیا امیر ، کیا غریب سب کے لئے یکساں فیس ہوتی ۔ یونانی دوائیں بھی بڑی سستی ہوتی تھیں ۔ غریب سے غریب آدمی بھی ان دواؤں کو خرید سکتا تھا ۔ جہانگیر علی ، منا لال اور لالہ دواساز مشہور تھے ۔ دواؤں میں صحیح اجزاء شامل کئے جاتے اور دواساز اصلی مفردات کا استعمال کرتے ۔ ملاوٹ ، دھوکہ اور لوٹ کھسوٹ سے گریز کرتے کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف طاری رہتا ۔ انھوں نے بتایا کہ بعض اطباء مریض کو دوائیں دینے سے قبل ان پر بعض قرآنی آیات پڑھ کر دم کرتے گویا دوا کے ساتھ دعا پر بھی ان کا یقین تھا ۔نظامیہ دواخانہ ہمیشہ یونانی علاج کا مرکز رہا ۔ بیرونی ریاست کے مریض بھی اس دواخانہ سے استفادہ کرتے رہے ۔

ماضی کا حیدرآباد تہذیب و اخلاق کا نمونہ تھا ۔ وسائل کی کمی کے باوجود لوگوں میں ترقی کی لگن تھی اور ہر شعبہ حیات کو اپنی صلاحیتوں اور سخت محنت کے ذریعہ لوگوں نے عروج بخشا ۔ عام طور پر مسلمانوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے، جہاں تعلیم کا معیار بھی عمدہ تھا ۔ نوابوں اور امراء کے بچے پبلک اسکول یا خانگی اسکولوں میں تعلیم پاتے تھے جن کی تعداد ایک دو سے زائد نہیں تھی ۔ ہر اسکول میں دینیات لازمی مضمون ہوتا ۔ جامعہ نظامیہ کا تیار کردہ رسالہ ’’دینیات‘‘ پڑھایا جاتا ۔ دینیات اور اخلاقیات کی تعلیم کی اہمیت کا احساس اساتذہ کو بھی تھا اور والدین کو بھی ۔ تقریباً ہر اسکول میں اردو ذریعہ تعلیم رائج رہا ۔ اساتذہ کی تنخواہیں معمولی ہوتیں ، لیکن انکی خدمات بے لوث تھیں ۔ مالی منفعت سے اجتناب کرنا انکا شعارتھا ۔

پرانے حیدرآباد کا ذکر کرتے ہوئے حکیم بشیر احمد نے مزید کہا کہ وہ حیدرآباد آج کہیں کھوگیا ہے ۔ اس دور میں لوگوں کی آمد ورفت کے لئے بگھی ، شکرام ، تانگہ اور رتھ کا استعمال ہوتا ۔ خواتین شکرام کا استعمال زیادہ کرتیں جس کے چاروں طرف چلمنیں لگی ہوتی تھیں ، پھر بعد میں سیکل رکشہ کا دور شروع ہوا ۔ کار کا استعمال بہت کم خاندانوں میں ہوتا ۔ گھر میں داخلہ سے پہلے کھٹکادینا لازمی تھا یہاں تک کہ گھر کے لوگ بھی جب باہر سے آتے تو انھیں بھی اپنے دروازے پر کھٹکا دینا ضروری تھا ۔ گھر پر مہمان آتے تو ان کا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا جاتا ۔ اگر خواتین آتیں تو ان کی سواری سے لے کر دروازے تک ہر دو جانب پردے لگائے جاتے تاکہ کسی پر ان کی نظر نہ پڑے ۔ اسی طرح تعمیری کام کے سلسلہ میں چھت پر چڑھنے کی ضرورت ہو تو آواز لگائی جاتی کہ دوسرے گھروں کی خواتین کمروں میں چلی جائیں ۔ مہمان گھر آتے تو ان کی سواری کا کرایہ میزبان دیا کرتے ۔ ملازم کو پیسے دے کر ہدایت دی جاتی کہ وہ باہر ہی ٹھہرارہے اور سواری کا یکطرفہ کرایہ ادا کرے ۔ پردہ کی بڑی پابندی تھی ۔ نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ غیر مسلم خواتین بھی بے پردہ نظر نہ آتیں ، چنانچہ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ان کے ایک شناسا ٹھاکر صاحب جن کا راجپوت گھرانے سے تعلق تھا ، ایک بار وہ حکیم صاحب کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ کافی بیمار ہیں اس لئے حکیم صاحب خود ان کے گھر چل کر دیکھ لیں اور دوا تجویز کریں ۔ چنانچہ حکیم صاحب کے گھر پہنچنے کے بعد دیوان خانہ میں بٹھایا گیا ۔ حکیم صاحب منتظر تھے کہ ان کی مریضہ سے آمنا سامنا ہوگا لیکن اس کے بجائے پردہ کھینچا گیا اور پردہ میں سے ایک ہاتھ باہر آیا ۔ ٹھاکر صاحب نے وضاحت کی کہ ان کی اہلیہ ضعیف ہونے کے باوجود پردہ کی پابند ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حیدرآباد کی خواتین میں کس قدر شرم و حیا کی پاسداری تھی ۔ اردو زبان کا استعمال بہت عام تھا ۔ سلام ، آداب ، تسلیمات اور قدم بوسی کے الفاظ مسلم و غیر مسلم سبھی استعمال کیا کرتے ۔ بزرگ رشتہ داروں کو جھک کرسلام کیا جاتا اور بعض گھرانوں میں باپ اور بزرگوں کے پیر چھوئے جاتے ۔ کسی مجلس میں بزرگ آجائیں تو ان کو جگہ دی جاتی ۔ کئی مسلم گھرانوں میں بڑوں کے سامنے ننگے سر جانا معیوب سمجھا جاتا خود حکیم صاحب کا بیان ہے کہ وہ اپنے والد کے سامنے بغیر ٹوپی پہنے نہیں جایا کرتے تھے ۔ ٹوپیوں میں مصری کیاپ اور کشتی نما ٹوپیوں کا رواج عام تھا ۔ خواتین کا احترام کیا جاتا ، رکشوں پر پردے لگے ہوئے ہوتے اور بغیر پردہ لگے ہوئے رکشوں میں خواتین کا بیٹھنا ناممکن تھا ۔ حکیم صاحب کے ایک دوست واگھرے صاحب ہمیشہ شیروانی ، پائجامہ اور ٹوپی زیب تن کئے ہوئے گھر سے نکلتے ۔ پیروں میں چڑھاویں جوتا پہنتے ۔ کئی غیر مسلم حضرات بھی لباس کے معاملہ میں اپنی تہذیبی روایتوں کا پاس و لحاظ کیا کرتے ۔ 1956ء تک بھی حیدرآباد میں پردہ کا نظام سختی سے جاری رہا لیکن جب آندھرا پردیش کی تشکیل ہوئی تو آندھرا کی خواتین بے پردہ بازاروں اور عوامی مقامات پر گھومنے پھرنے لگیں ۔ حیدرآبادی خواتین بھی اس تہذیب کی زد سے بچ نہیں سکیں ۔ حکیم صاحب نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس دور میں صبح کی اولین ساعتوں میں ہوٹلوں میں نہاری ملتی تھی جو رات میں تیار ہوتی ۔ چائے خانے زیادہ تھے ، طعام خانے کم ، گھروں میں بازار کی اشیاء خورد و نوش کو لانا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ خواتین اسے اپنی توہین سمجھتی تھیں ۔ اکثر گھرانوں میں ناشتہ میں کھچڑی ، قیمہ ، پاپڑ ، اچار اور گھی شامل ہوتا ۔ دوپہر اور شام کے کھانوں میں حیدرآباد کے مخصوص سالن دسترخوان کی زینت بنتے ۔ عام طور پر لال دستر خوان بچھا کر خورد و نوش کی اشیاء چن دی جاتیں ۔ ٹیبل پر کھانے کا رواج بہت بعد میں شروع ہوا ۔

شادی بیاہ بڑی آسانی کے ساتھ انجام دئے جاتے ، نہ لین دین تھا اور نہ ہی گھوڑے جوڑے کا مطالبہ ، نہ دولت کی حرص نہ ہی رشتوں کے انتخاب میں ظاہری حسن کی شرط تھی ، بلکہ لڑکا ہو یا لڑکی ، خاندان اور اس کی ذاتی شرافت کو ترجیح دی جاتی ۔ نکاح بھی بڑے آسان ہوا کرتے ، شادی خانوں کے بجائے گھر ہی میں محفل نکاح منعقد کی جاتی یا پھر گھر کے سامنے ڈیرہ ڈالدیا جاتا۔ صبح کی شادی کا رواج تھا ، فجر کی نماز کے ساتھ ہی دلہا ، دلہن کے گھر کے لئے گھوڑے یا دیگر سواری کے ذریعہ روانہ ہوجاتا ۔ صبح تا نصف النہار عقد کی محفل کا اہتمام ہوتا ۔ کھانے میں لقمی ، بریانی ، ایک سالن اور میٹھا بنتا ، نہ آتش بازی نہ ہی گانے بجانے کا اہتمام ہوتا تاہم زیادہ گھرانوں میں مراثنوں کے گانے رکھے جاتے ۔ عام لوگوںکی آمدنی کم تھی لیکن برکت تھی ، نیک نیتی سے ہر کام کرنے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کا شعار تھا ۔ عام آدمی میں بھی خودداری و قناعت پسندی تھی ۔ نکاح کے دوسرے دن چوتھی کی تقریب دلہن والوں کی طرف سے ہوتی ۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں چپراسی کو ماہانہ چھ روپئے ، پولیس کانسٹیبل کو 8 روپئے، اہلکار کو 20 روپئے ، صیغہ دار کو 40 روپئے اور منتظم کو 60 روپئے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی ، لیکن چہروں پر سکون دکھائی دیتا ۔ لوگ ناشکری نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد کا پرانا شہر فصیلوں سے محصور تھا ۔ ان فصیلوں پر 12 دروازے اور 12 کھڑکیاں ہوتی تھیں ، یہ دروازے صبح 6 بجے کھلتے اور 8 بجے شب بند ہوجایا کرتے ۔ وقت کی سختی سے پابندی کی جاتی ۔ نواب محبوب علی خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ رات میں پردے لگا کر اپنی سواری سے شہر کا گشت لگاتے اور اس بات کا جائزہ لیتے کہ ان کے احکام پر عمل آوری ہورہی ہے یا نہیں ۔ ہر روز صبح 6 بجے اور رات 8 بجے توپ داغی جاتی ۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں سحر و افطار کے وقت توپ داغی جاتی تھی ۔ توپ کی آواز سن کر ہی لوگ سحری ختم کرتے اور شام میں افطار کیا کرتے ۔ سائرن بجنے کا رواج نہیں تھا ۔ کئی مسلم گھرانوں سے رمضان کے دوران مساجد میں افطار بھیجنے کا طریقہ تھا ۔ کسی روزہ دار کے سامنے غیر روزہ دار کی ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ کھائے پئے ۔ یہاں تک کہ غیر مسلم مرد و خواتین بھی روزوں کا احترام کیا کرتے اور روزے دار کے سامنے کوئی چیز کے کھانے پینے سے پرہیز کیا کرتے ۔ عیدین کے موقعوں پر بزرگ ، بچوں کو عیدی دیا کرتے ۔

انہوں نے بتایا کہ محرم کا چاند دیکھ کر کئی لوگ عادت ہونے کے باوجود سگریٹ اور پان کھانا ترک کردیتے اور کئی گھرانوں میں بارہ دن تک گوشت کاسالن نہیں بنتا تھا ۔ خود حکیم صاحب کے والد محترم محرم کے آغاز کے ساتھ ہی 12 روز تک پان ترک کردیتے اور گھر میں گوشت نہیں بنتا ۔ مسلم گھرانوں کے بچے محرم میں ہرے کپڑے پہنتے اور ڈوریاں بھی باندھی جاتیں ۔ محرم کی مجالس میں کالی شیروانی یا سیاہ لباس پہننے کو ترجیح دی جاتی ۔ حکیم بشیر احمد نے بتایا کہ حیدرآباد ہمیشہ ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے ۔ حیدرآباد کے حکمران نواب میر عثمان علی خان خود بڑے ہی باکمال شاعر تھے اور انہوں نے شعر و ادب کی سرپرستی کی ۔ اردو و فارسی زبانوں میں مشاعرے منعقد ہوتے ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کی دیوڑھی میں اکثر مشاعروں کا اہتمام ہوتا ۔ شعراء کو مصرعہ طرح دیا جاتا ، چنانچہ شاہ علی بنڈہ میں واقع کشن پرشاد کی دیوڑھی میں ایک یادگار مشاعرہ ہوا جس کی صدارت نواب تراب یار جنگ نے کی تھی ۔ جس شاعر کو بھی کلام سنانا ہوتا اس کے آگے روشن شمع رکھی جاتی ، داد و تحسین میں بھی اخلاق وتہذیب کا پاس و لحاظ ہوا کرتا ۔ اگر کلام ناپسند ہو تو خاموشی اختیار کرلی جاتی ، لیکن آج کے مشاعروں کی طرح ہلڑ بازی اور چیخ و پکار نہیں کی جاتی تھی ۔ اس دور میں بیرونی ریاستوں سے بھی کئی شعراء کرام کو حیدرآباد میں قیام کی سہولتیں حکمران وقت کی جانب سے فراہم کی جاتی تھیں ۔ حکیم بشیر احمد نے کہا کہ اہل حیدرآباد کو پولیس ایکشن کے بعد بڑے صبر آزما حالات سے گذرنا پڑا ۔ معیشت کمزور ہوگئی ۔ ملازمتوں کے دروازے بند کردئے گئے لیکن اس کا خوشگوار پہلو یہ رہا کہ وہ مسلم نوجوان جو کبھی تجارت کو حقیر پیشہ سمجھا کرتے تھے وہ تجارت کی طرف مائل ہوئے اور آگے چل کر جب خلیجی ممالک کے راستے کھلے تو بے شمار نوجوانوں نے روزگار کے لئے ان ملکوں کا رخ کیا ۔ اس دور میں لوگوں کے گھر کشادہ تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے دل بھی کشادہ تھے ۔ آج کی زندگی تو اپارٹمنٹ کی زندگی ہوچکی ہے ۔ اس طرز زندگی سے والدین کااحترام اور ان کے تقدس میں کمی آگئی ہے۔ لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگے ہیں ۔ یہ غیر صحتمند رجحان حیدرآبادی تہذیب اور روایات کے بالکل برعکس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا کرم ہے کہ ہم نے حیدرآبادی تہذیب کے اچھے دن دیکھے ہیں ، اس لئے آج کا ماحول ہمیں پسند نہیں آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے معاشرے میں اخلاقی روایات ، مذہبی اقدار اور اپنے تہذیبی ورثہ کے تحفظ کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ تہذیب صرف تعلیمی و سائنسی ترقی سے نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان پرخلوص باہمی رویوں سے تقویت پاتی ہے ۔